اصحاب شمال اور عذاب الٰہی اصحاب یمین کا ذکر کرنے کے بعد اصحاب شمال کا ذکر ہو رہا ہے فرماتا ہے ان کا کیا حال دھوئیں کے سخت سیادہ سائے میں جیسے اور جگہ آیت ( اِنْــطَلِقُوْٓا اِلٰى مَا كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ 29ۚ ) 77- المرسلات:29 ) فرمایا ہے یعنی اس دوزخ کی طرف چلو جسے تم جھٹلاتے تھے ۔ چلو تین شاخوں والے سایہ کی طرف جو نہ گھنا ہے نہ آگ کے شعلے سے بچا سکتا ہے ، وہ دوزخ محل کی اونچائی کے برابر چنگاریاں پھینکتی ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ سرد اونٹنیاں ہیں ۔ آج تکذیب کرنے والوں کی خرابی ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ یہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں عمل نامہ دیا گیا ہے یہ سخت سیاہ دھوئیں میں ہوں گے جو نہ جسم کو اچھا لگے نہ آنکھوں کو بھلا معلوم ہو ، یہ عرب کا محاورہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ برائی بیان کر لی ہو وہاں اس کا ہر ایک برا وصف بیان کر کے اس کے بعد ( ولا کریم ) کہدیتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ بیان فرمایا ہے یہ لوگ ان سزاؤں کے مستحق اس لئے ہوئے کہ دنیا میں جو اللہ کی نعمتیں انہں ملی تھیں ان میں یہ سست ہو گئے ۔ رسولوں کی باتوں کی طرف نظر بھی نہ اٹھائی ۔ بدکاریوں میں پڑ گئے اور پھر توبہ کی طرف دلی توجہ بھی نہ رہی ۔ ( حنث عظیم ) سے مراد بقول حضرت ابن عباس کفر شرک ہے ، بعض کہتے ہیں جھوٹی قسم ہے ، پھر ان کا ایک اور عیب بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کا ہونا بھی محال جانتے تھے ، اس کی تکذیب کرتے تھے اور عقلی استدلال پیش کرتے تھے کہ مر کر مٹی میں مل کر پھر بھی کہیں کوئی جی سکتا ہے؟ انہیں جواب مل رہا ہے کہ تمام اولاد آدم قیامت کے دن نئی زندگی میں پیدا ہو کر اور ایک میدان میں جمع ہوگی ، کوئی ایک وجود بھی ایسا نہ ہوگا جو دنیا میں آیا ہو اور یہاں نہ ہو ، جیسے اور جگہ ہے اس دن سب جمع کر دیئے جائیں گے یہ حاضر باشی کا دن ہے ، تمہیں دنیا میں چند روز مہلت ہے قیامت کے دن کون ہے جو بلا اجازت اللہ لب بھی ہلا سکے انسان دو قسم پر تقسیم کر دیئے جائیں گے نیک الگ اور بد علیحدہ ۔ وقت قیامت محدود اور مقرر ہے ، کمی زیادتی تقدیم تاخیر اس میں بالکل نہ ہوگی ۔ پھر تم اے گمراہو اور جھٹلانے والو زقوم کے درخت تمہیں پینا پڑے گا اور وہ بھی اس طرح جیسے پیاسا اونٹ پی رہا ہو ، ہیم جمع ہے اس کا واحد اہیم ہے مونٹ ہماء ہے ہائم اور ہوتی اور نہ اس بیماری سے اونٹ جانبر ہوتا ہے ، اسی طرح یہ جنت جبراً سخت گرم پانی پلائے جائیں گے جو خود ایک بدترین عذاب ہوگا بھلا اس سے پیاس کیا رکتی ہے؟ حضرت خالد بن معدان رضی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک ہی سانس میں پانی پینا یہ بھی پیاس والے اونٹ کا سا پینا ہے اس لیے مکروہ ہے پھر فرمایا ان مجرموں کی ضیافت آج جزا کے دن یہی ہے ، جیسے متقین کے بارے میں اور جگہ ہے کہ ان کی مہمانداری جنت الفردوس ہے ۔
4 1 1اس سے مراد اہل جہنم ہیں، جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔
وَ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ۔۔۔۔۔۔:” سموم “ کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورة ٔ طور (٢٧) کی تفسیر ۔ ” یحموم “ سیاہ دھواں۔ یہ ” حمم “ (بروزادا ” صرد “ بمعنی کوئلہ) سے ” یفعول “ کے وزن پر ہے۔ ” احم “ سیاہ ۔ یعنی وہ دھواں جس میں سیاہی اور گرمی دونوں ہوں ۔ یعنی جہنمیوں کو کہیں سایہ نہیں ملے گا ، ملے گا تو سخت سیاہ اور گرم دھوئیں کا ، جس میں نہ کوئی ٹھنڈک ہوگی اور نہ کوئی راحت یا آسائش ہوگی ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ مرسلات (٢٩ تا ٣٤)
