معجزات بھی بے اثر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان کافروں کو جنہیں معجزہ وغیرہ بھی کار آمد نہیں چھوڑ دو ان سے منہ پھیر لو اور انہیں قیامت کے انتظار میں رہنے دو ، اس دن انہیں حساب کی جگہ ٹھہرنے کے لئے ایک پکارنے والا پکارے گا جو ہولناک جگہ ہو گی جہاں بلائیں اور آفات ہوں گی ان کے چہروں پر ذلت اور کمینگی برس رہی ہو گی ، مارے ندامت کے آنکھیں نیچے کو جھکی ہوئی ہوں گی اور قبروں سے نکلیں گے ، پھر ٹڈی دل کی طرح یہ بھی انتشار و سرعت کے ساتھ میدان حساب کی طرف بھاگیں گے پکارنے والے کی پکار پر کان ہوں گے اور تیز تیز چل رہے ہوں گے نہ مخالفت کی تاب ہے نہ دیر لگانے کی طاقت ، اس سخت ہولناکی کے سخت دن کو دیکھ کر کافر چیخ اٹھیں گے کہ یہ تو بڑا بھاری اور بیحد سخت دن ہے ۔
6۔ 1 یعنی اس دن کو یاد کرو، نہایت ہولناک اور دہشت ناک مراد میدان محشر اور موقف حساب کے آزمائشیں ہیں۔
[٦] یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے اور ایسے ضدی انسانوں کی ہدایت کے لالچ میں اپنا وقت ضائع نہ کیجئے۔ یہ لوگ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک عذاب کو دیکھ نہ لیں۔- [٧] نکر کا ایک معنی ناگوار ہے جو ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے اور اس کا دوسرا معنی انجانی اور اجنبی چیز ہے یعنی جب وہ حساب کتاب کے لیے بلائے جائیں گے تو یہ بات ان کے لیے بالکل انوکھی ہوگی جس کا انہیں خواب و خیال تک نہ تھا کہ اس طرح انہیں زندہ کرکے حساب کتاب کے لیے پیش ہونا پڑے گا۔
فَتَوَلَّ عَنْہُمْ : یعنی جب ان لوگوں کو کسی تنبیہ یا ڈرانے کا کچھ فائدہ ہی نہیں ہوتا تو آپ بھی ان سے منہ پھیر لیں اور انہیں ان کے حال پر رہنے دیں ۔ آپ کے ذمے پہنچانا تھا ، وہ آپ نے پہنچا دیا ۔- ٢۔ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْئٍ نُّکُرٍ :” یوم “ منصوب بنزع الخافض ہے ، یعنی اس سے پہلے حرف جار ” الی “ ہے جسے حذف کرنے کی وجہ سے یہ منصوب ہے ( بغوی) آلوسی نے کہا : ” ھذاقول الحسن “ کہ یہ حسن کا قول ہے یعنی ” فتول عنھم الی یوم یدع الداع فی الا شی نکر “ ” سو ان سے منہ پھیر لے ، اس دن تک جس میں پکارنے ولا ایک ناگوار چیز کی طرف بلائے گا “۔ یا ” یوم “ فعل محذوف ” انظر “ کے ساتھ منصوب ہے ، یعنی ” ان سے منہ پھیر لے اور اس دن کا انتظار کر جب ۔۔۔۔ “ پکارنے والے سے مراد اسرافیل (علیہ السلام) ہیں ، جن کے نفحہ سے تمام لوگ قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ ” یدع “ اصل میں ” یدعو “ ہے ، واؤ چونکہ یہاں پڑھنے میں نہیں آتی اس لیے مصحف عثمان میں لکھی نہیں گئی :” الداع “ اصل میں ” الداعی “ ہے ، ” یائ “ تخفیف کے لیے حذف کی گئی ہے اور ” شیء نکر ‘ ‘ سے مراد حساب کتاب ہے۔” نکر “ بمعنی ” منکر “ ہے ، ناگوار ، اجنبی ، اونکھی چیز جو کبھی دیکھی نہ ہوگی۔
فَتَوَلَّ عَنْہُمْ ٠ ۘ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ اِلٰى شَيْءٍ نُّكُرٍ ٦ ۙ- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - دع - الدَّعُّ : الدفع الشدید وأصله أن يقال للعاثر : دع دع، كما يقال له : لعا، قال تعالی: يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلى نارِ جَهَنَّمَ دَعًّا[ الطور 13] ، وقوله : فَذلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ [ الماعون 2] ، قال الشاعر : دَعَّ الوصيّ في قفا يتيمه - ( د ع ع ) الدع ۔ کے معنی سختی کے ساتھ دھکا دینے کے ہیں ۔ اصل میں یہ کلمہ زجر ہے جس طرح پھسلنے والے کو ( بطور دعا لعا کہا جاتا ہے ۔ اسیطرح دع دع بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں : ۔ يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلى نارِ جَهَنَّمَ دَعًّا[ الطور 13] جس دن وہ آتش جہنم کی طرف نہایت سختی سے دھکیلے جائیں گے ۔ فَذلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ [ الماعون 2] یہ وہی ( بدبخت ) ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے شاعر نے کہا ہے جیسا کہ وحی یتیم کی گدی پر گھونسا مارتا اور اسے دھکے دیتا ہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔
(٦۔ ٨) سو جو قوم علم خداوندی پر اور اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لائے گی اسے رسولوں کا ڈرانا کچھ فائدہ نہیں پہنچاتا۔- اے محمد سو آپ ان کی طرف سے کچھ خیال نہ کیجیے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا ہے۔- جس روز یعنی قیامت کے دن ایک بلانے والا فرشتہ ایک سخت ترین ناگوار چیز کی طرف بلائے گا اہل جنت کو جنت کی طرف اور دوزخیوں کو دوزخ کی طرف ان کی آنکھییں ذلت سے جھکی ہوں گی قبروں سے اس طرح نکل رہے ہوں گے جیسے ٹڈی پھیل جاتی ہے اور پھر نکل کر بلانے والے کی طرف دوڑے چلے جارہے ہوں گے کہ کس چیز کا ان کو حکم ہوتا ہے کافر قیامت کے دن کہتے ہوں گے کہ یہ دن ان کے حق میں بڑا سخت ہے۔
آیت ٦ فَتَوَلَّ عَنْہُمْ ٧ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان سے صرفِ نظر کر لیجیے۔ “- یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْئٍ نُّـکُرٍ ۔ ” جس دن ایک پکارنے والا پکارے گا ایک بہت ناگوار چیز کی طرف۔ “- جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ ابتدائی مکی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملتے جلتے الفاظ میں یہ ہدایت بار بار دی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر کریں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درگزر سے کام لیں ‘ انہیں نظر انداز کردیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :5 بالفاظ دیگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ جب انہیں زیادہ سے زیادہ معقول طریقہ سے سمجھایا جا چکا ہے ، اور انسانی تاریخ سے مثالیں دے کر بھی بتا دیا گیا ہے کہ انکار آخرت کے نتائج کیا ہیں اور رسولوں کی بات نہ ماننے کا کیا عبرتناک انجام دوسری قومیں دیکھ چکی ہیں ، پھر بھی یہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے ، تو انہیں اسی حماقت میں پڑا رہنے دو ۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب مرنے کے بعد قبروں سے نکل کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ وہ قیامت واقعی برپا ہو گئی جسے قبل از وقت خبردار کر کے راہ راست اختیار کر لینے کا مشورہ انہیں دیا جا رہا تھا ۔ سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :6 دوسرا مطلب انجانی چیز بھی ہو سکتا ہے ۔ یعنی ایسی چیز جو کبھی ان کے سان گمان میں بھی نہ تھی ، جس کا کوئی نقشہ اور کوئی تصور ان کے ذہن میں نہ تھا ، جس کا کوئی اندازہ ہی وہ نہ کر سکتے تھے کہ یہ کچھ بھی کبھی پیش آ سکتا ہے ۔
4: یعنی آپ چونکہ اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا کر رہے ہیں، ا سلیے ان کے طرز عمل پر زیادہ صدمہ نہ کیجئے