Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب فنا فرماتا ہے کہ زمین کی کل مخلوق فنا ہونے والی ہے ایک دن آئے گا کہ اس پر کچھ نہ ہو گا کل جاندار مخلوق کو موت آ جائے گی اسی طرح کل آسمان والے بھی موت کا مزہ چکھیں گے مگر جسے اللہ چاہے صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک ہے جو موت و فوت سے پاک ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولا تو پیدائش عالم کا ذکر فرمایا پھر ان کی فنا کا بیان کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک منقول دعا میں یہ بھی ہے ( یا حی یا قیوم یا بدیع السموات والارض یا ذا الجلال والاکرام لا الہ الا انت برحمتک نستغیث اصلح لنا شاننا کلہ ولا تکلنا الی انفسنا طرفتہ عین ولا الی احد من خلقک ) یعنی اے ہمیشہ جینے اور ابدالآباد تک باقی اور تمام قائم رہنے والے اللہ اے آسمان و زمین کے ابتدا پیدا کرنے والے ۔ اے رب جلال اور بزرگی والے پروردگار تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہم تیری رحمت ہی سے استغاثہ کرتے ہیں ہمارے تمام کام تو بنا دے اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تو ہماری طرف نہ سونپ اور نہ اپنی مخلوق میں سے کسی کی طرف ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں جب تو آیت ( کل من علیھا فان ) پڑھے تو ٹھہر نہیں اور ساتھ ہی آیت ( وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27۝ۚ ) 55- الرحمن:27 ) پڑھ لے ۔ اس آیت کا مضمون دوسری آیت میں ان الفاظ سے ہے آیت ( كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ۭ لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 88؀ۧ ) 28- القصص:88 ) سوائے ذات باری کے ہر چیز ناپید ہونے والی ہے پھر اپنے چہرے کی تعریف میں فرماتا ہے وہ ذوالجلال ہے یعنی اس قابل ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کا جاہ و جلال مانا جائے اور اس کے احکام کی اطاعت کی جائے اور اس کے فرمان کی خلاف ورزی سے رکا جائے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ 28؀ ) 18- الكهف:28 ) ، جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اسی کی ذات کے مرید ہیں تو انہی کے ساتھ اپنے نفس کو وابستہ رکھ اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ نیک لوگ صدقہ دیتے وقت سمجھتے ہیں کہ ہم محض اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے پلاتے ہیں وہ کبریائی بڑائی عظمت اور جلال والا ہے پس اس بات کو بیان فرما کر کہ تمام اہل زمین فوت ہونے میں اور پھر اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش ہونے میں برابر ہیں اور اس دن وہ بزرگی والا اللہ ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ حکم فرمائے گا ساتھ ہی فرمایا اب تم اے جن و انس رب کی کونسی نعمت کا انکار کرتے ہو ؟ پھر فرماتا ہے کہ وہ ساری مخلوق سے بےنیاز ہے اور کل مخلوق اس کی یکسر محتاج ہے سب کے سب سائل ہیں وہ غنی ہے سب فقیر ہیں اور وہ سب کے سوال پورے کرنے والا ہے ہر مخلوق اپنے حال و قال سے اپنی حاجتیں اس کی بارگاہ میں لے جاتی ہے اور ان کے پورا ہونے کا سوال کرتی ہے ۔ وہ ہر دن نئی شان میں ہے اس کی شان ہے کہ ہر پکارنے والے کو جواب دے ۔ مانگنے والے کو عطا فرمائے تنگ حالوں کو کشادگی دے مصیبت و آفات والوں کو رہائی بخشے بیماروں کو تندرستی عنایت فرمائے غم و ہم دور کرے بےقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو قبول فرما کر اسے قرار اور آرام عنایت فرمائے ۔ گنہگاروں کے واویلا پر متوجہ ہو کر خطاؤں سے درگزر فرمائے گناہوں کو بخشے زندگی وہ دے موت وہ دے تمام زمین والے کل آسمان والے اس کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے اور دامن پھیلائے ہوئے ہیں چھوٹوں کو بڑا وہ کرتا ہے قیدیوں کو رہائی وہ دیتا ہے نیک لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ان کی پکار کا مدعا ان کے شکوے شکایت کا مرجع وہی ہے غلاموں کو آزاد کرنے کی رغبت وہی دلانے والا اور ان کو اپنی طرف سے عطیہ وہی عطا فرماتا ہے یہی اس کی شان ہے ابن جریر میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو صحابہ نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ شان کیا ہے ؟ فرمایا گناہوں کا بخشنا دکھ کو دور کرنا لوگوں کو ترقی اور تنزلی پر لانا ابن ابی حاتم میں اور ابن عساکر میں بھی اسی کے ہم معنی ایک حدیث ہے ۔ صحیح بخاری میں یہ روایت معلقاً حضرت ابو الدرداء کے قول سے مروی ہے بزار میں بھی کچھ کمی کے ساتھ مرفوعًا مروی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا اس کے دونوں تختے سرخ یاقوت کے ہیں اس کا علم نوری ہے اس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے ۔ ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ اسے دیکھتا ہے ہر نگاہ پر کسی کو زندگی دیتا اور مارتا اور عزت و ذلت دیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ :” فان “ ” فنی یقنی فنا “ (س) سے اسم فاعل ہے۔ اس سے پہلے آیت (١٠) میں زمین کا تذکرہ فرمایا ہے ، اس کے بعد زمین پر موجود چیزوں کا ذکر فرمایا ، جس میں جن و انس بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نعمت کے رنگا رنگ نمونے بھی ۔ اس کے بعد بتایا کہ ان میں سے کسی کو بھی بقاو دوام حاصل نہیں ، سب فنا ہونے والے ہیں ۔ بقاو دوام صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لیے ہے۔ ( دیکھئے آل عمران : ١٨٥۔ فرقان : ٥٨) آیت کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ قصص (٨٨) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (جتنی نعمتیں تم لوگوں نے سنی ہیں تم کو توحید و اطاعت سے ان کا شکر ادا کرنا چاہئے اور کفر معصیت سے ناشکری نہ کرنا چاہئے کیونکہ اس عالم کے فنا کے بعد ایک دوسرا عالم آنے والا ہے، جہاں ایمان و کفر پر جزا و سزا واقع ہوگی، جس کا بیان آیات آئندہ کے ضمن میں ہے، پس ارشاد ہے کہ) جتنے (جن و انس) روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہوجائیں گے اور (صرف) آپ کے پروردگار کی ذات جو کہ عظمت (والی) اور (باوجود عظمت کے) احسان والی ہے باقی رہ جاوے گی (چونکہ مقصود تنبیہ کرنا ثقلین یعنی جن و انس کو ہے اور وہ سب زمین پر ہیں، اس لئے فنا میں اہل ارض کا ذکر کیا گیا، اس تخصیص ذکری سے دوسری چیزوں کی فنا کی نفی لازم نہیں آتی اور اس جگہ اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں عظمت و احسان اس لئے ذکر کی گئیں کہ ایک صفت ذاتی دوسری اضافی ہے، حاصل اس کا یہ ہے کہ اکثر اہل عظمت دوسروں کے حل پر توجہ نہیں کیا کرتے، مگر حق تعالیٰ باوجود اس عظمت کے وہ اپنے بندوں پر رحمت و فضل فرماتے ہیں اور چونکہ یہ فناء عالم اور اس کے بعد جزا وسزا کی خبر دینا انسان کو دولت ایمان بخشتا ہے، اس لئے یہ مجموعہ بھی ایک بڑی نعمت ہے اس لئے فرمایا) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کی منکر ہوجاؤ گے (آگے ایک خاص طور پر اس کی عظمت و اکرام کے متعلق مضمون ہے یعنی وہ ایسا باعظمت ہے کہ) اسی سے (اپنی اپنی حاجتیں) سب آسمان