وَاَصْحٰبُ الشِّمَالِ ٠ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ٤١ ۭ- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - شمل - الشِّمَالُ : المقابل للیمین . قال عزّ وجلّ : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] ، ويقال للثّوب الذي يغطّى به : الشِّمَالُ وذلک کتسمية كثير من الثّياب باسم العضو الذي يستره، نحو : تسمية كمّ القمیص يدا، وصدره، وظهره صدرا وظهرا، ورجل السّراویل رجلا، ونحو ذلك . والِاشْتِمَالُ بالثوب : أن يلتفّ به الإنسان فيطرحه علی الشّمال . وفي الحدیث :- «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» والشَّمْلَةُ والْمِشْمَلُ : کساء يشتمل به مستعار منه، ومنه :- شَمَلَهُمُ الأمر، ثم تجوّز بالشّمال، فقیل : شَمَلْتُ الشاة : علّقت عليها شمالا، وقیل : للخلیقة شِمَالٌ لکونه مشتملا علی الإنسان اشتمال الشّمال علی البدن، والشَّمُولُ : الخمر لأنها تشتمل علی العقل فتغطّيه، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالخمر لکونها خامرة له . والشَّمَالُ :- الرّيح الهابّة من شمال الکعبة، وقیل في لغة :- شَمْأَلٌ ، وشَامَلٌ ، وأَشْمَلَ الرّجل من الشّمال، کقولهم : أجنب من الجنوب، وكنّي بِالْمِشْمَلِ عن السّيف، كما کنّي عنه بالرّداء، وجاء مُشْتَمِلًا بسیفه، نحو : مرتدیا به ومتدرّعا له، وناقة شِمِلَّةٌ وشِمْلَالٌ: سریعة کا لشَّمال، وقول الشاعر : ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم قيل : أراد خلائق طيّبة، كأنّها هبّت عليها شمال فبردت وطابت .- ( ش م ل ) الشمال ۔ بایاں ضد یمین ۔ قرآن میں ہے ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں ۔ نیز چھوٹی چادر جس سے بائیں جانب ڈھانپ لی جائے اسے بھی شمال کہا جاتا ہے جس طرح کہ عربی زبان میں دوسرے اعضار کی مناسبت سے لباس کے مختلف نام رکھے گئے ہیں ۔ مثلا قمیض کی آستین کو ید ( ہاتھ ) اور جو حصہ سینہ اور پشت پر آئے اسے صدر اور ظہر کہا جاتا ہے اور پائجامہ کے پائتہ کو رجل سے موسم کردیتے ہیں وغیرہ ذالک ۔ اور الاشتمال بالثوب کپڑے کو اس طرح لپیٹا کہ اس کا بالائی سرا بائیں جانب ڈالا جائے حدیث میں ہے ۔ ( 101 ) «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» کہ اشتمال الصماء ممنوع ہے ۔ اور استعارہ کے طور پر کمبل کو جو جسم پر لپیٹا جاتا ہے ۔ شملۃ ومشمل کہا جاتا ہے اور اسی سے شملھم الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے سب کو شامل اور عام ہوجانے کے ہیں ۔ پھر شمال کے لفظ سے مجازا کہا جاتا ہے ۔ شملت الشاۃ بکری کے تھنوں پر غلاف چڑھانا اور شمال کے معنی عادت بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی چادر کی طرح انسان پر مشتمل ہوجاتی ہے ۔ الشمول شراب کیونکہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور شراب کو شمول کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ عقل کو ڈھانپ لینے کی وجہ سے خمر کہا جاتا ہے ۔ الشمال ( بکسرالشین ) وہ ہوا جو کعبہ کی بائیں جانب سے چلتی ہے اور اس میں ایک لغت شمال ( بفتحہ شین بھی ہے ۔ شامل واشمل کے معنی شمال کی جانب میں جانے کے ہیں جیسے جنوب سے اجنب ۔ ( جنوب کو جانا ) کنایہ کے طور پر تلوار کو مشتمل کہا جاتا ہے جیسا کہ اسے رداع سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی سے مرتد بالسیف ومتدرعا لہ کی طرح جاء مشتملا بسیفہ کا محاورہ ہے ۔ : ناقۃ شملۃ و شمال ۔ باد شمالی کی طرح تیز اونٹنی ۔ اور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( 262 ) ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم تم عمدہ اخلاق کو پہچان لو گے اور تم پشیمانی اٹھاؤ گے لیکن وہ وقت پشیمانی کا نہیں ہوگا ۔ میں مشمولۃ سے مراد پاکیزہ اخلاق ہیں گویا باد شمال نے ( شراب کی طرح ) انہیں ٹھنڈا اور خوش گوار بنا دیا ۔
آیت ٤١ وَاَصْحٰبُ الشِّمَالِ مَـآ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ۔ ” اور بائیں والے کیا (ہی برا) حال ہوگا بائیں والوں کا “