Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 وہ نشانیاں، جن کے ذریعے سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور فرعونیوں کو ڈرایا، یہ نشانیاں تھیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩] فرعون کی خدائی اور فرعونیوں کا حشر :۔ فرعون بھی اپنے ملک میں خدا بنا بیٹھا تھا۔ سیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارون (علیہما السلام) اس کے پاس ایسے واضح معجزات لے کر آئے تھے جن سے انہیں یقین ہوگیا تھا کہ یہ واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں۔ مگر وہ اپنی فرمانروائی اور خدائی سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہ تھا لہذا پیغمبروں کو جھٹلا دیا اور ان پر ایمان لانے کی بجائے ظلم و ستم ڈھانے لگا اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردینے کے منصوبے سوچنے لگا۔ اس وقت ہم نے اسے ایسی سزادی جس سے بچ نکلنے کے لیے اس کے پاس کوئی راہ نہ تھی۔ ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو عین سمندر کے درمیان لاکر سمندر کے پانی کو روانی کا حکم دیا۔ اس طرح اسے اس کے لشکروں سمیت سمندر میں غرق کردیا۔ اس وقت نہ اس کی خدائی کام آئی اور نہ اس کے لشکر۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

کَذَّبُوْا بِاٰ یٰـتِنَا کُلِّہَا فَاَخَذْنٰـہُمْ ۔۔۔۔:” عزیز “ سب پر غالب ، جو کرنا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ ” مقتدر “ ” قدر یقدر “ (ض) سے باب افتعال ہے ، حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے ” مقتدر “ میں ” قادر “ اور ” قدیر “ کی بہ نسبت قدرت کا معنی زیادہ ہے ، یعنی جو کرنا چاہے اس کی پوری قدرت رکھتا ہے ، کسی طرح عاجز نہیں ۔ آل فرعون پر آنے والی گرفت کی شدت اور ہولناکی کا بیان مقصود ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ ہود (١٠٢)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كُلِّہَا فَاَخَذْنٰہُمْ اَخْذَ عَزِيْزٍ مُّقْتَدِرٍ۝ ٤٢- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - مقتدر - : اسم فاعل واحد مذکر، اقتدار ( افتعال) مصدر ہر طرح کی قدرت والا صاحب اقتدار۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا کُلِّہَا ” انہوں نے ہماری تمام نشانیوں کو جھٹلا دیا “- سورة بنی اسرائیل کی آیت ١٠١ میں ان نشانیوں کی تعداد نو (٩) بتائی گئی ہے : وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍم بَـیِّنٰتٍ ” اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں “۔ ان میں دو نشانیاں تو آپ (علیہ السلام) کو ابتدا میں عطا ہوئی تھیں یعنی عصا کا اژدھا بن جانا اور ہاتھ کا چمکدار ہوجانا۔ جبکہ سات نشانیاں وہ تھیں جن کا ذکر سورة الاعراف کے سولہویں رکوع میں آیا ہے ۔ یہ نشانیاں قوم فرعون پر وقتاً فوقتاً عذاب کی صورت میں نازل ہوتی رہیں ۔- فَاَخَذْنٰــہُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ ۔ ” پھر ہم نے انہیں پکڑا ‘ ایک زبردست ‘ صاحب قدرت کا پکڑنا۔ “- یعنی یہ کوئی معمولی اور کمزور پکڑ نہیں تھی کہ اس سے کوئی نکل بھاگتا ‘ بلکہ اس اللہ کی پکڑ تھی جو زبردست طاقت کا مالک ہے اور کائنات کے ہر معاملے میں اسے پوری قدرت حاصل ہے۔ - ان پیغمبروں اور ان کی نافرمان قوموں کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد اب روئے سخن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفارِ مکہ کی طرف پھیرا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani