Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے امر دنیا کی تحقیر و توہین بیان ہو رہی ہے کہ اہل دنیا کو سوائے لہو و لعب زینت و فخر اور اولاد و مال کی کثرت کی چاہت کے اور ہے بھی کیا ؟ جیسے اور آیت میں ہے ( زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ 14؀ ) 3-آل عمران:14 ) ، یعنی لوگوں کے لئے ان کی خواہش کی چیزوں کو مزین کر دیا گیا ہے جیسے عورتیں بچے وغیرہ پھر حیات دنیا کی مثال بیان ہو رہی ہے کہ اس کی تازگی فانی ہے اور یہاں کی نعمتیں زوال پذیر ہیں ۔ غیث کہتے ہیں اس بارش کو جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد برسے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ ۭ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ 28؀ ) 42- الشورى:28 ) ، اللہ وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش برساتا ہے ۔ پس جس طرح بارش کی وجہ سے زمین سے کھیتیاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ لہلہاتی ہوئی کسان کی آنکھوں کو بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں ، اسی طرح اہل دنیا اسباب دنیوی پر پھولتے ہیں ، لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی ہری بھری کھیتی خشک ہو کر زرد پڑ جاتی ہے پھر آخر سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح دنیا کی ترو تازگی اور یہاں کی بہبودی اور ترقی بھی خاک میں مل جانے والی ہے ، دنیا کی بھی یہی صورتیں ہوتی ہیں کہ ایک وقت جوان ہے پھر ادھیڑ ہے پھر بڑھیا ہے ، ٹھیک اسی طرح خود انسان کی حالت ہے اس کے بچپن جوانی ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کو دیکھتے جائیے پھر اس کی موت اور فنا کو سامنے رکھے ، کہاں جوانی کے وقت اس کا جوش و خروش زور طاقت اور کس بل؟ اور کہاں بڑھاپے کی کمزوری جھریاں پڑا ہوا جسم خمیدہ کمر اور بےطاقت ہڈیاں؟ جیسے ارشاد باری ہے آیت ( اللہ ھوالذی خلقکم من ضعف ) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد قوت دی پھر اس وقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا کر دیا وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور وہ عالم اور قادر ہے ۔ اس مثال سے دنیا کی فنا اور اس کا زوال ظاہر کر کے پھر آخرت کے دونوں منظر دکھا کر ایک سے ڈراتا ہے اور دوسرے کی رغبت دلاتا ہے ، پس فرماتا ہے عنقریب آنے والی قیامت اپنے ساتھ عذاب اور سزا کو لائے گی اور مغفرت اور رضامندی رب کو لائے گی ، پس تم وہ کام کرو کہ ناراضگی سے بچ جاؤ اور رضا حاصل کر لو سزاؤں سے بچ جاؤ اور بخشش کے حقدار بن جاؤ ، دنیا صرف دھوکے کی ٹٹی ہے اس کی طرف جھکنے والے پر آخر وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اس کے سوا کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں کرتا اسی کی دھن میں روز و شب مشغول رہتا ہے بلکہ اس کمی والی اور زوال والی کمینی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگتا ہے ، شدہ شدہ یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ بسا اوقات آخرت کا منکر بن جاتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک کوڑے برابر جنت کی جگہ ساری دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے ۔ پڑھو قرآن فرماتا ہے کہ دنیا تو صرف دھوکے کا سامان ہے ( ابن جریر ) آیت کی زیادتی بغیر یہ حدیث صحیح میں بھی ہے واللہ اعلم ۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے ہر ایک سے جنت اس سے بھی زیادہ قریب ہے جتنا تمہارا جوتی کا تسمہ اور اسی طرح جہنم بھی ( بخاری ) پس معلوم ہوا کہ خیر و شر انسان سے بہت نزدیک ہے اور اس لئے اسے چاہئے کہ بھلائیوں کی طرف سبقت کرے اور برائیوں سے منہ پھیر کر بھاگتا رہے ۔ تاکہ گناہ اور برائیاں معاف ہو جائیں اور ثواب اور درجے بلند ہو جائیں ۔ اسی لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا دوڑو اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی جنس کے برابر ہے ، جیسے اور آیت ( وسارعوا الی مغفرۃ ) میں ہے اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف سبقت کرو جس کی کشادگی کل آسمان اور ساری زمینیں ہیں جو پارسا لوگوں کے لئے بنائی گی ہیں ۔ یہاں فرمایا یہ اللہ رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے ، یہ لوگ اللہ کے اس فضل کے لائق تھے اسی لئے اس بڑے فضل و کرم والے نے اپنی نوازش کے لئے انہیں چن لیا اور ان پر اپنا پورا احسان اور اعلیٰ انعام کیا ۔ پہلے ایک صحیح حدیث بیان ہو چکی ہے کہ مہاجرین کے فقراء نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالدار لوگ تو جنت کے بلند درجوں کو اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کو پا گئے آپ نے فرمایا یہ کیسے؟ کہا نماز روزہ تو وہ اور ہم سب کرتے ہیں لیکن مال کی وجہ سے وہ صدقہ کرتے ہیں غلام آزاد کرتے ہیں جو مفلسی کی وجہ سے ہم سے نہیں ہو سکتا آپ نے فرمایا آؤ میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاؤں کہ اس کے کرنے سے تم ہر شخص سے آگے بڑھ جاؤ گے مگر ان سے جو تمہاری طرح خود بھی اس کو کرنے لگیں ، دیکھو تم ہر فرض نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ کہو اور اتنی ہی بار اللہ اکبر اور اسی طرح الحمد اللہ ۔ کچھ دنوں بعد یہ بزرگ پھر حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مال دار بھائیوں کو بھی اس وظیفہ کی اطلاع مل گئی اور انہوں نے بھی اسے پڑھنا شروع کر دیا آپ نے فرمایا یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201یعنی اہل کفر کے لئے جو دنیا کے کھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔ 202یعنی اہل ایمان وطاعت کے لئے، جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالا متحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٥] انسانی اور نباتاتی زندگی کا تقابل :۔ اس آیت میں انسان کی دنیاوی زندگی کا نباتات کی زندگی سے تقابل پیش کیا گیا ہے اور بعض مفسرین نے اس زندگی کو چار مراحل میں تقسیم کرکے ان دونوں قسم کی زندگی کا تقابل بتایا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان اپنا بچپن کھیل کود میں گزار دیتا ہے۔ پھر جب اس پر جوانی آتی ہے تو اس کا محبوب مشغلہ اپنے آپ کو بن سنور کر پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ اگر وہ مرد ہے تو وہ عورتوں کی توجہ کا مرکز بنے اور عورت ہے تو مردوں کے لیے دلکشی کا باعث ہو۔ پھر جب اس عمر سے گزرتا ہے تو اس کو ہمچو ما دیگرے نیست قسم کی چیز بننے کی خواہش لاحق ہوتی ہے اور آخری عمر میں اس کی ہوس میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ وہ اپنی ذات کی خوش حالی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنی اولاد کے لیے جان کھپانا شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ اسے موت آلیتی ہے۔ نباتات کا بھی یہی حال ہے۔ پیدا ہوتی ہے اپنے کسانوں یا مالکوں کو خوش کرتی ہے اور ان کی کئی توقعات اس سے وابستہ ہوتی ہیں۔ پھر اس پر جوانی کا دور آتا ہے تو ہر ایک کا دل موہ لیتی ہے پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس پر بڑھاپا آجاتا ہے اور وہ زرد پڑنے لگتی ہے۔ اور انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ جانوروں کی خوراک بنتا ہے باقی پاؤں تلے روندا جاتا ہے اور اس مثال سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جیسے نباتات کی بہار بھی عارضی چیز ہے اور خزاں بھی۔ اسی طرح انسان کی زندگی کی خوشحالیاں بھی عارضی چیزیں ہیں اور تنگدستی اور مصائب بھی۔ اس کے مقابلہ میں جنت کی بہار اور اس کی تمام تر نعمتیں بھی دائمی اور مستقل ہیں اور اس کی خزاں یعنی جہنم اور اس کا عذاب مصیبتیں بھی دائمی اور مستقل ہیں۔ لہذا انسان کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عارضی اور ناپائیدار چیزوں کے حصول کے بجائے دائمی اور مستقل چیزوں کو اپنا مطمح نظر بنائے اور انہیں کے لیے تمام تر تگ ودو کرے۔ اور جو شخص دنیا کی دلکشیوں میں کھو گیا اور اس کی بہار پر مست ہوگیا وہ بہت بڑے دھوکے میں پڑگیا۔ اصل دانشمندی یہ ہے کہ انسان اس دنیا کی زندگی کو محض کھیل کود سمجھنے کی بجائے اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی سمجھے اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی کوشش کرے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِعْلَمُوْٓا : پچھلی آیات سے اس آیت کی مناسبت یہ ہے کہ نفاق کا سبب اور اللہ کی راہ میں جہاد سے گریز اور مال خرچ کرنے سے دریغ کا باعث دنیا کی زندگی کی محبت ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کی حقیقت بیان فرمائی۔- ٢۔ اَنَّمَا الْحَیٰـوۃُ الدُّنْیَا :” الحیوۃ الدنیا “ سے مراد انسان کے وہ کام ہیں جو وہ اس زندگی میں صرف دنیا میں حاصل ہونے والے فوائد کے لیے کرتا ہے ، ورنہ اس زندگی میں وہ آخرت کے لیے اعمال صالحہ کے ذریعے سے ہمیشہ کی سعادت بھی حاصل کرسکتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (النحل : ٩٧)” جو بھی نیک عمل کرے ، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقینا ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے ، پاکیزہ زندگی اور یقینا ہم انہیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے ، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے “۔