3 3 1یعنی یہ پھل موسمی نہیں ہونگے کہ موسم گزر گیا تو پھل بھی آئندہ فصل تک ناپید ہوجائیں، یہ پھل اس طرح فصل گل و لالہ کے پابند نہیں ہونگے، بلکہ بہار و خزاں اور گرمی و سردی ہر موسم میں دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ان کے حصول کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
[١٨] یعنی نہ تو جنت کے پھلوں کی سپلائی کسی وقت بند ہوگی جس طرح دنیا میں پھل اپنے موسم میں ہی مل سکتے ہیں۔ آگے پیچھے نہیں ملتے۔ اور نہ ہی ان کو حاصل کرنے، توڑنے یا کھانے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیش آئے گی۔
ا مَقْطُوْعَۃٍ “: دنیا میں ہر پھل کا ایک موسم ہے ، اس کے بعد وہ ختم ہوجاتا ہے ، اسی طرح اس کا ایک علاقہ ہے دوسرے علاقے میں نہیں ملتا ۔ جنت کے پھل ایسے نہیں کہ کسی موسم یا کسی جگہ میں نہ ملیں ، بلکہ وہ ہر جگہ اور ہر وقت تیار ملیں گے۔- ٢۔ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ : دنیا میں پھلوں کے حصول میں کئی رکاوٹیں ہوتی ہیں ، مثلاً یہ کہ کسی اور کی ملکیت ہیں ، خریدنے کے لیے قیمت موجود نہیں ، اپنے بھی ہیں تو ابھی تیار نہیں یا درختوں سے اتارنا مشکل ہے۔ جنت کے پھلوں کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ، ان کی ملکیت وراثتی ملکیت ہے اور دائمی ہے، فرمایا :(اُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْوٰرِثُوْنَ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَط ہُمْ فِیْہَا خٰـلِدُوْنَ ) المومنون : ١٠، ١١) ” یہ لوگ ہیں جو وارث ہیں ۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے ، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ “ اور اس کے پھل ہر وقت تیار ہیں اور ہر طرح کھانے والوں کی دسترس میں ہیں۔
لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ ٣٣ ۙ- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معنی محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔
آیت ٣٣ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ ۔ ” نہ ٹوٹے ہوئے اور نہ ہی پہنچ سے باہر۔ “- جنت کے پھل درختوں سے توڑ کر انہیں پیش نہیں کیے جائیں گے بلکہ جب وہ پھل حاصل کرنا چاہیں گے درخت خود ان کے سامنے جھک جائیں گے ۔ تمام پھل بکثرت بےروک ٹوک ملیں گے۔ کوئی پھل ایسا نہیں ہوگا جو ان کی پہنچ سے باہر ہو یا اسے کھانا ممنوع قرار دیا گیا ہو۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :16 اصل الفاظ ہیں لَا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ : لا مقطوعہ سے مراد یہ ہے کہ یہ پھل نہ موسمی ہوں گے کہ موسم گزر جانے کے بعد نہ مل سکیں ، نہ ان کی پیداوار کا سلسلہ کبھی منقطع ہوگا کہ کسی باغ کے سارے پھل اگر توڑ لیے جائیں تو ایک مدت تک وہ بے ثمر رہ جائے ، بلکہ ہر پھل وہاں ہر موسم میں ملے گا اور خواہ کتنا ہی کھایا جائے ، لگاتار پیدا ہوتا چلا جائے گا ۔ اس لا ممنوعہ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے باغوں کی طرح وہاں کوئی روک ٹوک نہ ہو گی ، نہ پھلوں کے توڑنے اور کھانے میں کوئی امر مانع ہو گا کہ درختوں پر کانٹے ہونے یا زیادہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے توڑنے میں کوئی زحمت پیش آئے ۔