Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہر چیز کا خالق و مالک اللہ ہے اللہ تعالیٰ کا زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کرنا اور عرش پر قرار پکڑنا سورہ اعراف کی تفسیر میں پوری طرح بیان ہو چکا ہے اس لئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، اسے بخوبی علم ہے کہ کس قدر بارش کی بوندیں زمین میں گئیں ، کتنے دانے زمین میں پڑے اور کیا چارہ پیدا ہوا کس قدر کھیتیاں ہوئیں اور کتنے پھل کھلے ، جیسے اور آیت میں ہے ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ 59؀ ) 6- الانعام:59 ) ، غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں سوائے اس کے اور کوئی جانتا ہی نہیں وہ خشکی اور تری کی تمام چیزوں کا عالم ہے کسی پتے کا گرنا بھی اس کے علم سے باہر نہیں ، زمین کے اندھیروں میں پوشیدہ دانہ اور کوئی ترو خشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں موجود نہ ہو ، اسی طرح آسمان سے نازل ہونے والی بارش ، اولے ، برف ، تقدیر اور احکام جو برتر فرشتوں کے بذریعہ نازل ہوتے ہیں ، سب اس کے علم میں ہیں ، سورہ بقرہ کی تفسیر میں یہ گذر چکا ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ فرشتے بارش کے ایک ایک قطرے کو اللہ کی بتائی ہوئی جگہ پہنچا دیتے ہیں ، آسمان سے اترنے والے فرشتے اور اعمال بھی اس کے وسیع علم میں ہیں ، جیسے صحیح حدیث میں ہے رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اس کی جناب میں پیش کر دیئے جاتے ہیں ، وہ تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارا نگہبان ہے ۔ تمہارے اعمال و افعال کو دیکھ رہا ہے جیسے بھی ہوں جو بھی ہوں اور تم بھی خواہ خشکی میں ہو خواہ تری میں ، راتیں ہوں یا دن ہوں ، تم گھر میں ہو یا جنگل میں ، ہر حالت میں اس کے علم کے لئے یکساں ہر وقت اس کی نگاہیں اور اس کا سننا تمہارے ساتھ ہے ۔ وہ تمہارے تمام کلمات سنتا رہتا ہے تمہارا حال دیکھتا رہتا ہے ، تمہارے چھپے کھلے کا اسے علم ہے ۔ جیسے فرمایا ہے کہ اس سے جو چھپنا چاہے اس کا وہ فعل فضول ہے بھلا ظاہر باطن بلکہ دلوں کے ارادے تک سے واقفیت رکھنے والے سے کوئی کیسے چھپ سکتا ہے؟ ایک اور آیت میں ہے پوشیدہ باتیں ظاہر باتیں راتوں کو دن کو جو بھی ہوں سب اس پر روشن ہیں ۔ یہ سچ ہے وہی رب ہے وہی معبود برحق ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جبرائیل کے سوال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے ۔ پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے ۔ ایک شخص آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا حکمت کا توشہ دیجئے کہ میری زندگی سنور جائے ، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا لحاظ کر اور اس سے اس طرح شرما جیسے کہ تو اپنے کسی نزدیکی نیم قرابتدار سے شرماتا ہو جو تجھ سے کبھی جدا نہ ہوتا ہو ، یہ حدیث ابو بکر اسماعیلی نے روایت کی ہے سند غریب ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے تین کام کر لئے اس نے ایمان کا مزہ اٹھا لیا ۔ ایک اللہ کی عبادت کی اور اپنے مال کی زکوٰۃ ہنسی خوشی راضی رضامندی سے ادا کی ۔ جانور اگر زکوٰۃ میں دینے ہیں تو بوڑھے بیکار دبلے پتلے اور بیمار نہ دے بلکہ درمیانہ راہ اللہ میں دیا اور اپنے نفس کو پاک کیا ۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نفس کو پاک کرنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا اس بات کو دل میں محسوس کرے اور یقین و عقیدہ رکھے کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے ۔ ( ابو نعیم ) اور حدیث میں ہے افضل ایمان یہ ہے کہ تو جان رکھے کہ تو جہاں کہیں ہے اللہ تیرے ساتھ ہے ( نعیم بن حماد ) حضرت امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے رہتے تھے ۔ اذا ما خلوت الدھر یوما فلا تقل خلوت ولکن قل علی رقیب ولا تحسبن اللہ یغفل ساعتہ ولا ان ما یخفی علیہ یغیب جب تو بالکل تنہائی اور خلوت میں ہو اس وقت بھی یہ نہ کہہ کہ میں اکیلا ہی ہوں ۔ بلکہ کہتا رہ کہ تجھ پر ایک نگہبان ہے یعنی اللہ تعالیٰ ۔ کسی ساعت اللہ تعالیٰ کو بےخبر نہ سمجھ اور مخفی سے مخفی کام کو اس پر مخفی نہ مان ۔ پھر فرماتا ہے کہ دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَةَ وَالْاُوْلٰى 13 ؀ ) 92- الليل:13 ) دنیا آخرت کی ملکیت ہماری ہی ہے ۔ اس کی تعریف اس بادشاہت پر بھی کرنی ہمارا فرض ہے ۔ فرماتا ہے آیت ( وَهُوَ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَةِ ۡ وَلَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 70؀ ) 28- القصص:70 ) وہی معبود برحق ہے اور وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایک اور آیت میں ہے اللہ کے لئے تمام تعریفیں ہیں جس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں اور اسی کی حمد ہے آخرت میں اور وہ دانا خبردار ہے ۔ پس ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے اس کی بادشاہت میں ہے ۔ ساری آسمان و زمین کی مخلوق اس کی غلام اور اس کی خدمت گذار اور اس کے سامنے پست ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا 93؀ۭ ) 19-مريم:93 ) ، آسمان و زمین کی کل مخلوق رحمن کے سامنے غلامی کی حیثیت میں پیش ہونے والی ہے ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو ایک ایک کر کے گن رکھا ہے ، اسی کی طرف تمام امور لوٹائے جاتے ہیں ، اپنی مخلوق میں جو چاہے حکم دیتا ہے ، وہ عدل ہے ظلم نہیں کرتا ، بلکہ ایک نیکی کو دس گنا بڑھا کر دیتا ہے اور پھر اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے ، ارشاد ہے آیت ( وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا ۭ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ 47؀ ) 21- الأنبياء:47 ) ، قیامت کے روز ہم عدل کی ترازو رکھیں گے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا رائی کے برابر کا عمل بھی ہم سامنے لا رکھیں گے اور ہم حساب کرنے اور لینے میں کافی ہیں ۔ پھر فرمایا خلق میں تصرف بھی اسی کا چلتا ہے دن رات کی گردش بھی اسی کے ہاتھ ہے اپنی حکمت سے گھٹاتا بڑھاتا ہے کبھی دن لمبے کبھی راتیں اور کبھی دونوں یکساں ، کبھی جاڑا ، کبھی گرمی ، کبھی بارش ، کبھی بہار ، کبھی خزاں اور یہ سب بندوں کی خیر خواہی اور ان کی مصلحت کے لحاظ سے ہے ۔ وہ دلوں کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں اور دور کے پوشیدہ رازوں سے بھی واقف ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41اس مفہوم کی آیات ( اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54؀) 7 ۔ الاعراف :54) ، (اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭمَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۝) 10 ۔ یونس :3) ، (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ ۭ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا شَفِيْعٍ ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ ۝) 32 ۔ السجدہ :4) وغیرھا من الآیات میں گزر چکی ہیں، ان کے حواشی ملاحظہ فرمالیے جائیں۔ 42یعنی زمین میں بارش کے جو قطرے اور غلہ جات و میوہ جات کے جو بیج داخل ہوتے ہیں کی کیفیت کو وہ جانتا ہے۔ 3 جو درخت، چاہے وہ پھلوں کے ہوں یا غلوں کے یا زینت اور آرائش کے اور خوشبو والے پھولوں یہ جتنے بھی اور جیسے بھی باہر نکلتے ہیں۔ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسکو بھی جانتا ہے، اور کوئی دانہ کوئی زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔ 4 بارش، اولے، برف تقدیر اور وہ احکام، جو فرشتے لے کر اترتے ہیں۔ 5 فرشتے انسانوں کے جو عمل لے کر چڑھتے ہیں جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی طرف رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے چڑھتے ہیں۔ 6 یعنی تم خشکی میں ہو یا تری میں، رات ہو یا دن، گھروں میں ہو یا صحراؤں میں، ہر جگہ ہر وقت وہ اپنے علم وبصر کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارے ایک ایک عمل کو دیکھتا ہے، تمہاری ایک ایک بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ یہی مضمون (وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ ۭ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ ۝) 11 ۔ ہود :3) ۔ (سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ 10۝) 13 ۔ الرعد :10) اور دیگر آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] (اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ 54؀) 7 ۔ الاعراف :54) کی تشریح کے لیے دیکھئے سورة اعراف کی آیت نمبر ٥٤ کا حاشیہ نمبر ٥٤ اور زمین و آسمان کی چھ دن میں پیدائش کے لیے دیکھئے سورة ہود کی آیت ٧ کا حاشیہ نمبر ١١- [٦] زمین میں داخل ہونے والی اشیاء میں سب سے اہم بارش کا پانی اور ہر قسم کی نباتات، غلوں اور درختوں کے بیج ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک ایک دانہ اور ایک ایک بیج کے متعلق واقف ہے کہ وہ کہاں ڈالا گیا اور اسے کتنے عرصے کے بعد زمین سے باہر نکالنا ہے۔ علاوہ ازیں وہ ان مردہ اجسام کو بھی جانتا ہے جو زمین میں دفن کیے جاتے ہیں اور زمین سے نکلنے والی اشیاء میں سے بھی سب سے اہم اشیاء غلے اور میوہ دار درخت ہیں۔ جن پر تمام جاندار مخلوق کی زندگی کی بقا کا انحصار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس وقت کتنی روزی کھانے والی مخلوق روئے زمین پر بس رہی ہے اور اس کے لیے کس کس قسم کا اور کتنی مقدار میں رزق درکار ہے۔ علاوہ ازیں زمین سے نکلنے والی اشیاء میں مختلف معدنیات، مدفون خزانے، تیل اور پٹرول وغیرہ کے چشمے، پانی کے چشمے اور بہنے والی گیسیں سب چیزیں شامل ہیں۔ زمین پر اترنے والی اشیاء میں بارش، ملائکہ اور وحی الٰہی ہیں نیز شیاطین بھی جو اپنے ساتھیوں پر اترتے ہیں اور چڑھنے والی اشیاء میں آبی بخارات، ملائکہ، مردوں کی ارواح اور لوگوں کے اعمال شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمام روئے زمین پر جس جس قسم کے بھی حوادث واقع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے معمولی سے معمولی حالات تک سے واقف ہے۔- [٧] اللہ کی معیت کیسے ؟ یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ ہمہ گیر نگرانی صرف روئے زمین سے متعلق نہیں۔ بلکہ تم میں سے ہر فرد کے ساتھ وہ ہمہ وقت موجود ہوتا ہے اور تمہاری تمام حرکات و سکنات اوراقوال و افعال اس کے علم میں ہوتی ہیں۔ تم نہ خود اللہ سے چھپ سکتے ہو اور نہ ہی اپنے افعال اور حرکات و سکنات کو اس سے چھپا سکتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہ معیت اس کی ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس کی قدرت اور اس کے علم کے لحاظ سے ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ اعراف (٥٤) کی تفسیر۔- ٢۔ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ط : اس کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ اعراف (٥٤) اور سورة ٔ طہٰ (٥) کی تفسیر ۔ اس آیت میں مذکور تمام جملے لانے کا مقصد بھی یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ اللہ واحد نے کیا ہے تو پھر اس پر ایمان کیوں نہیں لاتے اور اس کے ساتھ شریک کیوں ٹھہراتے ہو، جیسا کہ یہ بات آگے آیت (٧) ” امنوا باللہ “ میں صراحت کے ساتھ آرہی ہے۔- ٣۔ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا ۔۔۔۔: اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے تعلق رکھنے والی چیزوں میں ان چیزوں کے بجائے جو زمین پر موجود ہیں ان چیزوں کا ذکر فرمایا جو اس میں داخل ہوتی ہیں یا اس سے نکلتی ہیں ۔ اسی طرح آسمان میں موجود چیزوں کے ذکر کے بجائے ان کا ذکر فرمایا جو اس سے اترتی ہیں یا اس کی طرف چڑھتی ہیں ، کیونکہ جو زمین میں داخل ہونے والی اور اس سے نکلنے والی چیزوں کو جانتا ہے وہ اس کے اوپر موجود چیزوں کو بالاولیٰ جانتا ہے اور جو آسمان سے اترنے والی اور اس میں چڑھنے والی چیزوں کو جانتا ہے وہ فضاء اور خلاء میں موجود نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی چیزوں کو اور ستاروں کی گردش اور ان کے نظام کو بالا ولیٰ جانتا ہے۔- زمین میں داخل ہونے والی چیزوں میں سے بارش کا پانی ہے جو زمین کی گہرائیوں میں داخل ہوتا ہے ، نباتات کے بیج ہیں اور زمین میں دفن ہونے والے اجسام وغیرہ ہیں اور اس سے نکلنے والی چیزوں میں سے نباتات ، معدنیات ، گیسیں اور وہ جانور ہیں جو اپنے غاروں اور ٹھکانوں سے نکلتے ہیں ۔ آسمان سے اترنے والی چیزوں میں سے بارش ، برف ، ہوائیں ، اللہ تعالیٰ کے احکام ، اس کے فرشتے اور اس کی رحمت وغیرہ ہیں اور اس میں چڑھنے والی چیزوں میں سے وہ چیزیں ہیں جو فضاء کے طبقات میں بلند ہوتی ہیں ۔ مثلاً سمندر وغیرہ سے اٹھنے والے آبی بخارات ، مٹی اور ریت وغیرہ کی آندھیاں اور بگولے ، فضاء میں اڑنے والے پرندے ، جسموں سے جدا ہو کر اوپر جانے والی ارواح اور عالم بالا سے معلومات چرانے کے لیے اوپر جانے والے شیاطین ، بندوں کے اعمال اور فرشتے جو اترتے اور چڑھتے ہیں۔ ( التحریر والتنویر فی سورة سبا)- ٤۔ وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط :” اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو “ اس جملے سے پہلے اسی آیات میں یہ جملہ گزر چکا ہے :(ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ط )” وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ، پھر وہ عرش پر بلند ہوا “۔ تو یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک عرش پر ہے اور وہ ہمارے ساتھ بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں بیک وقت کیسے درست ہوسکتی ہیں ؟ اس معاملے میں بعض لوگوں نے ان دونوں کا انکار کردیا اور یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نہ عرش پر ہے اور نہ کسی اور جگہ ، بلکہ وہ لا مکان ہے اور جو شخص یہ پوچھ بھی لے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے وہ کافر ہوگیا ، کیونکہ اس کے لیے مکان ( جگہ) تسلیم کرنے سے اس کا اس جگہ کا محتاج ہونا لازم آتا ہے۔ ان نادانوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کا فتویٰ کس کس پر لگ رہا ہے اور نہ یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں : (ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ط) کہ پھر وہ عرش پر بلند ہوا ۔ قیامت کے دن آٹھ فرشتوں کے عرش ِ الٰہی کو اٹھائے ہونے کا ذکر سورة ٔ حاقہ میں موجود ہے ، فرمایا :(وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ) ( الحاقہ : ١٧) ” اور تیرے رب کا عرش اس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے “۔ اور قیامت کے دن فرشتوں کے عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہونے کا ذکر سورة ٔ زمر میں موجود ہے ، فرمایا :(وَ تَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ ) ( الزمر : ٧٥)” اور فرشتوں کو دیکھے گا عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے “۔ اور یہ سوال کرنا کہ اللہ کہاں ہے ، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے ، چناچہ معاویہ بن حکم السلمی (رض) بیان کرتے ہیں : ” میری ایک لونڈی احد اور جوانیہ کی طرف میری بکریاں چراتی تھی، ایک دن میں نے دیکھا تو بھیڑیا اس کی بکریوں سے ایک بکری لے جا چکا تھا ، میں بھی بنی آدم سے ہوں ، مجھے اسی طرح غصہ آجاتا ہے جیسے انہیں غصہ آتا ہے ، تو میں اسے ایک تھپڑ مار دیا ۔ پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ نے اسے مجھ پر بہت بڑا ( گناہ) قرار دیا ، میں نے کہا : ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(التنی بھا) ” اسے میرے پاس لاؤ “۔ میں اسے لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہا :( ابن اللہ ؟ ) ” اللہ کہاں ہے ؟ “ اس نے کہا :( فی السمائ) ” آسمان میں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( من انا ؟ ) ” میں کون ہوں ؟ “ اس نے کہا ( انت رسول اللہ ) ” آپ اللہ کے رسول ہیں “۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( اعتقھا فانھا مومنۃ) ” اسے آزاد کر دو ، کیونکہ یہ مومنہ ہے “۔ ( مسلم ، المساجد و مواضع الصلاۃ ، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ ۔۔۔۔۔ ٥٣٧)- خلاصہ یہ ہے کہ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ لامکان ہے ، قرآن و حدیث کا صریح انکار ہے اور یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک عرش پر ہے اور وہ ہمارے ساتھ بھی ہے ، مگر اس طرح سے جسے وہی جانتا ہے اور جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے عرش پر مستوی ہونے کے انکار کی ایک انتہاء یہ تھی کہ وہ کسی جگہ بھی نہیں ، جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہستی ہی کا انکار ہے۔ دوسری انتہاء ان لوگوں نے اختیار کی جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے اور ہم جہاں بھی ہوں وہ ہمارے ساتھ اس طرح ہے جس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ، مگر یہ بات بھی غلط ہے ، کیونکہ اسی آیت میں ” وھو معکم این ماکنتم “ ( اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو) اسے پہلے ” ثم استوی علی العرش “ میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر بھی موجود ہے ۔ اب اگر ” وھو معکم این ما کنتم “ کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ اس طرح ہمارے ساتھ ہے جس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں تو ایک ہی آیت کے دو جملے ایک دوسرے سے ٹکراتے اور متعارض ٹھہراتے ہیں ، اس لیے ” وھو معکم این ما کنتم “ کا وہی مطلب درست ہوگا جو ” الرحمن علی العرش استوی “ پر ایمان لازم ہے اسی طرح ” وھو معکم “ پر ایمان بھی لازم ہے۔- حقیقت یہ ہے کہ کلام عرب میں معیت ( ساتھ ہونے) کا معنی اگرچہ اس طرح ساتھ ہونا بھی ہے جس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ، مگر یہ لفظ مختلف مواقع کے لحاظ سے اس کے علاوہ معانی کے لیے بھی آتا ہے ، چناچہ معیت کا ایک معنی وہ ہے جو سورة ٔ بقرہ کی آیت (١٥٣) (ان اللہ مع الصبرین) ( بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) اور سورة ٔ توبہ کی آیت (٤٠) ( لا تجزن ان اللہ معنا) (غم نہ کر ، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے) میں ہے۔ ظاہ رہے ان آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بےصبروں کے ساتھ نہیں ، اسی طرح وہ ہجرت کے وقت غار ثور میں اور سارے سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے ساتھ تھا ، مشرکین کے ساتھ نہیں ۔” وھو معکم این مان “ میں یہ معنی بھی مراد نہیں ، کیونکہ اس معنی میں معیت صرف اللہ کے مخلص بندوں کا نصیب ہے۔