Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] یعنی کائنات کی ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی ہے۔ ہر چیز سے وہ جو کام چاہتا ہے لے رہا ہے۔ اور جب چاہے گا اس نظام کو درہم برہم کرکے ایک دوسرا عالم قائم کردے گا۔ تم اس کی قلمرو سے بھاگ کر نہ اب کہیں جاسکتے ہو نہ آخرت کے دن کہیں جاسکو گے اور تمہارے اعمال کا ریکارڈ پہلے ہی اس کے پاس موجود ہے۔ اور ہر معاملہ کا اور ہر کام کا انجام بھی اسی کی طرف ہے اور فیصلہ بھی وہیں سے صادر ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج : یہ جملہ آیت (٢) میں گزرا ہے ، دوبارہ تاکید کے لیے لایا گیا ہے۔- ٢۔ وَاِلَی اللہ ِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ :” الی اللہ “ پہلے لانے کا مطلب یہ ہے کہ تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹائے جانے ہیں، کسی اور کی طرف نہیں ، لہٰذا وہی تمام اعمال کا فیصلہ فرمائے گا اور ان کی جزاء یا سزا دے گا ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝ ٥- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اسی کے قبضہ قدرت میں آسمانوں اور زمین کے خزانے ہیں اور آخرت میں تمام کاموں کا انجام اسی کے سامنے لوٹ جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ “- اللہ تعالیٰ کی ” بادشاہی “ کے بارے میں تکرار و تاکید کا خصوصی اسلوب ملاحظہ ہو۔ آیت ٢ کے ہوبہو الفاظ یہاں پھر دہرائے گئے ہیں۔- اس مضمون کے حوالے سے یہ نکتہ بھی سمجھنے کا ہے کہ جس طرح اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں اسی طرح اس کے علاوہ کوئی اور حاکم و مقتدر بھی نہیں۔ چناچہ جس طرح اللہ کو اکیلے معبود کے طور پر ماننا ضروری ہے ‘ اسی طرح توحید کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ کی زمین پر صرف اسی کی بادشاہی قائم ہو اور اس کے تمام احکام عملاً نافذ ہوں۔- وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۔ ” اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani