[٣٣] درختوں کا سب سے بڑا فائدہ آگ کا حصول :۔ تیسری نعمت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ تم آگ جلاتے ہو۔ آگ جلانا اور اس سے استفادہ کرنا صرف انسان کا کام ہے۔ دوسری کوئی جاندار مخلوق یہ کام نہیں کرسکتی۔ جانور نباتات وغیرہ اسی حال میں کھاتے ہیں جس حال میں یہ زمین سے نکلتی یا دستیاب ہوتی ہے جبکہ انسان تمام سبزیاں، غلے اور گوشت وغیرہ آگ پر پکا کر کھاتے ہیں۔ پھر آگ سے ہی انسان نے کئی قسم کی دھاتیں ڈھال کر اپنے استعمال میں لانا شروع کیں۔ پھر مشینریاں اور کلیں بنائیں۔ اگرچہ آج کل آگ تیل، پٹرول اور گیس وغیرہ سے بھی حاصل کی جارہی ہے۔ مگر آج سے صرف دو صدی پیشتر تک آگ حاصل کرنے کا ذریعہ صرف درخت اور ایندھن تھا۔ بعض درخت ایسے ہیں جن کو ایک دوسرے پر رگرنے سے آگ حاصل ہوجاتی ہے اور بعض درختوں کا تیل ایندھن کا کام دیتا ہے اور ہر قسم کے درخت اور پودے، گھاس وغیرہ خشک ہو کر آگ حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ درختوں سے ہی کوئلہ اور پھر معدنی یا پتھری کوئلہ بھی بنتا ہے۔ گویا آج کے دور میں بھی آگ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ یہ درخت وغیرہ ہی ہیں۔ اور درختوں کو پیدا کرنے اور نشوونما دینے والی صرف اللہ کی ذات ہے۔ جس میں دوسرے کسی کام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اگر انسان سمجھے تو درختوں کی پیدائش بھی فی الحقیقت اس پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔
اَفَرَئَ یْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ ۔۔۔۔۔۔:” اوری یوری “ ( افعال) ” النار “ آگ سلگانا۔ یہ چوتھی دلیل ہے جو یہاں اللہ تعالیٰ کی توحید اور قیامت کے حق ہونے کے ثبوت کے لیے لائی گئی ہے۔ ( دیکھئے یٰسین : ٨٠)” اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ “ میں خبر پر الف لام سے حصر پیدا ہو رہا ہے ، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں “۔
اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَ ٧١ ۭ- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔
ذرا یہ تو بتاؤ کہ جس آگ کو سرخ درخت کے علاوہ ہر ایک درخت سے تم سلگاتے ہو اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں۔
آیت ٧١ اَفَرَئَ یْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ ” کبھی تم نے سوچا کہ وہ آگ جو تم جلاتے ہو ؟ “