Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مراد لیا ہے۔ بہر حال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کے لحاظ سے بھی کم تر تھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور جہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت و تعداد میں بھی بڑھتے چلے گئے اور انکی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابر نہیں ہوسکتے۔ 2 کیونکہ پہلوں کا انفاق اور جہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل و عزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کے نزدیک شرف وفضل میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مومن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو اپنی زندگی اور موجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مومنوں (صحابہ کرام) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا۔ (رض) و رضوا عنہ۔ 3 اس میں وضاحت فرما دی ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان شرف و فضل میں فرق تو ضرور ہے لیکن فرق درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ایمان اور اخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیسا کہ بعض حضرات، حضرت معاویہ ان کے والد حضرت ابو سفیان اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر انکی تنقیص و اہانت کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ کرام (رض) کے بارے میں فرمایا ہے کہ لا تسبوا اصحابی میرے صحابہ پر سب و شتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] اللہ کی میراث ہونے کے مختلف پہلو :۔ یعنی جو مال اس وقت تمہارے پاس موجود ہے۔ تمہارے مرنے کے بعد تمہارے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ حتیٰ کہ یہ سب کچھ اللہ کی میراث میں چلا جائے گا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم دنیا میں آئے تھے تو خالی ہاتھ آئے تھے اور جب یہاں سے رخصت ہوگے تو بھی خالی ہاتھ ہی جاؤ گے تو پھر یہ تمہاری ملکیت کیسے ہوئی ؟ تم اس سے صرف عارضی طور پر انتفاع کرسکتے ہو۔ اور اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ جیسے آج تمہارے پاس یہ مال آگیا ہے۔ ویسے ہی تمہاری زندگی میں تم سے نکل بھی سکتا ہے۔ یہ مال و دولت تو ڈھلتی چھاؤں ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ لہذا جب تک یہ مال تمہاری تحویل میں ہے اسے حقیقی مالک کی مرضی کے مطابق خرچ کرکے اس سے حقیقی فوائد کیوں نہیں حاصل کرتے ؟- [١٥] بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو آیات فتح مکہ کے بعد اور بقول بعض غزوہ تبوک کے وقت نازل ہوئیں جو مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے یہاں رکھی گئیں۔ اور فتح سے مراد بعض علماء نے صلح حدیبیہ لی ہے کیونکہ اللہ نے اسے بھی فتح مبین قرار دیا ہے۔ لیکن اکثریت کے نزدیک اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد ہی اسلام کو واضح طور پر کفر پر غلبہ حاصل ہوا تھا۔ تمام عرب قبائل مکہ کے معرکہ پر دیر سے نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ اس معرکہ میں قریش مکہ غالب آتے ہیں یا مسلمان ؟ اور جو فریق غالب آئے وہ اس کا ساتھ دینے کو منتظر بیٹھے تھے اس فیصلہ کن معرکہ میں جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا تو عرب قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اب تو یہ واضح بات ہے کہ جن مسلمانوں نے فتح مکہ سے قبل مالی قربانیاں پیش کی تھیں اس کی بنیاد صرف ان کا اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں پر غیر متزلزل ایمان ہی ہوسکتا ہے ورنہ حالات ان کے حق میں کچھ حوصلہ افزا نہ تھے۔ بلکہ بعض اوقات انتہائی حوصلہ شکن ہوتے تھے۔ ان کے مقابلہ میں جن لوگوں نے فتح مکہ کے بعد مالی قربانیاں دیں ان کے لیے حالات حوصلہ افزا اور امید افزا ہوتے تھے کیونکہ وہ ایک غالب گروہ کا ساتھ دے رہے تھے۔ پھر انہیں غنائم کی صورت میں خرچ کردہ مال سے بہت زیادہ مال واپس مل جانے کی توقع ہوتی تھی اور اکثر اوقات ان کی توقع پوری بھی ہوجاتی تھی۔ لہذا ان دونوں کا اجر یکساں نہیں ہوسکتا۔ تاہم فتح مکہ کے بعد خرچ کرنے والوں کو بھی اللہ اچھا ہی اجر عطا فرمائے گا۔ اور جس نیت سے کسی نے خرچ کیا ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ لہذا جس قدر خلوص نیت اور ایمان کی پختگی کے ساتھ کوئی شخص خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے اس کا اجر بڑھاتا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَمَا لَکُمْ اَلاَّ تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ وَِﷲِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط :” میراث ‘ ‘ اصل میں اس ملکیت کو کہتے ہیں جو پچھلے مالک کے انتقال پر اس کے زندہ رہنے والے وارثوں کو ملتی ہے۔ یہ ملکیت جبری ہوتی ہے ، مرنے والا چاہے یا نہ چاہے ، جو وارث ہوتا ہے اس کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔” وَِﷲِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط “ میں خبر ” للہ “ کو پہلے لانے سے حضر پیدا ہوگیا کہ زمین و آسمان کی وارثت صرف اللہ کے لیے ہے ، کیونکہ آخر کار سب نے فنا ہونا ہے اور جن چیزوں کے مالک تم سمجھے جاتے ہو سب اسی کی طرف لوٹ جانے والی ہیں ۔ تو جب یہ مال تمہارے پاس رہنے والا ہی نہیں بلکہ اس نے تمہارے ہاتھ سے نکلنا ہی نکلنا ہے اور اگر تم خرچ نہیں کرو گے تو جبراً تم سے لے لیا جائے گا ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم اسے اللہ کی راہ میں خوشی سے خود ہی خرچ نہ کرو کہ اس صورت میں مالک بھی راضی ہوجائے گا اور جو کچھ تم دو گے اللہ کے ذمے قرض ہوجائے گا ۔ جو بےحساب اضافے کے ساتھ تمہارے لیے محفوظ رکھے گا ، جیسا کہ اگلی آیت میں آرہا ہے۔ آدمی کے مال کی طرح اس کی جان کا بھی یہی حال ہے۔ ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎- جاں بجاناں دہ ، وگرنہ از تو بستاند اجل خود تو مصنف باش اے دل ایں نکویا آن نکو - ” جان محبوب کو دے دے ، ورنہ موت تجھ سے لے لے گی ۔ اے دل تو خود ہی انصاف کر کہ یہ بہتر ہے یا وہ بہتر ہے ؟ “۔- ٢۔ لاَ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰـتَلَ ط : یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جو بعد میں آنے والے جملے ” اُولٰٓـئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقٰـتَلُوْا ط “ سے واضح ہو رہی ہے۔ گویا پوری عبارت اسی طرح ہے :” لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل ومن انفق من بعد الفتح وقاتل “ یعنی ” تم میں سے وہ شخص جس نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی اور وہ شخص جس نے فتح کے بعد خرچ کیا اور جنگ کی برابر نہیں ہیں “” الفتح “ سے مراد فتح مکہ ہے ، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(اذا جاء نصر اللہ والفتح) ( النصر : ١)” جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے “۔ یا صلح حدیبیہ ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :( انا فتحنا لک فتحاً مبینا) (الفتح : ١) ” بیشک ہم نے تجھے فتح دی ، ایک کھلی فتح “۔ اور دونوں بھی مراد ہوسکتی ہیں ۔ اس طرح صحابہ کے تین درجے ہوں گے ، پہلے درجے میں صلح حدیبیہ سے پہلے ایمان لا کر خرچ اور قتال کرنے والے سابقین اولین اور مہاجرین و انصار دوسرے درجے میں صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے ہجرت و نصرت کا شرف حاصل کرنے والے صحابہ کرام اور تیسرے درجے میں فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ہوں گے ، جو ہجرت یا نصرت کا شرف حاصل نہیں کرسکے ، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( لا ھجرۃ بعد الفتح) (بخاری ، الجھاد والسیر ، باب فضل الجھاد والسیر : ٢٧٨٣)” فتح مکہ کے بعد (اب) ہجرت نہیں رہی “۔- اس بات کی دلیل کہ صلح حدیبیہ سے پہلے خرچ اور قتال کرنے والے ان لوگوں سے درجے میں بلند ہیں جو فتح مکہ سے پہلے اور صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے ، وہ حدیث ہے جو انس (رض) سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا :(کان بین خالد بن لوبیدہ و بین عبد الرحمن بن عوف کلام ، فقال خالد لعبد الرحمن تستطیلون علینا بایام سبقتمونا بھا ، فبلعنا ان ذلک ذکر للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، فقال دعوالی اصحابی ، فوالذی نفسی بیدہ لو انفقتم مثل احد ، او مثل الجبال ذھبا ما بلغتم اعما لھم) ( مسند احمد : ٣، ٢٦٦، ح : ١٣٨١٢، مسند احمد کے محقق نے اسے صحیح کہا ہے)” خالد بن ولید (رض) اور عبد الرحمن بن عوف (رض) کے درمیان کچھ بات ہوگئی تو خالد (رض) نے عبد الرحمن (رض) سے کہا : تم ہم پر ان چند دنوں کی وجہ سے بڑھ کر باتیں بنا رہے ہو جن میں تم ہم سے پہلے اسلام لے آئے “۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میرے ساتھیوں کو میری خاطر چھوڑ دو ، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد کے برابر یا پہاڑوں کے برابر سونا خرچ کرو ، تب بھی تم ان کے اعمال کو نہیں پہنچ سکتے “۔- ٣۔ فتح سے پہلے خرچ اور قتال کرنے والوں کا درجہ اس لیے بڑا ہے کہ فتح سے پہلے مسلمان تعداد میں کم اور قوت میں کمزور تھے ، ان کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی ، ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اور جہاد میں حصہ لینا دونوں نہایت مشکل اور دل گردے کا کام تھے ، جب کہ فتح کے بعد یہ صورت حال بدل گئی ، مسلمان قوت و تعداد میں بڑھتے چلے گئے اور ان کی مالی حالت بھی پہلے سے بہت بہتر ہوگئی اور پورا جزیرۂ عرب فوج درج فوج اسلام میں داخل ہونے لگا ۔ اس لیے فرمایا کہ پہلے مشکل کے دور اور بعد کے دور میں مسلمان ہونے والے اور جہاد میں خرچ کرنے والے اور لڑکے والے برابر نہیں ہوسکتے ، بلکہ پہلوں کا درجہ بڑا ہے۔- ٤۔ ابوبکر صدیق (رض) شرف اور فضلیت میں امت کے تمام افراد سے بڑھ کر ہیں ، کیونکہ ایمان لانے میں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور لڑنے میں وہ تمام صحابہ سے پہلے ہیں ، اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنی زندگی میں نماز کے لیے آگے کیا اور اسی بناء پر مسلمانوں نے انہیں خلافت کے منصب کے لیے مقدم رکھا۔