Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 رَجًا کے معنی حرکت و اضطراب (زلزلہ) اور بس کے معنی ریزہ ریزہ ہوجانے کے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] یعنی زمین پر زلزلہ کسی مقامی سطح پر نہیں آئے گا۔ بلکہ ساری کی ساری زمین ہی لرزنے کپکپانے اور ہچکولے کھانے لگے گی۔ پہاڑوں کی گرفت زمین پر سے ڈھیلی پڑجائے گی۔ اور ایک پتھر دوسرے پر گر کر ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ پھر تیز ہوا ان پہاڑوں کے ذرات کو پراگندہ کرکے اڑاتی پھرے گی۔ سوچ لو کیا اس وقت تمہارا زمین پر زندہ رہنا ممکن رہ جائے گا ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا :” بس یبس بسا “ ( ن) ریزہ ریزہ کرنا۔” بسا “ مصدر کے ساتھ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے میں مبالغے کا اظہار مقصود ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَ یَسْئَلُوْنَـکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَـنْسِفُھَا رَبِّی نَسْفًا فَـیَـذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرٰی فِیْھَا عِوَجاً وَّلَآ اَمْتًا ) (طہٰ : ١٠٥ تا ١٠٧) ” اور تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھیں گے تو تو کہہ دے میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ پھر انہیں ایک چٹیل میدان بنا کر چھوڑے گا ۔ جس میں تو نہ کوئی کچی دکھے گا اور نہ کوئی ابھری جگہ “۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝ ٥ ۙ- بسَ- قال اللہ تعالی: وَبُسَّتِ الْجِبالُ بَسًّا[ الواقعة 5] ، أي : فتّتت، من قولهم : بَسَسْتُ الحنطة والسویق بالماء : فتتّه به، وهي بَسِيسَةٌ ، وقیل : معناه : سقت سوقا سریعا، من قولهم :- انْبَسَّتِ الحيّات : انسابت انسیابا سریعا، فيكون کقوله عزّ وجلّ : وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبالَ [ الكهف 47] ، وکقوله : وَتَرَى الْجِبالَ تَحْسَبُها جامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحابِ [ النمل 88] . وبَسَسْتُ الإبلَ : زجرتها عند السوق، وأَبْسَسْتُ بها عند الحلب، أي : رقّقت لها کلاما تسکن إليه، وناقة بَسُوس : لا تدرّ إلا علی الإِبْسَاس، وفي الحدیث : «جاء أهل الیمن يَبُسُّونَ عيالهم» أي : کانوا يسوقونهم .- ( ب س س ) آیت کریمہ : وَبُسَّتِ الْجِبالُ بَسًّا[ الواقعة 5] میں بست کے معنی پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہوہوجانا کے ہیں اور یہ بسست الحنطۃ والسویق بالماء کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی پانی میں گندم یا جو کے ستو ڈال کر نشاستہ نکالنے کے ہیں اور نشاستہ کو بسیسۃ کہا جاتا ہے بعض نے اس کے معنی تیز ہنکانا کئے ہیں اور کہا ہے یہ انبست الحیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی سانپ کے نہایت تیزی کے ساتھ اپنے بل کی طرف دوڑنا کے ہیں اور اسی معنی کو دوسری جگہ وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبالَ [ الكهف 47] اور : وَتَرَى الْجِبالَ تَحْسَبُها جامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحابِ [ النمل 88] کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے اونٹو کو ہنکاتے وقت ڈانٹنا اونٹی دوہنے کے وقت اس کو چمکارنا اور اس اونٹنی کو جو بغیر چمکارنے کے دودھ دے بسوس کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ؟ کہ اہل یمن اپنے اہل و عیال کو نرمی سے چلاتے ہوئے آپہنچے ہیں ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا ۔ ” اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani