Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

871یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ کوئی تمہارا آقا اور مالک نہیں جس کے تم زیر فرمان اور ما تحت ہو یا کوئی جزا سزا کا دن نہیں آئے گا، تو اس قبض کی ہوئی روح کو اپنی جگہ پر واپس لوٹا کر دکھاؤ اور اگر تم ایسا نہیں کرسکتے اس کا مطلب تمہارا گمان باطل ہے۔ یقینا تمہارا ایک آقا ہے اور یقینا ایک دن آئے گا جس میں وہ آقا ہر ایک کو اسکے عمل کی جزا دے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] سورت کے آخر میں یاددہانی کے طور پر انہیں تین گروہوں کا اجمالاً انجام ذکر کیا جارہا ہے جن کا بیان ابتدا میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ یعنی مُقَّرَبِیْنَ ، أصْحَابُ الْیَمِیْنِ اور أصْحَاب الشِّمَالِ ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٨٧- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

24: کافر لوگ قرآن کریم پر ایمان لانے سے جو انکار کرتے تھے، اس کا ایک بڑا حصہ ان کا یہ دعوی تھا کہ ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے، جیسا کہ اسی سورت کی آیت نمبر ٤٥ میں گزرا ہے، اللہ تعالیٰ اب اس طرف توجہ دلارہے ہیں کہ اتنی بات تو تم بھی مانتے ہو کہ اس دنیا میں جو کوئی آتا ہے ایک نہ ایک دن اسے موت ضرور آتی ہے، اور ایسی حالت میں آتی ہے کہ اس کے عزیز رشتہ دار، دوست احباب اور اس کے معالج ہر قسم کے جتن کر گزرتے ہیں کہ کسی طرح وہ موت سے بچ جائے، لیکن موت اس طرح آجاتی ہے کہ وہ سب دیکھتے رہ جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر مرنے کے بعد دوسری زندگی میں حساب و کتاب ہونا نہیں ہے تو آخر ہر انسان کسی نہ کسی وقت موت کے منہ میں کیوں جارہا ہے اور تم اس کو موت سے بچانے میں اتنے بے بس کیوں ہو؟ دنیا میں موت اور زندگی کا جو یہ نظام کارفرما ہے، وہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ موت اور زندگی کے مالک نے یہ کائنات اس مقصد کے لئے پیدا کی ہے کہ انسان کو عمر بھر کی مہلت دے کر آخر میں اس سے حساب لیاجائے کہ اس نے اس مہلت سے کیا فائد اٹھایا؟