43۔ 1 یہ استفہام انکار یعنی نفی کے لئے ہے، یعنی اے اہل عرب تمہارے کافر، گذشتہ کافروں سے بہتر نہیں ہیں، جب وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، تو تم جب کہ تم ان سے بدتر ہو، عذاب سے سلامتی کی امید کیوں رکھتے ہو
[٣٠] اے مکہ کے کافرو اب تم بتاؤ کیا تم ان لوگوں سے زیادہ طاقتور ہو یا شان و شوکت رکھتے ہو ؟ پھر اگر وہ لوگ ہمارے عذاب سے نہیں بچ سکے تو تم کیسے بچ جاؤ گے ؟ یا ہم نے کسی آسمانی کتاب میں یا صحیفہ میں تمہارے حق میں یہ لکھ دیا ہے کہ تم دنیا میں جو چاہو کرتے پھرو ہم تم سے تعرض نہیں کریں گے۔ نہ ہی تمہیں کوئی سزا دیں گے اگر کوئی ایسی بات ہے تو دکھا دو ۔
١۔ اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓئِکُمْ : یہ خطاب قریش کے لوگوں سے ہے کہ ان اقوام پر کفر و تکذیب کے نتیجے میں یہ عذاب آئے ، اگر تم کفر اختیار کرو گے تو کیا تم میں سے کفر کرنے والے کسی بھی لحاظ سے ان سے بہتر ہیں کہ ان پر عذاب نہیں آئے گا ؟ استفہام انکاری ہے ، یعنی ایسا نہیں ہے۔ قریش کے علاوہ قیامت تک کے تمام لوگ بھی اس کے مخاطب ہیں ، کیونکہ وہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ِ دعوت ہیں۔- ٢۔ اَمْ لَکُمْ بَرَآئَ ۃٌ فِی الزُّبُرِ : یا پہلی آسمانی کتابوں میں تمہارے متعلق لکھا ہوا ہے کہ تم جو چاہو کرو ، تم پر پہلی قوموں کی طرح عذاب نہیں آئیں گے ؟ ظاہر ہے ایسا بھی نہیں ۔
خلاصہ تفسیر - یہ کفار کے قصے اور کفر کی وجہ سے ان پر عذاب ہونے کے واقعات تو تم نے سن لئے اب جبکہ تم بھی اسی جرم کفر کے مرتکب ہو تو تمہارے عذاب سے بچنے کی کوئی وجہ نہیں کیا تم میں جو کافر ہیں ان میں ان (مذکورہ پچھلے لوگوں سے کچھ فضیلت ہے (جس کی وجہ سے تم باوجود ارتکاب جرم کے سزا یاب نہ ہو) تمہارے لئے (آسمانی) کتابوں میں کوئی معافی (نامہ لکھ دیا) ہے (گو کوئی خاص فضیلت نہ ہو) یا (ان میں کوئی ایسی قوت ہے جو ان کو عذاب سے بچالے جیسا) یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری ایسی جماعت ہے جو غالب ہی رہیں گے (اور جب کہ ان کے مغلوب ہونے کے دلائل واضح موجود ہیں اور خود بھی اپنی مغلوبیت کا ان کو یقین ہے تو پھر ایسی بات کہنا اس کو مستلزم ہے کہ ان میں کوئی ایسی قوت ہے جو عذاب کو روک سکتی ہے، یہ تین احتمال ہیں عذاب سے بچنے کے بتاؤ کہ ان میں سے کون سی صورت واقع میں ہے، پہلے دو احتمالوں کو بطلان تو ظاہر و باہر ہے، رہا تیسرا احتمال سو اسباب عادیہ کے اعتبار سے گو فی نفسہ ممکن ہے مگر بدلالت دلائل وقوع اس کا نہ ہوگا، بلکہ اس کے عکس کا وقوع ہوگا، جس سے ان کا کذب ظاہر ہوجاوے گا اور وہ عکس کا وقوع اس طرح ہوگا کہ) عنقریب (ان کی) یہ جماعت شکست کھاوے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے (اور یہ پیشین گوئی بدر و احزاب وغیرہ میں واقع ہوئی اور یہی نہیں کہ اس دنیوی عذاب پر بس ہو کر رہ جاوے گا) بلکہ (عذاب اکبر) قیامت (میں ہوگا کہ) ان کا (اصل) وعدہ (وہی) ہے اور قیامت (کو کوئی ہلکی چیز نہ سمجھو بلکہ وہ) بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے (اور یہ موعود ادھیٰ وَ اَمر ضرور واقع ہونے والا ہے اور اس کے وقوع کے انکار میں) یہ مجرمین (یعنی کفار) بڑی غلطی اور بےعقلی میں (پڑے) ہیں (اور وہ غلطی ان کو عنقریب جب علم الیقین مبدل بہ عین الیقین ہوگا ظاہر ہوجاوے گی اور وہ اس طرح ہوگا کہ) جس روز یہ لوگ اپنے مونہوں کے بل جہنم میں گھسیٹے جاویں گے تو ان سے کہا جاوے گا کہ دوزخ (کی آگ) کے لگنے کا مزہ چکھو (اور اگر ان کو اس سے شبہ ہو کہ قیامت ابھی کیوں نہیں واقع ہوتی تو وجہ اس کی یہ ہے کہ) ہم نے ہر چیز کو (باعتبار زمان وغیرہ کے ایک خاص) انداز سے پیدا کیا ہے (جو ہمارے علم میں ہے، یعنی زمانہ وغیرہ اس کا اپنے علم میں معین و مقدر کیا ہے، اسی طرح قیامت کے وقوع کے لئے بھی ایک وقت معین ہے، پس اس کا عدم وقوع فی الحال بوجہ اس کے وقت نہ آنے کے ہے، یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ قیامت کا وقوع ہی نہ ہوگا) اور (جب اس کا وقت آجائے گا تو اس وقت) ہمارا حکم (اس وقوع کے متعلق) بس ایسا یکبارگی ہوجائے گا جیسے آنکھ کا جھپکانا (غرض وقوع کی نفی تو باطل ٹھہری) اور (اگر تم کو یہ شبہ ہو کہ ہمارا طریقہ اللہ کے نزدیک ناپسند اور مبغوض نہیں ہے تو اگر قیامت کا وقوع بھی ہو تب بھی ہم کو کوئی فکر نہیں، تو اس باب میں سن رکھو کہ) ہم تمہارے ہم طریقہ لوگوں کو ( اپنے عذاب سے) ہلاک کرچکے ہیں (جو دلیل ہے اس طریقہ کی مبغوض ہونے کی اور وہی تمہارا طریقہ ہے اس لئے مبغوض ہے اور یہ دلیل نہایت واضح ہے) سو کیا (اس دلیل سے) کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے اور (یہ بھی نہیں ہے کہ ان کے اعمال علم الٰہی سے غائب رہ جاویں، جس کی وجہ سے اللہ کے نزدیک ان کے طریقہ کے مبغوض ہونے کے باوجود سزا سے بچ جانے کا احتمال ہو بلکہ) جو کچھ بھی یہ لوگ کرتے ہیں سب (حق تعالیٰ کو معلوم ہے) اعمال ناموں میں (بھی مندرج) ہے اور (یہ نہیں کہ کچھ لکھ لیا گیا ہو کچھ رہ گیا ہو بلکہ) ہر چھوٹی اور بڑی بات (اس میں) لکھی ہوئی ہے (پس وقوع عذاب میں کوئی شبہ نہ رہا یہ تو کفار کا حال ہوا اور جو) پرہیزگار لوگ (ہیں وہ بہشت کے) باغوں میں اور نہروں میں ہوں گے، ایک عمدہ مقام میں قدرت والے بادشاہ کے پاس (یعنی جنت کے ساتھ قرب حق تعالیٰ بھی ہوگا)- معارف ومسائل - بعض لغات کی تشریح :- زُبُر زبور کی جمع ہے، لغت میں ہر لکھی ہوئی کتاب کو زبور کہتے ہیں اور اس خاص کتاب کا نام بھی زبور ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔- اَدْهٰى وَاَمَرُّ ، ادھی کے معنی زیادہ ہیبت ناک اور اَمَر مُرُّ سے ماخوذ ہے، جس کے اصلی معنی کڑوے کے ہیں اور ہر سخت اور تکلیف دہ چیز کو بھی مر اور امر کہہ دیا جاتا ہے، فِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ ، ضلال کے معنی معروف ہیں گمراہی اور سعر کے معنی اس جگہ جہنم کی آگ کے ہیں، اَشْيَاعَكُمْ ، اشیاع، شیعہ کی جمع ہے، جس کی معنی متبع اور پیروکار کے ہیں، مراد وہ لوگ ہیں جو عمل میں ان کے متبع یا مثل ہیں، مَقْعَدِ صِدْقٍ ، مقعد کے معنی مجلس اور مقام کے ہیں اور صدق بمعنی حق ہے، مراد یہ ہے کہ یہ مجلس حق ہوگی جس میں کوئی لغو و بیہودہ بات نہ ہوگی۔
اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰۗىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَاۗءَۃٌ فِي الزُّبُرِ ٤٣ ۚ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون .- قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] ،- ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - زبر - الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً- [ المؤمنون 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا .- وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً- [ النساء 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- [ الأنبیاء 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] ، وقال :- وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» .- ( زب ر) الزبرۃ - لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔
(٤٣۔ ٤٥) اے مکہ والو کیا تم میں جو کافر ہیں ان میں ان مذکورہ لوگوں سے کچھ فوقیت ہے یا تمہارے لیے آسمانی کتابوں میں عذاب سے کچھ معافی لکھی ہوئی ہے ( یا ایسی حالت ہے) جیسا کہ یہ کفار مکہ کہتے ہیں کہ ہماری ایسی جماعت ہے جو عذاب کو دور کرنے والی ہے تو سن لو کہ بدر کے دن کفار کی یہ جماعت شکست کھا جائے گی اور یہ ابوجہل وغیرہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ان میں سے بعض تو بدر کے دن مارے گئے اور بعض شکست کھا کر بھاگ گئے۔- شان نزول : سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (الخ)- اور بن جریر نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ بدر کے دن کفار نے کہا کہ ہماری ایسی جماعت ہے جو غالب ہی رہے گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٤٣ اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓئِکُمْ ” (تو اے قریش ) کیا تمہارے کفار اُن (کفار) سے کچھ بہتر ہیں ؟ “- زمانہ سابق میں جن قوموں نے کفر کی روش اختیار کی ان کے انجام سے متعلق تمام تفصیلات تم لوگ جان چکے ہو۔ اب ذرا سوچو کہ تم میں سے جو لوگ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر کے کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ کیا وہ کسی خاص خوبی کے حامل ہیں کہ گزشتہ کافر اقوام کی طرح ان پر عذاب نہیں آئے گا ؟- اَمْ لَـکُمْ بَرَآئَ ۃٌ فِی الزُّبُرِ ۔ ” یا تمہارے لیے سابقہ الہامی کتب میں کوئی فارغ خطی آچکی ہے ؟ “- تم میں آخر کیا خوبی ہے کہ جس تکذیب اور ہٹ دھرمی کی روش پر پچھلی قوموں کو سزا دی گئی ہے وہی روش تم اختیار کرو تو تمہیں سزا نہ دی جائے ؟ کیا تمہارے لیے آسمانی صحیفوں میں کوئی براءت نامہ لکھا ہوا ہے کہ تم پر عذاب نہیں آئے گا ؟
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :23 خطاب ہے قریش کے لوگوں سے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں آخر کیا خوبی ہے ، کون سے لعل تمہارے لٹکے ہوئے ہیں کہ جس کفر اور تکذیب اور ہٹ دھرمی کی روش پر دوسری قوموں کو سزا دی جا چکی ہے وہی روش تم اختیار کرو تو تمہیں سزا نہ دی جائے ؟
11: پچھلی امتوں کے واقعات بیان فرمانے کے بعد مکہ مکرمہ کے کافروں سے کہا جا رہا ہے کہ جن قوموں کو ہلاک کیا گیا ہے، تم میں ان کے مقابلے میں کونسی اچھائی ہے جس کی بنا پر تمہیں عذاب سے محفوظ رکھا جائے؟ اور کیا تمہارے بارے میں کسی آسمانی کتاب میں کوئی معافی یا بے گناہی کا وعدہ کرلیا گیا ہے؟