[١٨] ہر چیز فنا ہونے والی ہے استثناء صرف اللہ کے لئے ہے :۔ یعنی جو چیز بھی مخلوق ہے وہ حادث ہے اور قدیم صرف اللہ کی ذات ہے جو چیز بنی ہے خواہ وہ بےجان ہو ایک نہ ایک دن ضرور اپنا کام چھوڑ دے گی۔ خراب ہوجائے گی، برباد اور فنا ہوگی اور جو جاندار ہے وہ بھی ضرور موت سے دو چار ہوگی۔ صرف اللہ کی ذات اور صفات قدیم اور ازلی ابدی ہیں۔ لہذا ان کے سوا کوئی چیز باقی نہ رہے گی۔ اللہ کی صفات سے مراد مثلاً کلام اللہ یا قرآن یا لوح محفوظ اور اعمالنامے وغیرہ ہیں۔ رہے فرشتے بالخصوص حاملان عرش تو ان کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ قرآن میں کئی مقامات پر فرشتے اپنے کلام کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ جیسے جبریل نے سیدہ مریم کے سامنے آکر کہا تھا (لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِيًّا 19 ۔ ) 19 ۔ مریم :19) حالانکہ لڑکا یا اولاد عطا کرنا اللہ کی صفت اور اس کا کام ہے فرشتوں کا نہیں۔
وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ :” الجلیل “ کا معنی عظمت و کبیریائی ہے اور ” الاکرام “” اکرم یکرم “ ( افعال) کا مصدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ” ذوالاکرام “ ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ عزت دینے والا وہی ہے ، کوئی اور نہیں ، جیسے فرمایا (وَمَنْ یُّہِنِ اللہ ُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ ط ) (الحج : ١٨)” اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں “۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس کا حق ہے کہ اس کا اکرام کیا جائے ، اس کے بندے اس کی توحید و تسبیح و عبادت کے ساتھ اس کا اکرام کرتے ہیں۔
وَجْهُ رَبِّكَ ، وجہ سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک ذات حق سبحانہ و تعالیٰ ہے اور ربک میں ضمیر خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے، یہ حضرت سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاص اعزازو اکرام ہے کہ آپ کو خاص مقام مدح میں کہیں تو عبدہ کا خطاب ہوا ہے اور کہیں رب الارباب نے اپنی ذات کی نسبت حضور کی طرف کر کے ربک سے خطاب فرمایا ہے۔- مشہور تفسیر کے مطابق معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے جن میں جن و انس بھی داخل ہیں سب کے سب فانی ہیں، باقی رہنے والی ایک ہی ذات حق جل و علا شانہ کی ہے۔- فانی ہونے سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سب چیزیں اس وقت بھی اپنی ذات میں فانی ہیں، ان میں دوام وبقاء کی صلاحیت نہیں اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قیامت کے روز یہ سب چیزیں فنا ہوجائیں گی۔- اور بعض حضرات مفسرین نے وَجْهُ رَبِّكَ کی تفسیر جہت اور سمت سے کی ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوجائیں گے کہ کل موجودات میں بقا صرف اس چیز کو ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب میں ہے اس میں اس کی ذات وصفات بھی داخل ہیں اور مخلوقات کے اعمال و احوال میں جس چیز کا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ بھی شامل ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ انسان اور جن اور فرشتے جو کام اللہ کے لئے کرتے ہیں وہ کام بھی باقی ہے وہ فنا نہیں ہوگا (کذا فی المظہری والقرطبی والروح) اور اس مفہوم کی تائید قرآن مجید کی ایک آیت سے بھی ہوتی ہے مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ " یعنی جو کچھ تمہارے پاس ہے مال و دولت ہو یا قوت و طاقت یا راحت و کلفت یا کسی کی محبت و عداوت یہ سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے " اللہ کے پاس انسان کے اعمال و احوال میں سے وہ چیز ہے جس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہے کہ اس کو فنا نہیں، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔- ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ، یعنی وہ رب صاحب عظمت و جلال بھی ہے اور صاحب اکرام بھی، صاحب اکرام ہونے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ در حقیقت ہر اکرام و اعزاز کا مستحق تنہا وہی ہے اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ خود صاحب عظمت و جلال ہونے کے باوجود عام دنیا کے بادشاہوں اور عظمت والوں کی طرح نہیں کہ ان کو دوسروں کی اور غریبوں کی طرف التفات و توجہ نہ ہو، بلکہ وہ عظمت و جلال کے ساتھ اپنی مخلوقات کا بھی اکرام کرتا ہے، کہ ان کو عطاء وجود کے بعد طرح طرح کی بیشمار نعمتوں سے نوازتا ہے اور ان کی درخواستیں اور دعائیں سنتا ہے، اگلی آیت اسی دوسرے معنی کی شہادت دیتی ہے اور یہ لفظ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ حق تعالیٰ کی ان خاص صفات میں سے ہے کہ ان کو ذکر کر کے انسان جو دعا مانگتا ہے قبول ہوتی ہے، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں ربیعہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الظوا بیا ذا الجلال والاکرام، الظوا، الظاظ سے مشتق ہے، جس کے معنی لازم پکڑنے کے ہیں، مراد حدیث کی یہ ہے کہ اپنی دعاؤں میں یا ذا الجلال والا کرام کو یاد رکھو اور اس کے ساتھ دعا کیا کرو (کیونکہ وہ اقرب الی القبول ہے (مظہری)
وَّيَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ٢٧ ۚ- بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وقد بَقِيَ بَقَاءً ، وقیل : بَقَي في الماضي موضع بقي، وفي الحدیث : «بقینا رسول الله» أي : انتظرناه وترصّدنا له مدة كثيرة، والباقي ضربان : باق بنفسه لا إلى مدّة وهو الباري تعالی، ولا يصحّ عليه الفناء، وباق بغیره وهو ما عداه ويصح عليه الفناء .- والباقي بالله ضربان :- باق بشخصه إلى أن يشاء اللہ أن يفنيه، کبقاء الأجرام السماوية .- وباق بنوعه وجنسه دون شخصه وجزئه، كالإنسان والحیوان .- وكذا في الآخرة باق بشخصه كأهل الجنة، فإنهم يبقون علی التأبيد لا إلى مدّة، كما قال عزّ وجل : خالِدِينَ فِيها [ البقرة 162] .- والآخر بنوعه وجنسه، كما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «أنّ ثمار أهل الجنة يقطفها أهلها ويأکلونها ثم تخلف مکانها مثلها» «1» ، ولکون ما في الآخرة دائما، قال اللہ عز وجل : وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص 60] ، وقوله تعالی: وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف 46] ، أي : ما يبقی ثوابه للإنسان من الأعمال، وقد فسّر بأنها الصلوات الخمس، وقیل : سبحان اللہ والحمد لله والصحیح أنها كلّ عبادة يقصد بها وجه اللہ تعالیٰ وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ- [هود 86] ، وأضافها إلى اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة 8] . أي : جماعة باقية، أو : فعلة لهم باقية . وقیل : معناه : بقية . قال : وقد جاء من المصادر ما هو علی فاعل وما هو علی بناء مفعول والأوّل أصح .- ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اس کا باب بقی ( ض ) بقیا بھی آتا ہے چناچہ حدیث میں ہے یعنی ہم آنحضرت کے منتظر رہے اور کافی عرصہ تک آپ کی نگہبانی میں بیٹھے رہے ۔ الباقی ( صفت ) دو قسم پر ہے ایک الباقی بنفسہ جو ہمیشہ ایک حالت پر قائم رہے اور اس پر گھبی فنا طاری نہ ہو اس معنی میں یہ حق تعالیٰ کی صفت ہے ۔ دوم الباقی بغیرہ اس میں سب ماسوی اللہ داخل ہیں کہ ان پر فناء اور تغیر کا طاری ہونا صحیح ہے ۔ الباقی باللہ بھی دو قسم پر ہے ۔ ایک وہ جو بذاتہ جب تک اللہ کی مشیت ہو باقی جیسے اجرام سماویہ ۔ دوم وہ جس کے افراد و اجزاء تو تغیر پذیر ہوں مگر اس کی نوع یا جنس میں کسی قسم کا تغیر نہ ہو ۔ جیسے انسان وحیوان ۔ اسی طرح آخرت میں بھی بعض اشیاء بشخصہ باقی رہیں گی ۔ جیسے اہل جنت کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گے ۔ جیسے فرمایا : ۔ خالِدِينَ فِيها [ البقرة 162] خالدین ( 4 ) جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اور بعض چیزیں صرف جنس ونوع کے اعتبار سے باقی رہیں گی ۔ جیسا کہ آنحضرت سے مروی ہے ان اثمار اھل الجنۃ یقطفھا اھلھا ویاء کلونھا ثم تخلف مکانھا مثلھا : کہ ثمار ( جنت کو اہل جنت چن کر کھاتے رہنیگے اور ان کی جگہ نئے پھل پیدا ہوتے رہیں گے چونکہ آخرت کی تمام اشیاء دائمی ہیں اس لئے فرمایا : ۔ وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص 60] اور جو خدا کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف 46] میں وہ تمام اذکار و اعمال صالحہ داخل ہیں جن کا ثواب انسان کے لئے باقی رہے ا ۔ بعض نے ان سے پانچ نمازیں مراد لی ہیں ۔ اور بعض نے اس سے یعنی تسبیح وتحمید مراد لی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ ان میں ہر وہ عبادت داخل ہے جس سے رضائے الہی مقصود ہو یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة 8] بھلا تو ان میں سے کسی بھی باقی دیکھتا ہے میں باقیۃ کا موصوف جماعۃ یا فعلۃ محزوف ہے یعنی باقی رہنے والی جماعت یا ان کا کوئی فعل جو باقی رہا ہو ۔ اور بعض کے نزدیک باقیۃ بمعنی بقیۃ ہے ان کا قول ہے کہ بعض مصادر فاعل کے وزن پر آتے ہیں اور بعض مفعول کے وزن پر لیکن پہلا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔- وجه ( ذات باري)- عبّر عن الذّات بالوجه في قول اللہ : وَيَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] قيل : ذاته . وقیل : أراد بالوجه هاهنا التّوجّه إلى اللہ تعالیٰ بالأعمال الصالحة، وقال :- فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ [ البقرة 115] ، كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ [ القصص 88] ، يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم 38] ، إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ [ الإنسان 9] قيل : إنّ الوجه في كلّ هذا زائد، ويعنی بذلک : كلّ شيء هالك إلّا هو، وکذا في أخواته . وروي أنه قيل ذلک لأبي عبد اللہ بن الرّضا «1» ، فقال : سبحان اللہ لقد قالوا قولا عظیما، إنما عني الوجه الذي يؤتی منه «2» ، ومعناه : كلّ شيء من أعمال العباد هالک و باطل إلا ما أريد به الله، وعلی هذا الآیات الأخر، وعلی هذا قوله : يُرِيدُونَ وَجْهَهُ [ الكهف 28] ، تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم 39]- نیز ہر چیز کے اشرف حصہ اور مبدا پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے وھہ کذا اس کا اول حصہ ۔ وجھہ النھار دن کا اول حصہ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات ( بابرکت ) جو صاحب جلال و عظمت ہے ۔ باقی رہ جائے گی ۔ میں بعض نے وجہ سے ذات باری تعالیٰ مراد لی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وجھ ربک سے اعمال صالحہ مراد ہیں ۔ جن سے ذات باری تعالیٰ کی رجا جوئی مقصود ہوتی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ [ البقرة 115] تو جدھر تم رخ کروا ادھر اللہ کی ذات ہے ۔ كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ [ القصص 88] اس کی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم 38] جو لوگ رضائے خدا کے طالب ہیں ۔ إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ [ الإنسان 9] اور کہتے ہیں کہ ہم تو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں ۔ ان تمام آیات میں بعض نے کہا ہے کہ وجہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات مراد ہے لہذا آیت کل شئی ھالک کے معنی یہ ہیں کہ باستثنا ذات باری تعالیٰ ہر چیز نابود ہونے والی ہے ۔ اور اسی قسم کی دوسری آیات میں بھی یہی معنی ہیں ۔ مروی ہے کہ ابی عبد اللہ بن الر ضائے نے کہا ہے سبحان اللہ لوگ بہت بڑا کلمہ کہتے ہیں ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- جلَ- الجَلَالَة : عظم القدر، والجلال بغیر الهاء : التناهي في ذلك، وخصّ بوصف اللہ تعالی، فقیل : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] ، ولم يستعمل في غيره، والجلیل : العظیم القدر . ووصفه تعالیٰ بذلک إمّا لخلقه الأشياء العظیمة المستدلّ بها عليه، أو لأنه يجلّ عن الإحاطة به، أو لأنه يجلّ أن يدرک بالحواس . وموضوعه للجسم العظیم الغلیظ، ولمراعاة معنی الغلظ فيه قوبل بالدقیق، وقوبل العظیم بالصغیر، فقیل : جَلِيل ودقیق، وعظیم وصغیر، وقیل للبعیر : جلیل، وللشاة : دقیق، اعتبارا لأحدهما بالآخر، فقیل : ما له جلیل ولا دقیق وما أجلّني ولا أدقّني . أي : ما أعطاني بعیرا ولا شاة، ثم صار مثلا في كل كبير وصغیر . وخص الجُلَالةَ بالناقة الجسیمة، والجِلَّة بالمسانّ منها، والجَلَل : كل شيء عظیم، وجَلَلْتُ كذا : تناولت، وتَجَلَّلْتُ البقر : تناولت جُلَالَه، والجَلَل : المتناول من البقر، وعبّر به عن الشیء الحقیر، وعلی ذلک قوله : كلّ مصیبة بعده جلل . والجَلَل : ما معظم الشیء، فقیل : جَلَّ الفرس، وجل الثمن، والمِجَلَّة : ما يغطی به الصحف، ثمّ سمیت الصحف مَجَلَّة . وأمّا الجَلْجَلَة فحكاية الصوت، ولیس من ذلک الأصل في شيء، ومنه : سحاب مُجَلْجِل أي : مصوّت . فأمّا سحاب مُجَلِّل فمن الأول، كأنه يُجَلِّل الأرض بالماء والنبات .- ( ج ل ل ) الجلالتہ کے معنی ہیں عظیم القدر یعنی قدرو منزلہ میں بڑا یعنی بلند مرتبہ ہونا کے ہیں اور ( ۃ ) کے بغیر الجلال کہا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں عظمت کی آخری حد جس کے بعد اور مرتبہ نہ ہو ۔ اسی لئے یہ اللہ تعالیٰ کی وصف کے ساتھ مختص ہے ۔ اور دوسروں کے حق میں استعمال نہیں ہوتا چناچہ قرآن میں ہے ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] صاحب جلال و عظمت ۔ الجلیل اور یہ باری تعالیٰ کے ساتھ مختص نہیں ہے اللہ تعالیٰ کو الجلیل یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے بڑ ی بڑی عظیم الشان چیزوں کو پیدا کیا ہے جن سے اس کی ذات با برکت پر استدلال ہوسکتا ہے اور یا اللہ تعالیٰ کی ذلت الجلیل اس لئ ہے کہ وہ احاطہ سے بلند ہے اور یا اس لئے کہ جو اس کے ذریعہ اس کا ادراک نہیں ہوسکتا ۔ اصل وضع کے اعتبار سے جلیل کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جو جسامت کے اعتبار سے بڑی بھی ہو اور غلیظ یعنی موٹی اور سخت بھی پھر معنی غلظت کے اعتبار سے یہ دقین کے مقابلہ میں استعمال ہونے لگا ہے اور عظیم کا لفظ صغیر کے مقابلہ میں چناچہ کہا جاتا ہے جلیل ودقیق وعظیم وصغیر اور باہم مقابلہ کے اعتبار سے اونٹ کو جلیل اور بھڑ بکری کو حقیر کہا جاتا چناچہ محارورہ ہے مالہ جلیل ولادقیق جی اس کے پاس نہ اونٹ ہے اور نہ بھڑ بکری مااجلنی ولاادقنی اس نے مجھے نہ اونٹ دیئے اور نہ بھیڑ بکری ) یہ اس کے اصل معنی ہیں پھر یہ لفظ ہر بڑی اور چھوٹی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ اجلۃ کلاں سال کو ۔ الجلل ہر بڑی چیز کار بزرگ جللت کذا میں نے اس کا بڑا حصہ لے لیا ۔ تجلت البیعر میں نے کلاں جسم اونٹ یا ان کی بڑی مقدار لی ۔ الجلل ( ایضا) جو مینگنی اٹھائی جائے ۔ اسی سے کنایہ ہر حقیر چیز کو جلل ( ایضا ) جو مینگنی اٹھائی جائے ۔ اسی سے کنایہ ہر حقیر کو جلل کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ۔ کہ ہر مصیبت اس کے بعد حقیر ہے ۔ الجل کے معنی مصحف کے غلاف کے ہیں پھر اس سے مصحف کے غلاف کے ہیں پھر اس سے مصحف کو مجلۃ کہا جانے لگا ہے ۔ الجلجلۃ جس کے معنی حکایت صوت کے ہیں وہ اس مادہ سے نہیں ہے اور اسی سے سحاب مجلجل کا محاورہ ہے جس کے معنی گرجنے والے یا دل گے ہیں ۔ سحاب مجلل کا محاورہ اس مادہ سے ہے ۔ جس کے معنی عام بارش برسانے والے بادل کے ہیں ۔ گویا وہ اپنی اور نباتات سے زمین کو چھپا دیتا ہے - إِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ- : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیکوکار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے
آیت ٢٧ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ ۔ ” اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی اور بہت عظمت والا ہے۔ “- اللہ کے چہرے کا تصور ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اس لحاظ سے اگرچہ یہ آیت آیات متشابہات میں سے ہے لیکن اس کا عمومی مفہوم بالکل واضح ہے کہ باقی رہنے والی صرف ایک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے ‘ جس کے علاوہ ہرچیز فنا ہونے والی ہے۔ اس کائنات کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور ان میں کوئی ایک مخلوق بھی ایسی نہیں جو اپنے بل پر اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہو۔ ہرچیز اور ہر مخلوق کا وجود اللہ تعالیٰ کی منشاء ومرضی کا مرہونِ منت ہے۔ جب تک وہ چاہتا ہے کسی چیز کا وجود برقرار رہتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے اسے فنا کردیتا ہے۔ جیسا کہ سورة القصص کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے : کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلاَّ وَجْھَہٗط لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ ” ہرچیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے۔ فرمان روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔ “