Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231یہاں جس حزن اور فرح سے روکا گیا ہے وہ غم اور خوشی ہے جو انسان کو ناجائز کاموں تک پہنچا دیتی ہے ورنہ تکلیف پر رنجیدہ اور راحت پر خوش ہونا یہ ایک فطری عمل ہے لیکن مومن تکلیف پر صبر کرتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ہے جزع فزع کرنے سے کوئی اس میں تبدیلی نہیں آسکتی اور راحت پر اتراتا نہیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٠] مسئلہ تقدیر کی مصلحت :۔ تقدیر کے اس مسئلے سے تمہیں اس لیے مطلع کرنا ضروری ہے کہ تمہیں جو بھی دکھ پہنچتا ہے وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ لہذا ایسے حالات میں تمہیں صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے اور اگر نقصان ہوجائے تو اس کا غم نہ کرنا چاہئے۔ اور جب کوئی بھلائی پہنچے تو بھی تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ تمہاری اپنی حسن تدبیر یا تمہارے فعل کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ نے اسے تمہارے لئے مقدر کر رکھا تھا۔ لہذا تمہیں اس پر اترانے، پھولنے یا شیخیاں بگھارنے کے بجائے اللہ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ بعض لوگ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تقدیر کا بہانہ بناتے اور اس کا مفہوم اس مصلحت کے بالکل برعکس بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اور اپنے آپ کو تقدیر کے سامنے مجبور محض ظاہر کرکے بہانہ جوئی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی اس بہانہ جوئی کا جواب پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔- [٤١] مال کے فتنہ ہونے کے مختلف پہلو :۔ کسی دنیادار انسان کو مال و دولت مل جائے تو مال کی کثرت اس میں دو خاصیتیں پیدا کردیتی ہے۔ ایک یہ کہ اسے دولت کا نشہ چڑھ جاتا ہے، اس کا دماغ ٹھکانے نہیں رہتا اور وہ اپنے آپ کو کوئی بلند تر چیز اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور دوسری یہ کہ مال جوں جوں زیادہ ہوتا ہے تو مزید مال جمع کرنے کی ہوس اس میں اور بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ ننانوے کے چکر میں پڑجاتا ہے اور بالخصوص اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کی جان نکل جاتی ہے۔ ہاں نام و نمود کی بات ہو تو ایسے لوگ خرچ بھی کرتے ہیں اور شیخیاں بھی بگھارتے ہیں اور اپنے اس عمل کو خوب تر سمجھتے اور دوسروں کو یہی کچھ سکھاتے اور کرنے کو کہتے ہیں۔ منافقوں میں جو لوگ مالدار تھے وہ انہیں دونوں امراض میں مبتلا تھے۔ مال کے نشہ میں مست اور جہاد کے لیے خرچ کرنے کو اپنے مال کا ضیاع تصور کرتے تھے۔ انہیں بتایا جارہا ہے کہ اگر تم ان باتوں سے باز نہ آئے تو اس کا نقصان تمہیں کو ہوگا تمہارے مال خرچ کرنے سے اللہ کو تو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا اور نہ تمہارے بخل کرنے سے اس کا کچھ نقصان ہوجاتا ہے۔ البتہ تمہاری بہتری اسی بات میں ہے کہ تم ایسی باتوں سے باز آجاؤ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ ۔۔۔۔:” لا تاسوا “ ‘” اسی یا سی اسی “ ( خشیی یخشی) ( غمگین ہونا) سے نفی مضارع معلوم ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا :(فَـلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰـسِقِیْنَ ) ( المائدہ : ٢٦)” پس تو ان نافرمان لوگوں پر غم نہ کرو “۔ اور شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ہلاک ہونے پر فرمایا :(فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰـفِرِیْنَ ) ( الاعراف : ٩٣)” تو میں نہ ماننے والے لوگوں پر کیسے غم کروں “” اتکم “” اتی یاتی اتینا “ ( ض) آنا اور ” آتی یوتی ایتائ “ ( الاعراف : ٩٣) “ تو میں نے نہ ماننے والے لوگوں پر کیسے غم کروں۔ “” اتکم “ ” اتی اتیانا “ (ض) آنا اور ” آتی یوتی ایتائ “ ( افعال) دینا ۔ یعنی ہم نے تمہیں یہ بات بتادی ہے ، تا کہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے ، خواہ ملنے کے بعد چلی جائے یا مل ہی نہ سکے ، اس پر تم غم نہ کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں جو کچھ دے اس پر پھول نہ جاؤ ، کیونکہ جب تم جان لوگے کہ ہر چیز اللہ کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے تو ہاتھ سے نکلنے والی چیز پر تم زیادہ غمگین نہیں ہوگے اور ملنے والی چیز پر اتراؤ گے نہیں ، کیونکہ جسے معلوم ہو کہ جانے والی چیز نے جانا ہی تھا تو وہ اس کے جانے پر زیادہ جزع فزع نہیں کرتا ، اس لیے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو اس کے لیے تیار رکھتا ہے ۔ اس طرح جب اسے معلوم ہو کہ جو فائدہ اسے حاصل ہونا ہے وہ ہونا ہی ہونا ہے ، ممکن ہی نہیں کہ حاصل نہ ہو تو وہ اس کے حاصل ہونے پر اترائے گا نہیں ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ میری بہادری سے حاصل نہیں ہوا ۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی اللہ کی تقدیر سمجھ کر نقصان پر صبر کرے گا اور فائدے پر اپنی خوبی سمجھنے کے بجائے اللہ کا شکر کرے گا ۔- ٢۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ کسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے آدمی کو کوشش بھی کرنی چاہیے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوشش کے بعد اگر ناکامی ہو تو غم نہیں بلکہ صبر کرنا چاہیے اور کامیابی کی صورت میں فخر و غرور نہیں بلکہ شکر بجا لانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کو تقدیر پر ایمان کا فائدہ قرار دیا ہے اور اسی عقیدہ پر کار بند رہ کر زندگی میں اعتدال رہتا ہے اور آدمی افراط و تفریط سے محفوظ رہتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( المومن القوی خیر واجب الی اللہ من المومن الضعیف و فی کل خیر ، احرص علی ما ینفعک واستعن باللہ ولا تعجز و ان اصابک شی فلا تقل لو انی فعلت کان کداوکدا ولکن قل قدر اللہ وما شاء فعل فان لو تفتع عمل الشیطان) (مسلم ، القدر ، باب فی الامر بالقوۃ وترک العجز ۔۔۔۔: ٢٦٦٤، عن ابی ہریرۃ (رض) )” طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں بھلائی موجود ہے۔ جو چیز تجھے نفع دے اس کی حرص کر اور اللہ سے مدد مانگ اور عاجز نہ ہو اور اگر تجھے کوئی ( نقصان دہ) چیز پہنچے تو یہ مت کہہ کہ اگر میں اس طرح کرتا تو اس طرح اور اس طرح ہوجاتا ، بلکہ یوں کہہ کہ اللہ نے قستم میں ( اسی طرح) لکھا تھا اور جو اس نے چاہا کردیا ، کیونکہ ” لو “ ( اگر) کا لفظ شیطان کا کام کھول دیتا ہے “۔- ٣۔ یہاں ایک سال ہے کہ مصیبت پر غم اور راحت پر خوشی انسانی فطرت ہے ، پھر ہاتھ سے نکلنے والی چیز پر غم سے اور عطا ہونے والی چیز پر خوش ہونے سے کیوں منع فرمایا ، جب کہ ان پر ہمارا اختیار ہی نہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ منع اس غم سے کیا گیا ہے جو اس حد تک پہنچ جائے کہ آدمی جزع فزع اور اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرنے لگے ۔ اگر اللہ کی رضا پر راضی رہے تو غم پر کوئی مواخذہ نہیں ، بلکہ اس پر صبر کا اجر بھی ملتا ہے۔ اگر غم ہی نہ ہو تو صبر کس بات پر ہوگا ؟ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ( ان العین تدمع والقلب یحزن ، ولا نقول الا ما یرضی ربنا وانا بفراقک یا ابراہیم لمحزونون) (بخاری الجنائز ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :” انا بک لمحزونون “: ١٣٠٣)” آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہوتا ہے اور ہم اس کے سوا جو ہمارا رب پسند فرمائے کچھ نہیں کہتے اور یقینا تیری جدائی سے اے ابراہیم ہم غمزدہ ہیں ۔ “ اسی طرح منع اس خوش ہونے سے کیا گیا ہے جو آدمی کو شکر کے بجائے فخر و غرور تک پہنچا دے۔ دلیل اس کی آیت کے آخری الفاظ ” واللہ لا یحب کل محتال فخور “ ہیں ۔ ہر خوشی سے منع نہیں کیا گیا ، کیونکہ اگر خوشی ہی نہ ہو تو شکر کس بات پر کرے گا ؟۔- ٤۔ وَ اللہ ُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ :” محتال “” خ ی ل “ سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے ، جو اپنے خیال میں بڑا بننے والا ہو، متکبر۔” فخور “ ” فخر “ میں سے مبالغے کا صیغہ ہے ، جو دوسروں کے سامنے بہت فخر کرنے والا ہو ۔ تقدیر کو مد نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہر کامیابی کو اپنی بہادری اور کارکدگی سمجھنا ہے ، جس سے آدمی میں تکبر اور فخر پیدا ہوتا ہے ، حالانکہ اگر آدمی کی اپنی کارکردگی بھی ہو تو وہ ، بلکہ اس کا اپنا وجود سب اللہ تعالیٰ کی عطاء ہے اور اس نے یہ سب کچھ پہلے لکھ دیا ہے ، پھر جو شخص اس پر شکر کے بجائے تکبر و فخر کرتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ محبت کیسے کرسکتا ہے ؟- ٥۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں بیان فرمائی ہیں ، ایک ” اعلموا انما الحیوۃ الدنیا لعب ولہو۔۔۔۔ “ اور دوسری ” ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم۔۔۔۔ “ پھر فرمایا :(لکیلا ناسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما اتکم) مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کا فانی ہونا مثال دے کر اس لیے سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جو کچھ دے اس پر پھول نہ جاؤ ، بلکہ یاد رکھو یہ عارضی اور فانی ہے اور ہم نے یہ بات کہ ہر مصیبت پہلے سے لکھی ہوئی ہے ، اس لیے بتائی ہے کہ تم اس کے آنے پر زیادہ غم نہ کرو ، گویا یہ لف کثیر غیر مرتب ہے ۔ یہ تفسیر بھی پر لطف ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ ، مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ مصیبت یا راحت، خوشی یا غم انسان کو پیش آتا ہے وہ سب حق تعالیٰ نے لوح محفوظ میں انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لکھ رکھا ہے، اس کی اطلاع تمہیں اس لئے دی گئی تاکہ تم دنیا کے اچھے برے حالات پر زیادہ دھیان نہ دو ، نہ یہاں کی تکلیف و مصیبت یا نقصان و فقدان کچھ زیادہ حسرت و افسوس کرنے کی چیز ہے اور نہ یہاں کی راحت و عیش یا مال و متاع اتنا زیادہ خوش اور مست ہونے کی چیز ہے جس میں مشغول ہو کر اللہ کی یاد اور آخرت سے غافل ہوجاؤ۔- حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ ہر انسان طبعی طور پر بعض چیزوں سے خوش ہوتا ہے بعض سے غمگین، لیکن ہونا یہ چاہئے کہ جس کو کوئی مصیبت پیش آوے وہ اس پر صبر کر کے آخرت کا اجر وثواب کمائے اور جو کوئی راحت و خوشی پیش آئے وہ اس پر شکر گزار ہو کر اجر وثواب حاصل کرے (رواہ الحاکم و صححہ، از روح)- اگلی آیت میں راحت و آرام یا مال و دولت پر اترانے والے اور فخر کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی، وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِ ، یعنی اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا اترانے والے، فخر کرنے والے کو اور یہ ظاہر ہے جس کو پسند نہیں کرتا اس سے بغض و نفرت رکھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں پر اترانے اور فخر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں، مگر عنوان تعبیر میں پسند نہ کرنا ذکر کر کے شاید اس طرف اشارہ ہے کہ عقلمند عاقبت اندیش انسان کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ہر کام میں اس کی فکر کرے وہ اللہ کے نزدیک پسند ہے یا نہیں، اس لئے یہاں ناپسند ہونے کا ذکر فرمایا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِۨ۝ ٢٣ ۙ- يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ،- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔- فوت - الْفَوْتُ : بُعْدُ الشیء عن الإنسان بحیث يتعذّر إدراکه، قال : وَإِنْ فاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْواجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ [ الممتحنة 11] ، وقال : لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ [ الحدید 23] ، وَلَوْ تَرى إِذْ فَزِعُوا فَلا فَوْتَ [ سبأ 51] ، أي : لا يَفُوتُونَ ما فزعوا منه، ويقال : هو منّي فَوْتَ الرّمح «2» ، أي : حيث لا يدركه الرّمح، وجعل اللہ رزقه فَوْتَ فمه . أي :- حيث يراه ولا يصل إليه فمه، والِافْتِيَاتُ : افتعال منه، وهو أن يفعل الإنسان الشیء من دون ائتمار من حقّه أن يؤتمر فيه، والتَّفَاوُتُ : الاختلاف في الأوصاف، كأنه يُفَوِّتُ وصف أحدهما الآخر، أو وصف کلّ واحد منهما الآخر . قال تعالی: ما تَرى فِي خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفاوُتٍ [ الملک 3] ، أي : ليس فيها ما يخرج عن مقتضی الحکمة .- ( ف و ت ) الفوت ( ن ) ہاتھ سے نکل جانا کسی چیز کا انسان سے اتنا دور ہوجانا کہ اس کا حاصل کرلیناز اس کے لئے دشوارہو ۔ چناچہ فرمایا ؛ وَإِنْ فاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْواجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ [ الممتحنة 11] اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ [ الحدید 23] ناکہ جو مطلب تم سے فوت ہوگیا ہے ۔ اس کا غم نہ کھایا کرو ۔ وَلَوْ تَرى إِذْ فَزِعُوا فَلا فَوْتَ [ سبأ 51] اور کاش تم دیکھو جب یہ گبھرا جائیں گے تو عذاب سے ) بچ نہیں سکیں گے ۔ یعنی جس عذاب سے وہ گھبرائیں گے اس سے بچ نہیں سکیں گے ۔ محاورہ ہے : ۔ ھومنی فوت الرمح وہ میرے نیزے کی دسترس سے باہر ہے ۔ جعل اللہ رزقہ فوت فمہ ( اللہ اس کا رزق اس کی سترس سے باہر کردے یعنی رزق سامنے نظر آئے لیکن منہ تک نہ پہنچ سکے ( بددعا ) اسی سے افتیات ( افتعال ) ہے اور اس کے معنی کسی ایسے شخص سے مشورہ کے بغیر کوئی کام کرنے کے ہیں جس سے مشورہ ضروری ہو ۔ التفاوت ( تفاعل ) کے معنی دو چیزوں کے اوصاف مختلف ہونے کے ہیں گویا ایک کا وصف دوسری کا یا ہر ایک کا وصف دوسری کو فوت کررہا ہے قرآن میں : ۔ ما تَرى فِي خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفاوُتٍ [ الملک 3] کیا تو ( خدا ) رحمٰن کی آفرینش میں کچھ نقص دکھتا ہے یعنی اس میں کوئی بات بھی حکمت کے خلاف نہیں ہے ۔- فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : أتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - مختال - مضاف الیہ اسم فاعل واحد مذکر اختیال ( افتعال) مصدر سے خیل مادہ۔ ناز سے چلنے والا۔ اترانے والا۔ مغرور۔ متکبر۔- فخر - الفَخْرُ : المباهاة في الأشياء الخارجة عن الإنسان کالمال والجاه، ويقال : له الفَخَرُ ، ورجل فَاخِرٌ ، وفُخُورٌ ، وفَخِيرٌ ، علی التّكثير . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان 18] ، ويقال : فَخَرْتُ فلانا علی صاحبه أَفْخَرُهُ فَخْراً : حکمت له بفضل عليه، ويعبّر عن کلّ نفیس بِالْفَاخِرِ. يقال : ثوب فَاخِرٌ ، وناقة فَخُورٌ: عظیمة الضّرع، كثيرة الدّر، والفَخَّارُ :- الجرار، وذلک لصوته إذا نقر كأنما تصوّر بصورة من يكثر التَّفَاخُرَ. قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] .- ( ف خ ر ) الفخر ( ن ) کے معنی ان چیزوں پر اترانے کے ہیں جو انسان کے ذاتی جوہر سے خارج ہوں مثلا مال وجاہ وغیرہ اور اسے فحر ( بفتح الخا ) بھی کہتے ہیں اوت فخر کرنے والے کو فاخر کہا جاتا ہے اور فخور وفخیر صیغہ مبالغہ ہیں یعنی بہت زیادہ اترانے والا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ [ لقمان 18] کہ خدا کسی اترانے والے کو خود پسند کو پسند نہیں کرتا ۔ فخرت فلان علٰی صاحبہ افخرہ فخرا ایک یکو دوسرے پر فضیلت دینا اور ہر نفیس چیز کو فاخر کہا جاتا ہے چوب فاخر قیمتی کپڑا اور جس اونٹنی کے تھن تو بڑے بڑے ہوں مگر دودھ بہت کم دے اسے فخور کہتے ہیں ۔ الفخار منکوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹھوکا لگانے سے اس طرح زور سے بولتے ہیں جیسے کوئی کوئی بہت زیادہ فخر کررہا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن 14] ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣۔ ٢٤) مگر پھر بھی اس نے لوح محفوظ میں ان تمام چیزوں کو درج کردیا ہے تاکہ رزق و عافیت میں سے جو چیز تم سے جاتی رہے تم اس پر اتنا غم نہ کرو اور کہو کہ ہمارے بارے میں یہ چیز نہیں لکھی ہے اور تاکہ جو چیز تمہیں عطا کی ہے اس پر اتراؤ نہیں کہ کہنے لگو کہ اس نے ہمیں دی ہے۔- اور اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے اور نعمت خداوندی پر شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتا یا یہ کہ کفر میں اترانے والے اور شرک میں شیخی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا اور یہ یہودی لوگ ہیں کہ رسول اکرم کی نعت و صفت جو توریت میں موجود ہے اسے چھپاتے ہیں اور یہ حرکت کر کے دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیتے ہیں۔- باقی جو ایمان سے منہ موڑ لے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان سے بےنیاز ہے اور موحدین کے لیے سزاوار حمد ہے یا یہ کہ اپنے افعال میں سزا وار حمد ہیں کہ قلیل چیز کو قبول فرما کر اجر جزیل عطا فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ ” تاکہ تم افسوس نہ کیا کرو اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے “- کوئی اچھا موقع ہاتھ سے نکل جانے پر انسان رہ رہ کر افسوس کرتا اور پچھتاتا ہے کہ اگر میں اس وقت یوں کرلیتا تو میرا یہ کام ہوجاتا ‘ اگر فلاں شخص فلاں وقت فلاں رکاوٹ کھڑی نہ کردیتا تو میں فلاں نقصان سے بچ جاتا وغیرہ وغیرہ۔ ایسے پچھتاوے بعض اوقات زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر اللہ اور اس کے فیصلوں پر انسان کا ایمان مضبوط ہو تو وہ اپنے بڑے سے بڑے نقصان کو بھی یہ کہہ کر بھلا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو میرے حق میں ایسا ہی منظور تھا اور اس چیز کے میرے ہاتھ سے نکل جانے میں ہی خیر تھی ‘ کیونکہ میرے لیے کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے اس کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ سورة البقرۃ کی یہ آیت اس بارے میں بہت واضح ہے :- وَعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّــکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّــکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ۔ - ” اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو ‘ اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے ‘ تم نہیں جانتے۔ “ - وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَا اٰتٰٹـکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ ۔ ” اور اس پر اترایا نہ کرو جو وہ تمہیں دے دے ‘ اور اللہ کو بالکل پسند نہیں ہیں اترانے والے اور فخر کرنے والے۔ “- ایسی کسی صورت میں انسان کے لیے اترانے کا جواز اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے جو کچھ بھی دیا جاتا ہے دراصل اس کی آزمائش کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اس حقیقت کو کسی وقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس دنیا میں ہمیں جو نعمت ‘ صلاحیت یا دولت ملتی ہے اس کے لیے ہمیں جواب دہ ہونا ہے ۔ چناچہ جس انسان کے پاس دنیوی نعمتوں کی جس قدر بہتات ہوگی جوابدہی کے حوالے سے اس کی ذمہ داری بھی اسی حد تک بڑھ جائے گی۔ اکائونٹس کی زبان میں ایسی ذمہ داری کو کہا جاتا ہے۔ جب کسی محکمے یا ادارے کی تیار ہوتی ہے تو اس ادارے کو ملنے والا سرمایہ کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے۔ کھاتے میں کا اندراج ہوجانے کے بعد اس کی ایک ایک پائی کا حساب دینا اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انسان کو دنیا میں جو کچھ دیتا ہے وہ اس کے ذمہ ہے۔ کل قیامت کے دن اس میں سے ہرچیز کا آڈٹ ہونا ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ بندے سے پوچھے گا کہ تمہیں جو مال دیا گیا تھا بتائو اس کا تم نے کیا کیا ؟ میری طرف سے دی گئی قوت ‘ ذہانت اور دوسری صلاحیتوں کو کہاں کہاں صرف کیا ؟ دنیا بنانے میں کھپایا یا آخرت کمانے میں لگایا ؟ اس احتساب یا آڈٹ کا تصور کر کے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کھاتے کی فکر کرنی چاہیے ۔ جیسے آج ہمارے بہت سے لوگ ورلڈ بینک ‘ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی سطح کے دوسرے اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور لاکھوں ڈالر تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یقینا یہ بہت بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے ‘ لیکن ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کی چاکری کر رہے ہیں ؟ اور کس کی رتھ میں گھوڑے بن کر جتے ہوئے ہیں ؟ ظاہر ہے وہ باطل نظام کی خدمت کر رہے ہیں اور اسی نظام سے اپنی خدمت کا معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آخرت کے آڈٹ کے وقت وہ اپنی کو کیسے کریں گے۔ - چناچہ انسان کو مال و دولت اور دوسری نعمتوں پر اترانے کے بجائے ان کے حساب کتاب کی فکر کرنی چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ چیزیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر دی گئی ہیں۔ اگر وہ اس آزمائش میں ناکام ہوگیا تو یہی نعمتیں آخرت میں اس کے گلے کا طوق بن جائیں گی۔ اس حوالے سے امام احمد بن حنبل - کا ایک واقعہ بہت عبرت انگیز ہے۔ آپ (رح) کو خلیفہ وقت کی طرف سے ” خلق ِقرآن “ کے مسئلے پر جیل میں ڈالا گیا۔ خلیفہ آپ (رح) سے اپنی مرضی کا فتویٰ حاصل کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے خلیفہ کے حکم پر جیل میں آپ (رح) پر بےپناہ تشدد ہوا۔ روایات میں آتا ہے کہ جس انداز میں آپ (رح) کو پیٹا جاتا تھا ایسی مار کسی ہاتھی کو پڑتی تو وہ بھی بلبلا اٹھتا ‘ مگر اس بےرحم تشدد کو آپ (رح) نے ایسے حوصلے اور صبر سے برداشت کیا کہ کبھی آنکھوں میں آنسو تک نہ آئے۔ مگر جب نئے خلیفہ کے دور میں آپ (رح) کو جیل سے رہا کیا گیا اور خلیفہ کے ایلچی آپ (رح) کی خدمت میں اشرفیوں کے تھیلے لے کر حاضر ہوئے تو ان تھیلوں کو دیکھ کر آپ (رح) رو پڑے۔ آپ (رح) نے روتے ہوئے اللہ کے حضور عرض کی کہ اے اللہ ‘ یہ آزمائش بہت سخت ہے میں اس سے عہدہ برآ ہونے کے قابل نہیں ہوں ‘ مجھے اس امتحان میں مت ڈال اس حوالے سے دوسری انتہا پر برصغیر کے قوم فروشوں کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر میں انگریزوں نے بڑی بڑی جاگیروں ‘ عہدوں اور خطابات کے ذریعے یہاں کے لوگوں کو خریدا اور حکمرانوں کے ہاتھوں بکنے کے بعد وہ لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے اپنے آقائوں کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ بہرحال یہ ہر انسان کا اپنا فیصلہ ہے کہ اس کی ترجیح دنیا ہے یا آخرت ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :42 اس سلسلہ بیان میں یہ بات جس غرض کے لیے فرمائی گئی ہے اسے سمجھنے کے لیے ان حالات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے جو اس سورت کے نزول کے وقت اہل ایمان کو پیش آ رہے تھے ۔ ہر وقت دشمنوں کے حملے کا خطرہ ، پے در پے لڑائیاں دائماً محاصرہ کی سی کیفیت ، کفار کے معاشی مقاطعہ کی وجہ سے سخت بد حالی ، عرب کے گوشے گوشے میں ایمان لانے والوں پر کفار کا ظلم و ستم ، یہ کیفیات تھیں جن سے مسلمان اس وقت گزر رہے تھے ۔ کفار ان کو مسلمانوں کے مخذول اور راندۂ درگاہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے ۔ منافقین انہیں اپنے شکوک و شبہات کی تائید میں استعمال کرتے تھے ۔ اور مخلص اہل ایمان اگرچہ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کر رہے تھے ، مگر بعض اوقات مصائب کا ہجوم ان کے لیے بھی انتہائی صبر آزما ہو جاتا تھا ۔ اس پر مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر کوئی مصیبت بھی معاذاللہ تمہارے رب کی بے خبری میں نازل نہیں ہو گئی ہے ۔ جو کچھ پیش آ رہا ہے ، یہ سب اللہ کی طے شدہ اسکیم کے مطابق ہے جو پہلے سے اس کے دفتر میں لکھی ہوئی موجود ہے ۔ اور ان حالات سے تمہیں اس لیے گزارا جا رہا ہے کہ تمہاری تربیت پیش نظر ہے ۔ جو کار عظیم اللہ تعالیٰ تم سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تربیت ضروری ہے ۔ اس سے گزارے بغیر تمہیں کامیابی کی منزل پر پہنچا دیا جائے تو تمہاری سیرت میں وہ خامیاں باقی رہ جائیں گی جن کی بدولت نہ تم عظمت و اقتدار کی ثقیل خوراک ہضم کر سکو گے اور نہ باطل کی طوفان خیز موجوں کے تھپیڑے سہہ سکو گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: جس شخص کا اس بات پر ایمان ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اسی تقدیر کے مطابق ہورہا ہے، جو لوح محفوظ میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے، اسے کسی ناگوار واقعے پر اتنا صدمہ نہیں ہوتا جو اسے دائمی پریشانی اور حسرت میں مبتلا رکھے ؛ بلکہ یہ چیز اس کی تسلی کا باعث ہوتی ہے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا تھا وہی ہوا، اور یہ کہ اس دنیا کی تکلیفیں آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اس طرح اگر کوئی خوشی کا واقعہ پیش آتا ہے تو انسان اس پر اتراکر تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور تقدیر کے مطابق ہے، اور اس پرانسان کو اترانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئیے۔