- ٣۔ لَعِبٌ وَّلَھْوٌ : اس کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورة ٔ عنکبوت (٦٤) کی تفسیر۔- ٤۔ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌم بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ط : یہ سچے اور مخلص اہل ایمان یعنی صدیقین و شہداء کے مقابلے میں ایمان سے محروم دنیا دار لوگوں کا حال ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام خواہشوں اور دلچسپیوں کا ذکر ان پانچ باتوں میں فرما دیا ہے ۔ شاہ عبد القادر (رح) تعالیٰ لکھتے ہیں :” آدمی کو اول عمر میں کھیل چاہیے ، پھر تماشا ، پھر بناؤ سنگھار، پھر ساکھ بڑھانا اور نام و نمود حاصل کرنا اور جب مرنا قریب ہو تو مال اور اولاد کی فکر کرنا کہ میرے بعد میرا گھر بنا رہے ہیں اور اولاد آسودگی سے زندگی بسر کرے۔ یہ سب دھوکے کا سامان ہے ، آگے کچھ اور کام آئے گا ( ایمان اور عمل صالح ) یہ کچھ کام نہ آئے گا۔ “ موضح بتصرف)- ٥۔ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ ۔۔۔۔۔:” غیث “ بارش ، جیسا کہ فرمایا :(وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا ) (الشوریٰ : ٢٨)” اور وہی ہے جو بارش برساتان ہے ، اس کے بعد کہ وہ ناامید ہوچکے ہوتے ہیں “۔” الکفار “ سے مراد یہاں کاشت کار ہیں ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :(یعجب الزراع) ( الفتح : ٢٩)” کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے۔ “ کیونکہ کفر کا معنی چھپانا ہے اور کاشت کار بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔ آیت کے دوسرے الفاظ اور تمثیل کی تشریح کے لیے دیکھئے سورة ٔ یونس (٢٤) ، زمر (٢١) اور سورة ٔ کہف ( ٤٥) کی تفسیر۔ اس کے علاوہ دیکھئے سورة ٔ آل عمران (١٤، ١٥) کی تفسیر ۔ بعض مفسرین نے ” الکفار “ سے مراد حقیقی کافر لیے ہیں ، ان کے مطابق اگرچہ بارش سے اگنے والی کھیتی مومن و کافر سبھی کو خوش کرتی ہے ، مگر کفار کا ذکر خصوصاً اس لیے فرمایا کہ وہ اس پر زیادہ خوش ہوتے ہیں ، کیونکہ ان کی خوشی کا تمام سرمایہ حیات دنیا ہے۔- ٦۔ وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہ ِ وَرِضْوَانٌ ط : یعنی بات صرف اتنی نہیں کہ دنیا کی زندگی ختم ہو اور جان چھوٹ جائے ، بلکہ اصل معاملہ اس کے بعد آخرت کا اور اس کی ہمیشہ کی زندگی کا ہے کہ وہاں دو میں سے ایک بات سے ہر حال میں واسطہ پڑنے والا ہے ، ایک طرف شدید عذاب ہوگا اور دوسری طرف اللہ کی بخشش اور اس کی زبردست رضا ہوگی ، ” رضوان “ مصدر میں مبالغے کا مفہوم ہے۔- ٧۔ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ : یعنی جس نے ساری جدوجہد دنیا کی زندگی بنانے کے لیے کی وہ دھوکے میں پڑگیا ، کیونکہ اس نے جو کچھ کمایا دنیا کی زندگی ختم ہونے کے ساتھ ختم ہوگیا اور آخرت میں اس کے لیے کچھ باقی نہ رہا ۔ البتہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی دھوکا نہیں جنہوں نے اسے آخرت کے حصو ل کا بذریعہ بنایا ، کیونکہ ان کے اعمال دنیا کے فنا ہونے کے باوجود باقی رہنے والے ہیں ، جیسا کہ فرمایا :(اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَالْبٰـقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ اَمَلًا ) (الکہف : ٤٦)” مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میں بہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں “۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - تم خوب جان لو کہ (آخرت کے مقابلہ میں) دنیوی حیات (ہرگز قابل اشتغال چیز نہیں کیونکہ) محض لہو و لعب اور (ایک ظاہری) زینت اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا (قوت و جمال اور دنیوی ہنر و کمال میں) اور اموال اور اولاد میں ایک کا دوسرے سے اپنے کو زیادہ بتلانا ہے (یعنی مقاصد دنیا کے یہ ہیں کہ بچپن میں لہو و لعب کا غلبہ رہتا ہے اور جوانی میں زینت و تفاخر کا اور بڑھاپے میں مال و دولت آل واولاد کو گنوانا اور یہ سب مقاصد فانی اور خوب و خیال محض ہیں جس کی مثال ایسی ہے) جیسے مینہ (برستا) ہے کہ اس کی پیداوار (کھیتی) کاشتکاروں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر وہ (کھیتی) خشک ہوجاتی ہے سو اس کو تو زرد دیکھتا ہے پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے ( اسی طرح دنیا چند روزہ بہار ہے پھر زوال و اضمحلال، یہ تو دنیا کی حالت ہوئی) اور آخرت (کی کیفیت یہ ہے کہ اس) میں (دو چیزیں ہیں ایک تو کفار کے لئے) عذاب شدید ہے اور (دوسری اہل ایمان کے لئے) خدا کی طرف سے مغفرت اور رضا مندی ہے ( اور یہ دونوں باقی ہیں، پس آخرت تو باقی ہے) اور دنیوی زندگانی محض (فانی ہے، جیسے فرض کرو کہ ایک) دھوکہ کا اسباب ہے (ومر تفسیرہ فی آل عمران قریباً من الاخیر، پس جب متاع دنیا فانی اور دولت آخرت باقی ہے جو ایمان کی بدولت نصیب ہوتی ہے تو تم کو چاہئے کہ) تم اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف دوڑو اور (نیز) ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے (یعنی اس سے کم کی نفی ہے، زیادہ کی نفی نہیں اور) وہ ان لوگوں کے واسطے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں (اور) یہ (مغفرت و رضوان) اللہ کا فضل ہے وہ اپنا فضل جس کو چاہیں عنایت کریں اور اللہ بڑے فضل والا ہے ( اس میں اشارہ ہے کہ اپنے اعمال پر کوئی مغرور نہ ہو اور اپنے اعمال پر استحقاق جنت کا مدعی نہ ہو، یہ محض فضل ہے جس کا مدار ہماری مشیت پر ہے، مگر ہم نے اپنی رحمت سے ان عملوں کے کرنے والوں کے ساتھ مشیت متعلق کرلی، اگر ہم چاہتے تو مشیت نہ کرتے کہ القدرة تتعلق بالضدین)- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں اہل جنت کے اور اہل جہنم کے حال کا بیان تھا، جو آخرت میں پیش آئے گا اور دائمی ہوگا اور آخرت کی نعمتوں سے محروم اور عذاب میں گرفتار ہونے کا بڑا سبب انسان کے لئے دنیا کی فانی لذتیں اور ان میں منہمک ہو کر آخرت سے غفلت ہونا ہے، اس لئے ان آیات میں دنیا فانی کا ناقابل اعتماد ہونا بیان کیا گیا ہے۔- پہلے ابتدا عمر سے آخر تک جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے اور جس میں دنیا دار منہمک و مشغول اور اس پر خوش رہتے ہیں اس کا بیان ترتیب کے ساتھ یہ ہے کہ دنیا کی زندگی کا خلاصہ بہ ترتیب چند چیزیں اور چند حالات ہیں پہلے لعب پھر لہو پھر زینت پھر تفاخر، پھر مال واولاد کی کثرت پر ناز و فخر۔- لعب وہ کھیل ہے جس میں فائدہ مطلق پیش نظر نہ ہو، جیسے بہت چھوٹے بچوں کی حرکتیں اور لہو وہ کھیل ہے جس کا اصل مقصد تو تفریح اور دل بہلانا اور وقت گزاری کا مشغلہ ہوتا ہے، ضمنی طور پر کوئی ورزش یا دوسرا فائدہ بھی اس میں حاصل ہوجاتا ہے جیسے بڑے بچوں کے کھیل، گیند، شن اوری یا نشانہ بازی وغیرہ، حدیث میں نشانہ بازی اور تیرنے کی مشق کو اچھا کھیل فرمایا ہے، زینت بدن اور لباس وغیرہ کی معروف ہے، ہر انسان اس دور سے گزرتا ہے کہ عمر کا بالکل ابتدائی حصہ تو خالص کھیل یعنی لعب میں گزرتا ہے، اس کے بعد لہو شروع ہوتا ہے، اس کے بعد اس کو اپنے تن بدن اور لباس کی زینت کی فکر ہونے لگتی ہے اس کے بعد ہم عصروں ہم عمروں سے آگے بڑھنے اور ان پر فخر جتلانے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔- اور انسان پر جتنے دور اس ترتیب سے آتے ہیں غور کرو تو ہر دور میں وہ اپنے اسی حال پر قانع اور اسی کو سب سے بہتر جانتا ہے، جب ایک دور سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتا ہے تو سابقہ دور کی کمزوری اور لغویت سامنے آجاتی ہے، بچے ابتدائی دور میں جن کھیلوں کو اپنا سرمایہ زندگی اور سب سے بڑی دولت جانتے ہیں، کوئی ان سے چھین لے تو ان کو ایسا ہی صدمہ ہوتا ہے جیسا کہ کسی بڑے آدمی کا مال و اسباب اور کوٹھی بنگلہ چھین لیا جائے لیکن اس دور سے آگے بڑھنے کے بعد اس کو حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ جن چیزوں کو ہم نے اس وقت مقصود زندگی بنایا ہوا تھا وہ کچھ نہ تھیں، سب خرافات تھیں، بچپن میں لعب، پھر لہو میں مشغولیت رہی جوانی میں زینت اور تفاخر کا مشغلہ ایک مقصد بنا رہا، بڑھاپا آیا، اب مشغلہ تکاثر فی الاموال والاود کا ہوگیا، کہ اپنے مال و دولت کے اعداد و شمار اور اولاد و نسل کی زیادتی پر خوش ہوتا رہے ان کو گنتا گناتا رہے، مگر جیسے جوانی کے زمانے میں بچپن کی حرکتیں لغو معلوم ہونے لگی تھیں بڑھاپے میں پہنچ کر جوانی کی حرکتیں لغو و ناقابل التفات نظر آنے لگیں، اب بڑے میاں کی آخری منزل بڑھاپا ہے، اس میں مال کی بہتات، اولاد کی کثرت و قوت اور ان کے جاہ و منصب پر فخر سرمایہ زندگی اور مقصود اعظم بنا ہوا ہے، قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ حال بھی گزر جانے والا ہے اور فانی ہے، اگلا دور برزخ پھر قیامت کا ہے اس کی فکر کرو کہ وہ ہی اصل ہے، قرآن کریم نے اس ترتیب کے ساتھ ان سب مشاغل و مقاصد و دنیویہ کا زوال پذیر، ناقص، ناقابل اعتماد ہونا بیان فرما دیا اور آگے اس کو ایک کھیتی کی مثال سے واضح فرمایا :۔- (آیت) كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا، غیث کے معنی بارش کے ہیں اور لفظ کفار جو مومنین کے مقابلہ میں آتا ہے اس کی یہ معنی تو معروف و مشہور ہی ہیں، اس کے ایک دوسرے لغوی معنی کاشتکار کے بھی آتے ہیں، آس آیت میں بعض حضرات نے یہی معنی مراد لئے ہیں اور مطلب آیت کا یہ قرار دیا ہے کہ جس طرح بارش سے کھیتی اور طرح طرح کی نباتات اگتی ہیں اور جب وہ ہری بھری ہوتی ہیں تو کاشتکار ان سے خوش ہوتا ہے اور بعض دوسرے حضرات مفسرین نے لفظ کفار کو اس جگہ بھی معروف معنی میں لیا ہے کہ کافر لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں اس پر جو یہ اشکال ہے کہ کھیتی ہری بھری دیکھ کر خوش ہونا تو کافر کے ساتھ مخصوص نہیں، مسلمان بھی اس سے خوش ہوتا ہے، اس کا جواب حضرات مفسرین نے یہ دیا ہے کہ مومن کی خوشی اور کافر کی خوشی میں بڑا فرق ہے، مومن خوش ہوتا ہے تو اس کی فکر کا رخ حق تعالیٰ کی طرف پھرجاتا ہے، وہ یقین کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی قدرت و حکمت اور رحمت کا نتیجہ ہے وہ اس چیز کو زندگی کا مقصود نہیں بناتا، پھر اس خوشی کے ساتھ اس کو آخرت کی فکر بھی ہر وقت لگی رہتی ہے، اس لئے جو مومن ایمان کے تقاضہ کو پورا کرتا ہے دنیا کی بڑی سے بڑی دولت پر بھی وہ ایسا خوش اور مگن اور مست نہیں ہوتا جیسا کافر ہوتا ہے، اس لئے یہاں خوشی کا اظہار کفار کی طرف منسوب ہے۔- آگے اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ کہ یہ کھیتی اور دوسری نباتات پھول پھلواریاں جب ہری بھری ہوتی ہیں تو سب دیکھنے والے خصوصاً کفار بڑے خوش اور مگن نظر آتے ہیں مگر آخر کار پھر وہ خشک ہونا شروع ہوتی ہے پہلے زرد پیلی پڑجاتی ہے پھر بالکل خشک ہو کر چورا چورا ہوجاتی ہے یہی مثال انسان کی ہے کہ شروع میں تروتازہ حسین خوبصورت ہوتا ہے، بچپن سے جوانی تک کے مراحل اسی حال میں طے کرتا ہے، مگر آخر کار بڑھاپا آجاتا ہے جو آہستہ آہستہ بدن کی تازگی اور حسن و جمال سب ختم کردیتا ہے اور بالآخر مر کر مٹی ہوجاتا ہے، دنیا کی بےثباتی اور زوال پذیر ہونے کا بیان فرمانے کے بعد پھر اصل مقصود آخرت کی فکر کی طرف توجہ دلانے کے لئے آخرت کے حال کا ذکر فرمایا۔- (آیت) وَفِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ، یعنی آخرت میں انسان ان دو حالوں میں سے کسی ایک میں ضرور پہنچے گا، ایک حال کفار کا ہے ان کے لئے عذاب شدید ہے، دوسرا حال مومنین کا ہے ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رحمت ہے۔- یہاں عذاب کا ذکر پہلے کیا گیا کیونکہ دنیا میں مست و مغرور ہونا جو پہلی آیات میں مذکور ہے اس کا نتیجہ بھی عذاب شدید ہے اور عذاب شدید کے مقابلہ میں دو چیزیں ارشاد فرمائیں، مغفرت اور رضوان، جس میں اشارہ ہے کہ گناہوں اور خطاؤں کی معافی ایک نعمت ہے جس کے نتیجہ میں آدمی عذاب سے بچ جاتا ہے مگر یہاں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عذاب سے بچ کر پھر جنت کی دائمی نعمتوں سے بھی سر فراز ہوتا ہے، جس کا سبب رضوان یعنی حق تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔- اس کے بعد دنیا کی حقیقت کو ان مختصر الفاظ میں بیان فرمایا (آیت) وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ یعنی ان سب باتوں کو دیکھنے سمجھنے کے بعد ایک عاقل وبصیر انسان کے لئے اس کے سوا کوئی نتیجہ دنیا کے بارے میں نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک دھوکہ کا سرمایہ اصلی سرمایہ نہیں جو آڑے وقت میں کام آسکے، پھر آخرت کے عذاب وثواب اور دنیا کی بےثباتی بیان فرمانے کا لازمی اثر یہ ہونا چاہئے کہ انسان دنیا کی لذتوں میں منہمک نہ ہو آخرت کی نعمتوں کی فکر زیادہ کرے اس کا بیان اگلی آیات میں اس طرح آیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِيْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝ ٠ ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ يَہِيْجُ فَتَرٰىہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا۝ ٠ ۭ وَفِي الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۝ ٠ ۙ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانٌ۝ ٠ ۭ وَمَا الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۝ ٢٠- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ- [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى- [ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ- وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ- [ الحج 11] ، وقوله : وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل 122] ، وتارة عن الأقرب، فيقابل بالأقصی نحو : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى- [ الأنفال 42] ، وجمع الدّنيا الدّني، نحو الکبری والکبر، والصّغری والصّغر . وقوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ- [ المائدة 108] ، أي : أقرب لنفوسهم أن تتحرّى العدالة في إقامة الشهادة، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب 51] ، وقوله تعالی: لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة 220] ، متناول للأحوال التي في النشأة الأولی، وما يكون في النشأة الآخرة، ويقال : دَانَيْتُ بين الأمرین، وأَدْنَيْتُ أحدهما من الآخر . قال تعالی: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ- [ الأحزاب 59] ، وأَدْنَتِ الفرسُ : دنا نتاجها .