فَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ ٠ۥۙ وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ ٨٩- ريْحَانُ- وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] ، فالرَّيْحَانُ : ما له رائحة، وقیل : رزق، ثمّ يقال - للحبّ المأكول رَيْحَانٌ في قوله : وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحانُ [ الرحمن 12] ، وقیل لأعرابيّ : إلى أين ؟ فقال : أطلب من رَيْحَانِ الله، أي : من رزقه، والأصل ما ذکرنا . وروي : «الولد من رَيْحَانِ الله» وذلک کنحو ما قال الشاعر : يا حبّذا ريح الولد ... ريح الخزامی في البلد أو لأنّ الولد من رزق اللہ تعالی.- ور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة 89] توراحت اور رزق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے ۔ اور کھانے کے اناج کو بھی ریحان کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحانُ [ الرحمن 12] اور ہر طرح کے اناج جو ( بھوسی کے ) خول کے اندر ہوتے ہیں اور کھانے کا اناج ۔ ایک اعرابی سے پوچھا گیا کہ کہاں جا رہے ہو ۔ تو اس نے جواب دیا۔ أطلب من رَيْحَانِ اللہ : کہ میں اللہ کے رزق کی تلاش میں ہوں لیکن اصل معنی وہی ہیں ۔ جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں ( یعنی خوشبودار چیز ) ایک حدیث میں ہے ۔ ( 162) الولد من ریحان اللہ کہ اولاد بھی اللہ کے ریحان سے ہے اور یہ ایسے ہی ہے ۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ يا حبّذا ريح الولد ... ريح الخزامی في البلداولاد کی خوشبو کیسی پیاری ہے ۔ یہ خزامی گھاس کی خوشبو ہے جو شہر میں مہکتی ہے ۔ اولاد کو ریحان اس لئے کہا ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق ہے ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔
آیت ٨٩ فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ لا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ۔ ” تو اس کے لیے راحت اور سرور اور نعمتوں والی جنت ہے۔ “