[١٥] مَخْضُوْدٍ ۔ خَضَدَ (الشجر) کسی خاردار درخت کے کانٹے توڑ کر یا کاٹ کر اسے بےخار بنادینا۔ صاف کردینا۔ کہتے ہیں کہ بیری کے درخت کے کانٹے جتنے کم ہوں اتنا ہی اس کا پھل اچھا اور مزے دار ہوتا ہے اور جنت کی بیریاں بالکل بےخار ہوں گی۔ یعنی ان بیریوں کا پھل دنیا کی بیریوں جیسا نہیں بلکہ بہت لذیذ ہوگا۔
فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ :” سدر “ ( بیری) اسم جنس ہے جو ایک اور زیادہ سب پر بولا جاتا ہے۔ لفظ مفرد ہونے کی وجہ سے صفت ” مخضود “ مفرد آئی ہے۔ ” طلح منضود “ بھی اسی طرح ہے۔ ایک بیری کہنا ہو تو ” سدرۃ “ کہتے ہیں ۔ ” خضدا “ (ض) ” الشجر “ درخت کے کاٹنے کاٹ دینا ۔ دنیا کی بیریوں میں کاٹنے ہوتے ہیں ، جنت کے بیری کے درختوں میں کاٹنے نہیں ہوں گے۔ اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ عرب بیری سے آشنا تھے ، کیونکہ ان کے بادیہ میں یہ درخت بہت ہوتا ہے ، مگر اکثر خاردار ہوتا ہے۔ باغوں میں کاشت کیے جانے والے درختوں کے کاٹنے کم اور پھل لذیز ہوتا ہے ، پھر کاٹنے جتنے کم ہوں گے پھل اتنا ہی زیادہ لذیز اور نفیس ہوتا ہے۔ جنت کی بیریوں میں کانٹے بالکل نہیں ہوں گے اور حقیقت یہ ہے کہ جنت کے پھلوں کے صرف نام دنیا کے پھلوں والے ہیں ، ان کے ذائقے ، لذت اور نفاست سے دنیا کے پھلوں کی کوئی نسبت نہیں۔
فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ ۔ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ ۔ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ۔ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ ، جنت کی نعمتیں بیشمار اور بےمثال و بےقیاس ہیں، ان میں سے جو نعمتیں قرآن کریم ذکر کرتا ہے وہ مخاطبین کے انداز فکر اور ان کی محبوب و پسندیدہ چیزوں کا ذکر کرتا ہے، عرب کے لوگ جن تفریحات اور جن پھلوں کے خوگر تھے، یہاں ان میں سے چند کا ذکر کیا گیا ہے۔ فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ ، سدر بیری کے درخت کو کہتے ہیں، مخضود وہ بیری جس کے کانٹے قطع کردیئے گئے ہوں اور پھل کے بوجھ سے شاخ جھکی ہوئی ہو اور یہ جنت کے بیر دنیا کے بیروں کی طرح نہیں ہوں گے، بلکہ یہ بیر مٹکوں کے برابر بڑے اور ذائقہ میں بھی دنیا کے بیر سے اس کی کوئی نسبت نہیں (کذا فی الحدیث) طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ ، طلح کیلے کا درخت۔ منضود، جس کے پھل تہہ بر تہہ ہوں، جیسے کیلے کے چرخوں میں ہوتے ہیں، ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ، دراز سایہ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ جنت کے بعض درختوں کا سایہ اتنا دراز ہوگا کہ گھوڑے سوار آدمی اس کو سو سال میں بھی قطع نہ کرسکے گا، وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ جاری پانی جو سطح زمین پر بہتا ہو۔
فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ ٢٨ ۙ- سدر - السِّدْرُ : شجر قلیل الغناء عند الأكل، ولذلک قال تعالی: وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ 16] ، وقد يخضد ويستظلّ به، فجعل ذلک مثلا لظلّ الجنة ونعیمها في قوله تعالی:- فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة 28] ، لکثرة غنائه في الاستظلال، وقوله تعالی: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم 16] ، فإشارة إلى مکان اختصّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فيه بالإفاضة الإلهية، والآلاء الجسیمة، وقد قيل : إنها الشجرة التي بویع النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم تحتها»، فأنزل اللہ تعالیٰ السّكينة فيها علی المؤمنین، والسّدر : تحيّر البصر، والسَّادِرُ : المتحيّر، وسَدَرَ شَعْرَهُ ، قيل : هو مقلوب عن دَسَرَ.- ( س د ر ) السدر ( بیری کا ) درخت جس کا پھل بہت کم غذائیت کا کام دیتا ہے ۔ اسی بنا پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ 16] اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں ۔ اور کبھی ( گابھا دے کر ) اسے بےکانٹا کر کے اس سے یہ حاصل کیا جاتا ہے اس لئے اسے جنت کے آرام اور اس کی نعمتوں کے لئے بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة 28] بےخار کی بیریوں میں ( مزے کر رہے ) ہوں گے ۔ کیونکہ ایسا درخت بہت زیادہ سایہ دار ہوتا ہے اور آیت : ۔ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم 16] جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ۔ میں السدرۃ سے اس مقام کی طرف اشارہ ہے جہاں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیوضات الہیہ اور بھاری انعامات سے خاص طور پر نوازا گیا تھا بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ درخت ہے جس کے نیچے آنحضرت نے بیعت رضوان لی تھی اور وہاں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر سکینت الہیہ نازل فرمائی تھی ۔ السدر کے معنی خیرہ چشم ہونے کے ہیں اور خیرہ چشم کو سادر کہا جاتا ہے اور سدر شعرہ کے معنی بال لٹکانے کے ہیں ۔ بعض کے نزدیک یہ ( دسر ) سے مقلوب ہے ۔- خضد - قال اللہ : فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة 28] ، أي : مکسور الشّوك، يقال : خَضَدْتُهُ فانخضد، فهو مخضود وخضید، والخَضْدُ : المخضود، کالنّقض في المنقوض، ومنه استعیر : خَضَدَ عُنُقَ البعیر، أي : كسر .- ( خ ض د ) خضدتہ فانخضد کے معنی ہیں میں نے درخت کے کانٹے توڑے چناچہ وہ ٹوٹ گئے اور ایسے درخت کو جس کے کانٹے توڑ دیئے گئے ہوں اسے مخضود اور خضد کہاجاتا ہے جیسے فرمایا :۔ فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة 28]( یعنی ) بےخار کی بیر یوں میں ۔ اور خضد بمعنی مخضود آتا ہے جیسے نقض بمعنی منقوض اور اسی سے استعارہ خضد عتق البعیر کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اس نے اونٹ کی گردن توڑ ڈالی ۔
(٢٨۔ ٤٠) وہ بغیر کانٹوں کے بیریوں کے سایہ میں ہوں گے اور تہ بہ تہ کیلے ہوں گے اور کہا گیا ہے کہ ہمیشہ کے لیے ہوں گے اور بغیر سورج کے درختوں کا ان پر ہمیشہ کے لیے سایہ ہوگا یا یہ کہ عرش خداوندی کا ان پر سایہ ہوگا۔- اور عرش سے چلتا ہوا پانی ہوگا اور مختلف قسم کے کثرت سے میوے ہوں گے جو ختم نہیں ہوں گے اور جس وقت وہ میووں کی طرف دیکھیں گے تو ان سے ان کو روکا بھی نہ جائے گا اور جنتیوں کے لیے فضا میں اونچے اونچے فرش ہوں گے۔ اور ہم نے وہاں دنیاوی عورتوں کو بیماری اور موت اور عجز کے بعد خاص طور پر بنایا ہے یعنی ہم نے ان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ کنواریاں ہیں حرکات و شمائل حسن و جمال سب چیزیں ان کی دلکش ہیں اور وہ اپنے خاوندوں کی محبوبائیں ہیں۔- اور اہل جنت کی ہم عمر ہیں یعنی سب کی عمر تینتیس سال کے برابر ہوگی یہ سب چیزیں جنت والوں کے لیے ہیں اور سب کے سب جنتی ہیں۔ ان میں ایک بڑا گروہ رسول اکرم کی امت سے پہلے اور تمام امتوں میں سے ہوگا اور ایک بڑا گروہ بعد والی امتوں میں سے ہوگا اور وہ سب کے سب رسول اکرم کے امتی ہوں گے اور کہا گیا ہے کہ وہ تہائی دونوں گروہوں کا رسول اکرم کی امت سے ہوگا۔
آیت ٢٨ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ ۔ ” وہ ہوں گے بیری کے درختوں میں جن میں کانٹے نہیں ہوں گے۔ “
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :15 یعنی ایسی بیریاں جن کے درختوں میں کانٹے نہ ہوں گے ۔ ایک شخص تعجب کا اظہار کر سکتا ہے کہ بیر ایسا کونسا نفیس پھل ہے جس کے جنت میں ہونے کی خوشخبری سنائی جائے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جنت کے بیروں کا تو کیا ذکر ، خود اس دنیا کے بھی بعض علاقوں میں یہ پھل اتنا لذیذ خوشبو دار اور میٹھا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ منہ کو لگنے کے بعد اسے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اور بیر جتنے اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں ، ان کے درختوں میں کانٹے اتنے ہی کم ہوتے ہیں ۔ اسی لیے جنت کے بیروں کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ ان کے درخت بالکل ہی کانٹوں سے خالی ہوں گے ، یعنی ایسی بہترین قسم کے ہوں گے جو دنیا میں نہیں پائی جاتی ۔
6: جنت کے پھلوں کے نام تو ہمارے سمجھانے کے لئے وہی ہیں جنہیں ہم دنیا میں جانتے ہیں، لیکن ان کی کیفیت ان کی لذت اور ان کا حجم ہر چیز یہاں سے کہیں زیادہ خوشنما اور لذیذ ہوگی، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ بیری کادرخت تو عام طور سے تکلیف دہ ہی ہوتا ہے قرآن کریم نے اس کا تذکرہ کیسے فرمایا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کانٹوں سے پاک ہوگا ؟ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہر کانٹے کی جگہ ایک پھل پیدا فرمائیں گے اور اس ایک پھل میں بہتر قسم کے ذائقے ہوں گے اور کوئی ذائقہ دوسرے سے ملتا جلتا نہیں ہوگا۔ (روح المعانی بحوالہ حاکم و بیھقی، و صححہ الحاکم)