احوال موت یہاں وہ احوال بیان ہو رہے ہیں جو موت کے وقت سکرات کے وقت دنیا کی آخری ساعت میں انسانوں کے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ اعلیٰ درجہ کا اللہ کا مرقب ہے یا اس سے کم درج کا ہے جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا ۔ یا بالکل بدنصیب ہے جو اللہ سے جاہل رہا اور راہ حق سے غافل رہا ۔ فرماتا ہے کہ جو مقربین بارگاہ الٰہی ہیں ، جو احکام کے عامل تھے ، نافرمانیوں کے تارک تھے انہیں تو فرشتے طرح طرح کی خوشخبریاں سناتے ہیں ۔ جیسے کہ پہلے براء کی حدیث گذری کہ رحمت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں اے پاک روح پاک جسم والی روح چل راحت و آرام کی طرف چل کبھی نہ ناراض ہونے والے رحمن کی طرف ۔ روح سے مرد راحت ہے اور ریحان سے مراد آرام ہے ۔ غرض دنیا کے مصائب سے راحت مل جاتی ہے ابدی سرور اور سچی خوشی اللہ کے غلام کو اسی وقت حاصل ہوتی ہے وہ ایک فراخی اور وسعت دیکھتا ہے اس کے سامنے رزق اور رحمت ہوتی ہے وہ جنت عدن کی طرف لپکتا ہے ۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں جنت کی ایک ہری بھری شاخ آتی ہے اور اس وقت مقرب اللہ کی روح قبض کی جاتی ہے ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں مرنے سے پہلے ہی ہر مرنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے ( یا اللہ ہمارے اس وقت میں تو ہماری مدد کر ہمیں ایمان سے اٹھا اور اپنی رضامندی کی خوشخبری سنا کر سکون و راحت کے ساتھ یہاں سے لے جا آمین ) گو سکرات کے وقت کی احادیث ہم سورہ ابراہیم کی آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ 27ۧ ) 14- ابراھیم:27 ) ، کی تفسیر میں وارد کر چکے ہیں لیکن چونکہ یہ ان کا بہترین موقعہ ہے اس لئے یہاں ایک ٹکڑا بیان کرتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ حضرت ملک الموت علیہ السلام سے فرماتا ہے میرے فلاں بندے کے پاس جا اور اسے میرے دربار میں لے آ میں نے اسے رنج راحت و آرام تکلیف خوشی ناخوشی غرض ہر آزمائش میں آزما لیا اور اپنی مرضی کے مطابق پایا بس اب میں اسے ابدی راحت دینا چاہتا ہوں جا اسے میرے خاص دربار میں پیش کر ۔ ملک الموت پانچ سو رحمت کے فرشتے اور جنت کے کفن اور جنتی خوشبوئیں ساتھ لے کر اس کے پاس آتے ہیں گو ریحان ایک ہی ہوتا ہے لیکن سرے پر بیس قسمیں ہوتی ہیں ہر ایک کی جداگانہ مہک ہوتی ہے سفید ریشم ساتھ ہوتا ہے جس میں مشک کی لپٹیں آتی ہیں ، الخ ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت فروح رے کے پیش سے تھی ۔ لیکن تمام قاریوں کی قرأت رے کے زبر سے ہے یعنی فروح مسند میں ہے حضرت ام ہانی نے رسول مقبول علیہ السلام سے پوچھا کیا مرنے کے بعد ہم آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے؟ اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا روح ایک پرند ہو جائے گی جو درختوں کے میوے چگے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو اس وقت اپنے اپنے جسم میں چلی جائیگی ، اس حدیث میں ہر مومن کے لئے بہت بڑی بشارت ہے ۔ مسند احمد میں بھی اس کی شاہد ایک حدیث ہے جس کی اسناد بہت بہتر ہے اور متن بھی بہت قوی ہے اور صحیح روایت میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں ، ساری جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی رہتی ہیں اور عرش تلے لٹکی ہوئی قندیلوں میں آ بیٹھتی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابو یعلی ایک جنازے میں گدھے پر سوار جا رہے تھے آپ کی عمر اس وقت بڑھاپے کی تھی سر اور داڑھی کے بال سفید تھے اسی اثناء میں آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو برا جانتا ہے اللہ بھی اس کی ملاقات سے کراہت کرتا ہے صحابہ یہ سن کر سر جھکائے رونے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روتے کیوں ہوں؟ صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھلا موت کون چاہتا ہے؟ فرمایا سنو سنو مطلب سکرات کے وقت سے ہے اس وقت نیک مقرب بندے کو تو راحت و انعام اور آرام دہ جنت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جس پر وہ تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جلد اللہ سے ملے تا کہ ان نعمتوں سے مالا مال ہو جائے پس اللہ بھی اس کی ملاقات کی تمنا کرتا ہے اور اگر بد بندہ ہے تو اسے موت کے وقت گرمی پانی اور جہنم کی مہمانی کی خبر دی جاتی ہے جس سے یہ بیزار نہ ہوؤں پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے اگر وہ سعادت مندوں سے ہے تو موت کے فرشتے اسے سلام کہتے ہیں تجھ پر سلامتی ہو تو اصحاب یمین میں سے ہے ، اللہ کے عذاب سے تو سلامتی پائے گا اور خود فرشتے بھی اسے سلام کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 13ۚ ) 46- الأحقاف:13 ) یعنی سچے پکے توحید والوں کے پاس ان کے انتقال کے وقت رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارت دیتے ہیں کہ کچھ ڈر خوف نہیں کچھ رنج غم نہ کر جنت تیرے لئے حسب وعدہ تیار ہے ، دنیا اور آخرت میں ہم تیری حمایت کے لئے موجود ہیں جو تمہارا جی چاہے تمہارے لئے موجود ہے جو تمنا تم کرو گے پوری ہو کر رہے گی ، غفور و رحیم اللہ کے تم ذی عزت مہمان ہو ۔ بخاری میں ہے یعنی تیرے لئے مسلم ہے کہ تو اصحاب یمین میں سے ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سلام یہاں دعا کے معنی میں ہو ، واللہ اعلم اور اگر مرنے والا حق کی تکذیب کرنے والا اور ہدایت سے کھویا ہوا ہے تو اس کی ضیافت اس گرم حمیم سے ہو گی جو آنتیں اور کھال تک جھلسا دے پھر چاروں طرف سے جہنم کی آگ گھیر لے گی جس میں جلتا بھنتا رہے گا ۔ پھر فرمایا یہ یقینی باتیں ہیں جن کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ پس اپنے بڑے رب کے نام کی تسبیح کرتا رہے ۔ مسند میں ہے اس آیت کے اترنے پر آپ نے فرمایا اسے رکوع میں رکھو اور آیت ( سبح اسم ربک الاعلی ) اترنے پر فرمایا اسے سجدے میں رکھو ۔ آپ فرماتے ہیں جس نے حدیث ( سبحان اللہ العظیم وبحمدہ ) کہا اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگایا جاتا ( ترمذی ) صحیح بخاری شریف کے ختم پر یہ حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں میزان میں بوجھ ہیں اللہ کو بہت پیارے ہیں ۔ دعا ( سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ) الحمد للہ سورہ واقعہ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ قبول فرمائے ( اور ہمارے کل واقعات کا انجام بھلا کرے ۔ )
فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ۔۔۔۔:” فروح “ اور ” ریحان “ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ ’ ’ روح “ کے معنی ہیں راحت ، خوشی اور رحمت اور ” ریحان “ ہر خوشبو دار پودے اور پھول کو کہتے ہیں۔ ” ریحان “ کا ایک معنی رزق بھی ہے۔ سورت کے آخر میں تینوں گروہوں کا جان کنی کے وقت کا حال بیان فرمایا ۔ مقصد ترغیب و ترہیب ہے ، یعنی اگر مرنے والا مقربین سے ہوا تو مرتے وقت اس کے لیے عظیم راحت ، خوشی اور اللہ کی رحمت ہے ، خوشبو دار پھول ہیں اور نعمتوں سے بھری ہوئی جنت ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( المیت تحضرہ الملائکۃ فاذا کان الرجل صالحا ًقالوا اخرجی ایتھا النفس الطیبۃ کانت فی الجسد الطیب ، اخرجی حمیدۃ وابشری بروح و ریحان ورب غیر غضبان فلا یزال یقال لھا ذلک حتی تخرج ثم یعرج بھا الی السماء فیفتح لھا فیقال من ھذا ؟ فیقولون فلان ، فیقال مرحبا ًبالنفس الطیبۃ کانت فی الجسد الطیب ادخلی حمیدہ وابشری بروح وریحان ورب غیر غضبان ، فلا یزال یقال لھا ذلک حتی ینتھی بھا الی السماء النبی فیھا اللہ عزوجل ) (ابن ماجہ ، الزھد ، باب ذکر الموت والاستعداد لہ ، ٤٢٦٢، وقال الالبانی صحیح)” مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں جب آدمی صالح ہو تو وہ کہتے ہیں :” نکل اے پا ک جان جو پاک جسم میں تھی نکل ، تو تعریف والی ہے اور عظیم راحت کی اور خوشبو دار پھولوں کی اور غصے نہ ہونے والے رب کی خوش خبری پر خوش ہوجا “۔ وہ اسے یہی کہتے رہتے ہیں حتی کہ وہ نکل آتی ہے ، پھر اسے آسمان کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے اور اس کے لیے دروازہ کھولا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے :” یہ کون ہے “ وہ کہتے ہیں :” فلاں ہے “ ۔ تو کہا جاتا ہے : ” اس پاک جان کو مرحبا جو پاک جسم میں تھی ، اندر آجاء ، تو تعریف والی ہے اور عظیم راحت کی اور خوشبو دار پھولوں کی اور غصے نہ ہونے والے رب کی خوش خبری پر خوش ہوجا “۔ پھر اسے یہی الفاظ کہتے رہتے ہیں ، حتیٰ کہ اسے اس آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے جس میں اللہ عزوجل ہے “۔
فَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ، سابقہ آیات میں مختلف دلائل اور مختلف عنوانات سے یہ واضح کردیا گیا کہ دنیا کی موجودہ زندگی کا ایک روز ختم ہوجانا اور مرنے کے وقت سب عزیزوں، دوستوں، طبیبوں کا عاجز ہوجانا روز مشاہدہ میں آتا ہے اسی طرح اس کو بھی یقینی سمجھو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے اور حساب کے بعد جزا و سزا بھی یقینی ہے اور جزا و سزا میں کل مخلوق کا تین گروہوں میں تقسیم ہوجانا اور ہر ایک کی جزا الگ الگ ہونا جو شروع سورت میں بیان ہوچکا ہے، اس کا اجمال پھر یہاں ذکر کردیا گیا کہ مرنے کے بعد اگر یہ شخص مقربین یعنی سابقین کے گروہ میں سے ہے تو راحت ہی راحت آرام ہی آرام ہے اور اگر سابقین مقربین میں نہیں مگر اصحاب الیمین یعنی عام مومنین صالحین میں سے ہے تو بھی جنت کی نعمتوں سے سر فراز ہوگا اور اگر تیسرے گروہ یعنی اصحاب شمال کفار و مشرکین میں سے ہوا تو جہنم کی آگ اور کھولتے ہوئے پانی سے اس کو سابقہ پڑے گا۔
فَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ٨٨ ۙ- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] .- وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔
(٨٨۔ ٩١) پھر جو شخص جنت عدن والوں میں سے ہوگا تو ان کے لیے تو قبر میں بھی راحت ہے یا یہ کہ رحمت ہے اور جس وقت قبر سے نکلیں گے تب بھی راحت ہے یا یہ کہ رزق کا سامان ہے اور قیامت کے دن ایسی جنت ہے جس کی نعمتیں فنا نہیں ہوں گی اور جو شخص داہنے والوں میں سے ہوگا اور سب کے سب جنتی داہنے والے ہیں تو اس سے کہا جائے گا کہ تیرے لیے سلامتی اور امن وامان ہے یا یہ کہ جنتی اس کو سلام کریں گے۔
آیت ٨٨ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ۔ ” پھر اگر وہ مقربین میں سے تھا۔ “- یعنی اگر مرنے والا شخصسابقون میں سے تھا۔ اپنی زندگی میں فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِط (المائدۃ : ٤٨) کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مسابقت کرتے ہوئے دوسروں کے لیے مثال بنتا رہا تھا :