48۔ 1 سَقَرً بھی جہنم کا نام ہے یعنی اس کی حرارت اور شدت عذاب کا مزہ چکھو۔
یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ ۔۔۔۔۔:” سقر “ جہنم کا علم ( نام) ہے اور مؤنث سماعی ہے ، اس لیے غیر منصرف ہے اور اس پر تنوین نہیں آتی ۔ اشتقاق اس کا ” ستقرتہ النار “ ( آگ نے اسے جھلس دیا) سے ہے ، یعنی ان پر ان کی ضلالت اور دیوانگی اس دن واضح ہوگی جب انہیں ان کے چہروں کے بل آگ میں گھسیٹا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جہنم کے چھونے کا مزہ چکھو۔ مزید دیکھئے سورة ٔ فرقان (٣٤)
يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْہِہِمْ ٠ ۭ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ ٤٨- سحب - أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] .- ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - سقر - من سَقَرَتْهُ الشمسُ وقیل : صقرته، أي : لوّحته وأذابته، وجُعل سَقَرُ اسم علم لجهنّم قال تعالی: ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] ، وقال تعالی: ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ [ القمر 48] ، ولمّا کان السَّقْرُ يقتضي التّلویح في الأصل نبّه بقوله : وَما أَدْراكَ ما سَقَرُ لا تُبْقِي وَلا تَذَرُ لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ [ المدثر 27- 29] ، أنّ ذلک مخالف لما نعرفه من أحوال السّقر في الشاهد .- ( س ق ر ) سقر ۔ ( جہنم ) اصل میں سقرتہ الشمس وصقرتہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں اسے دھوپ نے جھلس دیا اور پگھلا دیا ۔ پھر جہنم کا علم بن گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ اور نیز فرمایا : ۔ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ [ القمر 48] اب آگ کا مزہ چکھو ۔ پھر چونکہ سقر اپنے اصل کے لحاظ سے جھلس دینے کے معنی کو مقتضی ہے اس لئے آیات : ۔ وَما أَدْراكَ ما سَقَرُ ۔ لا تُبْقِي وَلا تَذَرُ ۔ لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ [ المدثر 27- 29] اور تم کیا سمجھے کہ سقر کیا ہے ؟ ( وہ آگ ہے کہ ) نہ باقی رکھے گی اور نہ چھوڑے گی اور بدن کو جھلس کر سیاہ کر دے گی ۔ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ سقر کے جو احوال تم مشاہدہ سے جانتے ہو اس کا معاملہ اس سے بالکل جدا ہے
قیامت کے دن جبکہ فرشتے ان لوگوں کو جہنم میں ان کے مونہوں کے بل گھسیٹ کرلے جائیں گے تو ان سے فرشتے کہیں گے کہ دوزخ کی آگ کا مزہ چکھو۔- شان نزول : اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ فِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ (الخ)- امام مسلم اور ترمذی نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ مشرکین مکہ نے آکر رسول اکرم سے تقدیر کے بارے میں مباحثہ کرنا شروع کردیا ان المجرمین سے خلقناہ بقدر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
آیت ٤٨ یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ ط ” جس دن یہ گھسیٹے جائیں گے آگ میں اپنے چہروں کے بل۔ “- ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ ۔ ” (ان سے کہا جائے گا : ) اب چکھوآگ کی لپٹ کا مزا “