[٣٠] زمین کے پیٹ میں بیج کے تخلیقی مراحل :۔ یعنی تمہارا کام صرف زمین میں بیج ڈالنا ہے پھر اس کے بعد زمین کی تاریکیوں میں اس بیج پر جو تخلیقی مراحل آتے ہیں یا جو تغیرات واقع ہوتے ہیں ان کا نہ تمہیں علم ہے اور نہ ان میں کچھ تمہارا عمل دخل ہے۔ دانہ سے نازک سی کونپل کیسے بنتی ہے ؟ پھر اس نازک سی کونپل میں اتنا زور کہاں سے آتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکل آتی ہے بیج بےجان اور مردہ تھا۔ اس سے جاندار نباتات پیدا ہوگئی جو پھلتی پھولتی اور بڑھتی ہے اور تمہارے لیے رزق کا سامان مہیا کرتی ہے اب دیکھئے لاکھوں کی تعداد میں مردہ بیج زمین کے پیٹ میں دفن کیے جاتے ہیں۔ پھر اسی زمین کے قبرستان سے وہی مردہ بیج نئی زندگی اور نئی آن بان سے تمہارے سامنے پیدا ہو رہے ہیں پھر بھی تمہیں اس بات میں شک ہے کہ تم زمین میں دفن ہونے کے بعد دوبارہ پیدا کیے اور زمین سے نکالنے نہیں جاسکتے ؟
ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ ٦٤- زرع - الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة 64] - ( ز ر ع ) الزرع - اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ - أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔
آیت ٦٤ ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ ” کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں ؟ “- یہاں ہماری زبانوں پر بےاختیار یہ الفاظ آجانے چاہئیں : بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ کہ نہیں اے ہمارے پروردگار اسے تو ہی اگاتا ہے ‘ اس میں ہمارا کچھ بھی اختیار نہیں علامہ اقبال کی نظم اَلْاَرْضُ لِلّٰہ کے درج ذیل اشعار میں ان ہی آیات کے اسلوب اور مضمون کی جھلک نظر آتی ہے : ؎- پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟- کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب ؟- کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار ؟- خاک یہ کس کی ہے ‘ کس کا ہے یہ نور آفتاب ؟- کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب ؟- موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب ؟- دہ خدایا یہ زمین تیری نہیں ‘ تیری نہیں - تیرے آباء کی نہیں ‘ تیری نہیں ‘ میری نہیں - یعنی یہ زمین ‘ یہ کائنات ‘ کائنات کا پورا نظام یہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور اسی کی قدرت و مشیت سے اس کائنات کا یہ نظام چل رہا ہے۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :28 اوپر کا سوال لوگوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساختہ و پرداختہ ہو اور اسی کی تخلیق سے وجود میں آئے ہو ۔ اب یہ دوسرا سوال انہیں اس دوسری اہم حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ جس رزق پر تم پلتے ہو وہ بھی اللہ ہی تمہارے لیے پیدا کرتا ہے ۔ جس طرح تمہاری پیدائش میں انسانی کوشش کا دخل اس سے زائد کچھ نہیں ہے کہ تمہارا باپ تمہاری ماں کے اندر نطفہ ڈال دے ، زمین ، جس میں یہ کاشت کی جاتی ہے ، تمہاری بنائی ہوئی نہیں ہے ۔ اس زمین کو روئیدگی کی صلاحیت تم نے نہیں بخشی ہے ۔ اس میں وہ مادے جن سے تمہاری غذا کا سامان بہم پہنچتا ہے ، تم نے فراہم نہیں کیے ہیں ۔ اس کے اندر جو بیج تم ڈالتے ہو ان کو نشو و نما کے قابل تم نے نہیں بنایا ہے ان بیجوں میں یہ صلاحیت کہ ہر بیج سے اسی نوع کا درخت پھوٹے جس کا وہ بیج ہے ، تم نے پیدا نہیں کی ہے ۔ اس کاشت کو لہلہاتی کھیتیوں میں تبدیل کرنے کے لیے زمین کے اندر جس عمل اور زمین کے اوپر جس ہوا ، پانی ، حرارت ، بُرودت اور موسمی کیفیت کی ضرورت ہے ، ان میں سے کوئی چیز بھی تمہاری کسی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ اللہ ہی کی قدرت اور اسی کی پروردگاری کا کرشمہ ہے ۔ پھر جب تم وجود میں اسی کے لانے سے آئے ہو ، اور اسی کے رزق سے پل رہے ہو ، تو تم کو اس کے مقابلہ میں خود مختاری کا ، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا حق آخر کیسے پہنچتا ہے؟ اس آیت کا ظاہر استدلال تو توحید کے حق میں ہے ، مگر اس میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس پر اگر آدمی تھوڑا سا مزید غور کرے تو اسی کے اندر آخرت کی دلیل بھی مل جاتی ہے ۔ جو بیج زمین میں بویا جاتا ہے وہ بجائے خود مردہ ہوتا ہے ، مگر زمین کی قبر میں جب کسان اس کو دفن کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر وہ نباتی زندگی پیدا کر دیتا ہے جس سے کونپلیں پھوٹتی ہیں اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں شان بہار دکھاتی ہیں ۔ یہ بے شمار مردے ہماری آنکھوں کے سامنے آئے دن قبروں سے جی جی کر اٹھ رہے ہیں ۔ یہ معجزہ کیا کچھ کم عجیب ہے کہ کوئی شخص اس دوسرے عجیب معجزے کو ناممکن قرار دے جس کی خبر قرآن ہمیں دے رہا ہے ، یعنی انسانوں کی زندگی بعد موت ۔
18: یعنی تمہارا کام بس اتنا ہی تو ہے کہ تم زمین میں بیج ڈال دو، اس بیج کو پروان چڑھا کر کونپل کی شکل دینا اور اسے درخت یا کھیتی بنادینا اور اس میں تمہارے فائدے کے پھل یا غلے پیدا کرنا کیا تمہارے اپنے بس میں تھا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو تمہارے ڈالے ہوئے بیج کو یہاں تک پہنچادیتا ہے؟