Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی زمین میں انصاف رکھا، جس کا اس نے لوگوں کو حکم دیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] میزان کا مفہوم :۔ اس آیت میں میزان سے اکثر مفسرین نے میزان عدل مراد لی ہے۔ جس کے سہارے یہ زمین و آسمان قائم ہیں جیسا کہ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ اس صورت میں ان کے عدل سے مراد وہ توازن و تناسب ہے۔ جو ہر سیارے میں قوت جاذبہ یعنی کشش ثقل اور مرکز گریز قوت کے درمیان رکھ دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ہر سیارے کا درمیانی فاصلہ، ان کی رفتار اور ان میں باہمی تعلق بھی شامل ہے اور یہ اتنا لطیف اور خفیف تعلق ہے جو انسان کی سمجھ سے باہر ہے اور اس توازن و تناسب کو میزان کے لفظ سے اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ انسان کو سمجھانے کے لیے اس لفظ کے مفہوم کے قریب تر کوئی لفظ نہ تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا : یہاں بھی ” رفع السمائ “ کے بجائے ” والسماء رفعھا “ میں آسمان کو پہلے لا کر اس کی اہمیت کی طرف اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اسے بلند کرنا اس اکیلے کا کام ہے ، کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں ، پھر کسی اور کی پرستش کیوں ہو ؟ آسمان کو اونچا اٹھانے میں اس کے پیدا کرنے کا ذکر خود بخود آگیا ۔ اونچا اٹھانے کا ذکر خاص طورپر اس لیے فرمایا کہ اتنے بڑے آسمان کو اس طرح ستونوں کے بغیر پیدا کرنا اور اسے اتنا بلند بنایا بےحد تعجب انگیز ہے کہ اس کے نیچے سورج، چاند اور ان سے ہزاروں گنا بڑے ستیاروں پر مشتمل کہکشائیں محو گردش ہیں ، نہ انہیں راستے میں کسی ستون کی رکاوٹ پیش آتی ہے ، نہ ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے سے ان کی روشنی زمین پر آنے کے درمیان کوئی چیز حائل ہوتی ہے۔- ٢۔ وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ :” المیزان “ ” وزن “ سے ” مفعال “ کے وزن پر ہے جو اصل میں ” موزان “ ہے ، وزن کا آلہ ۔” وزن “ چیزوں کے ایک دوسرے کے مقابلے میں برابر کم و بیش ہونے کے اندازے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی ہر چیز کی مقدار معلوم کرنے کے لیے میزان کا طریقہ سکھایا ۔ اس میزان میں ہر قسم کے پیمانے آجاتے ہیں ، وزن ، کیل ، مساحت ، حرارت ، برودت ، دباؤ ، نمی ، غرض ہزارہا قسم کے پیمانے بنانے کا سلیقہ عطاء فرمایا ، جن سے وہ اپنے معاملات درست اور بہتر سے بہتر طریقے کے ساتھ چلاتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی کام بھی درست انجام نہیں پاسکتا، پھر انہی پیمانوں کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے لین دین کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو دلی اطمینان کے ساتھ باہمی لین دین ممکن نہیں تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ ، رفع اور وضع دو متقابل لفظ ہیں، رفع کے معنی اونچا اور بلند کرنے کے ہیں اور وضع کے معنی نیچے رکھنے اور پست کرنے کے آتے ہیں، اس آیت میں اول آسمان کو بلند کرنے اور رفعت دینے کا ذکر ہے، جس میں ظاہری بلندی بھی داخل ہے اور معنوی یعنی درجہ اور رتبہ کی بلندی بھی کہ آسمان کا درجہ زمین کی نسبت بالا و برتر ہے، آسمان کا مقابل زمین سمجھی جاتی ہے اور پورے قرآن میں اسی تقابل کے ساتھ آسمان و زمین کا ذکر کیا گیا ہے اس آیت میں رفع سماء کا ذکر کرنے کے بعد وضع میزان کا ذکر کیا گیا ہے جو آسمان سے تقابل میں نہیں آتا، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی درحقیقت آسمان کے تقابل میں زمین کو لایا گیا ہے جیسا کہ تین آیتوں کے بعد (وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا لِلْاَنَامِ ) آیا ہے، تو دراصل تقابل رفع سماء اور وضع ارض ہی کا ہے، مگر ان دونوں کے درمیان ایک تیسری چیز یعنی وضع میزان کا ذکر کسی خاص حکمت سے کیا گیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمت اس میں یہ ہے کہ وضع میزان اور پھر اس کے بعد میزان کے صحیح صحیح استعمال کا حکم جو بعد کی تین آیتوں میں آیا ہے اس سب کا خلاصہ عدل و انصاف کا قائم کرنا ہے اور کسی کی حق تلفی اور ظلم وجور سے بچانا ہے، یہاں رفع سماء اور وضع ارض کے درمیان آیات میزان کے ذکر میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق کی اصلی غایت و مقصود بھی عالم میں عدل و انصاف کا قیام ہے اور زمین میں امن وامان بھی عدل و انصاف ہی کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے، ورنہ فساد ہی فساد ہوگا، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔- لفظ میزان کی تفسیر اس آیت میں حضرت قتادہ، مجاہد، سدی وغیرہ نے عدل سے کی ہے، کیونکہ میزان کا اصل مقصد عدل ہی ہے اور بعض حضرات مفسرین نے یہاں میزان کو اپنے معروف معنی میں لیا ہے اور حاصل اس کا بھی وہی ہے کہ حقوق میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے اور میزان کے معنی میں ہر وہ آلہ داخل ہے جس سے کسی چیز کی مقدار معین کی جائے، خواہ وہ دو پلے والی ترازو ہو یا کوئی جدید آلہ پیمائش۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ۝ ٧ ۙ- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - ميز - المَيْزُ والتَّمْيِيزُ : الفصل بين المتشابهات، يقال : مَازَهُ يَمِيزُهُ مَيْزاً ، ومَيَّزَهُ تَمْيِيزاً ، قال تعالی: لِيَمِيزَ اللَّهُ [ الأنفال 37] ، وقرئ : لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ والتَّمْيِيزُ يقال تارة للفصل، وتارة للقوّة التي في الدّماغ، وبها تستنبط المعاني، ومنه يقال : فلان لا تمييز له، ويقال : انْمَازَ وامْتَازَ ، قال : وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس 59] وتَمَيَّزَ كذا مطاوعُ مَازَ. أي : انْفَصَلَ وانْقَطَعَ ، قال تعالی: تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک 8] .- ( م ی ز ) المیر والتمیز کے معنی متشابہ اشیاء کو ایک دوسری سے الگ کرنے کے ہیں ۔ اور مازہ یمیزہ میزا ومیزاہ یمیزا دونوں ہم معنی ہیں چناچہ فرمایا ۔ لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ایک قراءت میں لیمیز اللہ الخبیث ہے ۔ التمیز کے معنی الگ کرنا بھی آتے ہیں اور اس ذہنی قوت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان لا تمیز لہ فلاں میں قوت تمیز نہیں ہے ۔ انما ز اور امتاز کے معنی الگ ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس 59] اور آج الگ ہوجاؤ اور تمیز کذا ( تفعل ) ماز کا مطاوع آتا ہے اور اس کے معنی الگ اور منقطع ہونے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک 8] گو یا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اسی نے آسمان کو سب سے اونچا کیا ہے کہ اس تک کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی اور اسی نے زمین میں عدل و انصاف کے قائم رکھنے کے لیے ترازو رکھ دی تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ وَالسَّمَآئَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ ۔ ” اور آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کی۔ “- یہاں میزان سے مراد کائناتی نظام کے اندر پایا جانے والا مربوط اور خوبصورت توازن ( ) ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات قائم ہے۔ یہ توازن تمام اجرامِ سماویہ کے اندر موجود کشش ثقل ( ) کی وجہ سے قائم ہے۔ تمام اجرامِ فلکی اس کشش کی وجہ سے آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ قدرت کی طرف سے ہر ُ کرے ّکا دوسرے کرے سے فاصلہ ‘ اس کی کشش کی طاقت کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ اگر کہیں یہ فاصلہ ایک طرف سے معمولی سا کم ہوجائے اور دوسری طرف سے معمولی سا بڑھ جائے تو یہ سارا نظام تلپٹ ہوجائے اور تمام کرے آپس میں ٹکرا جائیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تمام چیزوں میں ایک توازن قائم کر رکھا ہے۔ -

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :7 قریب قریب تمام مفسرین نے یہاں میزان ( ترازو ) سے مراد عدل لیا ہے ، اور میزان قائم کرنے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اس پورے نظام کو عدل پر قائم کیا ہے ۔ یہ بے حد و حساب تارے اور سیارے جو فضا میں گھوم رہے ہیں ، یہ عظیم الشان قوتیں جو اس عالم میں کام کر رہی ہیں ، اور یہ لا تعداد مخلوقات اور اشیاء جو اس جہاں میں پائی جاتی ہیں ، ان سب کے درمیان اگر کمال درجہ کا عدل و توازن نہ قائم کیا گیا ہوتا تو یہ کارگاہ ہستی ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتی تھی ۔ خود اس زمین پر کروڑوں برس سے ہوا اور پانی اور خشکی میں جو مخلوقات موجود ہیں ان ہی کو دیکھ لیجیے ۔ ان کی زندگی اسی لیے تو برقرار ہے کہ ان کے اسباب حیات میں پورا پورا عدل اور توازن پایا جاتا ہے ، ورنہ ان اسباب میں ذرہ برابر بھی بے اعتدالی پیدا ہو جائے تو یہاں زندگی کا نام و نشان تک باقی نہ رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani