2 1 1یعنی اعمال صالحہ اور توبۃ النصوح کی طرف کیونکہ یہی چیزیں مغفرت رب کا ذریعہ ہیں۔ 2 1 2اور جس کا عرض اتنا ہو، اس کا طول کتنا ہوگا ؟ کیونکہ طول عرض سے زیادہ ہی ہوتا ہے 2 1 3ظاہر ہے اس کی چاہت اسی کے لیے ہوتی ہے جو کفر و معصیت سے توبہ کر کے ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کرلیتا ہے اسی لیے وہ ایسے لوگوں کو ایمان صالحہ کی توفیق سے بھی نوازتا دیتا ہے۔ 2 1 4وہ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے جس کو وہ کچھ دے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لے اسے کوئی نہیں دے سکتا۔ تمام خیر اسی کے ہاتھ میں ہے۔
[٣٦] جنت کی وسعت :۔ یہاں یہ فرمایا کہ جنت کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کے برابر ہے اور سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٣٣ میں فرمایا کہ جنت کا عرض تمام آسمانوں اور زمین کے عرض کے برابر ہے۔ حالانکہ ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی لاکھوں میل کا فاصلہ ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں جنت کا رقبہ بتانا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ مح اور تاً استعمال ہوئے ہیں اور اس سے مقصود صرف جنت کی وسعت کا تصور دلانا ہے۔ جو یہ ہے کہ زمین و آسمان کو تو تم دیکھ ہی رہے ہو جنت ان سب آسمانوں اور زمین سے بھی بہت بڑی ہوگی۔ لہذا تم دنیا کے بجائے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور اگر تم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو تمہارے گناہ اور لغزشیں بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا اور اتنی وسیع و عریض جنت بھی عطا فرمائے گا۔ رہی یہ بات ہے کہ جس جنت کی وسعت یہاں بیان ہو رہی ہے یہ سب اہل جنت کا حق ہوگا، یا ہر جنتی کو اتنی وسیع و عریض جنت ملے گی ؟ تو استقصاء سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر جنتی کی ایک مخصوص رہائش گاہ ہوگی جیسا کہ رسول اللہ نے معراج کی رات کو جنت میں سیدنا عمر کا محل دیکھ تھا۔ البتہ سیروتفریح کے لحاظ سے ہر جنتی اتنی وسیع و عریض جنت میں جہاں چاہے گا جاسکے گا۔ اور اس آمدورفت میں اسے کوئی مشکل حائل نہ ہوگی نہ ہی اسے گاڑیوں یا جہازوں کی ضرورت پیش آئے گی۔- [٣٧] جنت صرف اللہ کی مہربانی سے ملے گی :۔ یہ مضمون پہلے بھی متعدد مقامات پر گزر چکا ہے کہ جنت کسی شخص کو اس کے اعمال کے بدلہ کے طور پر نہیں بلکہ محض اللہ کے فضل و کرم سے ملے گی۔ اعمال صالحہ کا بدلہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ اسے دوزخ کے عذاب سے بچا لیا جائے اور یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی شخص کو اس کا عمل بہشت میں نہیں لے جاسکتا ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کے اعمال بھی آپ کو بہشت میں نہیں لے جاسکیں گے۔ فرمایا : ہاں میرے اعمال بھی مجھے بہشت میں نہیں لے جاسکیں گے الا یہ کہ اللہ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے (بخاری۔ کتاب المرضیٰ ۔ باب تمنی المریض الموت)
سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ :’ سابقوا “ ” سبق یسبق سبقا “ (ض، ن) سے باب مفاعلہ کا امر حاضر ہے۔ اس میں مقابلے کا مفہوم پایا جاتا ہے ، یعنی ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے اعمال کی طرف آگے بڑھو جن سے تم مغفرت اور جنت کے مستحق بن سکو ۔ مثلاً میدان قتال کی پہلی صفت میں ہونا ، امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ میں شامل ہونا اور اللہ کی راہ میں دوسروں سے بڑھ چڑھ کر خرچ کرنا وغیرہ ۔ یہ آیت سورة ٔ آل عمران کی آیت (١٣٣) سے ملتی جلتی ہے ، اس کی تفسیر پر بھی نظر ڈال لیں۔- ٢۔ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ :” السمائ “ کا لفظ یہاں بطور جنس استعمال ہوا ہے ، مراد تمام آسمان ہیں ۔ دلیل اس کی سورة ٔ آل عمران کی یہ آیت ہے :(وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا )” اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین ( کے برابر) ہے “۔- ٣۔ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِ اللہ ِ وَرُسُلِہٖ ط : یہاں اتنا ہی ذکر ہے کہ جنت ایمان والوں کے لیے تیار کی گئی ہے ، جبکہ سورة ٔ آل عمران (١٣٣ تا ١٣٥) میں ان ایمان والوں کے چند اعمال کا بھی ذکر ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ کے فضل کے حق دار ٹھہرتے ہیں ۔ ان میں پہلا عمل خوشی اور تکلیف میں خرچ کرنا ہے ، جس کا ذکر یہاں ” انفقوا “ میں گزر چکا ہے۔- ٤۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہ ِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط ۔۔۔۔۔۔: اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں داخلہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ ہوگا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں اور انسان جتنے بھی عمل کرلے وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ ایک نعمت کا بھی بدل نہیں ہوسکتے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے :(لن یدخل احدا عملہ لخنہ، قالوولا انت یا رسول اللہ ؟ قال لا ، ولا انا الا ان یتغمدنی اللہ بفضل ورحمۃ) ( بخاری لم منی ، باب تغنی المریض الموت : ٥٦٧٣)” کسی بھی شخص کو اس کا عمل جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا “۔ لوگوں نے کہا : ’ ’ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو بھی نہیں ؟ “ فرمایا :” نہیں ، مجھے بھی نہیں، الایہ کہ اللہ مجھے فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے “۔ البتہ اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے حصول کا سبب بنتے ہیں ، دیکھئے سورة ٔ اعراف (٤٣) کی تفسیر۔
(آیت) سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ، یعنی مسابقت کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمان و زمین کے عرض کے برابر ہے۔- مسابقت کرنے سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ عمر اور صحت وقدرت کا کچھ بھروسہ نہیں، نیک اعمال میں سستی اور ٹال مٹول نہ کرو ایسا نہ ہو کہ پھر کوئی بیماری یا عذر آ کر تمہیں اس کام کے قابل نہ چھوڑے، یا موت ہی آجائے تو حاصل مسابقت کا یہ ہے کہ عجز و ضعف اور موت سے مسابقت کرو کہ ان کے آنے سے پہلے پہلے ایسے اعمال کا ذخیرہ کرلو جو جنت تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکیں۔- اور مسابقت کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ نیک اعمال میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو جیسا کہ حضرت علی نے اپنی نصائح میں فرمایا کہ ” تم مسجد میں سب سے پہلے جانے والے اور سب سے آخر میں نکلنے والے بنو “ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ جہاد کی صفوف میں سے پہلی صف میں رہنے کے لئے بڑھو، حضرت انس نے فرمایا کہ جماعت نماز میں پہلی تکبیر میں حاضر رہنے کی کوشش کرو (روح)- جنت کی تعریف میں فرمایا کہ اس کا عرض آسمان و زمین کے برابر ہوگا، سورة آل عمران میں بھی اسی مضمون کی آیت پہلے آ چکی ہے، اس میں لفظ سٰموٰت جمع کے ساتھ آیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ آسمان سے مراد ساتوں آسمان ہیں اور معنی یہ ہیں کہ ساتوں آسمانوں اور زمین کی وسعت کو ایک جگہ جمع کرلو تو وہ جنت کا عرض ہو، یعنی چوڑائی اور یہ ظاہر ہے کہ طول ہر چیز کا اس کے عرض سے زائد ہوتا ہے، اس سے ثابت ہوا کہ جنت کی وسعت ساتوں آسمانوں اور زمین کی وسعت سے بڑھی ہوئی ہے اور لفظ عرض کبھی مطلق و سعت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس میں طویل کا مقابلہ مقصود نہیں ہوتا، دونوں صورتوں میں جنت کی عظیم الشان وسعت کا بیان ہوگیا۔- (آیت) ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ، اس سے پہلی آیت میں جنت اور اس کی نعمتوں کے لئے مسابقت اور کوشش کا حکم تھا، اس سے کسی کو یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ جنت اور اس کی لازوال نعمتیں ہمارے عمل کا ثمرہ اور ہمارا عمل اس کے لئے کافی ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ تمہارے اعمال حصول جنت کے لئے علت کافیہ نہیں ہیں، جن پر عطاء جنت کا مرتب ہونا لازمی ہی ہو، انسان کے عمر بھر کے اعمال تو ان نعمتوں کا بدلہ بھی نہیں ہو سکتے جو دنیا میں اس کو مل چکی ہیں، ہمارے یہ اعمال جنت کی لازوال نعمتوں کی قیمت نہیں بن سکتے، جنت میں جو بھی داخل ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان ہی سے داخل ہوگا، جیسے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی مرفوع حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں کسی کو صرف اس کا عمل نجات نہیں دلا سکتا، صحابہ نے عرض کیا کہ کیا آپ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاں میں بھی اپنے عمل سے جنت حاصل نہیں کرسکتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و رحمت ہوجاوے (مظہری)
سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ٠ ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ ٠ ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ ٠ ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ٢١- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
اب سب کو اللہ تعالیٰ خطاب کر کے فرماتا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے تم اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف دوڑو اور نیز اعمال صالحہ کر کے ایسی جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمان و زمین کو اگر ملا دیا جائے تو اس کی وسعت کے برابر ہے اور وہ تمام امتوں میں سے اہل ایمان کے لیے تیار کی گئی ہے۔- اور یہ مغفرت و خوشنودی اور جنت اللہ کا فضل ہے وہ جو اس کا اہل ہوتا ہے اس کو عنایت کرتے ہیں اور اللہ بڑے فضل والے ہیں کہ صلہ میں جنت عطا کرتے ہیں۔
آیت ٢١ سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ ” ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے۔ “- دنیا کمانے میں تو تم لوگ خوب مسابقت کر رہے ہو۔ اس میدان میں تو تم ہر وقت ع ” ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں “ کی فکر میں لگے رہتے ہو۔ عارضی دنیا کی اس مسابقت کو چھوڑو ‘ اپنی یہی صلاحیتیں اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے صرف کرو۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرو اور اس منزل میں بہتر سے بہتر مقام پانے کے لیے دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔- جنت کی وسعت کی مثال کے لیے یہاں ” کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ “ جبکہ سورة آل عمران کی آیت ١٣٣ میں ” عَرْضُھَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضُ “ کے الفاظ آئے ہیں۔ موجودہ دور میں سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے باوجود ابھی تک ارض و سماء کی وسعت کے بارے میں انسان کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال اب تک میسر ہونے والی معلومات کے مطابق اس کائنات میں ارب ہا ارب کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں کی وسعت اور ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں کے فاصلے کو کروڑوں نوری سالوں پر محیط تصور کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر کہکشاں میں اَن گنت ستارے ‘ ہمارے نظام شمسی ( ) جیسے بیشمار نظام اور ہماری زمین جیسے لاتعداد سیارے ہیں۔ اسی طرح ہر ستارے کی جسامت اور ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک کے فاصلے کا اندازہ بھی نوری سالوں میں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس آیت میں آسمان اور زمین کی وسعت سے مراد پوری کائنات کی وسعت ہے جس کا اندازہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ بہرحال اس مثال سے جنت کی وسعت کے تصور کو انسانی ذہن کی سطح پر ممکن حد تک قابل فہم بنانا مقصود ہے۔ اس حوالے سے میرا گمان یہ ہے (واللہ اعلم ) کہ قیامت برپا ہونے کے بعد پہلی جنت اسی زمین پر بنے گی اور اہل جنت کی ابتدائی مہمانی (نُزُل) بھی یہیں پر ہوگی۔ اس کے بعد اہل جنت کے درجات و مراتب کے مطابق ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھولے جائیں گے۔ اس حوالے سے سورة الاعراف کی اس آیت میں واضح فرما دیا گیا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ… (آیت ٤٠) کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں تکبر کرنے والوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ بہرحال اس کے بعد اہل جنت کو ان کے مراتب کے مطابق اس جنت میں منتقل کردیا جائے گا جس کی وسعت کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ اہل جنت کو وہاں جانے کے لیے کسی راکٹ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اسی انداز سے آسمانوں پر لے جائے گا جیسے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر معراج میں زمین سے ساتویں آسمان تک چلے گئے تھے اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ساتویں آسمان سے زمین پر آتے ہیں۔- اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ” وہ تیار کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔ “- ” اِعداد “ (بابِ افعال) کے معنی ہیں کسی خاص مقصد کے لیے کسی چیز کو تیار کرنا۔ یعنی وہ جنت بڑے اہتمام سے تیار کی گئی ہے ‘ سجائی اور سنواری گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔- ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔ ” یہ اللہ کا فضل ہے جس کو بھی وہ چاہے گا دے گا۔ اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ “- ” فَضْل “ سے مراد ہے اللہ کی طرف سے بغیر استحقاق کے دی جانے والی شے۔ اس کے بالمقابل اجرت اور اجر کے الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں ‘ جن کا مطلب ہے بدلہ ‘ جو کسی محنت اور مزدوری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن قرآن مجید میں بالعموم جہاں بھی جنت کا تذکرہ آیا ہے وہاں لفظ ” فَضْل “ استعمال ہوا ہے۔ گویا قرآن مجید کا تصور یہ ہے کہ انسان مجرد اپنے عمل کے ذریعے سے جنت کا مستحق نہیں بن سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دست گیری نہ کرے۔٭- اب اگلی آیت میں دنیوی زندگی میں پیش آنے والی تکالیف و مشکلات کو قابل برداشت بنانے کا نسخہ بتایا جا رہا ہے۔ دراصل اہل ایمان کو جس راستے کی طرف بلایا جا رہا ہے وہ بہت کٹھن اور صبر آزما راستہ ہے۔ یہ انفاق ‘ جہاد اور قتال کا راستہ ہے اور اس کی منزل ” اقامت دین “ ہے ‘ جس کا ذکر آگے آیت ٢٥ میں آ رہا ہے ۔ اس اعتبار سے آیت ٢٥ اس سورت کے ذروئہ سنام ( ) کا درجہ رکھتی ہیں۔ بہرحال اہل ایمان جب اس راستے پر گامزن ہوں گے تو آزمائشیں ‘ صعوبتیں اور پریشانیاں قدم قدم پر ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کریں گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے جس کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ سورة البقرۃ میں ارشادِربانی ہے : وَلَنَبْلُوَنَّـکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط (آیت ١٥٥) ” اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے “۔ جبکہ سورة آل عمران میں اس قانون کا ذکر ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : لَتُـبْـلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَـتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ مِنْ قَـبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًاط (آیت ١٨٦) ” (مسلمانو یاد رکھو) تمہیں لازماً آزمایا جائے گا تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی ‘ اور تمہیں لازماً سننا پڑیں گی بڑی تکلیف دہ باتیں ان لوگوں سے بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان سے بھی جنہوں نے شرک کیا “۔ چناچہ مشکلات و مصائب کی اس متوقع یلغار کے دوران اہل ایمان کو سہارا دینے کے لیے یہ نسخہ بتایاجا رہا ہے :
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :37 اصل میں لفظ سَابِقُوْا استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم محض دوڑو کے لفظ سے ادا نہیں ہوتا ۔ مسابقت کے معنی مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تم دنیا کی دولت اور لذتیں اور فائدے سمیٹنے میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی جو کوشش کر رہے ہو اسے چھوڑ کر اس چیز کو ہدف مقصود بناؤ اور اس کی طرف دوڑنے میں بازی جیت لے جانے کی کوشش کرو ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :38 اصل الفاظ ہیں عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ۔ بعض مفسرین نے عرض کو چوڑائی کے معنی میں لیا ہے ۔ لیکن دراصل یہاں یہ لفظ وسعت و پہنائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی زبان میں لفظ عرض صرف چوڑائی ہی کے لیے نہیں بولا جاتا جو طول کا مد مقابل ہے ، بلکہ اسے مجرد وسعت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ ، انسان پھر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ( حٰم السجدہ ۔ 51 ) ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس ارشاد سے مقصود جنت کا رقبہ بتانا نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت کا تصور دلانا ہے ۔ یہاں اس کی وسعت آسمان و زمین جیسی بتائی گئی ہے ، اور سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے سَارِعُوْآ اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقَیْنَ ( آیت ۔ 133 ) ۔ دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت ساری کائنات ہے ، جو مہیا کی گئی ہے متقی لوگوں کے لیے ۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے کچھ ایسا تصور ذہن میں آتا ہے کہ جنت میں ایک انسان کو جو باغ اور محلات ملیں گے وہ تو صرف اس کے قیام کے لیے ہوں گے ، مگر در حقیقت پوری کائنات اس کی سیر گاہ ہو گی ۔ کہیں وہ بند نہ ہو گا ۔ وہاں اس کا حال اس دنیا کی طرح نہ ہو گا کہ چاند جیسے قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لیے بھی وہ برسوں پاپڑ بیلتا رہا اور اس ذرا سے سفر کی مشکلات کو رفع کرنے میں اسے بے تحاشا وسائل صرف کرنے پڑے ۔ وہاں ساری کائنات اس کے لیے کھلی ہو گی ، جو کچھ چاہے گا اپنی جگہ سے بیٹھے بیٹھے دیکھ لے گا اور جہاں چاہے گا بے تکلف جا سکے گا ۔