Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

701یعنی اس احسان پر ہماری اطاعت کرکے ہمارا عملی شکر ادا کیوں نہیں کرتے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٢] آبی بخارات تو کھاری پانی کے ہوں اور بارش کا پانی خوشگوار :۔ یہ ایک اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ سطح سمندر سے سورج کی حرارت کی وجہ سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ یہی بخارات بعد میں بادلوں کی شکل اختیار کرکے بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ سمندر کا پانی جس سے بخارات اٹھتے ہیں سخت کھاری اور چھاتی جلانے والا ہوتا ہے۔ مگر جو بارش برستی ہے اس میں کھاری پن نام کو نہیں ہوتا۔ حالانکہ جن جڑی بوٹیوں یا دواؤں کا ہم اسی طرح عرق کشید کرتے ہیں۔ ان میں ذائقہ بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ اور بو بھی۔ مثلاً سونف یا اجوائن یا گاؤ زبان یا گلاب کے عرق میں ان اشیاء کا ذائقہ بھی منتقل ہوجاتا ہے اور بو بھی۔ لیکن سمندر کا کھاری پن آبی بخارات میں منتقل نہیں ہوتا اور یہ اللہ کی خاص رحمت ہے ورنہ اس زمین کا کوئی جاندار ایسا پانی پی کر زندہ ہی نہ رہ سکتا تھا۔ نہ ہی ایسے پانی سے پیداوار اگ سکتی ہے جو پانی کے بعد جانداروں کی زندگی کا دوسرا بڑا سہارا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝ ٧٠- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - أج - قال تعالی: هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] : شدید الملوحة والحرارة، من قولهم : أجيج النار وأَجَّتُهَا، وقد أجّت، وائتجّ النهار . ويأجوج ومأجوج منه، شبّهوا بالنار المضطرمة والمیاه المتموّجة لکثرة اضطرابهم «2» . وأجّ الظّليم : إذا عدا، أجيجاً تشبيهاً بأجيج النار .( ا ج ج ) الاجاج ۔ کے معنی سخت کھاری اور گرم پانی کے ہیں قرآن میں ہے :۔ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ [ الفرقان : 53] ایک کا پانی نہایت شیریں اور دوسرے کا سخت گرم ہے ۔ یہ ( اجاج ) اجیح النار ( شعلہ نار یا اس کی شدید تپش اور حرارت ) واجل تھا وقد اجت ۔ میں نے آگ بھڑکائی چناچہ وہ بھڑک اٹھی ( وغیرہ محاورات ) سے مشتق ہے ۔ ائتج النھار ۔ دن گرم ہوگیا ۔ اسی ( اج) سے يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ (18 ۔ 94) (21 ۔ 94) ہے ان کے کثرت اضطراب کی وجہ سے مشتعل آگ یا موجزن اور متلاطم پانی کے ساتھ تشبیہ دے کر یاجوج ماجوج کہا گیا ہے ۔ اج الظلیم اجیحا ۔ شتر مرغ نہایت سرعت رفتار سے چلا ۔ یہ محاورہ اشتعال نار کے ساتھ تشبیہ دے کر بولا جاتا ہے ۔- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰـہُ اُجَاجًا ” اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کردیں “- فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَ ” تو تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے ؟ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :30 اس فقرے میں اللہ کی قدرت و حکمت کے ایک اہم کرشمے کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ پانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو حیرت انگیز خواص رکھے ہیں ، ان میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کے اندر خواہ کتنی ہی چیزیں تحلیل ہو جائیں ، جب وہ حرارت کے اثر سے بھاپ میں تبدیل ہوتا ہے تو ساری آمیزشیں نیچے چھوڑ دیتا ہے ، اور صرف اپنے اصل آبی اجزاء کو لے کر ہوا میں اڑتا ہے ۔ یہ خاصیت اگر اس میں نہ ہوتی تو بھاپ میں تبدیل ہوتے وقت بھی وہ سب چیزیں اس میں شامل رہتیں جو پانی ہونے کی حالت میں اس کے اندر تحلیل شدہ تھیں ۔ اس صورت میں سمندر سے جو بھاپیں اٹھتیں ان میں سمندر کا نمک بھی شامل ہوتا اور ان کی بارش تمام روئے زمین کو زمین شور بنا دیتی ۔ نہ انسان اس پانی کو پی سکتا ہے کہ اندھی بہری فطرت سے خود بخود پانی میں یہ حکیمانہ خاصیت پیدا ہو گئی ہے؟ یہ خاصیت ، جس کی بدولت کھاری سمندروں سے صاف ستھرا میٹھا پانی کشید ہو کر بارش کی شکل میں رہتا ہے اور پھر دریاؤں ، نہروں ، چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آب رسانی و آب پاشی کی خدمت انجام دیتا ہے ، اس بات کی صریح شہادت فراہم کرتی ہے کہ ودیعت کرنے والے نے پانی میں اس کو خوب سوچ سمجھ کر بلا ارادہ اس مقصد کے لیے ودیعت کیا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کی پرورش کا ذریعہ بن سکے ۔ جو مخلوق کھاری پانی سے پرورش پا سکتی تھی وہ اس نے سمندر میں پیدا کی اور وہاں وہ خوب جی رہی ہے ۔ مگر جس مخلوق کو اس نے خشکی اور ہوا میں پیدا کیا تھا اس کی پرورش کے لیے میٹھا پانی درکار تھا اور اس کی فراہمی کے لیے بارش کا انتظام کرنے سے پہلے اس نے پانی کے اندر یہ خاصیت رکھ دی کہ گرمی سے بھاپ بنتے وقت وہ کوئی ایسی چیز لے کر نہ اڑے جو اس کے اندر تحلیل ہو گئی ہو ۔ سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :31 بالفاظ دیگر کیوں یہ کفران نعمت کرتے ہو کہ تم میں سے کوئی اس بارش کو دیوتاؤں کا کرشمہ سمجھتا ہے ، اور کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ سمندر سے بادلوں کا اٹھنا اور پھر آسمان سے پانی بن کر برسنا ایک فطری چکر ہے جو آپ سے آپ چلے جا رہا ہے ، اور کوئی اسے خدا کی رحمت سمجھتا بھی ہے تو اس خدا کا اپنے اوپر یہ حق نہیں مانتا کہ اسی کے آگے سر اطاعت جھکائے؟ خدا کی اتنی بڑی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہو اور پھر جواب میں کفر و شرک اور فسق و نافرمانی کرتے ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani