3 9 1یعنی آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کے لوگوں میں سے یا خود امت محمدیہ کے اگلوں میں سے۔
ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ : یعنی اصحاب الیمین پہلی امتوں میں سے بہت بڑی جماعت ہوں گے اور آخری امت سے بھی بہت بڑی جماعت ہوں گے۔ اس میں یہ وضاحت نہیں کہ دونوں میں سے کون سی جماعت تعداد میں دوسری سے زیادہ ہوگی ، یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح فرمائی ہے ، عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں :(کا مع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قبۃ نحوا من اربعین رجلا فقال اترضون ان تکونوا ربع اھل الجنۃ قال قلنا نعم ، قلنا اترضون ان تکونوا ثلث اھل الجنۃ ؟ فقلنا نعم ، فقال والذی نفسی بیدہ انی لارجو ان تکونو نصف اھل الجنۃ واذلک ان الجنۃ لا یدخلھا الا نفس مسلمۃ وما انتم فی اھل الشرک الا کا لشعرۃ البیضاء فی جلد الثور الاسود او کا لشعرۃ السوداء فی جلد الثور الاحمر) ( مسلم ، الایمان ، باب کون ھذہ الامۃ نصف اھل الجنۃ : ٣٧٧، ٣٢١)” ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک خیمہ میں تقریباً چالیس آدمی تھے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو ؟ “ ہم نے کہا : ” ہاں “ پھر فرمایا :” کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا تیسرا حصہ ہو ؟ “ ہم نے کہا :” ہاں “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل ِ جنت کا نصف ہوگے اور یہ اس لیے کہ جنت میں مسلمان کے سوا کوئی نہیں جائے گا ۔ اور مشرکوں کے مقابلے میں تمہاری تعداد اتنی ہی ہے جتنی سیاہ بیل کی جلد میں ایک سفید بال یا سرخ بیل کی جلد میں ایک سیاہ بال “۔
ۉثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ، ثلة میں معنی بڑی جماعت اور اولین و آخرین کی تفسیر میں حضرات مفسرین کے دو قول اوپر سابقون کے بیان میں مذکور ہوچکے ہیں، اگر اولین سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) سے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے تک کے حضرات اور آخرین سے آپ کی امت تا قیامت ہے، جیسا کہ بعض مفسرین نے فرمایا تو اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ اصحاب الیمین یعنی مومنین متقین کی تعداد پچھلی امتوں کے مجموعہ میں ایک بڑی جماعت ہوگی اور تنہا امت محمدیہ میں ایک بڑی جماعت ہوگی، اس صورت میں اول تو امت محمدیہ کی فضیلت کے لئے یہ بھی کچھ کم نہیں کہ پچھلے لاکھوں انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں کی برابر یہ امت ہوجائے جس کا زمانہ بہت مختصر ہے، اس کے علاوہ لفظہ ثلہ میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ یہ ثلہ آخرین تعداد اولین سے بڑھ جائے گا۔- اور اگر دوسری تفسیر مراد لی جائے کہ اولین و آخرین دونوں اسی امت کے مراد ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے بغوی نے اور حضرت ابوبکرہ سے مسدد، طبرانی اور ابن مردویہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ ہما من امتی یعنی یہ اولین و آخرین میری امت ہی کے دو طبقے ہیں، اس معنی کے لحاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ سابقین اولین صحابہ وتابعین وغیرہ جیسے حضرات سے بھی یہ امت آخر تک بالکل محروم نہ ہوگی اگرچہ آخری دور میں ایسے لوگ کم ہوں گے اور مومنین و متقین و اولیاء اللہ تو اس پوری امت کے اول و آخر میں بھاری تعداد میں رہیں گے اور امت محمدیہ کا کوئی دور کوئی طبقہ اصحاب الیمین سے خالی نہ رہے گا اس کی شہادت اس حدیث سے بھی ملتی ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں حضرت معاویہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور ہزاروں مخالفتوں کے نرغے میں بھی وہ اپنا رشد و ہدایت کا کام کرتی رہے گی، اس کو کسی کی مخالفت نقصان نہ پہنچا سکے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہونے تک یہ جماعت اپنے کام میں لگی رہے گی۔
ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ٣٩ ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ ٤٠ ۭ- ثل - الثَّلَّة : قطعة مجتمعة من الصوف، ولذلک قيل للمقیم ثلّة، ولاعتبار الاجتماع قيل : ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ [ الواقعة 39- 40] ، أي : جماعة ، وثللت کذا : تناولت ثلّة منه، وثلّ عرشه : أسقط ثلة منه، والثلل . قصر الأسنان لسقوط ثلة منه، وأثلّ فمه :- سقطت أسنانه، وتثللت الرکية، أي : تهدّمت .- ( ث ل ل ) الثلۃ ( بفتح الثاء ) کے اصل معنی اون کے ڈھیر کے ہیں اس لئے بھیڑبکریوں کے ریوڑ کو بھی ثلۃ کہا جاتا ہے اور معنی اجتماع کے اعتبار سے آدمیوں کی جماعت کو ثلۃ ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ [ الواقعة 39- 40]( یہ ) بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے ہیں اور بہت سے پچھلوں میں سے ۔ ثللث کذا میں نے اس سے کافی مقدار لی ۔ ثل عرشہ اس کی حکومت برباد کردی ۔ اس کی عزت ضائع کردی ۔ الثلل دانتوں کا گرنا ۔ اسی سے اثل فنہ کا محاورہ ہے جس کے معنی دانت گرنے کے ہیں ۔ تثللت الرکیۃ کنوان منہدم ہوکر پٹ گیا ۔
آیت ٣٩ ثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ ۔ ” جو پہلوں میں سے بھی بہت ہوں گے۔ “