29۔ 1 یعنی سب اس کے محتاج اور اس کے در کے سوالی ہیں۔ 29۔ 2 ہر روز کا مطلب، ہر وقت۔ شان کے معنی امر یا معاملہ، یعنی ہر وقت وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کسی کو بیمار کر رہا ہے، کسی کو شفایاب، کسی کو تونگر کسی کو فقیر، کسی کو گدا سے شاہ اور شاہ سے گدا، کسی کو بلندیوں پر فائز کر رہا ہے، کسی کو پستی میں گرا رہا ہے کسی کو ہست سے نیست اور نیست کو ہست کر رہا ہے وغیرہ۔ الغرض کائنات میں یہ سارے تصرف اسی کے امرو مشیت سے ہو رہے ہیں اور شب و روز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اس کی کارگزاری سے خالی ہو۔
[١٩] اللہ تعالیٰ کے نت نئے کام :۔ بےنیاز فقط اللہ کی ذات ہے باقی تمام مخلوق اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے اللہ کی محتاج ہے۔ کوئی اس سے کھانے کو مانگ رہا ہے کوئی پینے کو، کوئی تندرستی کے لیے دعا کرتا ہے اور کوئی اولاد کے لیے۔ کوئی گناہوں سے مغفرت اور ترقی درجات کے لیے اور وہ سب مخلوق کی فریاد سنتا اور ان کی فریاد رسی کر رہا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر آن یہ کام کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں ہر وقت نئی سے نئی مخلوق کو وجود میں لا رہا ہے جس طرح انسانوں کی پیدائش بڑھ رہی ہے اسی طرح ہر ذی حیات کی نسل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر وہ کائنات میں نئے سے نئے سیارے اور کہکشائیں بھی وجود میں لا رہا ہے۔ غرض ہر روز اس کی ایک نئی آن اور نئی شان ہوتی ہے۔
١۔ یَسْئَلُـہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط : یہ ہر چیز کے فانی ہونے اور اللہ تعالیٰ کے باقی ہونے کی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ باقی ہے، کیونکہ وہ غنی ہے ، اپنے وجود یا بقایا کسی بھی چیز میں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ، مگر اس کے سوا جو بھی ہے خواہ آسمان ہوں یا زمین یا جو ان دونوں میں ہے ، سب اپنے وجود ، اپنی بقاء اور اپنی ہر ضرورت کے لیے ہر لمحے اس کے محتاج ہیں ۔ اپنی ہر ضرورت اسی سے مانگ رہے ہیں ، کوئی زبان ِ قال سے مانگ رہا ہے ، کوئی زبان حال سے اور کوئی دونوں سے ۔ جس کی زندگی کا ہر لمحہ مانگنے پر موقوف ہے وہ کیا خاک باقی رہے گا ۔- ٢۔ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ :” کل یوم “ سے مراد ہر وقت ہے۔” شان “ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے ، یعنی وہ ہر لمحے ایک نئی سے نئی شان میں ہے ، کسی کو پیدا ک رہا ہے اور کسی کو مار رہا ہے ، کسی کو اٹھا رہا ہے اور کسی کو گرا رہا ہے ، کسی کو بیمار کر رہا ہے اور کسی کو شفاء بخش رہا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ید اللہ ملاٰی لا تغیضھا نفقۃ سحاء اللیل والنھار وقال ارایتم ما انفق منذ خلق السماء والارض فانہ لم یغض ما فی یدہ و کان عرشہ علی الماء وبیدہ المیزان یخفض و یرفع) ( بخاری ، التفسیر ، سورة ھود، باب قولہ :(وکان عرشہ علی المائ): ٤٦٨٤)” اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے ، کسی قسم کا خرچ کرنا اس میں کمی نہیں لاتا ، رات دن بےحساب برسنے والا ہے۔ تم نے دیکھا اس نے جب سے آسمان و زمین پیدا کیے ، کیا کچھ خرچ کیا ، تو اس ( خرچ کرنے) نے اس میں کوئی کمی نہیں کی جو اس کے ہاتھ میں ہے اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے۔ نیچے کرتا ہے اور اونچا کرتا ہے۔ “ اور ابو الدرداء (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ” کلی یوم ھو فی شان “ کی تفسیر کے بیان میں روایت کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من شانہ ان یغفر ذنباو یفرج کر با ویرفع قوما و یخفض آخرین) (ابن ماجہ ، المقدمۃ ، باب فیما انکرت الجھمیۃ : ٢٠٢، وقال الالبانی حسن) ” اس کی شان سے ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی گناہ بخش رہا ہے ، کوئی نہ کوئی مصیبت دور کر رہا ہے اور کسی اقوام کو اونچا کر رہا ہے اور کسی کو نیچا کر رہا ہے “۔- ٣۔ اس میں یہود کا بھی رد ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں زمین و آسمان پیدا فرمائے اور ہفتہ کے دن آرام کیا ۔ فرمایا وہ ہر دن ہی نئی شان میں سے ہے ، اسے نہ تھکاوٹ ہوتی ہے نہ آرام کی ضرورت ہے۔- ٤۔ یونان کے فلسفی آسمانی ہدایت سے محروم تھے ، انہوں نے اللہ تعالیٰ کا وجود ماننے کے باوجود اپنے دیوتاؤں کی گاجائش نکالنے کے لیے ایک قاعدہ وضع کیا ، جو یہ تھا کہ ” ہر محل حوارث حادث ہوتا ہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ قدیم ہے ، ہمیشہ سے ہے ، اس لیے اس پر حوادث نہیں آسکتے ۔ “ افسوس بعض مسلمان متکلمین نے بھی ان کا یہ قاعدہ تسلیم کرلیا ۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کردیا ۔ بعض نے تاویل کی اور ایسی تاویل کی جو درحقیقت بدترین تحریف ہے ۔ مثلاً اللہ کی صفت کلام ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :” وَکَلَّمَ اللہ ُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا “ ( النسائ : ١٦٤)” اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا ، خود کلام کرنا “۔ اور فرمایا :(وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللہ ِ ) (التوبۃ : ٦) ” اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے ، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے “ ۔ اور فرمایا :(اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ) (یٰسین : ٨٢)” اس کا حکم تو ، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے ، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ” ہوجا “ تو وہ ہوجاتی ہے۔ “ یہ ساری کائنات اس کہ کلمہ کن سے وجود میں آئی ہے۔ ظاہر ہے کلام کا ہر لفظ حادث ہے ، پہلے موجود نہیں ہوتا ، پھر وجود میں آتا ہے، اس لیے متکلمین نے اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کردیا ۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے ، سنتا ہے ، اترتا ہے ، بلند ہوتا ہے ، خوش ہوتا ہے ، ناراض ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ صفات اور اس جیسی دوسری صفات اللہ تعالیٰ میں ہمیشہ سے ہیں ، ان کی انواع قدیم ہیں مگر افراد حادث ہیں ، ان کا اظہار مختلف اوقات میں ہوتا رہتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ جب چاہے کلام کرتا ہے ، نیچے اترتا ہے ، بلند ہوتا ہے ، پیدا کرتا ہے ، مارتا ہے ، ہر ایک کو ہر لمحے روزی بخشتا ہے ، ہر لمحے ہر ایک کو دیکھتا ہے، اس کی سنتا ہے ، اس کی ضرورت پوری کرتا ہے ، مگر یونانی فلسفیوں کی تقلید میں متکلمین نے اللہ تعالیٰ کو سننے ، یکھنے ، بولنے خوش ہونے ، ناراض ہونے ، غرض اس طرح کی تمام صفات سے عاری قرار دیا ۔ اس مقام بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کے سوال کو سنتا ہے اور ہر لمحے نئی سے نئی شان میں ہے ؟ اب ہم یونان کے کافر فلاسفر اور ان کے مقلد بعض متکلمین کی بات مانیں کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی نئی شان وارد نہیں ہوسکتی یا اللہ تعالیٰ کی بات پر ایمان رکھیں کہ وہ ہر لمحے ایک نئی سے نئی شان میں ہے ؟ ظاہر ہے جس کے دل میں ایمان ہے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی بات مانے گا ، خواہ کوئی فلسفی اسے مانے یا نہ مانے۔
يَسْـَٔـلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ، " یعنی زمین و آسمان کی ساری مخلوقات حق تعالیٰ کی محتاج ہیں اور اسی سے اپنی حاجات مانگتی ہیں، زمین والے اپنے مناسب حاجات رزق اور صحت و عافیت اور آرام و راحت پھر آخرت کی مغفرت و راحت اور جنت مانگتے ہیں، آسمان والے اگرچہ کھاتے پیتے نہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کے ہر وقت محتاج ہیں، وہ بھی رحمت و مغفرت وغیرہ اپنی حاجات کے طلب گار رہتے ہیں، آگے كُلَّ يَوْمٍ اسی يَسْـَٔـلُ کا ظرف ہے، یعنی ان کے سوالات اور درخواستیں حق تعالیٰ سے ہر روز رہتی ہیں اور یوم اور روز سے مراد بھی عرفی دن نہیں، بلکہ مطلقاً وقت مراد ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ساری مخلوقات مختلف خطوں، مختلف زبانوں میں اس سے اپنی اپنی حاجات ہر وقت مانگتی رہتی ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ پوری مخلوقات ارضی و سمائی اور ان کے ایک ایک فرد کی بیشمار حاجتیں اور وہ بھی ہر گھڑی ہر آن سوائے اس عظمت و جلال والے قادر مطلق کے کون سن سکتا ہے اور کون ان کو پورا کرسکتا ہے، اسی لئے كُلَّ يَوْمٍ کے ساتھ یہ بھی فرمایا هُوَ فِيْ شَاْنٍ یعنی ہر وقت ہر لحظہ حق تعالیٰ کی ایک خاص شان ہوتی ہے وہ کسی کو زندہ کرتا ہے، کسی کو موت دیتا ہے، کسی کو عزت دیتا ہے کسی کو ذلت دیتا ہے، کسی تندرست کو بیمار اور کسی بیمار کو تندرست کرتا ہے، کسی مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دیتا ہے کسی غم زدہ رونے والے کو ہنسا دیتا ہے، کسی سائل کو اس کی مانگی ہوئی چیز عطا کردیتا ہے، کسی کا گناہ معاف کر کے جنت میں داخل ہونے کا مستحق بنا دیتا ہے، کسی قوم کو بلندو صاحب اقتدار بنا دیتا ہے کسی قوم کو پست و ذلیل کردیتا ہے، غرض ہر آن ہر لمحہ حق تعالیٰ جل شانہ کی ایک خاص شان ہوتی ہے۔
يَسْـَٔـلُہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ ۭ كُلَّ يَوْمٍ ہُوَفِيْ شَاْنٍ ٢٩ ۚ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - شأن - الشَّأْنُ : الحال والأمر الذي يتّفق ويصلح، ولا يقال إلّا فيما يعظم من الأحوال والأمور . قال اللہ تعالی: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ، وشَأْنُ الرّأس جمعه : شَئُونٌ ، وهو الوصلة بين متقابلاته التي بها قوام الإنسان .- ( ش ء ن ) شان کے معنی حالت اور اس اتفاقی معاملہ کے ہیں جو کسی کے مناسب حال ہو ۔ اسکا اطلاق صرف اہم امور اور حالات پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے شان الراس کھوپڑی کی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کے ملنے کی جگہ جس سے انسان کا قوام ہے اسکی جمع شؤون آتی ہے ۔
(٢٩۔ ٣٠) اسی سے تمام فرشتے اور مومنین مانگتے ہیں، چناچہ زمین والے اس سے مغفرت کی توفیق عصمت و کرامت اور رزق مانگتے ہیں۔- وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے تمام امور اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جو کہ احاطہ اور شمار سے باہر ہیں چناچہ وہ ہی جلاتا اور مارتا ہے اور وہ ہی عزت و ذلت دیتا ہے وہی لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے اور وہی غلاموں کو رہا کراتا ہے، سو اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ٢٩ یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط ” اسی سے مانگتا ہے جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے۔ “- اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے اللہ ہی کے در کی سوالی ہے۔ ہر کسی کو وجود بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ ہر زندہ وجود کی زندگی بھی اسی کی دین ہے ‘ کسی مخلوق میں اگر کوئی صلاحیت ہے تو وہ بھی اسی کی بخشی ہوئی ہے اور تمام مخلوقات کے ایک ایک فرد کی ضرورتوں کا خبرگیر ونگہبان بھی وہی ہے ۔ اس حوالے سے سورة محمد کی آیت ٣٨ کے یہ الفاظ بہت واضح ہیں : وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُج کہ اللہ غنی اور بےنیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو۔ یعنی تمہارا وجود ‘ تمہاری زندگی ‘ تمہاری صلاحیتیں ‘ غرض تمہارا سب کچھ اسی کا عطا کردہ ہے۔ تم اپنے تمام تر وسائل سے بس وہی کچھ کرسکتے ہو جس کی وہ اجازت دیتا ہے اور صرف اسی قدر جان سکتے ہو جس قدر وہ چاہتا ہے۔ اس کی مخلوق کے تمام افراد پر یہ حقیقت واضح ہونی چاہیے : وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلاَّ بِمَا شَآئَج (البقرۃ : ٢٥٥) کہ وہ سب کے سب اس کے احاطہ علم میں مقید و محصور ہیں اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ‘ مگر اسی قدر جس قدر وہ چاہتا ہے۔ - کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَاْنٍ ۔ ” ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے۔ “- ہر دن اس کی ایک نئی شان کا ظہور ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر امر کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر سورة السجدۃ میں بایں الفاظ آیا ہے : یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ۔ ” وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ (امر) چڑھتا ہے اس کی طرف ‘ (یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے) ایک دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار برس ہے “۔ یعنی کائنات اور مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فارغ ہو کر نہیں بیٹھ گیا ‘ بلکہ اس کائنات کے نظام اور ارض و سماء میں پھیلی ہوئی مخلوقات سے متعلق تمام امور کو وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی تدبیر سے چلا رہا ہے۔ اس تدبیر کی منصوبہ بندی کے لیے اس کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ چناچہ اس کے ہاں ایک ایک دن کی منصوبہ بندی ہوتی ہے ‘ اہم فیصلے کیے جاتے ہیں ‘ احکام جاری ہوتے ہیں ‘ ان احکام کی تعمیل و تنفیذ عمل میں لائی جاتی ہے اور پھر جائزہ رپورٹیں اسے پیش کی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر دن کے لیے اس کی نئی شان ہے اور نئی مصروفیات
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :27 یعنی ہر وقت اس کار گاہ عالم میں اس کی کارفرمائی کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے ، کسی کو مار رہا ہے اور کسی کو جلا رہا ہے ۔ کسی کو اٹھا رہا ہے اور کسی کو گرا رہا ہے ۔ کسی کو شفا دے رہا ہے اور کسی کو بیماری میں مبتلا کر رہا ہے ۔ کسی ڈوبتے کو بچا رہا ہے اور کسی تیرتے کو ڈبو رہا ہے ۔ بے شمار مخلوقات کو طرح طرح سے رزق دے رہا ہے ۔ بے حد و حساب چیزیں نئی سے نئی وضع اور شکل اور اوصاف کے ساتھ پیدا کر رہا ہے ۔ اس کی دنیا کبھی ایک حال پر نہیں رہتی ۔ ہر لمحہ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور اس کا خالق ہر بار اسے ایک نئی صورت سے ترتیب دیتا ہے جو پچھلی تمام صورتوں سے مختلف ہوتی ہے ۔
5: یعنی ہر رواز اور ہر آن وہ اپنی کائنات کی تدبیر اور اپنی مخلوقات کی حاجت روائی میں اپنی کسی نہ کسی شان یا صفت کا مظاہرہ فرماتا رہتا ہے۔