- ٥۔ وَکُلاًّ وَّعَدَ اللہ ُ الْحُسْنٰی ط : اس میں یہ صراحت فرما دی کہ صحابہ کرام (رض) کے درمیان اگرچہ درجے اور فضیلت میں تفاوت ہے ، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ سے اچھی جزا یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے اور تمام اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اور زیارت میں تاثیر ہی ایسی تھی کہ جس شخص نے بھی ایمان کی حالت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی اور ایمان پر فوت ہوا ، بعد کا کوئی آدمی اس کے درجے کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ دیکھئے سورة ٔ فتح کی آخرت آیت کی تفسیر میں مذکورہ حدیث ، جس صحبت و رفاقت کا شرف رکھنے والی مبارک ہستیوں سے بغض اور عداوت ہے اور وہ ان کے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ سے آنکھیں بند کر کے ان کی معمولی لغزشوں کی وجہ سے ان پر تبرے بازی اور دشنام طرازی کرتے ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لا تسبو ا اصحابی ، فلو ان اخذ کم انفق مثل احد ذھبا ما بلغ مد احدھم ولا نصیفہ) ( بخاری ، فضائل الصحابہ ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ’ لو کنت متحذا خلیلا “: ٣٦٧٣)” میرے ساتھیوں کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو ان کے کسی شخص کے ایک مد ( آدھا کلو اناج) کے برابر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کے نصف کے برابر ہوسکتا ہے “۔- ٦۔ وَ اللہ ُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ : ایمان ، انفاق اور قتال فی سبیل اللہ کی ترغیب کے آخر میں فرمایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح با خبر ہے ، وہ ایک کے عمل کو خوب جانتا ہے کہ کس درجے کا ہے اور اس میں کتنا اخلاص ہے اور وہ اس کے مطابق ہی اسے جزا دے گا ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلِلّٰهِ مِيْرَاث السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ، میراث اصل میں اس ملکیت کو کہا جاتا ہے جو پچھلے مالک کے انتقال کے بعد اس کے بعد زندہ رہنے والے وارثوں کو ملا کرتی ہے اور یہ ملک جبری ہوتی ہے مرنے والا چاہے یا نہ چاہے جو وارث ہوتا ہے ملکیت اس کی طرف منتقل ہوجاتی ہے یہاں حق تعالیٰ کی ملکیت آسمان و زمین کو میراث کے لفظ سے تعبیر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ تم چاہو یا نہ چاہو جس جس چیز کے مالک آج تم سمجھے جاتے ہو وہ سب بالآخر حق تعالیٰ کی ملکیت خاصہ میں منتقل ہوجائے گی، مراد یہ ہے کہ اگرچہ حقیقی مالک تمام اشیاء عالم کا پہلے بھی حق تعالیٰ ہی تھا مگر اس نے اپنے فضل سے کچھ اشیاء کی ملکیت تمہارے نام کردی تھی اور اب وہ ظاہری ملکیت بھی تمہاری باقی نہیں رہے گی بلکہ حقیقۃً اور ظاہراً ہر طرح اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہوجائے گی، اس لئے اس وقت جبکہ تمہیں ظاہری ملکیت حاصل ہے اگر تم اللہ کے نام پر خرچ کردو گے تو اس کا بدل تمہیں آخرت میں مل جائے گا، اس طرح گویا اللہ کی راہ میں خرچ کی ہوئی چیز کی ملکیت تمہارے لئے دائمی ہوجائے گی۔- ترمذی میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم نے ایک بکری ذبح کی جس کا اکثر حصہ تقسیم کردیا، صرف ایک دست گھر کے لئے رکھ لیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے دریافت کیا کہ اس بکری کے گوشت میں سے تقسیم کے بعد کیا باقی رہا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایک دست رہ گیا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ یہ ساری بکری باقی رہی صرف یہ دست باقی نہیں رہا، جس کو تم باقی سمجھ رہی ہو، کیونکہ ساری بکری اللہ کی راہ میں خرچ کردی گئی، وہ اللہ کے یہاں تمہارے لئے باقی رہے گی اور یہ دست جو اپنے کھانے کے لئے رکھا ہے، اس کا آخرت میں کوئی معاوضہ نہیں اس لئے یہ یہیں فنا ہوجائے گا (مظہری)- گزشتہ آیات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تاکید بیان فرمانے کے بعد اگلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ جس وقت بھی خرچ کیا جائے ثواب تو ہر ایک پر ہر ایک حال میں ملے گا، لیکن ثواب کے درجات میں ایمان و اخلاص اور مسابقت کے اعتبار سے فرق ہوگا، اس کے لئے فرمایا :- لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ، یعنی مسلمانوں میں فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں، ایک وہ جو فتح مکہ سے پہلے ایمان لے آئے اور مومن ہو کر اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا، دوسرے وہ جو فتح مکہ کے بعد جہاد میں شریک ہوئے اور فی سبیل اللہ خرچ میں بھی یہ دونوں قسمیں اللہ کے نزدیک برابر نہیں، بلکہ درجات ثواب کے اعتبار سے ان میں تفاضل ہے، فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے اور جہاد کرنے والے اور خرچ کرنے والے درجہ ثواب کے اعتبار سے بڑھے ہوئے ہیں، دوسری قسم سے یعنی جن لوگوں نے فتح مکہ کے بعد اسلامی خدمات میں شرکت کی۔