١۔ فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا :” ھباء ً “ غبار کے ان ذرات کو کہتے ہیں جو روشن دان سے کمرے میں آنے والی دھوپ میں چمک رہے ہوتے ہیں ، پکڑنا چاہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ ” بث یبث بشا “ ( ن) پھیلانا ۔ ’ ’ انبت انبثاتا “ ( انفعال) پھیلنا ۔ ” مثبثاً ‘ ‘ اسم فاعل ہے ، پھیلنے والا ۔ قیامت کے دن پہاڑوں پر گزرنے والے احوال کے لیے دیکھئے سورة ٔ نبا کی آیت (٢٠) کی تفسیر۔- ٢۔ ان آیات میں ” اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ “ سے لے کر ” وَّ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً “ تک بعض واقعات صور میں پہلے نفخہ کے وقت کے بیان فرمائے ہیں ، جیسے ” اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا “ اور ” َّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا “ ہے اور بعض دوسرے نفخہ کے وقت کے ہیں ، جیسے ” خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ “ اور ” َّ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً “ اور بعض دونوں نفخوں میں مشرک ہیں ، جیسے ” اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ “ اور ” لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ “ ہے۔ چونکہ پہلے اور دوسرے نفحے کا سارا وقت قیامت ہی کا ہے ، اس لیے اس کے ہرجڑ کو ہر واقعہ کا وقت کہا جاسکتا ہے ۔ چناچہ قرآن مجید میں عموماً دونوں نفخوں کے نتیجے میں واقع ہونے والے معاملات اکٹھے ہی ذکر کیے گئے ہیں۔
فَكَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا ٦ ۙ- هبا - هَبَا الغبار يَهْبُو : ثار وسطع، والهَبْوَة کا لغبرة، والهَبَاء : دقاق التّراب وما نبت في الهواء فلا يبدو إلّا في أثنا ضوء الشمس في الكوّة . قال تعالی: فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] ، فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة 6] .- ( ھ ب و ) ھبا ( ن ) الغبار کے معنی غبار کے اڑنے اور فضا میں پھیل جانے کے ہیں اور ھبرۃ ( بر وزن غبرۃ اور ھباء کے معنی غبار یا ان باریک ذرات کے ہیں جو کمرے کے اندر رو شندان سے دھوپ کی کرنیں اندر پڑنے سے اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] اور ان کو ( اس طرح رائگاں کردیں گے جیسے بکھری ہوئی دھول فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة 6] تو ( پہاڑ ایسے ) ہوجائیں گے ( جیسے ذرے پڑے ہوئے اڑ رہے ہیں ۔- بث - أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] - وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل .- ( ب ث ث) البث - ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ اِ نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے
آیت ٦ فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا ۔ ” پس وہ ہوجائیں گے اڑتا ہوا غبار۔ “