قرآن کا مقام حضرت ضحاک فرماتے ہیں اللہ کی یہ قسمیں کلام کو شروع کرنے کے لئے ہوا کرتی ہیں ۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے ۔ جمہور فرماتے ہیں یہ قسمیں ہیں اور ان میں ان چیزوں کی عظمت کا اظہار بھی ہے ، بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں پر لا زائد ہے اور آیت ( انہ لقراٰن ) الخ جواب قسم ہے اور لوگ کہتے ہیں لا کو زائد بتانے کی کوئی وجہ نہیں کلام عرب کے دستور کے مطابق وہ قسم کے شروع میں آتا ہے ، جبکہ جس چیز پر قسم کھائی جائے وہ منفی ہو ، جیسے حضرت عائشہ کے اس قول میں ہے ( لا واللہ ما مست ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ید امراۃ قط ) یعنی اللہ کی قسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے لگایا نہیں یعنی بیعت میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا ۔ اسی طرح یہاں بھی لا قسم کے شروع میں مطابق قاعدہ ہے نہ کہ زائد ۔ تو کلام کا مقصود یہ ہے کہ تمہارے جو خیالات قرآن کریم کی نسبت ہیں یہ جادو ہے یا کہانت ہے غلط ہیں ۔ بلکہ یہ پاک کتاب کلام اللہ ہے ۔ بعض عرب کہتے ہیں کہ لا سے ان کے کلام کا انکار ہے پھر اصل امر کا اثبات الفاظ میں ہے آیت ( فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75ۙ ) 56- الواقعة:75 ) سے مراد قرآن کا بتدریج اترنا ہے ، لوح محفوظ سے تو لیلہ القدر میں ایک ساتھ آسمان اول پر اترا آیا پھر حسب ضروت تھوڑا تھوڑا وقت بروقت اترتا رہا یہاں تک کہ کوئی بروسوں میں پورا اتر آیا ۔ مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد ستاروں کے طلوع اور ظاہر ہونے کی آسمان کی جگہیں ہیں ۔ مواقع سے مراد منازل ہیں ۔ حسن فرماتے ہیں قیامت کے دن ان کا منتشر ہو جانا ہے ۔ ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کی نسبت مشرکین عقیدہ رکھتے تھے کہ فلاں فلاں تارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسی ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑی قسم ہے اس لئے کہ جس امر پر یہ قسم کھائی جا رہی ہے وہ بہت بڑا امر ہے یعنی یہ قرآن بڑی عظمت والی کتاب ہے معظم و محفوظ اور مضبوط کتاب میں ہے ۔ جسے صرف پاک ہاتھ ہی لگتے ہیں یعنی فرشتوں کے ہاں یہ اور بات ہے کہ دنیا میں اسے سب کے ہاتھ لگتے ہیں ۔ ابن مسعود کی قرأت میں ( مایمسہ ) ہے ابو العالیہ کہتے ہیں یہاں پاک سے مراد صاف فرمایا آیت ( وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ ٢١٠ ) 26- الشعراء:210 ) یعنی اسے نہ تو شیطان لے کر اترا ہیں نہ ان کے یہ لائق نہ ان کی یہ مجال بلکہ وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ ہیں ۔ یہی قول اس آیت کی تفسیر میں دل کو زیادہ لگتا ہے ۔ اور اقوال بھی اس کے مطابق ہو سکتے ہیں ۔ فراء نے کہا ہے اس کا ذائقہ اور اس کا لطف صرف باایمان لوگوں کو ہی میسر آتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں مراد جنابت اور حدث سے پاک ہونا ہے گو یہ خبر ہے لیکن مراد اس سے انشاء ہے ۔ اور قرآن سے مراد یہاں پر مصحف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان ناپاکی کی حالت میں قرآن کو ہاتھ نہ لگائے ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن ساتھ لے کر حربی کافروں کے ملک میں جانے سے منع فرمایا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اسے دشمن کچھ نقصان پہنچائے ( مسلم ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمان حضرت عمرو بن حرم کو لکھ کر دیا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک ۔ ( موطا مالک ) مراسیل ابو داؤد میں ہے زہری فرماتے ہیں میں نے خود اس کتاب کو دیکھا ہے اور اس میں یہ جملہ پڑھا ہے کو اس روایت کی بہت سی سندیں ہیں لیکن ہر ایک قابل غور ہے واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہے کہ یہ قرآن شعرو سخن جادو اور فن نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی جانب سے اترا ہے ، یہ سراسر حق ہے بلکہ صرف یہی حق ہے اس کے سوا اس کے خلاف جو ہے باطل اور یکسر مردود ہے ۔ پھر تم ایسی پاک بات کیوں انکار کرتے ہو؟ کیوں اس سے ہٹنا اور یکسو ہو جانا چاہتے ہو؟ کیا اس کا شکر یہی ہے کہ تم اسے جھٹلاؤ ؟ قبیلہ ازد کے کلام میں رزق و شکر کے معنی میں آتا ہے ۔ مسند کی ایک حدیث میں بھی رزق کا معنی شکر کیا ہے ۔ یعنی تم کہتے ہو کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہمیں پانی ملا اور فلاں ستارے سے فلاں چیز ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ہر بارش کے موقعہ پر بعض لوگ کفریہ کلمات بک دیتے ہیں کہ بارش کا باعث فلاں ستارہ ہے ۔ موطا میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں تھے رات کو بارش ہوئی ، صبح کی نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا جانتے بھی ہو آج شب تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ لوگوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ۔ آپ نے فرمایا سنو یہ فرمایا کہ آج میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ کافر ہو گئے اور بہت سے ایماندار بن گئے ۔ جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل و کرم سے پانی برسا وہ میری ذات پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں سے کفر کرنے والا ہوا ۔ اور جس نے کہا فلاں فلاں ستارے سے بارش برسی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور اس ستارے پر ایمان لایا ۔ مسلم کی حدیث میں عموم ہے کہ آسمان سے جو برکت نازل ہوتی ہے وہ بعض کے ایمان کا اور بعض کے کفر کا باعث بن جاتی ہے ۔ ہاں یہ خیال رہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نے حضرت عباس سے پوچھا تھا کہ ثریا ستارہ کتنا باقی ہے؟ پھر کہا تھا کہ اس علم والوں کا خیال ہے کہ یہ اپنے ساقط ہو جانے کے ہفتہ بھر بعد افق پر نمودار ہوتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ اس سوال جواب اور استسقاء کو سات روز گزرے تھے جو پانی برسا ۔ یہ واقعہ محمول ہے عادت اور تجربہ پر نہ یہ کہ اس ستارے میں ہے اور اس ستارے کو ہی اثر کا موجد جانتے ہوں ۔ اس قسم کا عقیدہ تو کفر ہے ہاں تجربہ سے کوئی چیز معلوم کر لینا یا کوئی بات کہہ دینا دوسری چیز ہے ، اس بارے کی بہت سی حدیثیں آیت ( مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ Ą ) 35- فاطر:2 ) کی تفسیر میں گزر چکی ہیں ۔ ایک شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ فلاں ستارے کے اثر سے بارش ہوئی تو آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تو اللہ کی برسائی ہوئی ہے ، یہ رزق الٰہی ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے لوگوں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے اگر سات سال قحط سالی رہے اور پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے بارش برسائے تو بھی یہ جھٹ سے زبان سے نکالنے لگیں گے کہ فلاں تارے نے برسایا ۔ مجاہد فرماتے ہیں اپنی روزی تکذیب کو ہی نہ بنا لو یعنی یوں نہ کہو کہ فلاں فراخی کا سبب فلاں چیز ہے بلکہ یوں کہو کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ پس یہ بھی مطلب ہے اور یہ بھی کہ قرآن میں ان کا حصہ کچھ نہیں بلکہ ان کا حصہ یہی ہے کہ یہ اسے جھوٹا کہتے رہیں اور اسی مطلب کی تائید اس سے پہلے کی آیت سے بھی ہوتی ہے ۔
7 5 1یعنی یہ قرآن کی کہانت یا شاعری نہیں ہے بلکہ میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن عزت والا ہے۔
[٣٥] مَوَاقِعُ النُّجُوْمِ کا معنی ستاروں کے گرنے کی جگہ بھی ہوسکتا ہے۔ فضائے بسیط میں بیشمار سیارے ایسے ہیں جو ہر وقت ٹوٹتے اور گرتے رہتے ہیں اور اس کا دوسرا معنی ستاروں کے ڈوبنے کی جگہ بھی اور وقت بھی۔ یعنی افق مغرب جہاں ہمیں ستارے ڈوبتے نظر آتے ہیں یا صبح کی روشنی کے نمودار ہونے کا وقت، جب ستارے غائب ہوجاتے ہیں۔ جو معنی بھی لیے جائیں اس سے مراد ستاروں کی گردش اور اپنے اپنے مدارات میں سفر کرنے کا وہ پیچیدہ اور حیران کن مربوط اور منظم نظام ہے جس میں غور و فکر کرنے سے انسان اس قادر مطلق ہستی کی حکمت اور وسعت علم تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جو اس کائنات پر کنٹرول کر رہی ہے۔
فَـلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ ۔۔۔۔۔۔:” فلا اقسم “ کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ قیامہ کی پہلی آیت کی تفسیر ۔ ” مواقع “ موقع “ کی جمع ہے جو ” وقع یقع “ سے ظرف ہے یا مصدر میمی ، گرنے کی جگہیں ۔ اس سے مراد ستاروں کے غروب ہونے کے مقامات ہیں ، یا شہاب ِ ثاقب کی صورت میں شیاطین پر برسنے والے ستاروں کے گرنے کے مقامات۔
خلاصہ تفسیر - (اور دلائل عقلیہ سے بعث یعنی مر کر زندہ ہونے کا امکان ثابت ہونے کے بعد قرآن سے جو اس کا وقوع ثابت ہے اور تم اس قرآن کو نہیں مانتے) سو میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے چھپنے کی اور اگر تم غور کرو تو یہ ایک بڑی قسم ہے (اور قسم اس بات کی کھاتا ہوں) کہ یہ (قرآن جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتا ہے بوجہ منزل من اللہ ہونے کے) ایک مکرم قرآن ہے جو ایک محفوظ کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں (پہلے سے) درج ہے (اور وہ لوح محفوظ ایس ہے) کہ بجز اس کو پاک فرشتوں کے ( کہ گناہوں سے بالکلیہ پاک ہیں) کوئی (شیطان وغیرہ) ہاتھ نہیں لگانے پاتا ( اس کے مضامین پر مطلع ہونا دور کی بات ہے، پس وہاں سے یہاں خاص طور پر آنا فرشتے ہی کے ذریعے سے ہے اور یہی نبوت ہے اور شیاطین اس کو لا ہی نہیں سکتے، کہ احتمال کہانت وغیرہ سے نبوت میں شبہ ہو، کقولہ تعالیٰ نزل بہ الروح الامین، وقولہ تعالیٰ و ما تنزلت بہ الشیطین، اس سے ثابت ہوا کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے بھیجا ہوا ہے (جو کہ اشارة کریم کا مدلول تھا، یہاں ستاروں کے چھپنے کی قسم اپنے مفہوم و مقصد کے اعتبار سے ایسی ہے جیسے شروع سورة النجم میں ہے جس کا وہاں بیان ہوچکا ہے جس میں ستاروں کا باعتبار غروب کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موصوف بالنبوة اور منار الہدیٰ ہونے کا نظیر ہونا بھی بیان ہوا ہے جو کہ مقصود مقام ہے اور قسمیں جتنی قرآن میں ہیں بوجہ دلالت علی المطلوب کے سب ہی عظیم ہیں، لیکن کہیں کہیں مطلوب کے خاص اہتمام اور اس پر زیادہ متنبہ کرنے کے لئے عظیم ہونے کی تصریح بھی فرما دی ہے، جیسا کہ اس جگہ اور سورة الفجر میں حاصل مقام کا اجمالاً وہ ہے جو تفصیلاً اخیر رکوع میں سورة شعراء کے ارشاد ہوا ہے) سو (جب اس کا منزل من اللہ ہونا ثابت ہے تو) کیا تم لوگ اس کلام کو