7 7 1یہ جواب قسم ہے۔
[٣٦] اتنی بڑی قسم اللہ تعالیٰ نے اس بات پر اٹھائی کہ اس کتاب کے مضامین و مطالب نہایت بلندپایہ ہیں۔ یہ نہ کسی ساحر کی ساحری ہے، نہ کسی کاہن کی کہانت اور نہ کسی شاعر کے تخیلات ہیں بلکہ یہ بلند پایہ بزرگ و برتر ہستی کی طرف سے نازل شدہ بلند پایہ کتاب ہے جو اس نے تمام بنی نوع انسان کی ہدایت اور فلاح و بہبود کے لیے نازل فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی وسعت علم کی بنا پر اس کے سب مضامین لوح محفوظ میں پہلے ہی مندرج ہیں۔
١۔ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔:” کریم “ ہر چیز میں سے اپنی قسم میں سب سے اعلیٰ اور عمدہ چیز کو ” کریم “ کہتے ہیں ۔ ” القرآن “ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے ، یعنی پڑھا جانے والا ۔ یہ نام اس لیے ہے کہ یہ کتاب اتنی پڑھی گئی اور قیامت تک پڑھی جائے گی کہ پڑھنے جانے میں کسی اور کتاب کو اس کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ۔ یعنی یہ کتاب جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں ، تمام پڑھی جانے والی چیزوں میں سب سے اعلیٰ ہے اور ہر قسم کی کمی بیشی سے پوری طرح محفوظ ہے۔ کسی شیطان کی مجال نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے سے پہلے یا نازل ہونے کے دوران اس پر مطلع ہی ہو سکے ، کیونکہ یہ اس کتاب یعنی لوح ِ محفوظ میں درج ہے جو چھپا کر رکھی ہوئی ہے ، جن و انس میں سے کسی کی اس تک رسائی ہی نہیں ۔ اسے پڑھنا تو درکنار ، کوئی اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا ، سوائے اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں کے جنہیں ہر قسم کی خیانت اور معصیت سے ہر طرح پاک پیدا کیا گیا ہے۔ ان پاک باز فرشتوں نے رب العالمین کی طرف سے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نازل فرمایا ہے۔ یہ نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی تصنیف ہے ، نہ کسی انسان یا دوسری مخلوق کا کلام ہے اور نہ شیاطین کا اس میں کوئی دخل ہوسکتا ہے ، بلکہ یہ ہر طرح کی حفاظت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والا کلام ہے ۔” کتب مکنون “ سے مراد لوح محفوظ ہونے کی دلیل یہ آیت ہے ، فرمایا (بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ ) (الروج : ٢١، ٢٢) ” بلکہ وہ ایک بڑی شان والا قرآن ہے ۔ اس تختی میں ( لکھا ہوا) ہے جس کی حفاظت کی گئی ہے۔ “۔ مزید دیکھئے سورة ٔ عبس (١١ تا ١٦) اور سورة ٔ شعرائ ( ١٩٢ تا ١٩٤) اور (٢١٠ تا ٢١٢)- ٢۔ یہ چاروں آیات ” فلا اقسم بمواقع النجوم “ کا جواب قسم ہیں ۔ اس قسم اور جواب قسم کی مناسبت کے لیے سورة ٔ نجم کی ابتدائی آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔- ٣۔ جیسا کہ آیت کی تفسیر ہوئی ، تو ” لا یمسہٗ الا المطھرون “ میں حدیث اصغر یا حدث اکبر کی صورت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانے یا نہ لگانے کا کوئی حکم بیان نہیں کیا گیا ، بلکہ یہ بات بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن مجید جس کتاب مکنون میں ہے اسے فرشتوں کے سوا کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔ اس لیے جو اہل علم اس آیت سے یہ مسئلہ نکالتے ہیں کہ جنبی یا حائضہ یا بےوضو شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ قرآن مجید کو ہاتھ لگائے ، ان کی بات درست نہیں ، کیونکہ انسان جتنی بھی طہارت کرلے اس کے لیے فرشتوں جیسا مطہر بننا مشکل ہے۔ ( الا ما شاء اللہ)- ٤۔ بہت سے اہل علم نے فرمایا کہ یہ مسئلہ قرآن مجید کی اس آیت سے نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن حزم (رض) کو جو خط لکھ کردیا اس میں یہ بھی لکھا کہ ” لا یمس القرآن الا طاھر “ ” قرآن کو طاہر کے سوا کوئی ہاتھ نہ لگائے “۔ شیخ ناصر الدین البانی (رح) تعالیٰ نے ” ارواء الغلیل “ کی حدیث (٢٢) میں اس حدیث کی تمام سندوں پر مفصل کلام کے بعد لکھا ہے :” خلاصہ یہ ہے کہ حدیث کے جتنے طرق ہیں کوئی بھی ضعیف سے خالی نہیں ، لیکن یہ معمولی ضعیف ہے ، کیونکہ ان میں سے کسی میں بھی ایسا راوی نہیں جس پر جھوٹ کی تہمت ہو ، علت صرف ارسال ہے یا سوئے حفظ اور اصول حدیث میں طے ہے کہ کئی سندیں ہوں تو وہ ایک دوسری کو قوت دیتی ہے ، جب ان میں کوئی مہتم شخص نہ ہو ، جیسا کہ نووی نے اپنی تقریب میں ، پھر سیوطی نے اس کی شرح میں قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق دل کو اس حدیث کی صحت پر اطمینان ہوتا ہے۔۔۔۔ “ ( ارواء الغلیل) مگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا ، ہمارے استاذ محمد عبدہ لکھتے ہیں :” مگر یہ اپنے مفہوم میں صریح نہیں ہے ، کیونکہ اس کے معنی ” کفر و شرک “ سے پاک ہونے کے بھی سکتے ہیں ، کیونکہ مسلمان تو جنابت کی حالت میں بھی پاک ہی رہتا ہے۔” سبحان اللہ ان المومن لا ینجنس “ ( اشرف الحواشی) استاذ مرحوم نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں : ” مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کے کسی راستے میں ملے ، جب کہ میں جنابت کی حالت میں تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا ، میں آپ کے ساتھ چلتا رہا ، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو میں کھسک گیا ، گھر آیا ، غسل کیا ، پھر آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے : فرمایا ( ابن کنت یا ابھرا ؟ ) ” ابوہریرہ تم کہاں تھے ؟ “ میں نے آپ کو بات بتائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( سبحان اللہ اباایا ھر ان المومن لایجنس) (بخاری ، الغسل ، باب الجنت یخرج۔۔۔۔۔ ٢٨٥)” سبحان اللہ ابوہریرہ مومن تو نجس نہیں ہوتا “۔ - حائضہ کے لیے نماز اور روزہ کی اجازت نہیں ، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ہاتھ نجس ہے جسے وہ قرآن کو نہیں لگا سکتی ، چناچہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ناولینی الخمرۃ من المسجد) ” مجھے مسجد سے چنائی پکڑاؤ “۔ میں نے کہا :” میں تو حائضہ ہوں “۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ان حیضتک لیست فی یدیک) ( مسلم الحیض ، باب جواز غسل الحائض راس اوجھا۔۔۔ ٢٩٨)” تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے “۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان فرمایا :” ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تھے ، آپ نے فرمایا :( یا عائشہ ناولینی الثوب)” اے عائشہ مجھے کپڑا پکڑاؤ “۔ انہوں نے کہا : ” میں حائضہ ہوں “۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ان حیضتک لیست فی یدک) ” تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں “۔ تو انہوں نے آپ کو وہ کپڑا پکڑا دیا “۔ ( مسلم ، الحیض ، باب جواز غسل الحائض راس روجھا۔۔۔۔: ٢٩٩)- شیخ ناصر الدین البانی نے ” تمام المنۃ “ کے ” باب ما یجب بہ الوضوئ “ میں فرمایا :’ تو زیاہ قریب بات ( واللہ اعلم) یہ ہے کہ اس حدیث میں ” طاہر “ سے مراد مومن ہی ہے ، خواہ وہ حدث ِ اکبر ( جنابت) کی حالت میں ہو یا حدث ِ اصغر ( بےوضو ہونے) کی حالت میں ، یا حائضہ ہو یا اس کے جسم پر کوئی نجاست لگی ہو، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ان المومن لا یجنس) ” مومن نجس نہیں ہوتا “۔ اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے اور ” لا یمس القرآن الا طاہر “ کا مطلب یہ ہے کہ مشرک کو اسے ہاتھ لگانے کی اجازت نہ دی جائے۔ چناچہ یہ اس حدیث ہی کی طرح ہے جس میں ہے : ( لھی ان یسافر بالقرآن الی الارض العدو)” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمن کی سر زمین کی طرف قرآن لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا “۔ یہ حدیث بھی متفق علیہ ہے۔ اور شوکانی نے ” نیل الاوطار “ ( با ب الجاب الوضوء للصلاۃ والطواف ومس المصحف) میں اس مسئلے پر تفصیل سے کلام کیا ہے ، اگر زیادہ تحقیق چاہو تو اس کی طرف مراجعت کرو “۔- اور ” تمام المنۃ “ کے ” باب ما یحرم علی الجنب “ میں لکھتے ہیں :” والبراء ۃ الا صلیۃ مع الذین قالوا بجواز مس القرآن من المسلم الجنب ولیس فی الباب نقل صحیح یجیزا لخروج عننھا “ یعنی ” یہ قاعدہ کہ جس کام کی ممانعت نہ ہو اس میں اصل یہی ہے کہ وہ جائز ہے ، ان لوگوں کی تائید میں ہے جو کہتے ہیں کہ مسلمان جنبی بھی ہو تو قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے اور اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں جس کی وجہ سے اسے اس سے خارج کیا جاسکے “۔
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ ، سابقہ آیات میں مواقع النجوم کی قسم کھا کر جو مضمون جواب قسم کا بیان کرنا ہے، وہ ان آیات میں مذکور ہے، جس کا حاصل قرآن کریم کا مکرم و محفوظ ہونا اور مشرکین کے اس خیال کی تردید ہے کہ یہ کسی انسان کا بنایا ہوا یا معاذ اللہ شیطان کا القاء کیا ہوا کلام ہے۔
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ ٧٧ ۙ- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے
قرآن کو پاکبازوں کے علاوہ کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا - قول باری ہے (انہ لقراٰن کریم فی کتاب مکنون لا یمسہ الا المطھرون یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے ایک محفوظ کتاب میں ثبت جسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا بجز پاک لوگوں کے) حضرت سلیمان (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ قرآن کو پاک لوگوں کے سوا کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ “ پھر انہوں نے قرآن کی تلاوت کی لیکن مصحف کو ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ وہ باوضو نہیں تھے۔- حضرت انس (رض) بن مالک نے حضرت عمر (رض) کے اسلام لانے کے واقعہ کے سلسلے میں روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اپنی بہن سے کہا کہ ” مجھے وہ کتاب دو جسے تم لوگ پڑھتے ہو۔ “ بہن نے جواب دیا : ” عمر تم ناپاک ہو اور اس کتاب کو پاک لوگوں کے سوا کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، اٹھو پہلے غسل یا وضوکر لو۔ “ حضرت عمر (رض) نے اٹھ کر وضو کیا اور بہن سے قرآن لے کر اسے پڑھا۔ حضرت انس (رض) نے اس کا باقی ماندہ حصہ بھی بیان کیا۔- حضرت سعد (رض) کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کے لئے اپنے بیٹے کو پہلے وضو کرلینے کا حکم دیا تھا۔ حضرت ابن عمر (رض) سے بھی اس قسم کی روایت ہے جس بصری اور ابراہیم نخعی نے وضو کے بغیر قرآن مجیدکو ہاتھ لگانے کو مکروہ سمجھا ہے۔- حماد سے مروی ہے کہ آیت میں مذکورہ قرآن سے وہ قرآن مراد ہے جو لوح محفوظ کے اندر ہے اور قول باری (لا یمسہ الا المطھرون) سے فرشتے مراد ہیں ۔ ابوالعالیہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ ” قرآن ایک محفوظ کتاب ہے اور تم گنہگار لوگ یہاں مراد نہیں ہو۔ “- سعید بن جبیر اور حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ (المطھرون) سے فرشتے مراد ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ اللہ کے نزدیک پاکوں کے سوا اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ البتہ دنیا میں اسے مجوسی، ناپاک اور منافق بھی ہاتھ لگا لیتا ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر اس فقرے کو جملہ خبریہ کے معنوں پر محمول کیا جائے تو پھر اس صورت میں بہتر یہ ہوگا کہ قرآن سے وہ قرآن مراد لیا جائے جو اللہ کے نزدیک ہے اور مطہرون سے فرشتے مراد لئے جائیں۔- لیکن اگر اس فقرے کو نہی پر محمول کیا جائے اگرچہ یہ خبر کی صورت ہے تو اس میں ہمارے لئے عموم ہوگا۔ یہ دوسری بات اولیٰ ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک جیسی روایات میں منقول ہے کہ آپ نے عمرو بن حزم کی جو تحریر دی تھی اس میں یہ درج تھا کہ ” قرآن کو پاک آدمی کے سوا کوئی ہاتھ نہ لگائے۔- اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ آپ نے آیت زیر بحث کی بنا پر نہی کا یہ حکم دیا تھا کیونکہ آیت میں اس نہی کا احتمال موجود تھا۔
آیت ٧٧ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ ” یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔ “- یہاں پر ہم میں سے ہر شخص کو پوری دیانت داری سے اپنا جائزہ لیناچاہیے کہ اس نے اپنی حد تک قرآن مجید کی کیا قدر کی ہے اور کس حد تک اس کے حقوق پورے کیے ہیں ؟ بہرحال جہاں تک ان حقوق کی ادائیگی کا تعلق ہے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کسی انسان کو ہزاروں زندگیاں مل جائیں اور وہ انہیں ” قرآن “ کے لیے وقف کر دے ‘ تب بھی قرآن کا حق ادا نہیں ہو سکے گا۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :37 تاروں اور سیاروں کے مواقع سے مراد ان کے مقامات ، ان کی منزلیں اور ان کے مدار ہیں ۔ اور قرآن کے بلند پایہ کتاب ہونے پر ان کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ عالم بالا میں اجرام فلکی کا نظام جیسا محکم اور مضبوط ہے ویسا ہی مضبوط اور محکم یہ کلام بھی ہے ۔ جس خدا نے وہ نظام بنایا ہے اسی خدا نے یہ کلام بھی نازل کیا ہے ۔ کائنات کی بے شمار کہکشانوں ( ) اور ان کہکشانوں کے اندر بے حد و حساب تاروں ( ) اور سیاروں ( ) میں جو کمال درجہ کا ربط و نظم قائم ہے ، در آنحالیکہ بظاہر وہ بالکل بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں ، اسی طرح یہ کتاب بھی ایک کمال درجہ کا مربوط و منظم ضابطہ حیات پیش کرتی ہے جس میں عقائد کی بنیاد پر اخلاق ، عبادات ، تہذیب و تمدن ، معیشت و معاشرت ، قانون و عدالت ، صلح و جنگ ، غرض انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مفصل ہدایات دی گئی ہیں ، اور ان میں کوئی چیز کسی دوسری چیز سے بے جوڑ نہیں ہے ، در آنحالیکہ یہ نظام فکر متفرق آیات اور مختلف مواقع پر دیے ہوئے خطبوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ پھر جس طرح خدا کے باندھے ہوئے عالم بالا کا نظم اٹل ہے جس میں کبھی ذرہ برابر فرق واقع نہیں ہوتا ، اسی طرح اس کتاب میں بھی جو حقائق بیان کیے گئے ہیں اور جو ہدایات دی گئی ہیں وہ بھی اٹل ہیں ، ان کا ایک شوشہ بھی اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جا سکتا ۔