[٣٤] اللہ کا ہر چیز کو اندازے سے پیدا کرنا :۔ یہ آیت اتنا وسیع مفہوم رکھتی ہے جس کی تشریح غالباً انسان سے ناممکن ہے۔ کیونکہ اس میں ایک تو ہر شے کا ذکر آگیا۔ دوسرے قدر یا مقدار یا اندازے کا۔ پھر اس اندازے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ تو انسان بیچارہ اس کی کیا تشریح کرسکتا ہے۔ سمجھانے کی خاطر محض ایک دو مثالوں پر ہی اکتفا کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک انسان کے قد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اندازہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں اس کا قد چھ فٹ ہو۔ اب اس میں چند انچوں کی کمی بیشی تو ہوسکتی ہے۔ مگر کوئی انسان دگنی خوراک کھا کر چھ فٹ کے بجائے بارہ فٹ کا نہیں ہوسکتا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے اس اندازے کے مطابق بنایا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوق اس پر بسیرا کرسکے۔ ہر طرح کی مخلوق کی جائے پیدائش، مستقر، مسکن اور مدفن یہی زمین ہو اور ان امور خصوصاً رزق کے لیے کافی ثابت ہو۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دن ہی سے روئے زمین پر اتنا پانی پیدا کردیا پھر اس سے آبی بخارات، بادلوں اور بارشوں کا سلسلہ چلا دیا جو قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوق کے لیے کافی ثابت ہو۔ چوتھا پہلو یہ ہے کہ ہر طرح کی مخلوق کو زندہ رہنے کے لیے گرمی کی جس مقدار کی ضرورت ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورج پیدا کیا اور اس کو اتنے فاصلہ پر رکھا جو زندگی کی بقا کے لیے مناسب ہو۔ اب اگر سورج میں گرمی زیادہ ہوجائے یا فاصلہ کم ہوجائے تو سب جاندار گرمی سے مرجائیں اور اگر سورج میں گرمی کم ہوجائے یا فاصلہ زیادہ ہوجائے تو سب جاندار سردی سے ٹھٹھر کر مرجائیں۔ اور پانچواں پہلو یہ ہے کہ ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ اس سے پہلے نہیں ہوسکتا۔ مثلاً پانی سو درجہ سنٹی گریڈ پر کھولتا ہے۔ جب پانی کو اتنی حرارت ملے گی تب ہی کھولے گا پہلے نہیں۔ غرضیکہ اس آیت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔ تشریح تو دور کی بات ہے۔
١۔ اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰـہُ بِقَدَرٍ :” بقدر “ پر تنوین تعظیم کی ہے۔ یعنی اگر انہیں شبہ ہے کہ قیامت ابھی واقع کیوں نہیں ہوتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ہر چیز کو اپنے عظیم مستحکم اندازے کے ساتھ پیدا کیا جو کبھی غلط نہیں ہوسکتا ، کیونکہ ہمیں گزشتہ کی طرح آئندہ کا بھی پورا علم ہے کہ کوئی بھی چیز کس طرح ہوگی ، کتنی ہوگی اور کب ہوگی ؟ غرض ہم نے اس کی شکل و صورت ، زمان و مکان ، قوت و ضعف وغیرہ ہر چیز کا اندازہ طے کردیا ہے ، مثلاً جس کے قدر کا اندازہ چھ فٹ طے کیا ہے وہ چھ فٹ ہی ہوگا ، جسے سعید طے کردیا ہے وہ سعید ہوگا اور جسے شقی طے کردیا ہے وہ شقی ہوگا ، جس کا جتنا وقت مقرر کیا ہے اس سے ایک لمحہ آگے پیچھے نہیں ہوگا ۔ چناچہ ہم نے قیامت کا بھی ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ، نہ وہ اس سے پہلے آسکتی ہے نہ اس سے ایک لمحہ کی تاخیر ہوگی ۔ تمہارے مطالبے کے مطابق اگر وہ ابھی واقع نہیں ہوتی تو یہ مت سمجھو کہ وہ واقع ہوگی ہی نہیں ۔ اس آیت سے ملتی جلتی یہ آیت ہے :(وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ ) (الرعد : ٨)” اور ہر چیز اس کے ہاں ایک اندازے سے ہے “ اور سورة ٔ مرسلات کی یہ آیت (فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقٰـدِرُوْنَ ) ( المرسلات : ٢٣) ” ہم نے اندازہ کیا تو ہم اچھے اندازہ کرنے والے ہیں “۔- ٢۔” قدر “ سے مراد تقدیر ہے جو ان چھ چیزوں میں شامل ہے جن پر ایمان کا دارومدار ہے۔ حدیث جبریل میں ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ مجھے ایمان کے متعلق بتایئے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان تومن باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر وتومن بالقدر خیرہ وشرہ) (مسلم ، الایمان ، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان۔۔۔۔ ٨) ” یہ کہ تو اللہ تعالیٰ پر اور اسکے فرشتوں اور اس کتابوں اور اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور تقدیر اچھی یا بری ، اس پر ایمان لائے ۔ “ یعنی اچھی تقدیر کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور بری کا بھی ، مجوس کی طرح نہیں جو دو خالق مانتے ہیں ۔ ایک خالق خیر اور ایک خالق شر ۔ عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے (کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السماوات والارض بخمسین الف سنۃ قال وعرشہ علی المائ) (مسلم ، القدر ، باب حجاج آدم و موسیٰ صلی اللہ علیھما : ٢٦٥٣)” اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیں “۔ فرمایا :” اور ( اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا “۔ عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( کل شی بقدر حتی العجز والکیس) (مسلم ، القدر ، باب کل شی بقدر : ٢٦٥٥) ” ہر چیز تقدیر سے ہے ، حتیٰ کہ عاجزی اور ہوشیاری بھی “۔ یعنی بعض لوگ جو بےکار اور نکھٹو ہوتے ہیں اور بعض عقل مند اور ہوشیار ، تو یہ بھی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے۔
اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ ، قدر کے لغوی معنی اندازہ کرنے اور کسی چیز کو حکمت و مصلحت کے مطابق اندازے سے بنانے کے ہیں، اس آیت میں یہ لغوی معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ حق تعالیٰ جل شانہ نے عالم کی تمام مخلوقات کو اور اس کی ہر نوح و صنف کو ایک حکیمانہ اندازہ سے بڑا چھوٹا اور مختلف ہیئت و صورت میں بنایا ہے، پھر ہر نوع و صنف کے ہر فرد کی تخلیق میں بھی حکیمانہ انداز بڑی حکمت کے ساتھ رکھا ہے، انگلیاں سب یکساں نہیں بنائیں، طول میں فرق رکھا، ہاتھوں پاؤں کے طول و عرض اور ان کے کھلنے بند ہونے سمٹنے اور پھیلنے کے لئے اسپرنگ لگائے، ایک ایک عضو کے ایک ایک جز کو دیکھو تو قدرت و حکمت خداوندی کے عجیب و غریب دروازے کھلتے نظر آنے لگیں۔- اور اصطلاح شرع میں لفظ قدر بمعنی تقدیر الٰہی بھی استعمال ہوتا ہے اور اکثر ائمہ تفسیر نے بعض روایات حدیث کی بناء پر اس آیت میں قدر سے تقدیر الٰہی مراد لی ہے۔- مسند احمد، مسلم، ترمذی میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ مشرکین قریش ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ تقدیر کے متعلق مخاصمت کرنے لگے، تو اس پر یہ آیت قرآن نازل ہوئی، اس معنی کے اعتبار سے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ ہم نے تمام عالم کی ایک ایک چیز کو اپنی تقدیر ازلی کے مطابق بنایا ہے، یعنی ازل میں پیدا ہونے والی چیز اور اس کی مقدار زمانہ و مکان اور اس کے بڑہنے گھٹنے کا پیمانہ عالم کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا جو کچھ عالم میں پیدا ہوتا ہے وہ اسی تقدیر ازلی کے مطابق ہوتا ہے۔- تقدیر کا یہ مسئلہ اسلام کا قطعی عقیدہ ہے اس کا منکر کافر، اور جو فرقے بتاویل انکار کرتے ہیں وہ فاسق ہیں امام احمد، ابو داؤد، طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر امت میں کچھ لوگ مجوسی ہوتے ہیں، اس امت محمدیہ کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں، ایسے لوگ بیمار پڑیں تو ان کی بیمار پرسی کو نہ جاؤ اور مر جائیں تو ان کے کفن دفن میں شریک نہ ہو (از روح المعانی) واللہ سبحانہ، و تعالیٰ اعلم۔- تمت - بعون اللہ سبحانہ وبحمدہ سورة القمر - یوم الثلاثاء لستة من الربیع الثانی س 1391 ھ
اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ ٤٩- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - قَدْرُ والتَّقْدِيرُ- والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال :- قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ.- يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه،- فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين :- أحدهما : بإعطاء القدرة .- والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان :- ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات .- فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين :- أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] .- والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله :- فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا - «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ- [ القمر 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ- [ عبس 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ- [ البقرة 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى- [ الأعلی 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال،- القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔
(٤٩۔ ٥٠) ہم نے تمہارے اعمال کو خاص انداز سے پیدا کیا مگر تم اس کے منکر ہو جیسا کہ قدریہ فرقہ لکھتا ہے یا یہ کہ ہم نے ہر ایک چیز کی شکل و صورت اور اس کی ضروریات کو خاص انداز سے پیدا کیا اور ہمارا حکم قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں بس ایسا اچانک ایسا ہوجائے گا جیسے آنکھ کا جھپکانا۔
آیت ٤٩ اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰـہُ بِقَدَرٍ ۔ ” یقینا ہم نے ہرچیز ایک اندازے کے مطابق پیدا کی ‘ ہے۔
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :25 یعنی دنیا کی کوئی چیز بھی اَلَل ٹپ نہیں پیدا کر دی گئی ہے ، بلکہ ہر چیز کی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق وہ ایک مقرر وقت پر بنتی ہے ، ایک خاص شکل اختیار کرتی ہے ، ایک خاص حد تک نشو و نما پاتی ہے ، ایک خاص مدت تک باقی رہتی ہے ، اور ایک خاص وقت پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اسی عالمگیر ضابطہ کے مطابق خود اس دنیا کی بھی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق ایک وقت خاص تک یہ چل رہی ہے اور ایک وقت خاص ہی پر اسے ختم ہونا ہے ۔ جو وقت اس کے خاتمہ کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے نہ اس سے ایک گھڑی پہلے یہ ختم ہو گی ، نہ اس کے ایک گھڑی بعد یہ باقی رہے گی ۔ یہ نہ ازلی و ابدی ہے کہ ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ قائم رہے ۔ اور نہ کسی بچے کا کھلونا ہے کہ جب تم کہو اسی وقت وہ اسے توڑ پھوڑ کر دکھا دے ۔
15: یعنی جو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ناپ تول اور ہر کام کا ایک وقت مقرر رکھا ہے، اس لیے وہ قیامت اسی وقت آئے گی جو اللہ تعالیٰ نے مقدر فرما رکھا ہے۔