- فتح مکہ کو صحابہ کرام کے درجات متعین کرنے کے لئے حد فاصل قرار دینے کی حکمت :- آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے صحابہ کرام کے دو طبقے قرار دیئے ہیں، ایک وہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو کر اسلامی خدمات میں حصہ لیا، دوسرے وہ لوگ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد یہ کام کیا ہے، پہلے لوگوں کا مقام بہ نسبت دوسرے لوگوں کے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند ہونے کا اعلان اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔- فتح مکہ میں ان دونوں طبقوں میں حد فاصل قرار دینے کی ایک بڑی حکمت تو یہ ہے کہ فتح مکہ مکرمہ سے پہلے سیاسی حالات اور اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے مسلمانوں کی بقا و فنا اور اسلام کے آگے بڑھنے پھیلنے یا بہت سی تحریکات کی طرح مردہ ہوجانے کے احتمالات ظاہر میں نظروں میں یکساں انداز سے گردش کرتے رہتے تھے، دنیا کے ہوشیار لوگ کسی ایسی جماعت یا تحریک میں شرکت نہیں کیا کرتے جس کے شکست کھا جانے یا ختم ہوجانے کا خطرہ سامنے ہو، انجام کا انتظار کرتے رہتے ہیں، جب کامیابی کے امکانات روشن ہوجائیں تو شریک ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ اگرچہ اس کو حق و صحیح سمجھتے ہوں لیکن مخالفین کی ایذاؤں کے خوف اور اپنے ضعف کے سبب شرکت کرنے کی ہمت نہیں کرتے، لیکن باعزم و ہمت لوگ جو کسی نظریہ اور عقیدہ کو صحیح اور حق سمجھ کر قبول کرتے ہیں وہ فتح و شکست اور جماعت کی قلت و کثرت پر نظر کئے بغیر اس کے قبول کی طرف دوڑتے ہیں۔- فتح مکہ سے پہلے جو لوگ ایمان لائے ان کے سامنے مسلمانوں کی قلت اور ضعف اور اس کی وجہ سے مشرکین کی ایذاؤں کا سلسلہ تھا، خصوصاً ابتداء اسلام کے وقت ایمان کا اظہار کرنا اپنی جان کی بازی لگانے اور اپنے گھر بار کو ہلاکت کے لئے پیش کردینے کے مترادف تھا، یہ ظاہر ہے کہ ان حالات میں جنہوں نے اسلام قبول کر کے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت اور دین کی خدمت میں اپنے جان و مال کو لگایا ان کی قوت ایمان اور اخلاص عمل کو دوسرے لوگ نہیں پہنچ سکتے۔- رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے مسلمان کو قوت حاصل ہوتی گئی، یہاں تک کہ مکہ مکرمہ فتح ہو کر پورے عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہوگئی، اس وقت جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے (آیت) یدخلون فی دین اللہ افواجا، یعنی لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج ہو کر داخل ہوں گے اس کا ظہور ہوا کیونکہ بہت سے لوگ اسلام کی حقانیت پر تو یقین رکھتے تھے مگر اپنے ضعف اور مخالفین اسلام کی قوت و شوکت اور ان کی ایذاؤں کے خوف سے اسلام و ایمان کا اظہار کرتے ہوئے جھجکتے تھے، اب ان کی راہ سے یہ رکاوٹ دور ہوگئی، تو فوج در فوج ہو کر اسلام میں داخل ہوگئے، قرآن کریم کی اس آیت نے ان کا بھی اکرام و احترام کیا ہے اور ان کے لئے بھی مغفرت و رحمت کا وعدہ دیا ہے، لیکن یہ بتلا دیا کہ ان کا درجہ اور مقام ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتا جنہوں نے اپنی ہمت و اولو العزمی اور قوت ایمان کے سبب مخالفتوں اور ایذاؤں کے خوف و خطر سے بالاتر ہو کر اسلام کا اعلان کیا اور آڑے وقت میں اسلام کے کام آئے۔- خلاصہ یہ ہے کہ عزم و ہمت اور قوت ایمان کے درجات متعین کرنے کے لئے فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے حالات ایک حد فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی لئے آیت مذکورہ میں فرمایا کہ یہ دونوں طبقے برابر نہیں ہو سکتے۔- تمام صحابہ کرام کے لئے مغفرت و رحمت کی بشارت اور صحابہ کا باقی امت سے امتیاز :- آیات مذکورہ میں اگرچہ صحابہ کرام میں باہمی درجات کا تفاضل ذکر کیا گیا ہے لیکن آخر میں فرمایا وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى، یعنی باوجود باہمی فرق مراتب کے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ یعنی جنت و مغفرت کا وعدہ سب ہی کے لئے کرلیا ہے، یہ وعدہ صحابہ کرام کے ان دونوں طبقوں کے لئے ہے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے یا بعد میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور مخالفین اسلام کا مقابلہ کیا، اس میں تقریباً صحابہ کرام کی پوری جماعت شامل ہوجاتی ہے کیونکہ ایسے افراد تو شاذ و نادر ہی ہو سکتے ہیں جنہوں نے مسلمان ہوجانے کے باوجود اللہ کے لئے کچھ خرچ بھی نہ کیا ہو اور مخالفین اسلام کے مقابلہ و مقاتلہ میں بھی شریک نہ ہوئے ہوں، اس لئے قرآن کریم کا یہ اعلان مغفرت و رحمت پوری جماعت صحابہ کرام کے لئے عام اور شامل ہے۔- ابن حزم نے فرمایا کہ اس کے ساتھ قرآن کی دوسری آیت سورة انبیاء کو ملاؤ جس میں فرمایا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ۔ لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَهَا ۚ وَهُمْ فِيْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ ۔ " یعنی جن لوگوں کے لئے ہم نے حسنیٰ کو مقرر کردیا ہے وہ جہنم سے ایسے دور رہیں گے کہ اس کی تکلیف دہ آوازیں بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچیں گی اور اپنی دلخواہ نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے "۔- آیات زیر بحث میں وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى، مذکور ہے اور اس آیت میں جن کے لئے حسنیٰ کا وعدہ ہوا ان کے لئے جہنم کی آگ سے بہت دور رہنے کا اعلان ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کی ضمانت دے دی کہ حضرات صحابہ سابقین و آخرین میں سے کسی سے بھی اگر عمر بھر میں کوئی گناہ سرزد ہو بھی گیا تو وہ اس پر قائم نہ رہے گی توبہ کرلے گا یا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت و نصرت اور دین کی خدمات عظیمہ اور ان کی بیشمار حسنات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا اور ان کی موت اس سے پہلے نہ ہوگی کہ ان کا گناہ معاف ہو کر وہ صاف و بیباق ہوجائیں، یا دنیا کے مصائب و آفات اور زیادہ سے زیادہ برزخ میں کوئی تکلیف ان کے سیئات کا کفارہ ہوجائے۔- اور جن احادیث میں بعض صحابہ کرام پر مرنے کے بعد عذاب کا ذکر آیا ہے وہ عذاب آخرت و عذاب جہنم کا نہیں برزخی یعنی قبر کا عذاب ہے، یہ کوئی بعید نہیں ہے کہ صحابہ کرام میں سے اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہو اور اتفاقاً توبہ کر کے اس سے پاک ہوجانے کا بھی موقع نہیں ہوا تو ان کو برزخی عذاب کے ذریعہ پاک کردیا جائے گا، تاکہ آخرت کا عذاب ان پر نہ رہے۔- صحابہ کرام کا مقام قرآن و حدیث سے پہچانا جاتا ہے تاریخی روایات سے نہیں :- خلاصہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام عام امت کی طرح نہیں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ایک واسطہ ہیں، ان کے بغیر نہ امت کو قرآن پہنچنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ معانی قرآن اور تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا، اس لئے اسلام میں ان کا ایک خاص مقام ہے ان کے مقامات کتب تاریخ کی رطب و یابس روایات سے نہیں پہچانے جاتے، بلکہ قرآن و سنت کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں۔- ان میں سے اگر کسی سے کوئی لغزش اور غلطی بھی ہوتی ہے تو اکثر وہ اجتہادی خطا ہوتی ہے جس پر کوئی گناہ نہیں، بلکہ حسب تصریح احادیث صحیحہ ایک اجر ہی ملتا ہے اور اگر فی الواقع کوئی گناہ ہی ہوگیا تو اول وہ ان کے عمر بھر کے اعمال حسنہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کی نصرت و خدمت کے مقابلہ میں صفر کی حیثیت رکھتا ہے، پھر ان میں خشیت اور خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے گناہ سے بھی لرز جاتے اور فوراً توبہ کرتے اور اپنے نفس پر اس کی سزا جاری کرنے کے لئے کوشش کرتے تھے، کوئی اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیتا اور جب تک توبہ قبول ہوجانے کا یقین نہ ہوجائے بندھا کھڑا رہتا تھا اور پھر ان میں سے ہر ایک کی حسنات اتنی ہیں کہ وہ خود گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں، ان سب پر مزید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کی مغفرت کا عام اعلان اس آیت میں اور دوسری آیات میں فرما دیا اور صرف مغفرت ہی نہیں بلکہ رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ فرما کر اپنی رضا کی بھی سند دیدی، اس لئے ان کے آپس میں جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے ان کی وجہ سے ان میں سے کسی کو برا کہنا یا اس پر طعن وتشنیع کرنا قطعاً حرام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق موجب لعنت اور اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے، نعوذ باللہ منہ - آج کل تاریخ کی جھوٹی سچی، قوی ضعیف روایات کی بناء پر جو بعض لوگوں نے بعض حضرات صحابہ کو مورد طعن و الزام بنایا ہے، اول تو اس کی بنیاد جو تاریخی روایات پر ہے وہ بنیاد ہی متزلزل ہے اور اگر کسی درجہ میں ان روایات کو قابل التفات مان بھی لیا جائے تو قرآن و حدیث کے کھلے ہوئے ارشادات کے خلاف ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، وہ سب مغفور ہیں۔- صحابہ کرام کے بارے میں پوری امت کا اجماعی عقیدہ :- یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم، ان سے محبت رکھنا، ان کی مدح وثناء کرنا واجب ہے اور ان کے آپس میں جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے ان کے معاملے میں سکوت کرنا، کسی کو مورد الزام نہ بنانا لازم ہے، عقائد اسلامیہ کی تمام کتابوں میں اس اجماعی عقیدہ کی تصریحات موجود ہیں، امام احمد کا رسالہ جو بروایت اصطخری معروف ہے اس کے بعض الفاظ یہ ہیں :۔- لا یجوز لاحد ان یذکر شیئا من مساویھم ولا یطعن علیٰ احد منھم بعیب ولا نقص فمن فعل ذلک وجب تادیبہ (شرح العقیدة الواسطیتہ معروف بہ الدرة المفیتہ، ص 389 )- " کسی کے لئے جائز نہیں کہ صحابہ کرام کی کسی برائی کا ذکر کرے، یا ان میں سے کسی برطعن کرے یا کوئی عیب یا نقصان ان کی طرف منسوب کرے اور جو ایسا کرے اس کو سزا دینا واجب ہے "- اور ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں صحابہ کرام کے متعلق فضائل و خصوصیات کی بہت سی آیات اور روایات حدیث لکھنے کے بعد لکھا ہے :۔- وھذا مما لا نعلم فیہ خلافا بین اہل الفتہ والعلم من اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والتابعین لھم باحسان وسائر اہل السنة والجماعة فانھم مجمعون علیٰ ان الواجب الثناء علیھم و الاستغفار لھم والترحم علیھم والترضی عنھم و اعتقاد محبتھم وموالاتھم وعقوبة من اساء فیھم القول۔- " جہاں تک ہمارے علم میں ہے ہم اس معاملہ میں علماء، فقہاء، صحابہ وتابعین اور تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پاتے کیونکہ سب کا اس پر اجماع ہے کہ امت پر واجب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام کی مدح وثناء کرے اور ان کے لئے استغفار کرے اور ان کو اللہ کی رحمت و رضا کے ساتھ ذکر کرے، ان کی محبت اور دوستی پر ایمان رکھے اور جو ان کے معاملہ میں بےادبی کرے اس کو سزا دے "- اور ابن تیمیہ نے شرح عقیدہ واسطیہ میں تمام امت محمدیہ اہل السنتہ و الجماعتہ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے مشاجرات صحابہ کے متعلق لکھا ہے :- ویمسکون عما شجر بین الصحابۃ ویقولون ھذہ الاثار المرویة فی مساویھم منھا ما ھو کذب و منھا ما زید فیھا ونقص و غیر وجھہ والصحیح منہ ھم فیہ معذورون اما مجتھدون مصیبون واما مجتھدون مخطئون، وہم مع ذلک لا یعتقدون ان کل واحد من الصحابة معصوم من کبائر الاثم وصغائرہ بل یجوز علیھم الذنوب فی الجملة ولھم من الفضائل و السوابق ما یوجب مغفرة ما یصدر منھم حتی انھم یغفرلھم من السیئات مالا یغفر لمن بعدھم۔- " اہل السنتہ و الجماعتہ سکوت اختیار کرتے ہیں ان اختلافی معاملات سے جو صحابہ کرام کے درمیان پیش آئے اور کہتے ہیں کہ جو روایات ان میں سے کسی پر عیب لگانے والی ہیں ان کی حقیقت یہ ہے کہ بعض تو بالکل جھوٹ ہے اور بعض میں کتربیونت کر کے ان کی اصل حقیقت بگاڑ دی گئی ہے اور جو کچھ صحیح ہے وہ اس میں معذور ہیں کیونکہ (انہوں نے جو کچھ کیا اللہ کے لئے کیا اجہتاد سے کیا) اس اجہتاد میں یا وہ صحیح بات پر تھے (تو دوہرے ثواب کے مستحق تھے) یا خطاء پر تھے (تو معذور اور ایک ثواب کے مستحق تھے) ان تمام باتوں کے ساتھ وہ اس کے معتقد نہیں کہ ہر صحابی چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم ہے بلکہ ان سے گناہ کا صدور ممکن ہے، مگر ان کے فضائل اور اسلام کی عظیم الشان خدمات ایسی ہیں جو ان سب کی مغفرت کی مقتضی ہیں یہاں تک کہ ان کی مغفرت و معافی اتنی وسیع ہوگی جو امت میں دوسروں کے لئے نہ ہوگی "- مقام صحابہ اور ان کے درجات و فضائل پر مفصل بحث سورة فتح کی آیات (والذین معہ الخ) کے تحت گزر چکی ہے اور احقر نے اس بحث پر ایک مفصل رسالہ (مقام صحابہ) کے نام سے لکھ دیا ہے جو جداگانہ شائع ہوچکا ہے، جس میں عدالت صحابہ، مشاجرات صحابہ اور ان کے بارے میں تاریخی روایات کی حیثیت اور درجہ کی مکمل تحقیق ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلِلہِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ لَايَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا۝ ٠ ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰى۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝ ١٠ ۧ- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- درج - الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] - ( د ر ج ) الدرجۃ - : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امتداد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق منزلہ رفیع یعنی - بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جو لوگ ابتدائی مشکلات میں کام آئیں وہ بعد میں آنے والوں سے بلند مرتبہ ہوتے ہیں - قول باری ہے (لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل۔ تم میں سے جو لوگ فتح (مکہ) سے قبل ہی خرچ کرچکے اور لڑ چکے (وہ ان کے برابر نہیں جو بعد فتح مکہ لڑے اور خرچ کیا) ) تاآخر آیت - شعبی سے مروی ہے کہ دونوں ہجرتوں کے درمیان فتح حدیبیہ کا فاصلہ تھا اور اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ صحابہ نے عرض کیا تھا کہ آیا صلح حدیبیہ بھی کوئی فتح تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا تھا : ” بیشک یہ فتح عظیم تھی۔ “ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ اس سے فتح مکہ مراد ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ سے پہلے کے انفاق کی، بعد کے انفاق پر فضیلت کو واضح کردیا کیونکہ فتح مکہ سے پہلے اللہ کے راستے میں انفاق کوئی آسان بات نہیں تھی لیکن اس انفاق سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے تھے۔ نیز اس وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نفس کے لئے بہت بھاری بات تھی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ، کافر بڑی تعداد میں تھے نیز مشکلات اور پریشانیاں بھی بہت شدید تھیں۔- ایسے وقت میں انفاق دراصل اطاعت خداوندی کی طرف لپکنے کے مترادف تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ۔ وہ لوگ جنہوں نے عسرت کی گھڑی میں رسول کی پیروی کی) ۔- نیز ارشاد ہے (والسابقون الاولون اور وہ لوگ جو سابقین اولین ہیں) یہ تمام وجوہات فتح مکہ سے قبل کے انفاق کی فضیلت کے مقتضی ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اے گروہ مومنین تمہارے لیے اس کی کیا وجہ ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمان والوں اور زمین والوں سب ہی کی میراث اسی کے لیے ہے کہ سب مرجائیں گے اور اس کی ذات باقی رہے گی اور تمام امور اسی کے سامنے پیش ہوں گے۔- اے گروہ مومنین جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور رسول اکرم کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں لڑ چکے ہیں اور جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور لڑے دونوں فضیلت اور ثواب و مرتبہ میں برابر نہیں بلکہ فتح مکہ سے پہلے خرچ کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ فضیلت اور ثواب میں ان لوگوں سے بڑے ہیں۔ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور لڑے۔- اس آیت سے امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق مراد ہیں باقی یوں تو ان دونوں جماعتوں سے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے صلہ میں جنت کا وعدہ کر رکھا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی پوری خبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ وَمَالَـکُمْ اَلاَّ تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں ‘ جبکہ اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی وراثت “- یہ جو تم بڑے بڑے محل تعمیر کر رہے ہو اور فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگاتے چلے جا رہے ہو ‘ ان سے آخر کب تک استفادہ کرو گے ؟ تم تو آج ہو کل نہیں ہو گے۔ تمہارے بعد تمہاری اولاد میں سے بھی جو لوگ ان جائیدادوں کے وارث بنیں گے وہ بھی اپنے وقت پر چلے جائیں گے۔ پھر جو ان کے وارث بنیں گے وہ بھی نہیں رہیں گے۔ بالآخر تمہارے اس سب کچھ کا اور پوری کائنات کا حقیقی وارث تو اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ تو جب یہ سب کچھ تم نے ادھر ہی چھوڑ کر چلے جانا ہے تو پھر غیر ضروری دولت اکٹھی کرنے میں کیوں وقت برباد کر رہے ہو ؟ اور کیوں اسے سینت سینت کر رکھ رہے ہو ؟ واضح رہے کہ انفاق سے مراد یہاں انفاقِ مال بھی ہے اور بذل نفس (جان کھپانا) بھی۔ یہ نکتہ قبل ازیں آیت ٧ کے مطالعے کے دوران بھی زیر بحث آیا تھا اور اب اگلے فقرے میں مزید واضح ہوجائے گا : - لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَـبْلِ الْفَتْحِ وَقٰــتَلَ ” تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے انفاق کیا اور قتال کیا فتح سے پہلے وہ (فتح کے بعد انفاق اور قتال کرنے والوں کے) برابر نہیں ہیں۔ “- وضاحت کے لیے یہاں انفاق اور قتال کا ذکر الگ الگ آگیا ہے۔ یعنی ’ انفاق ‘ مال خرچ کرنے کے لیے اور ’ قتال ‘ جان کھپانے کے لیے ۔ چناچہ یہاں واضح کردیا گیا کہ آیت ٧ میں جس انفاق کا ذکر ہوا تھا اس سے مال و جان دونوں کا انفاق مراد تھا اور ظاہر ہے انفاقِ جان کا سب سے اہم موقع تو قتال ہی ہے۔ میدانِ جنگ سے غازی بن کر لوٹنے کا انحصار تو حالات اور قسمت پر ہے ‘ لیکن میدانِ کارزار میں اترنے کا مطلب تو بہرحال یہی ہوتا ہے کہ اس مرد مجاہد نے اپنی نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر قربانی کے لیے پیش کردی۔- اس آیت میں خاص بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان جنہوں نے ابتدائی دور میں اس وقت قربانیاں دیں جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمانوں کی طاقت بہت کم تھی ‘ ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ وہ اور بعد کے مسلمان جنہوں نے یہی اعمال بعد میں سرانجام دیے ‘ ثواب و مرتبہ میں برابر نہیں۔- اُولٰٓـئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقٰــتَلُوْا ” ان لوگوں کا درجہ بہت بلند ہے ان کے مقابلے میں جنہوں نے انفاق اور قتال کیا فتح کے بعد۔ “- وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔ ” اگرچہ ان سب سے اللہ نے بہت اچھا وعدہ فرمایا ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سربراہی میں کفر و باطل سے جنگ میں پہلی واضح فتح تو صلح حدیبیہ تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے خود فتح مبین قرار دیا : اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۔ (الفتح) ۔ یہ فتح مبین مسلمانوں کو ٦ ہجری میں عطا ہوئی جبکہ ظاہری فیصلہ کن فتح انہیں ٨ ہجری میں فتح مکہ کی صورت میں حاصل ہوئی۔ چناچہ اس آیت میں فتح کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سورة الحدید کم از کم ٦ ہجری یعنی صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔- اب سنیے ‘ کھلے اور بیدار دل کے ساتھ ایک اہم پکار ذرا دھیان سے سنیے میرا خالق ‘ آپ کا خالق ‘ میر ١ مالک ‘ آپ کا مالک اور پوری کائنات کا مالک کیا ندا کر رہا ہے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :13 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مال تمہارے پاس ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے ۔ ایک دن تمہیں لازماً اسے چھوڑ کر ہی جانا ہے اور اللہ ہی اس کا وارث ہونے والا ہے ، پھر کیوں نہ اپنی زندگی میں اسے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ اللہ کے ہاں اس کا اجر تمہارے لیے ثابت ہو جائے ۔ نہ خرچ کرو گے تب بھی یہ اللہ ہی کے پاس واپس جا کر رہے گا ، البتہ فرق یہ ہو گا کہ اس پر تم کسی اجر کے مستحق نہ ہو گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے تم کو کسی فقر اور تنگ دستی کا اندیشہ لاحق نہ ہونا چاہیے ، کیونکہ جس خدا کی خاطر تم اسے خرچ کرو گے وہ زمین و آسمان کے سارے خزانوں کا مالک ہے ، اس کے پاس تمہیں دینے کو بس اتنا ہی کچھ نہ تھا جو اس نے آج تمہیں دے رکھا ہے ، بلکہ کل وہ تمہیں اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے یہی بات دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے : قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الِّرزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ وَیَقْدِرُ لَہٗ ، وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ وَھُوَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ ( سبا ۔ 39 ) ۔ اے نبی ، ان سے کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی مزید رزق تمہیں دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :14 یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں ، لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے ، کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے ۔ اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہو جائے گی ، اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے ۔ مفسرین میں سے مجاہد ، قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ فتح استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے ، اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدری کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا ، عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے ، مگر لو کان لاحدھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احدکم ولا نصیفہ ۔ ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابو نعیم اصفہانی ) ۔ نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت انس سے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ دوران نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عبد الرحمٰن سے کہا تم لوگ اپنی پچھلی خدمات کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو ۔ یہ بات جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم لوگ احد کے برابر ، یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے ’‘ ۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ، کیونکہ حضرت خالد اسی صلح کے بعد ایمان لائے تھے اور فتح مکہ میں شریک تھے ۔ لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جائے یا فتح مکہ ، بہرحال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہو گیا ہے ۔ بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آ جائے جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں ، اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہو جانے کے بعد قربانیاں دیں ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :15 یعنی اللہ جس کو جو اجر اور مرتبہ بھی دیتا ہے یہ دیکھ کر دیتا ہے کہ کس نے کن حالات میں کس جذبے کے ساتھ کیا عمل کیا ہے ۔ اس کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے ۔ وہ ہر ایک کا درجہ اور اس کے عمل کا اجر پوری باخبری کے ساتھ تعین کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: فتح مکہ (سن ٨ ھ) سے پہلے مسلمانوں کی تعداد اور ان کے وسائل کم تھے اور دشمنیاں زیادہ، اس لئے اس زمانہ میں جن حضرات نے جہاد کیا اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا ان کی قربانیاں زیادہ تھیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ثواب میں بھی ان کا زیادہ بڑادرجہ رکھا ہے اور فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کی تعداد اور وسائل میں بھی اضافہ ہوگیا تھا، اور دشمنیاں بھی کم ہوگئی تھیں، اس لئے جن حضرات نے فتح مکہ کے بعد جہاد اور صدقات وغیرہ میں حصہ لیا ان کو اتنی قربانی دینی نہیں پڑی، اس لئے ان کا درجہ وہاں تک نہیں پہنچا ؛ لیکن اگلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی ہے کہ بھلائی یعنی جنت کی نعمتیں دونوں ہی کو ملیں گی۔