8۔ 1 یعنی انصاف سے تجاوز نہ کرو۔
اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِِ : اس سے پہلے ” لام “ جارہ محذوف ہے :” ای لئلا تطغوا “ یعنی اس نے میزان اس لیے بنایا ہے کہ تم ہر معاملے میں وزن کرتے ہوئے صحیح وزن کرو ، کمی بیشی مت کرو، کیونکہ یہ حد سے تجاوز ہے۔
اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ ، پہلی آیت میں جو میزان پیدا کرنے کا ذکر تھا اس جملے میں اس کے مقصد کو واضح کیا گیا ہے، تطغوا، طغیان سے مشتق ہے، جس کے معنی بےانصافی اور ظلم کے ہیں، مراد یہ ہے کہ میزان کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بنایا کہ تم وزن میں کمی بیشی کر کے ظلم و جور میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔
اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ ٨- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک روکھو یا یہ کہ اپنی زبانوں کو سچائی کے ساتھ ٹھیک رکھو اور تول میں کمی مت کرو کہ اس سے لوگوں کے حق مارنا شروع کردو۔
آیت ٨ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْْمِیْزَانِ ۔ ” تاکہ تم میزان میں زیادتی مت کرو۔ “- اس کائناتی توازن کا تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات میں رہتے ہوئے تم بھی عدل و انصاف پر قائم رہو۔