و زمین والے مانگتے ہیں (زمین والوں کی حاجتیں تو ظاہر ہیں اور آسمان والے گو کھانے پینے کے محتاج نہ ہوں، لیکن رحمت و عنایت کے تو سب محتاج ہیں، آگے اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو ایک دوسرے عنوان سے بیان کیا گیا ہے) وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے (یہ مطلب نہیں کہ صدور افعال اس کے لوازم ذات سے ہے، ورنہ قدیم ہونا حادث کا لازم آئے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جتنے تصرفات عالم میں واقع ہو رہے ہیں وہ اسی کے تصرفات ہیں، جن میں اس کے انعامات و احسانات بھی داخل ہیں، جیسے ایجاد و ابقاء جو رحمت عامہ ہے اور اعطاء رزق و اولاد جو سب دنیوی رحمتیں ہیں اور ہدایت و اعطاء علم و توفیق عمل جو دینی رحمتیں ہیں پس باوجود عظمت کے ایسا اکرام و احسان فرمانا یہ بھی ایک نعمت عظیمہ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ مضمون جلال و اکرام کا بقا خالق کے متعلق فرما کر آگے پھر فنا خلق کے متعلق ارشاد ہے کہ تم لوگ یہ نہ سمجھنا کہ پھر وہ فنا مستمر رہے گی اور عذاب وثواب نہ ہوگا، بلکہ ہم تم کو دوبارہ زندہ کریں گے اور جزا وسزا دیں گے اسی کو اس طرح فرماتے ہیں کہ) اے جن و انس ہم عنقریب تمہارے (حساب و کتاب کے) لئے خالی ہوئے جاتے ہیں (یعنی حساب و کتاب لینے والے ہیں، مجازاً و مبالغۃً اس کو خالی ہونے سے تعبیر فرما دیا اور مبالغہ اس طرح ہے کہ انسان جب سب کاموں سے خالی ہو کر کسی طرف متوجہ ہوتا ہے تو پوری توجہ سمجھی جاتی ہے، انسانی فہم کے مطابق یہ عنوان اختیار کیا گیا، ورنہ حق تعالیٰ کی اصل شان یہ ہے کہ اس کو ایک مشغولیت کسی دوسری مشغولیت سے مانع نہیں ہوتی اور اس کی جس طرف جس وقت توجہ ہوتی ہے تام اور کامل ہی ہوتی ہے، وہاں ناقص توجہ کا احتمال ہی نہیں اور مثل سابق آگے ارشاد ہے کہ یہ حساب کتاب کی خبر دینا بھی ایک نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے تاکید وقوع حساب کے لئے یہ بتلاتے ہیں کہ اس وقت یہ بھی احتمال نہیں کہ کوئی کہیں بچ کر نکل جائے چناچہ ارشاد ہے کہ) اے گروہ جن اور انسانوں کے اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمان اور زمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جاؤ تو (ہم بھی دیکھیں) نکلو (مگر) بدون زور کے نہیں نکل سکتے (اور زور ہے نہیں، پس نکلنے کا وقوع بھی ممکن نہیں اور یہی حالت بعینہ قیامت میں ہوگی بلکہ وہاں تو یہاں سے بھی زیادہ عجز ہوگا، غرض بھاگ نکلنے کا احتمال نہ رہا اور یہ بات بتلا دینا بھی موجب ہدایت و نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے بوقت عذاب انسان کے عجز کا ذکر فرماتے ہیں، جیسا اوپر حساب کے وقت اس کے عاجز ہونے کا ذکر تھا، یعنی اے جن و انس کے مجرمو ) تم دونوں پر (قیامت کے روز) آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم (اس کو) ہٹا نہ سکو گے (یہ شعلہ اور دھواں غالباً وہ ہے جن کا ذکر سورة والمرسلٰت میں ہے اِنْـطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍ الیٰ قولہ اِنَّهَا تَرْمِيْ بِشَرَرٍ ۔ فالظل ھود خان والشرر ھو الشواظ، واللہ اعلم، اور اس کا بتلانا بھی وجہ ذریعہ ہدایت ہونے کے ایک نعمت عظمیٰ ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے غرض (جب ہمارا حساب لینا اور تمہارا حساب و عقاب کے وقت عاجز ہونا معلوم ہوگیا تو اس سے قیامت کے روز حساب و عقاب کا وقوع ثابت ہوگیا، جس کا بیان یہ ہے کہ) جب (قیامت آوے گی جس میں) آسمان پھٹ جاوے گا اور ایسا سرخ ہوجاوے گا جیسے سرخ نری (یعنی چمڑا، شاید یہ رنگ اس لئے ہو کہ علامت غضب کی ہے کہ غضب میں چہرہ سرخ ہوجاتا ہے اور یہ آسمان کا پھٹنا وہ ہے جو شروع پارہ وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ میں آیا ہے، فی قولہ تعالیٰ وَيَوْمَ تَشَقَّقُ الخ اور یہ خبر دینا بھی نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ تو حساب کا وقوع اور اس کا وقت بتلایا گیا آگے کیفیت حساب و طریق فیصلہ ارشاد فرماتے ہیں یعنی جس روز یہ واقعات ارسال شواظ و نحاس و انشقاق سماء وغیرہ ہوں گے) تو اس روز (اللہ تعالیٰ کے معلوم کرنے کے لئے) کسی انسان اور جن سے اس کے جرم کے متعلق نہ پوچھا جائے گا (کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے یعنی حساب اس غرض سے نہ ہوگا بلکہ خود ان کو معلوم کرانے اور جتلانے کے لئے سوال اور حساب ہوگا لقولہ تعالیٰ فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اور یہ خبر دینا بھی ایک نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (یہ تو حساب کی کیفیت ہوئی کہ بطور تحقیق نہ ہوگا بلکہ بطور توبیخ ہوگا، آگے یہ بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تو تعیین جرائم و مجرمین کی معلوم ہے، اس لئے تحقیق کی ضرورت نہ ہوگی لیکن فرشتوں کو مجرمین کی تعیین کیسے ہوگی، پس ارشاد فرماتے ہیں کہ) مجرم لوگ اپنے حلیہ سے (کہ چہرہ کی سیاہی اور آنکھوں کا نیلگوں ہونا ہے، کقولہ تعالیٰ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ۔ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا) پہچانے جاویں گے سو (ان کے) سر کے بال اور پاؤں پکڑ لئے جاویں گے (اور ان کو گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جاوے گا، یعنی کسی کا سر کسی کی ٹانگ حسب اعمال یا کبھی سر کبھی ٹانگ بغرض اجتماع انواع عذاب و نکال اور یہ خبر دینا بھی ایک نعمت ہے) سوائے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (آگے مزید عذاب بتلاتے ہیں) یہ ہے وہ جہنم جس کو مجرم لوگ (یعنی تم) جھٹلاتے تھے وہ لوگ دوزخ کے اور گرم کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر لگاتے ہوں گے (یعنی کبھی آگ کا عذاب ہوگا کبھی کھولتے ہوئے پانی کا جس کی تحقیق سورة مومن رکوع ہشتم میں گزر چکی ہے اور یہ خبر دینا بھی نعمت ہے) سو اے جن و انس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے۔- معارف و مسائل - كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ، ښوَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ۔ علیہا کی ضمیر ارض کی طرف راجع ہے، جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے (وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا لِلْاَنَامِ ) اس کے علاوہ زمین ان عام اشیاء میں سے ہے جس کی طرف ضمیر راجع کرنے کے لئے پہلے مرجع کا ذکر لازم نہیں ہے، معنی اس کے یہ ہوئے کہ جو جنات اور انسان زمین پر ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، اس میں جن و انس کے ذکر کی تحضیص اس لئے کی گئی ہے کہ اس سورت میں مخاطب یہی دونوں ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آسمان اور آسمان والی مخلوقات فانی نہیں ہیں کیونکہ دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے عام لفظوں میں پوری مخلوقات کا فانی ہونا بھی واضح فرما دیا ہے كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كُلُّ مَنْ عَلَيْہَا فَانٍ۝ ٢٦ ۚ ۖ - فني - وممّا فاته من المواد ولم يذكرها السمین مادة فني، وهو في قوله تعالی: كُلُّ مَنْ عَلَيْها فانٍ.- فنی ( باب سمع) فنی ( باب فتح) وفناء مصدر فنا ہوجانا۔ معدوم ہوجانا۔ فان اصل میں فانی تھا۔ ی پر ضمہ دشوار تھا۔ اسے گرادیا اب ی اور تنوین دو ساکن اکٹھے ہوئے۔ ی اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی۔ فان ہوگیا ۔ فنا ہوجانے والا۔ معدوم ہوجانے والا۔ فان خبر ہے کل من کی۔- فَنِيَ ، كرضِيَ وسَعَى، فَنَاءً : عُدِمَ ، وأفْناهُ غَيْرُهُ ،- وـ فُلانٌ: هَرِمَ.- والفانِي : الشَّيْخُ الكَبيرُ.- وتَفَانَوْا : أفْنَى بَعْضُهُمْ بَعْضاً.- وفِناءُ الدارِ ، ككِساءٍ : ما اتَّسَعَ من أمامِها - ج : أفْنِيَةٌ وفُنِيٌّ.- وفاناهُ : دَاراهُ.- وأرْضٌ مَفْناةٌ: موافِقَةٌ لِنَازِلِيها .- والأفانِي : نَبْتٌ ، واحِدَتُها : كَثَمَانِيةٍ.( قاموس المحیط)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦۔ ٢٨) جتنے جن و انس روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہوجائیں گے یا یہ کہ جو بھی کام غیر اللہ کے لیے کیا جائے گا اس کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا اور آپ کے رب کی ذات جو کہ عظمت وقدرت والی اور احسان اور درگزر کرنے والی ہے باقی رہ جائے گی۔- یا یہ کہ جو نیکی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا جوئی کے لیے کی جائے گی وہ باقی رہ جائے گی سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ۔ ” جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :25 یہاں سے آیت 30 تک جن و انس کو دو حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے : ایک یہ کہ نہ تم خود لافانی ہو اور نہ وہ سر و سامان لازوال ہے جس سے تم اس دنیا میں متمتع ہو رہے ہو ۔ لافانی اور لازوال تو صرف اس خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے جس کی عظمت پر یہ کائنات گواہی دے رہی ہے اور جس کے کرم سے تم کو یہ کچھ نعمتیں نصیب ہوئی ہیں ۔ اب اگر تم میں سے کوئی شخص ہم چومن دیگرے نیست کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ محض اس کی کم ظرفی ہے ۔ اپنے ذرا سے دائرہ اختیار میں کوئی بے وقوف کبریائی کے ڈنکے بجا لے ، یا چند بندے جو اس کے ہتھے چڑھیں ، ان کا خدا بن بیٹھے ، تو یہ دھوکے کی ٹٹی کتنی دیر کھڑی رہ سکتی ہے ۔ کائنات کی وسعتوں میں جس زمین کی حیثیت ایک مٹر کے دانے برابر بھی نہیں ہے ، اس کے ایک کونے میں دس بیس یا پچاس ساٹھ برس جو خدائی اور کبریائی ملے اور پھر قصہ ماضی بن کر رہ جائے ، وہ آخر کیا خدائی اور کیا کبریائی ہے جس پر کوئی پھولے ۔ دوسری اہم حقیقت جس پر ان دونوں مخلوقوں کو متنبہ کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے سوا دوسری جن ہستیوں کو بھی تم معبود و مشکل کشا اور حاجت روا بناتے ہو ، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء و اولیاء ، یا چاند اور سورج ، یا اور کسی قسم کی مخلوق ، ان میں سے کوئی تمہاری کسی حاجت کو پورا نہیں کر سکتا ۔ وہ بیچارے تو خود اپنی حاجات و ضروریات کے لیے اللہ کے محتاج ہیں ۔ اس کے ہاتھ تو خود اس کے آگے پھیلے ہوئے ہیں ۔ وہ خود اپنی مشکل کشائی بھی اپنے بل بوتے پر نہیں کر سکتے تو تمہاری مشکل کشائی کیا کریں گے ۔ زمین سے آسمانوں تک اس ناپیدا کنار کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے ، تنہا ایک خدا کے حکم سے ہو رہا ہے ۔ کار فرمائی میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ کسی معاملہ میں کسی بندے کی قسمت پر اثر انداز ہو سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani