[٣١] بیج پر ممکنہ آفات :۔ اس کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً جس زمین میں بیج ڈالا گیا اس میں اللہ شور پیدا کردے اور نسل کمزور اور زرد پیدا ہو اور پوری طرح بار آور نہ ہو یا فصل اگنے کے بعد اسے کیڑا لگ جائے یا کسی ارضی یا سماوی آفت مثلاً کہر، شدید بارش وغیرہ سے فصل کی نشوونما رک جائے اور لہلہاتے کھیت زرد پڑجائیں۔ تو کیا تم میں سے کسی کو یہ اختیار ہے کہ فصل کو ان مصیبتوں سے بچا سکے ؟ اور اگر تم خود بھی اللہ تعالیٰ کی ہی مہربانی سے پیدا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ ہی کی مہربانی سے تمہیں کھانے کو ملتا ہے تو پھر اس کے سامنے تمہاری اکڑ اور سرتابی کا مطلب ؟ اس صورت میں تم باتیں ہی بناتے رہ جاتے ہو کہ ہمارا تو بیج بھی ضائع ہوگیا اور محنت بھی ضائع ہوئی اور آئندہ کھانے کو بھی کچھ نہ ملا تو ہم تو مارے گئے۔ یہ بات تمہیں پھر بھی نصیب نہیں ہوتی کہ تم اللہ کی طرف رجوع کرو اور اسے اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ سمجھو۔
١۔ لَوْنَشَآئُ لَجَعَلْنٰـہُ حُطَامًا ۔۔۔۔۔:” حطاما “” حطم یحطم حطما “ (ض) (توڑنا) سے مشق ہے ، بمعنی ” محطوم “ ، جیسے ” فتاتا “ ” فت “ سے اور ” جذاذا “ ” جذ “ سے مشتق ہے۔ سب کا معنی ” ریزہ ریزہ کیا ہوا “ ہے ۔ ” فظلتم “ اصل میں باب ” سمع “ سے ” فظلتم “ ہے ، پہلا لام تخفیف کے لیے حذف کردیا ہے۔ ( دیکھئے طہٰ : ٩٧)” تفکھون “ اصل میں ’ ’ تتفکھون “ ہے ، ایک تاء تخفیف کے لیے حذف کردی گئی ہے۔ ” تفکۃ “ کا اصل معنی ” ایک پھل سے دوسرے پھل کی طرف منتقل ہونا “ ہے ، پھر ایک بات سے دوسری کی طرف منتقل ہونے میں بھی استعمال ہونے لگا ہے ۔ یہاں کھیتی برباد ہونے کے بعد طرح طرح کی باتیں کرنا مراد ہے۔ ” مغرمون “ غرم ، تاوان اور چٹی کو کہتے ہیں ، باب افعال سے اسم مفعول کی جمع ہے، تاوان ڈالے گئے لوگ۔- ٢۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں : ” کھیتی کو چورا چورا یا ریزہ ریزہ کردینے کی بھی کئی صورتیں ہیں ، مثلاً جس زمین میں بیج ڈالا گیا اس میں اللہ تعالیٰ شور پیدا کر دے ، فصل کمزور اور زرد پیدا ہو اور پوری طرح بار آور نہ ہو ، یا فصل اگنے کے بعد اسے کیڑا لگ جائے ، یا کسی راضی یا سماوی آفت ، مثلاً کہر اور شدید بارش وغیرہ سے فصل کی نشو و نما رک جائے اور لہلہاتے کھیت زرد پڑجائیں تو کیا تم میں سے کسی کو یہ اختیار ہے کہ فصل کو ان مصیبتوں سے بچا سکے ؟ اور اگر تم خود اللہ کی مہربانی سے پیدا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ ہی کی مہربانی سے تمہیں کھانے کو ملتا ہے تو پھر اس کے سامنے تمہاری اکڑ اور سرتابی کا کیا مطلب ہے ؟ اس صورت میں تم طرح طرح کی باتیں ہی بناتے رہ جاتے ہو کہ ہمارا تو بیج بھی ضائع ہوگیا ، خرچے کی چٹی پڑی ، محبت بھی ضائع ہوئی اور آئندہ کھانے کو بھی کچھ نہ ملا ، ہم تو مارے گئے۔ یہ بات تمہیں پھر بھی نصیب نہیں ہوتی کہ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اسے اللہ کی طرف سے تنبیہ سمجھو “۔ ( القرآن)
لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّہُوْنَ ٦٥- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- حطم - الحَطْمُ : کسر الشیء مثل الهشم ونحوه، ثمّ استعمل لكلّ کسر متناه، قال اللہ تعالی: لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وحَطَمْتُهُ فانحطم حَطْماً ، وسائقٌ حُطَمٌ: يحطم الإبل لفرط سوقه، وسمیت الجحیم حُطَمَة، قال اللہ تعالیٰ في الحطمة : وَما أَدْراكَ مَا الْحُطَمَةُ [ الهمزة 5] ، وقیل للأكول : حطمة، تشبيها بالجحیم، تصوّرا لقول الشاعر : كأنّما في جو فه تنّور ودرع حُطَمِيَّة : منسوبة إلى ناسجها أومستعملها، وحطیم وزمزم : مکانان، والحُطَام : ما يتكسّر من الیبس، قال عزّ وجل : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطاماً [ الزمر 21] .- ( ح ط م ) الحطم کے اصل معنی کسی چیز کو توڑنے کے ہیں جیسا ک الھشیم وغیرہ الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ پھر کسی چیز کو ریزہ زیزہ کردینے اور روندنے پر حطم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسا نہ ہوگہ سلیمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔ کہاجاتا ہے حطمتہ فانحطم میں نے اسے توڑا چناچہ وہ چیز ٹوٹ گئی ) سائق حطم بےرحم چر واہا ۔ جو اونٹوں کو سخت ہنگا کر ان پر ظلم کرے ۔ اور دوزخ کو حطمۃ کہا گیا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحُطَمَةُ [ الهمزة 5] حطیمہ میں ۔۔۔ اور تم کیا سمجھے کہ حطمہ کیا ہے ۔ اور تشبیہ کے طور پر بہت زیادہ کھانے والے کو بھی حطمۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے پیٹ کو تنور کے ساتھ ، تشبیہ دی ہے ۔ گو یا اس کے پیٹ میں تنور ہے ۔ درع حطمیۃ زرہ بننے والے یا ستعمال کرنے والے کی طرف منسوب ہے اور حطیم وزمزم ( حرم میں ) دو جگہوں کے نام ہیں ۔ الحطام جو خشک ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطاماً [ الزمر 21] پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو ( کہ زرد ہوگئ ہے ) پھر اسے چورا چورا کردیتا ہے ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - فكه - الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ- [ الواقعة 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] ، والفُكَاهَةُ :- حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل :- تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] .- ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔
آیت ٦٥ لَـوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا ” اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں “- اگر ہم چاہیں تو کسی آسمانی آفت ‘ طوفان ‘ جھکڑ یا ژالہ باری سے تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری لہلہاتی فصلوں کو برباد کر کے رکھ دیں۔- فَظَلْتُمْ تَفَکَّہُوْنَ ” پھر تم بیٹھے رہو باتیں بناتے ہوئے۔ “