Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تنگی اور آسانی کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ اپنی اس قدرت کی خبر دے رہا ہے جو اس نے مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی اپنی مخلوق کی تقدیر مقرر کی تھی ، فرمایا کہ زمین کے جس حصے میں کوئی برائی آئے یا جس کسی شخص کی جان پر کچھ آ پڑے اسے یقین رکھنا چاہئے کہ خلق کی پیدائش سے پہلے ہے ، لیکن زیادہ ٹھیک بات یہ ہے کہ مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہے ، امام حسن سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمانے لگے سبحان اللہ ہر مصیبت جو آسمان و زمین میں ہے وہ نفس کی پیدائش سے پہلے ہی رب کی کتاب میں موجود ہے اس میں کیا شک ہے؟ زمین کی مصیبتوں سے مراد خشک سالی ، قحط وغیرہ ہے اور جانوں کی مصیبت درد دکھ اور بیماری ہے ، جس کسی کو کوئی خراش لگتی ہے یا لغزش پا سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کسی سخت محنت سے پسینہ آ جاتا ہے یہ سب اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ابھی تو بہت سے گناہ ہیں جنہیں وہ غفور و رحیم اللہ بخش دیتا ہے ، یہ آیت بہترین اور بہت اعلیٰ دلیل ہے قدریہ کی تردید میں جس کا خیال ہے کہ سابق علم کوئی چیز نہیں اللہ انہیں ذلیل کرے ۔ صحیح مسلم شریف ہے اللہ تعالیٰ نے تقدیر مقرر آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے کی اور رویات میں ہے اس کا عرش پانی پر تھا ( ترمذی ) پھر فرماتا ہے کاموں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کا اندازہ کر لینا ، ان کے ہونے کا علم حاصل کر لینا اور اسے لکھ دینا اللہ پر کچھ مشکل نہیں ۔ وہی تو ان کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جس کا محیط علم ہونے والی ، ہو رہی ، ہو چکی ، ہو گی تمام چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے ہم نے تمہیں یہ خبر اس لئے دی ہے کہ تم یقین رکھو کہ جو تمہیں پہنچا وہ ہرگز کسی صورت ٹلنے والا نہ تھا ، پس مصیبت کے وقت صبر و شکر تحمل و ثابت قدمی مضبوط ولی اور روحانی طاقت تم میں موجود رہے ، ہائے وائے بےصبری اور بےضبطی تم سے دور رہے جزع فزع تم پر چھا نہ جائے تم اطمینان سے رہو کہ یہ تکلیف تو آنے والی تھی ہی ، اسی طرح اگر مال دولت غلبہ وغیرہ مل جائے تو اس وقت آپے سے باہر نہ ہو جاؤ اسے عطیہ الٰہی مانو تکبر اور غرور تم میں نہ آ جائے ایسا نہ ہو کہ دولت و مال وغیرہ کے نشے میں پھول جاؤ اور اللہ کو بھول جاؤ اس لئے کہ اس وقت بھی ماری یہ تعلیم تمہارے سامنے ہو گی کہ یہ میرے دست و بازو کا میری عقل و ہوش کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے ۔ ایک قرأت اس کی آتکم ہے دوسری اتکم ہے اور دونوں میں تلازم ہے ، اسی لئے ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے جی میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے دوسروں پر فخر کرنے والے اللہ کے دشمن ہیں ، حضرت ابن عباس کا فرمان ہے کہ رنج و راحت خوشی و غم تو ہر شخص پر آتا ہے خوشی کو شکر میں اور غم کو صبر میں گذار دو ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود بھی بخیل اور خلاف شرع کام کرنے والے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی برا راستہ بتاتے ہیں ۔ جو شخص اللہ کی حکم برداری سے ہٹ جائے وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا کیونکہ وہ تمام مخلوق سے بےنیاز ہے اور ہر طرح سزا اور حمد ہے ۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یعنی اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کافر ہو جائیں تو بھی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ ساری مخلوق سے غنی ہے اور مستحق حمد ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221مثلاً قحط، سیلاب اور دیگر آفات زمینی اور آسمانی۔ 222مثلاً بیماریاں، تعب و تکان اور تنگ دستی وغیرہ۔ 223یعنی اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی باتیں لکھ دی ہیں جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار پہلے ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨] جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی وہ مخلص مسلمانوں کے لیے بڑے صبر آزما تھے۔ چار قسم کے دشمن مسلمانوں کی نوزائیدہ ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے تھے ایک قریش مکہ، دوسرے مدینہ کے اردگرد کے مشرک قبائل۔ تیسرے یہود مدینہ اور چوتھے منافقین جو ہر دشمن اسلام قوت سے اندرونی ساز باز رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے مار آستین بنے ہوئے تھے ان حالات میں جو ذہنی اور ظاہری پریشانیاں مسلمانوں کو لاحق ہوسکتی تھیں۔ ان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ان مشکلات و مصائب سے بیخبر ہیں۔ بلکہ زمین میں جو بھی حادثہ پیش آتا ہے یا تمہیں کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے اسے ہم اس کے وقوع سے پہلے سے ہی جانتے ہیں کیونکہ نوشتہ تقدیر میں یہ سب کچھ لکھا ہوا موجود ہے۔ اور تمہیں ایسے حالات سے گزارنا اس لیے ضروری تھا کہ مومنوں اور منافقوں کا امتیاز کھل کر سامنے آجائے۔ عنقریب اسلام کو غلبہ حاصل ہونے والا ہے۔ اور تمہاری امت کو تمام دنیا کی قیادت کے لیے منتخب کیا جارہا ہے۔ لہذا منافقوں کو چھانٹ کر الگ کردینا ضروری تھا کہ وہ بھی اپنے آپ کو اس قیادت کے حقدار اور حصہ دار نہ سمجھ بیٹھیں اور ان کی صحیح قدر و قیمت انہیں خود بھی اور دوسروں کو بھی معلوم ہوجائے۔- [٣٩] اس آیت کی تشریح کے لیے سورة اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ ۔۔۔۔۔:” اصاب “ کا مفعول بہ محذوف ہے : ” ای ما اصابکم او ما اصاب اخذ من مصیبۃ۔۔۔۔ “ ” یعنی تمہیں یا کسی کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے خواہ زمین میں ہو یا تمہاری جانوں میں ۔۔۔۔۔ “ سورت کی ابتداء سے جہاد میں مال و جان خرچ کرنے کی تاکیدآ رہی ہے ، چونکہ اس راہ میں کئی طرح کی جسمانی و ذہنی اور مالی و جانی مصیبتیں پیش آتی ہیں ، مثلاً بھوک ، پیاس ، فقر ، خوف ، غم ، تھکاوٹ ، بیماری ، زخم ، چوٹ ، گرفتاری اور قتل وغیرہ ، اس لیے آدمی جہاد پر جانے سے گریز کرتا ہے اور اپنے آپ کو ان مصیبتوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر جہاد کے لیے چلا جائے تو ان مصائب کے پیش آنے پر پریشان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مالی یا جانی مصیبت تمہیں پیش آنی ہے وہ ہر حال میں آکر رہے گی ، تم اس سے بچنے کی جتنی بھی کوشش کرلو اس سے بھا گ نہیں سکتے۔ ہر آنے والی مصیبت یا راحت اللہ تعالیٰ نے اس کے پیدا کرنے اور تمہاری جانوں کو پیدا کرنے ، بلکہ زمین کو پیدا کرنے سے بھی پہلے ایک کتاب میں لکھ دی ہے ، کسی کو طاقت نہیں کہ اس لکھے ہوئے کو مٹا دے یا بدل دے ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ قمر (٤٩) اور سورة ٔ توبہ ( ٥١) کی تفسیر۔- ٢۔ فی الارض : اس سے زمین پر آنے والی عام مصیبتیں مراد ہیں ، مثلاً قحط ، طوفان ، سیلاب ، زلزلے اور وبائیں وغیرہ ، جن سے انسان متاثر ہوتا ہے۔- ٣۔ ولا فی انفسکم : اس سے وہ مصیبتیں مراد ہیں جو انسان کی ذات پر آتی ہیں ، مثلاً بیماری ، زخم ، بھوک ، پیاس ، گرفتاری، فقر ، خوف ، غم ، پیاروں کی موت اور اپنی موت وغیرہ۔” ولا فی انفسکم “ میں حرف نافیہ ” لا “ کو دوبارہ ان مصیبتوں کی اہمیت کی وجہ سے ذکر فرمایا : کیونکہ آدمی اپنی جان پر آنے والی مصیبتوں سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ، دوسروں پر آنے والی مصیبتوں سے وہ ذہنی طور پر متاثر ہوتا ہے ، حسی طور پر نہیں۔- ٤۔ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا ط :” برایبرا براو بروا “ (ف) پیدا کرنا ۔ ” ھا “ ضمیر ” مصیبۃ “ کی طرف بھی جاسکتی ہے ، ” الارض “ کی طرف بھی اور ” انفسکم “ کی طرف بھی ۔ یہ کلام الٰہی کی بلاغت ہے کہ تینوں مراد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مصیبت کو اس مصیبت کے پیدا کرنے سے پہلے ، انسان کے پیدا کرنے سے پہلے اور زمین کے پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھ دیا ہے۔- ٥۔ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہ ِ یَسِیْرٌ : یعنی انسان کو چونکہ آئندہ کا کچھ علم نہیں ، اس لیے اس کے لیے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ آئندہ کی بات پہلے لکھ دے ، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بالکل ہی معمولی بات ہے ، کیونکہ وہ گزشتہ اور موجودہ کی طرح آئندہ کی ہر بات کو بھی جانت ہے ، مزید دیکھئے سورة ٔ قمر (٤٩) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر وہ (سب) ایک کتاب میں (یعنی لوح محفوظ میں) لکھی ہیں قبل اس کے کہ ہم ان جانوں کو پیدا کریں (یعنی تمام مصیبتیں خارجی ہوں یا داخلی، وہ سب مقدر ہیں اور) یہ اللہ کے نزدیک آسان کام ہے (کہ واقع ہونے سے پہلے لکھ دیا کیونکہ اس کو علم غیب حاصل ہے اور ہم نے یہ بات اس واسطے بتلا دی ہے) تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے (تندرستی یا اولاد یا مال) تم اس پر (اتنا) رنج نہ کرو (جو حق تعالیٰ کی مرضی کے طلب کرنے اور آخرت کے امور میں مشغول ہونے میں رکاوٹ ہوجاوے اور طبعی تکلیف کا مضائقہ نہیں) اور تاکہ جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے (اس کی نسبت بھی یہی سمجھ کر کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت و فضل سے عطا فرمانا تجویز کردیا تھا اور اسی نے ہم کو دی ہے) اس پر اتراؤ نہیں (کیونکہ اتراوے تو وہ جس کا استحقاق ذاتی ہو اور جب دوسرے کی مشیت و حکم سے ایک چیز ملی ہے، اس پر اترانے کا کیا حق ہے) اور (آگے اس اترانے پر و عید ہے کہ) اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا (اختیال کا لفظ اکثر اندرونی فضائل پر اترانے کے لئے اور فخر اکثر خارجی اشیاء مال و مرتبہ وغیرہ پر اترانے کے لئے مستعمل ہوتا ہے، آگے بخل کی مذمت ہے کہ) جو ایسے ہیں کہ (دنیا کی محبت کی وجہ سے) خود بھی (خدا کے نزدیک پسندیدہ حقوق میں صرف کرنے سے) بخل کرتے ہیں (گو اپنی خواہشات و گناہوں میں کتنا ہی اسراف کریں) اور (اس گناہ کے مرتکب بھی ہوتے ہیں کہ) دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہیں (الذین الخ سے جو ترکیب میں بدل ہے یہ مقصود نہیں کہ وعید ان افعال کے مجموعہ کے ساتھ متعلق ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ ہر بری خصلت پر وعید ہے، بلکہ اشارہ اس طرف ہے کہ دنیا کی محبت ایسی ہے جس سے اکثر بری صفات جمع ہو ہی جاتی ہے، اختیال اور افتخار بھی اور بخل بھی وغیر ذالک) اور (یہی دنیا کی محبت کبھی حق سے رو گردانی کرنے تک پہنچا دیتی ہے، جس کے حق میں یہ وعید ہے کہ) جو شخص (دین حق سے جس کی ایک فرع انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے) اعراض کرے گا تو اللہ تعالیٰ (کا کوئی نقصان نہیں، کیونکہ وہ سب کی عبادت اور اموال سے) بےنیاز ہیں (اور اپنی ذات وصفات میں کامل اور) سزاوار حمد ہیں۔- - معارف و مسائل - دنیا کی دو چیزیں انسان کو اللہ کی یاد اور آخرت کی فکر سے غافل کرنے والی ہیں، ایک راحت و عیش جس میں مبتلا ہو کر انسان اللہ کو بھلا بیٹھتا ہے اس سے بچنے کی ہدایت سابقہ آیات میں آ چکی ہے دوسری چیز مصیبت و غم ہے، اس میں مبتلا ہو کر بھی بعض اوقات انسان مایوس اور خدا تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے، آیات مذکورہ میں اس کا بیان ہے۔- (آیت) مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا، یعنی جو کوئی مصیبت تم کو زمین میں یا اپنی جانوں میں پہنچتی ہے وہ سب ہم نے کتاب یعنی لوح محفوظ میں مخلوقات کو پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھ دیا تھا، زمین کی مصیبت سے مراد قحط، زلزلہ، کھیت اور باغ میں نقصان، تجارت میں گھاٹا، مال و دولت کا ضائع ہوجانا، دوست احباب کی موت سب داخل ہیں اور اپنی جانوں کی مصیبت میں ہر طرح کے امراض اور زخم اور چوٹ وغیرہ شامل ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا۝ ٠ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۝ ٢٢ ۚ ۖ- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] ، قال :- الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل .- مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] ،- ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - يسير - واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14]- الیسیر - والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ - يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کوئی مصیبت قحط خشکی بھوک گرانی وغیرہ جو دنیا میں آتی ہے اور نہ مرض و تکالیف اور اہل و عیال کے مرنے اور مال کے ختم ہونے جیسی مصیبیں خاص تمہاری جانوں میں آتی ہیں مگر ان سب چیزوں کا ہونا لوح محفوظ میں لکھا ہے قبل اس کے کہ ہم ان جانوں اور اس زمین کو پیدا کریں اور بغیر کسی کتاب کے ان تمام باتوں کی نگہداشت اللہ تعالیٰ کے نزدیک آسان کام ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ مَـآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ نَّــبْرَاَھَا ” نہیں پڑتی کوئی پڑنے والی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری اپنی جانوں میں مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں درج ہے ‘ اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں۔ “- اَصَابَ یُصِیْبُ (آپڑنا ‘ نازل ہونا) سے اسم الفاعل ” مُصِیْب “ ہے اور اس کی مونث ” مُصِیْبَۃ “ ہے ‘ جس کے معنی ہیں نازل ہونے یا آپڑنے والی شے۔ چناچہ لغوی اعتبار سے تمام حوادث ‘ واقعات ‘ کیفیات جو ہم پر وارد ہوتی ہیں ‘ وہ سب کی سب اس میں شامل ہوجائیں گی ‘ لیکن عام طور پر یہ لفظ تکلیف دہ ‘ ناگوار اور ناپسندیدہ چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت کی رو سے مصیبتیں دو قسم کی ہیں۔ یا تو آفاتِ ارضی و سماوی یعنی آفاقی مصیبتیں ‘ جو زمین پر بڑے پیمانے پر نازل ہوتی ہیں ‘ مثلاً سیلاب ‘ زلزلے ‘ طوفانِ باد و باراں وغیرہ ‘ یا انسانوں کی اپنی جانوں پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے ‘ مثلاً کوئی بیماری یا کوئی عارضہ لاحق ہوگیا یا کوئی حادثہ پیش آگیا۔ یہاں واضح فرما دیا گیا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانوں پر اجتماعی یا انفرادی طور پر کسی بھی شکل میں کوئی مصیبت ‘ آفت یا تکلیف آتی ہے اس کے معرض وجود میں آنے سے قبل اس کی پوری تفصیل اللہ کے علم قدیم میں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔- اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ ” یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ “- انسانوں کو یہ بات بیشک عجیب یا مشکل لگے ‘ مگر اللہ کا علم مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ پر محیط ہے۔ اس کے لیے کائنات کی ایک ایک چیز کا پوری تفصیل سے احاطہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ یہ بات تم لوگوں کو بھلا کیوں بتائی جا رہی ہے ؟ اس لیے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :39 اس کو کا شارہ مصیبت کی طرف بھی ہو سکتا ہے ، زمین کی طرف بھی ، نفس کی طرف بھی ، اور فحوائے کلام کے لحاظ سے مخلوقات کی طرف بھی ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :40 کتاب سے مراد ہے نوشتہ تقدیر ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :41 یعنی اپنی مخلوقات میں سے ایک ایک کی تقدیر پہلے سے لکھ دینا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: کتاب سے مراد یہاں لوح محفوظ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک ہونے والے تمام واقعات پہلے سے لکھے ہوئے ہیں۔