[٧] یعنی پیغمبروں پر ایمان لانے میں، ان کے ساتھ حق و باطل کے معرکہ میں، مصائب کے برداشت کرنے میں اور ہر خیر اور بھلائی کے کام میں دوسروں سے سبقت کرنے والے اور آگے نکل جانے والوں کا درجہ عام مومنین صالحین سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا یہی لوگ اللہ کے مقربین میں سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سب سے آگے یہی لوگ ہوں گے پھر ان کے بعد دائیں جانب صالحین مومنین اور بائیں جانب کافر و مشرک، سرکش اور خود سر یعنی اہل دوزخ ہوں گے۔
اُولٰٓـئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ : یعنی ایمان لانے میں اور ہر خبر کے کام میں دوسروں سے سبقت لے جانے والوں کا د رجہ بھی عام اہل ایمان سے زیادہ ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ کا خاص قرب بھی انہی کو حاصل ہوگا اور انہیں ملنے والی جنت اصحاب الیمین کو ملنے والی جنت سے درجے اور نعمتوں میں افضل ہوگی، جیسا کہ اس سے پہلے سورة ٔ میں گزرا ہے اور یہاں بھی ” علی سرر موضونۃ “ سے اس کی تفصیل آرہی ہے ۔” جنت النعیم “ کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ صافات (٤٣)
اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ ١١ ۚ- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] .- وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔
آیت ١ ١ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ ” وہی تو بہت مقرب ہوں گے۔ “- یعنی تیسرا گروہ مقربین بارگاہ پر مشتمل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے قرب سے نوازنا چاہتا ہے اور اس کے لیے قرآن میں جابجا ترغیبی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ سورة المائدۃ میں تو امر کے صیغے میں فرمایا گیا : وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ (آیت ٣٥) کہ تم اس کا قرب تلاش کرو اور اس کے لیے اس کی راہ میں جہاد کرو۔ ظاہر ہے جو کوئی اللہ کی راہ میں جان و مال کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور اپنے مقربین میں شامل فرمائیں گے۔