سرسری بات سمجھتے ہو (یعنی اس کو واجب التصدیق نہیں جانتے) اور (اس مداہنت سے بڑھ کر یہ کہ) تکذیب کو اپنی غذا بنا رہے ہو (اور اس لئے توحید و وقوع قیامت کا بھی انکار کرتے ہو) سو ( اگر یہ انکار حق ہے تو) جس وقت (مرنے کے قریب کسی شخص کی) روح حلق تک آپہنچتی ہے اور تم اس وقت (بیٹھے حسرت آلودہ نگاہ سے) تکا کرتے ہو اور ہم (اس وقت) اس (مرنے والے) شخص کے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں (یعنی تم سے بھی زیادہ اس شخص کے حال سے واقف ہوتے ہیں، کیونکہ تم صرف ظاہری حالت دیکھتے ہو اور ہم اس کی باطنی حالت پر بھی مطلع ہوتے ہیں) لیکن (ہمارے اس قرب علمی کو بوجہ اپنے جہل و کفر کے) تم سمجھتے نہیں ہو تو (فی الواقع) اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے (جیسا تمہارا خیال ہے) تو تم اس روح کو (بدن کی طرف) پھر کیوں نہیں لوٹا لاتے ہو (جس کی اس وقت تم کو تمنا بھی ہوا کرتی ہے) اگر (اس انکار قیامت و حساب میں) تم سچے ہو (مطلب یہ کہ قرآن صادق ہے اور وقوع بعث کا ناطق ہے، پس مقتضی وقوع متحقق ہوا اور مانع کوئی امر ہی نہیں پس وقوع ثابت ہوگیا اور اس پر بھی تمہارا انکار اور نفی کئے چلا جانا بدلالت حال اس کو مستلزم ہے کہ گویا تم روح کو اپنے بس میں سمجھتے ہو کہ گو قیامت میں خدا دوبارہ روح ڈالنا چاہئے جیسا کہ مقتضے ٰ قرآن کا ہے مگر ہم نہ ڈالنے دیں گے اور بعث نہ ہونے دیں گے، جب ہی تو ایسے زور سے نفی کرتے ہو، ورنہ جو اپنے کو عاجز جانے وہ دلائل وقوع کے بعد ایسے زور کی بات کیوں کہے، سو اگر تم اپنے بس میں سمجھتے ہو تو ذرا اپنا زور اسی وقت دکھلا دو جبکہ کسی قریب الموت انسان کے بقاء حیات کے متمنی بھی ہوتے ہو اور دیکھ دیکھ کر رحم بھی آتا ہے دل گیر بھی ہوتے ہو اور وہ زور دکھلانا یہ کہ اس روح کو نکلنے نہ دو بدن میں لوٹا دو جب اس پر بس نہیں کہ روح کو بدن سے نکلنے نہ دو تو اس کو دوبارہ پیدا کرنے سے روکنے پر کیسے تمہارا بس چلے گا، پس ایسے لاطائل دعوے کیوں کرتے ہو اور چونکہ مقام ہے نفی قدرت کا اور نفی علم مستلزم ہے نفی تعلق قدرت کو، اس لئے نحن اقرب جملہ معترضہ میں ان کے علم تام کی نفی فرما دی اور چونکہ یہ دلیل کافی ان کے لئے شافی نہ ہوئی، اس لئے لا تبصرون میں توبیخ بھی فرما دی اور چونکہ اس تقدیر سے اثبات قدرت بھی ہوا اس لئے بعث کے ساتھ یہ توحید کی بھی دلیل ہے، آگے کیفیت مجازاة کی ارشاد ہے، یعنی یہ تو ثابت ہوچکا کہ قیامت اپنے وقت پر ضروری آوے گی) پھر (جب قیامت واقع ہوگی تو) جو شخص مقربین میں سے ہوگا (جن کا ذکر اوپر آیا ہے والسابقون الخ) اس کے لئے تو راحت ہے اور (فراغت کی) غذائیں ہیں اور آرام کی جنت ہے اور جو شخص داہنے والوں میں سے ہوگا ( جن کا ذکر اوپر آیا ہے واصحب الیمین الخ) تو اس سے کہا جاوے گا کہ تیرے لئے (ہر آفت اور خطرہ سے) امن وامان ہے کہ تو داہنے والوں میں سے ہے (اور یہ کہنا خواہ ابتداً ہو اگر فضل یا توبہ کے سبب اول ہی مغفرت ہوجاوے یا انتہاً ہو اگر بعد سزا کے مغفرت ہو اور یہاں روح و ریحان کا ذکر نہ فرمانا نفی کے لئے نہیں بلکہ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ سابقین سے ان امور میں کم ہوگا) اور جو شخص جھٹلانے والوں (اور) گمراہوں میں سے ہوگا تو کھولتے ہوئے پانی سے اس کی دعوت ہوگی اور دوزخ میں داخل ہونا ہوگا، بیشک یہ (جو کچھ مذکور ہوا) تحقیقی یقینی بات ہے سو (جس کے یہ تصرفات ہیں) اپنے (اس) عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح (وتحمید) کیجئے (وقد مر آنفاً ) ۔- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں عقلی دلائل سے قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس دنیاوی تخلیق کے ذریعہ دیا گیا تھا، آگے نقلی دلیل اسی پر حق تعالیٰ کی طرف سے قسم کے ساتھ دی گئی ہے۔- فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ ، لفظ لا قسم کے شروع میں ایک عام محاورہ ہے، جیسے لا واللہ اور جاہلیت کی قسموں میں لا وابیک مشہور ہے، بعض حضرات نے اس حرف لا کو زائد قرار دیا ہے اور بعض نے اس کی توجیہ یہ کی کہ اس موقع پر حرف لا مخاطب کے گمان کی نفی کے لئے ہوتا ہے، یعنی لیس کما تقول، یعنی جیسا تم کہتے اور سمجھتے ہو وہ بات نہیں، بلکہ حقیقت وہ ہے جو آگے قسم کھا کر بتلائی جاتی ہے۔- مواقع، موقع کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ستاروں کے غروب ہونے کی جگہ یا وقت، اس آیت میں ستاروں کی قسم کو غروب کے وقت کے ساتھ مقید کیا گیا ہے، جیسے سورة نجم میں بھی والنَّجْمِ اِذَا هَوٰى میں بھی وقت غروب کی قید ہے، اس قید کی حکمت یہ ہے کہ غروب کے وقت ہر ستارے کے عمل کا اس افق سے انقطاع نظر آتا ہے اور اس کے آثار کی فنا کا مشاہدہ ہوتا ہے جس سے ان کا حادث اور قدرت الٰہیہ کا محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے۔
فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ ٧٥ ۙ- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ - نجم - أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه :- نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار - عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1»- وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ.- ( ن ج م ) النجم - اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔
(٧٥۔ ٧٧) سو میں اس چیز کی قسم کھاتا ہوں کہ قرآن حکیم رسول اکرم پر تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ہے ایک دم پورا نازل نہیں ہوا اگر تم تصدیق کرو تو قرآن ایک بڑی چیز ہے یا یہ کہ میں قسم کھاتا ہوں صبح کے وقت ستاروں کے چھپنے کی اور اگر تم غور کرو اور تصدیق کرو تو یہ ایک بڑی قسم ہے یہ ایک مکرم معزز قرآن حکیم ہے جو لوح محفوظ میں پہلے سے لکھا ہوا ہے۔- شان نزول : فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ (الخ)- اور امام مسلم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم کے زمانہ میں لوگوں پر بارش ہوئی اس پر رسول اکرم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے بعض شاکر ہیں اور بعض ان میں کافر ہیں شاکر کہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اس نے نازل فرمائی ہے اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ فلاں ستارہ ٹھیک رہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم نے ابو حزرہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیات ایک انصاری شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔- غزوہ تبوک میں لوگوں کا ایک وادی پر پڑاؤ ہوا رسول اکرم نے ان کو حکم دیا کہ اس وادی کے پانی میں سے کچھ ساتھ نہ لینا پھر آپ نے کوچ کیا اور دوسرے مقام پر پڑاؤ کیا اور وہاں لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا لوگوں نے رسول اکرم سے پانی کی شکایت کی آپ نے کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھیں اور دعا فرمائی اللہ تعالیٰ نے بادل بھیجا اور ان پر بارش ہوئی اور وہ سب سیر ہوگئے تو ایک انصاری شخص نے جسے نفاق کا الزام دیا گیا تھا۔ اپنی قوم کے دوسرے شخص سے کہا ارے رسول اکرم نے کوئی دعا نہیں فرمائی جس سے ہم پر بارش ہوئی بلکہ ہم پر تو فلاں فلاح ستارہ کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔
آیت ٧٥ فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ ” پس نہیں قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔ “- بعض مفسرین نے مَوٰقِعِ النُّجُوم کی وضاحت شہاب ثاقب کے حوالے سے کی ہے ‘ حالانکہ شہاب ثاقب بالکل مختلف چیز ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اسے شیاطین کو عالم بالا سے مار بھگانے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ موجودہ دور میں سائنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اس آیت کو نسبتاً بہتر طور پر سمجھاجا سکتا ہے ‘ اگرچہ ابھی بھی اس کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہوا۔- یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ حلال و حرام ‘ جائز و ناجائز ‘ فرائض اور دین کے عملی پہلو سے متعلق قرآنی احکام کی تفہیم و تعمیل کے حوالے سے ہمیں راہنمائی کے لیے ” دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو “ کے مصداق پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہماری نظری و عملی اطاعت کا کمال یہ ہوگا کہ ہم اپنے اسلاف کا دامن تھامے رکھیں اور صحابہ کرام کے اتباع کو لازم جانیں۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے خود کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں پہنچا دیں ‘ بقول اقبال : ؎ - بمصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست - اگر بائو نہ رسیدی تمام بولہبی است - البتہ دوسری طرف کائنات کی تخلیق ‘ کائنات میں زندگی کی ابتدا ‘ تاریخی حوالہ جات اور سائنس کے مختلف شعبوں سے متعلق قرآنی آیات کی تشریح و تعبیر کے لیے ہمیں ہر دور کے اجتماعی انسانی شعور اور دستیاب حقائق و معلومات کو مدنظر رکھنا چاہیے ‘ پھر جہاں مناسب معلوم ہو ان معلومات سے استفادہ بھی کرنا چاہیے اور جب ممکن نظر آئے تکلف سے اجتناب کرتے ہوئے فطری انداز میں قرآنی الفاظ و معانی کا زمینی حقائق کے ساتھ تطابق ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ ایسی آیات کا جو مفہوم آج سے ہزار سال پہلے سمجھا گیا تھا آج ہم اس مفہوم کو ماننے اور درست جاننے کے پابند نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ایسی آیات کا تعلق حکمت سے ہے ‘ کسی حکم سے نہیں ہے۔ چناچہ حکمت اور سائنس کے میدان میں تو نئے نئے افق تلاش کرنے کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے ‘ لیکن احکام اور دین کے عملی پہلو کو سمجھنے ‘ سمجھانے کے لیے ماضی سے تعلق جوڑنے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ کو مشعل راہ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔- اب آیئے آیت زیر مطالعہ کو موجودہ دور کی سائنسی معلومات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ موجودہ دور میں سائنس دانوں نے کائنات کے اندر ایسے بیشمار بڑے بڑے اندھے غاروں کا کھوج لگایا ہے جو اپنے پاس سے گزرنے والی ہرچیز کو نگل جاتے ہیں۔ سائنس دانوں نے ان ” غاروں “ کو کا نام دیا ہے۔ ایسے کسی ایک بلیک ہول کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر ہمارے سورج سے کروڑوں گنا بڑے ستارے پلک جھپکنے میں غائب ہوجاتے ہیں ‘ بلکہ ایسے کروڑوں ستاروں پر مشتمل کہکشائیں بھی ایسے بلیک ہولز کے اندر گم ہو کر معدوم ہوجاتی ہیں۔ سائنسی تحقیقات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ کائنات کے اندر مسلسل نئے نئے ستارے جنم لے رہے ہیں اور نئی نئی کہکشائیں وجود میں آرہی ہیں ‘ جبکہ ساتھ ہی ساتھ بیشمار کہکشائیں اپنے اَن گنت ستاروں کے ساتھ مسلسل بلیک ہولز کی نذر ہو کر معدوم ہو رہی ہیں۔ اگرچہ کائنات کے اسرار و رموز سے متعلق آج بھی انسان کی معلومات بہت محدود ہیں لیکن پھر بھی بلیک ہولز کے متعلق اب تک حاصل ہونے والی یہ معلومات بہت ہوشربا ہیں۔ - اب اگر ہم اپنی زمین کی جسامت اور وسعت کا نقشہ ذہن میں رکھیں ‘ پھر اس کے مقابلے میں سورج کی جسامت کا اندازہ کریں ‘ پھر یہ تصور کریں کہ کائنات میں ہمارے سورج سے کروڑوں گنا بڑے اربوں کھربوں ستارے بھی موجود ہیں اور ان ستاروں کے درمیان اربوں نوری سالوں کے فاصلے ہیں ‘ پھر یہ تصور کریں کہ ایسے اَن گنت ستاروں پر مشتمل ان گنت کہکشائیں ہیں ‘ اور ان کہکشائوں کے درمیانی فاصلے بھی اسی تناسب سے ہیں ۔ کہکشائوں اور ستاروں سے متعلق یہ تمام معلومات ذہن میں رکھ کر اگر ہم کائنات کے طول و عرض میں موجود لاتعداد بلیک ہولز کا تصور کریں اور پھر یہ نقشہ ذہن میں لائیں کہ ان میں سے ایک ایک بلیک ہول اتنا بڑا ہے کہ وہ اپنے پاس سے گزرنے والی کسی بڑی سے بڑی کہکشاں کو آنِ واحد میں ایسے نگل جاتا ہے کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا اور پھر ان بلیک ہولز کا اطلاق مَوٰقِعِ النُّجُوْم پر کریں تو شاید ہمیں کچھ کچھ اندازہ ہوجائے کہ اس آیت میں جس قسم کا ذکر ہوا ہے وہ کتنی بڑی قسم ہے۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :36 یعنی بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو ۔ یہاں قرآن کے من جانب اللہ ہونے پر قسم کھانے سے پہلے لفظ لا کا استعمال خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ لوگ اس کتاب پاک کے متعلق کچھ باتیں بنا رہے تھے جن کی تردید کرنے کے لیے یہ قسم کھائی جا رہی ہے ۔
21 یہاں قرآن کریم کی حقانیت اور اس کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کا بیان فرمانا مقصود ہے، مکہ مکرمہ کے کافر لوگ بعض اوقات یہ کہا کرتے تھے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معاذاللہ) دراصل کاہن ہیں، اور یہ قرآن کاہنوں کا کلام ہے، کاہنوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنی پیشین گوئیوں میں جنات اور شیطانوں سے مدد لیتے تھے، اور قرآن کریم نے کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ شیطانوں کو آسمان کے قریب جاکر وہاں کی باتیں سننے سے روک دیا گیا ہے، اور اگر کوئی شیطان سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو شہاب ثاقب سے مار بھگایاجاتا ہے (دیکھئے سورۂ حجر ١٥: ١٨ اور سورۂ صافات ٣٧: ١٠) شہاب ثاقب کو چونکہ عام بول چال میں تارے ٹوٹنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لئے قرآن کریم نے ستاروں کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو شیاطین سے حفاظت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے (دیکھئے سورۂ صافات ٣٧: ٧ اور سورۃ ملک ٦٧: ٥) لہذا جب جنات اور شیاطین کی آسمان تک رسائی نہیں ہے تو وہ کبھی ایسا مستحکم اور سچا کلام پیش نہیں کرسکتے جیسا قرآن کریم ہے، اس مناسبت سے یہاں ستاروں کے گرنے کے مقامات کی قسم کھائی گئی ہے کہ اگر ان کی حقیقت پر غور کرو تو صاف پتہ چل جائے گا کہ قرآن کریم ایسا باوقار کلام ہے جو کوئی کاہن بناکر نہیں لاسکتا ؛ کیونکہ یہ ستارے اسے عالم بالا تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