- وخصّ الدّنيء بالحقیر القدر، ويقابل به السّيّئ، يقال : دنیء بيّن الدّناءة . وما روي «إذا أکلتم فدنّوا» «2» من الدّون، أي : کلوا ممّا يليكم .- دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ اور آیت کریمہ ؛وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل 122] اور ہم نے ان کو دینا بھی خوبی دی تھی اور آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی اقرب آنا ہے اوراقصی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے کے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر ۔ الدنیا کی جمع الدنیٰ آتی ہے جیسے الکبریٰ کی جمع الکبر والصغریٰ کی جمع الصغر۔ اور آیت کریمہ ؛ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة 108] اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت ادا کریں ۔ میں ادنیٰ بمعنی اقرب ہے یعنی یہ اقرب ہے ۔ کہ شہادت ادا کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں ۔ اور آیت کریمہ : ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب 51] یہ ( اجازت ) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ضدی ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة 220] تا کہ تم سوچو ( یعنی ) دنای اور آخرت کی باتوں ) میں غور کرو ) دنیا اور آخرت کے تمام احوال کی شامل ہے کہا جاتا ہے ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما من الاخر ۔ یعنی دوچیزوں کو باہم قریب کرنا ۔ یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کرتا ۔ قرآن میں ہے : يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب 59] کہ باہر نکلاکریں تو اپنی چادریں اپنے اوپر ڈٖال لیا کریں َ ادنت الفرس ۔ گھوڑی کے وضع حمل کا وقت قریب آپہنچا ۔ الدنی خاص ک حقیر اور ذیل آدمی کو کہا جاتا ہے اور یہ سیئ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے کہا کاتا ہے :۔ ھودنی یعنی نہایت رزیل ہے ۔ اور حومروی ہے تو یہ دون سے ہیے یعنی جب کھانا کھاؤ تو اپنے سامنے سے کھاؤ ۔- لعب - أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ،- ( ل ع ب ) اللعب - ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64]- لهو - [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا .- ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم .- ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

خوب سمجھ لو کہ جو کچھ دنیوی زندگی میں ہے وہ محض لہو و لعب ہے نمائش وزینت اور حسب و نسب میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور اموال و اولاد میں خود کو ایک دوسرے سے زیادہ بتانا مگر یہ سب چیزیں فانی اور خواب خیال ہیں جیسا کہ بارش برستی ہے کہ اس کی پیداوار کاشت کروں کا اچھی معلوم ہوتی ہے۔ چند روز میں رنگت تبدیل ہو کر سوکھ کر چورا ہوجاتی ہے، یہی دنیا کا حال ہے کہ وہ بھی گھاس کی طرح باقی نہیں رہے گی۔- باقی جو اطاعت خداوندی کو چھوڑے اور حقوق اللہ سے منع کرے اس کے لیے آخرت میں شدید عذاب ہے اور جو اطاعت خداوندی کی تکمیل کرے اور اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اس کے لیے تو پھر مغفرت اور رضا مندی ہے باقی جو کچھ دنیوی بقا اور فنا ہے وہ محض ایک دھوکا کا سامان ہے جیسا کہ گھر کا ہانڈی پیالہ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ اِعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَـکُمْ وَتَـکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ” خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل ‘ دل لگی کا سامان اور ظاہری ٹیپ ٹاپ ہے اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش ہے۔ “- گزشتہ سطور میں دنیا کی محبت کو گاڑی کی بریک سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ُ حب ِدنیا انسان کو اللہ کے راستے پر چلنے سے ایسے روک دیتی ہے جیسے ایک گاڑی کو اس کی بریک جامد و ساکت کردیتی ہے۔ اب اس آیت میں اس بریک یعنی حب دنیا کی اصل حقیقت کو بےنقاب کیا گیا ہے۔ تو آیئے اس آیت کے آئینے میں دیکھئے انسانی زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ انسانی زندگی کا آغاز کھیل کود (لعب) سے ہوتا ہے ۔ بچپن میں انسان کو کھیل کود کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ باپ امیر ہے یا غریب ‘ اس کا کاروبار ٹھیک چل رہا ہے یا مندے کا شکار ہے ‘ بچے کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ‘ اسے تو کھیلنے کو دنے کا موقع ملتے رہنا چاہیے اور بس۔ پھر جب وہ لڑکپن کی عمر ( ) کو پہنچتا ہے تو اس کا کھیل کود محض ایک معصوم مشغولیت تک محدود نہیں رہتا ‘ بلکہ اس میں کسی نہ کسی حد تک تلذذ ( ) کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اس مشغولیت کو آیت میں لَـھْو کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ عام طور پر قرآن میں انسان کی دنیوی زندگی کی حقیقت بیان کرنے کے لیے لَہْو و لَعب کی ترکیب استعمال ہوئی ہے ‘ لیکن یہاں ان الفاظ کی ترتیب بدل دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں عمر کی تقسیم کے حساب سے انسانی زندگی کے مراحل کا ذکر ہو رہا ہے اور اس حوالے سے لعب یعنی کھیل کود کا مرحلہ پہلے آتا ہے جبکہ اس میں لَـہْو کا عنصر بعد کی عمر میں شامل ہوتا ہے۔- جوانی کی اسی عمر میں انسان پر اپنی شخصیت کی ظاہری ٹیپ ٹاپ (زِیْنَۃ) کا جنون سوار ہوتا ہے ۔ عمر کے اس مرحلے میں وہ شکل و صورت کے بنائو سنگھار ‘ ملبوسات وغیرہ کی وضع قطع ‘ معیار اور فیشن کے بارے میں بہت حساس ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے بعد جب عمر ذرا اور بڑھتی ہے تو تَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْکا مرحلہ آتا ہے ۔ یہ انسانی زندگی کا چوتھا اور اہم ترین مرحلہ ہے۔ اس عمر میں انسان پر ہر وقت تفاخر کا بھوت سوار ہوتا ہے ‘ اور وہ عزت ‘ شہرت ‘ دولت ‘ گھر ‘ گاڑی وغیرہ کے معاملے میں خود کو ہر قیمت پر دوسروں سے برتر اور آگے دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے بعد جب عمر ذرا ڈھلتی ہے تو تَـکَاثُــرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِکا دور آتا ہے۔ اس دور میں انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ تفاخر کے دور میں تو سوچ یہ تھی کہ کچھ بھی ہوجائے مونچھ نیچی نہیں ہونی چاہیے ‘ لیکن اب سوچ یہ ہے کہ مال آنا چاہیے ‘ مونچھ رہے یا نہ رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس عمر میں پہنچ کر انسان اپنے مفاد کے معاملے میں بہت حقیقت پسند ( ) ہوجاتا ہے ‘ بلکہ جوں جوں بڑھاپے کی طرف جاتا ہے ‘ اس کے دل میں مال و دولت کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک مرحلے پر اسے خود بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ اب وہ پائوں قبر میں لٹکائے بیٹھا ہے مگر اس کی ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کی خواہش ختم ہونے میں نہیں آتی۔ انسان کی اسی کیفیت کو سورة التکاثر میں یوں بیان فرمایا گیا ہے : اَلْھٰٹکُمُ التَّـکَاثُرُ - حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۔ ” (لوگو ) تم کو (مال کی) کثرت کی طلب نے غافل کردیا ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ “- بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ‘ لیکن عمر کے ہر مرحلے میں کسی ایک چیز کی دھن اس کے ذہن پر سوار رہتی ہے ۔ اس موضوع پر یہ قرآن حکیم کی واحد آیت ہے اور اس اعتبار سے بہت اہم اور منفرد ہے ‘ مگر حیرت ہے کہ انسانی زندگی کے نفسیاتی مراحل کے طور پر اسے بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔ - آیت کے اگلے حصے میں انسانی اور نباتاتی زندگی کے مابین پائی جانے والی مشابہت اور مماثلت کا ذکر ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے کہ نباتاتی سائیکل ( ) اور انسانی زندگی کے سائیکل ( ) دونوں میں بڑی گہری مشابہت اور مناسبت ہے۔ اس تشبیہہ سے انسان کو دراصل یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر تم اپنی زندگی کی حقیقت سمجھنا چاہتے ہو تو کسان کی ایک فصل کے سائیکل کو دیکھ لو۔ اس فصل کے دورانیہ میں تمہیں اپنی پیدائش ‘ جوانی ‘ بڑھاپے ‘ موت اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجانے کا حقیقی نقشہ نظر آجائے گا۔- کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ” (انسانی زندگی کی مثال ایسے ہے) جیسے بارش برستی ہے تو اس سے پیدا ہونے والی روئیدگی کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہے “- ثُمَّ یَھِیْجُ ” پھر وہ کھیتی اپنی پوری قوت پر آتی ہے “- فَتَرٰٹہُ مُصْفَرًّا ” پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوجاتی ہے “- ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا ” پھر وہ کٹ کر چورا چورا ہوجاتی ہے۔ “- اس تشبیہہ کے آئینے میں انسانی زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ پھر وہ جوان ہو کر اپنی پوری قوت کو پہنچ جاتا ہے۔ پھر عمر ڈھلتی ہے تو بالوں میں سفیدی آجاتی ہے اور چہرے پر جھریاں پڑجاتی ہیں۔ پھر موت آنے پر اسے زمین میں دبادیا جاتا ہے جہاں وہ مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے ۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تشبیہہ صرف دنیوی زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہے۔ تم اشرف المخلوقات ہو ‘ نباتات نہیں ہو ‘ تمہاری اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جو کہ دائمی اور ابدی ہے اور اس کی نعمتیں اور صعوبتیں بھی دائمی اور ابدی ہیں۔ لہٰذا عقل اور سمجھ کا تقاضا یہی ہے کہ تم اپنی آخرت کی فکر کرو۔- وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ ” اور آخرت میں بہت سخت عذاب ہے اور (یا پھر) اللہ کی طرف سے مغفرت اور (اس کی) رضا ہے۔ “- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے ابتدائی دور کا ایک خطبہ ” نہج البلاغہ “ میں نقل ہوا ہے۔ اس کے اختتامی الفاظ یوں ہیں :- (… ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبِالسُّوْئِ سُوْئً ، وَاِنَّھَا لَجَنَّـۃٌ اَبَدًا اَوْ لَنَارٌ اَبَدًا ) (١)- ”… پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہوگا اور پھر لازماً تمہیں بدلہ ملے گا اچھائی کا اچھا اور برائی کا برا۔ اور وہ جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی۔ “- وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ۔ ” اور دنیا کی زندگی تو سوائے دھوکے کے ساز و سامان کے اور کچھ نہیں ہے۔ “- تمہاری دنیوی زندگی کی حقیقت تو بس یہی ہے ‘ لیکن تم ہو کہ اس حقیقت کو فراموش اور نظر انداز کیے بیٹھے ہو۔ تمہارے دل میں نہ اللہ کی یاد ہے اور نہ آخرت کی فکر۔ بس تم اس عارضی اور دھوکے کی زندگی کی آسائشوں میں مگن اور اسی کی رنگینیوں میں گم ہو۔ یاد رکھو یہ طرز عمل غیروں کی پہچان تو ہوسکتا ہے ‘ ایک بندئہ مومن کے ہرگز شایانِ شان نہیں ہے۔ بقول علامہ اقبال : ؎- کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے - مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :36 اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ سورہ آل عمران ، آیات 14 ۔ 15 ۔ یونس ، 24 ۔ 25 ۔ ابراہیم ، 18 ۔ الکہف ، 45 ۔ 46 ۔ النور ، 39 ۔ ان سب مقامات پر جو بات انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے ۔ یہاں کی بہار بھی عارضی ہے اور خزاں بھی عارضی ۔ دل بہلانے کا سامان یہاں بہت کچھ ہے ، مگر در حقیقت وہ نہایت حقیر اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جنہیں اپنی کم ظرفی کی وجہ سے آدمی بڑی چیز سمجھتا ہے اور اس دھوکے میں پڑ جاتا ہے کہ انہی کو پا لینا گویا کامیابی کے منتہیٰ تک پہنچ جانا ہے ۔ حالانکہ جو بڑے سے بڑے فائدے اور لطف و لذت کے سامان بھی یہاں حاصل ہونے ممکن ہیں وہ بہت حقیر اور صرف چند سال کی حیات مستعار تک محدود ہیں ، اور ان کا حال بھی یہ ہے کہ تقدیر کی ایک ہی گردش خود اسی دنیا میں ان سب پر جھاڑو پھیر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بر عکس آخرت کی زندگی ایک عظیم اور ابدی زندگی ہے ۔ وہاں کے فائدے بھی عظیم اور مستقل ہیں اور نقصان بھی عظیم اور مستقل ۔ کسی نے اگر وہاں اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی پالی تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ نعمت نصیب ہو گئی جس کے سامنے دنیا بھر کی دولت و حکومت بھی ہیچ ہے ۔ اور جو وہاں خدا کے عذاب میں گرفتار ہو گیا اس نے اگر دنیا میں وہ سب کچھ بھی پا لیا ہو جسے وہ اپنے نزدیک بڑی چیز سمجھتا تھا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بڑے خسارے کا سودا کر کے آیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: یہاں اللہ تعالیٰ نے ان دلچسپوں کا ذکر فرمایا ہے، جن سے انسان اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں دل لگاتا ہے، بچپن میں ساری دلچسپی کھیل کود سے ہوتی ہے، اور جوانی کے دور میں زیب وزینت اور سجاوٹ کا شوق پیدا ہوتا ہے، اور اس زیب وزینت اور دنیا کے ساز وسامان میں ایک دوسرے کے سامنے اپنی برتری جتانے اور اس پر فخر کرنے کا ذوق ہوتا ہے، پھر بڑھاپے میں مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کو ہی انسان دلچسپی کا مرکز بنالیتا ہے، اور ہر مرحلے میں انسان جس چیز کو اپنی دلچسپی کی معراج سمجھتا ہے اگلے مرحلے میں وہ بے حقیقت معلوم ہونے لگتی ہے ؛ بلکہ بعض اوقات انسان اس پر ہنستا ہے کہ میں نے کس چیز کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھا ہوا تھا، آخرت میں پہنچ کر انسان کو پتہ چلے گا کہ یہ ساری دلچسپیاں بے حقیقت تھیں اور اصل حاصل کرنے کی چیز تو یہ آخرت کی خوش حالی تھی۔