- معیت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ایک چیز دور ہونے کے باوجود ان چیزوں کے ساتھ بھی ہو جن سے وہ دور ہے ، چناچہ ” وھو معکم “ میں معیت سے یہی معنی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر ہے ، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بھی ہے ۔ رہی یہ بات کہ کس طرح ہے ؟ تو اس کی اصل اور پوری کیفیت وہی جانتا ہے۔ اگر مخلوق میں ایسا ہونا ممکن نہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے :(لیس کمثلہ شئی) (الشوریٰ : ١١)” اس کی مثل کوئی چیز نہیں “ ۔ مگر مخلوق میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک چیز کسی ایک جگہ ہونے کے باوجود دوسری جگہ موجود لوگوں کے ساتھ ہو ۔ اس کی ادنیٰ سی مثال سورج اور چاند ہیں کہ بلندی پر ہونے کے باوجد ہم جہاں جاتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ، حالانکہ وہ زمین پر ہمارے اندر موجود نہیں ہوتے ، مگر سب کہتے ہیں کہ رات میں سفر کرتا رہا اور چاند سارے سفر میں میرے ساتھ رہا ۔ معیت کا یہ معنی معروف ہے اور اپنے مقام پر حقیقی معنی ہے۔ جب سورج اور چاند کا یہ معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفت تو ان کی صفت سے کہیں بلند ہے ، چناچہ وہ عرش پر ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ہے ، خواہ ہم کہیں بھی ہوں ، اگرچہ اپنی صفت ” الباطن “ کی وجہ سے اور حجاب میں ہونے کی وجہ سے ہمیں نظر نہیں آتا۔ قیامت کے دن جب وہ اہل جنت کو اپنے دیدار کی نعمت سے سرفراز فرمانے کا ارادہ کرے گا اور اپنا حجاب کھولے گا تو تمام جنتی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے کسی تکلیف کے بغیر اور کسی قسم کے ہجوم یا بھیڑ کے بغیر اسے دیکھیں گے اور یہ مثال خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔- ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا :( یا رسول اللہ ھل نری ربنا یوم القیامہ ؟ فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھل تضارون فی القمر لیلۃ البدر ؟ قالو الا یا رسول اللہ قال فھل تضارون فی الشمس لیس دونھا سحاب ؟ قالو الا یا رسول اللہ قال فانکم ترونہ کذلک) ( بخاری ، التوحید ، باب قول اللہ تعالیٰ (وجوہ یرمنا۔۔۔۔ ): ٧٤٣٧)” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا تم چودھویں کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو ؟ ‘ ‘ انہوں نے کہا : ” نہیں اے اللہ کے رسول “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو کیا تم سورج کو دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو جس کے سامنے کوئی بادل نہ ہو ؟ “ لوگوں نے کہا : ” نہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو تم اسے اسی طرح دیکھو گے “۔- یہاں شیخ محمد بن صالح بن عثیمین (رح) تعالیٰ کی تالیف ” القواعد المثلیٰ فی صفات اللہ واسماء ہ الحسنیٰ “ ( المثال الخامس والسادس) سے ان کی ایک تحریر کا ترجمہ لکھا جاتا ہے ، وہ لکھتے ہیں :” دوسری وجہ یہ ہے کہ ” معیت “ کے معنی کی حقیقت ” علو “ کے مناقض اور خلاف نہیں ، کیونکہ دونوں کا جمع ہونا مخلوق کے حق میں ممکن ہے ( کہ ایک چیز بلندی پر بھی ہو اور ساتھی بھی ہو) کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ہم چلتے رہے اور چاند بھی ہمارے ساتھ تھا اور اسے تنافض نہیں سمجھا جاتا اور نہ کوئی اس سے یہ سمجھتا ہے کہ چاند زمین پر اتر آیا ہے۔ تو جب یہ مخلوق کے حق میں ممکن ہے تو خالق کے حق میں تو بالاولیٰ ممکن ہے ، جو اپنے علو کے ساتھ ہر چیز کو محیط بھی ہے ، کیونکہ معیت کی حقیقت کے لیے ضروری نہیں کہ دونوں ایک جگہ اکٹھے ہوں۔ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ” الفتوی الحمویۃ ( ص ١٠٣) “ ( دیکھئے ابن القاسم کے مرتب کردہ “ مجموع الفتاویٰ “ کی جلد پنجم ) میں اسی وجہ کی طرف اشارہ کیا ہے ، چناچہ انہوں نے لکھا ہے :” یہ اس لیے کہ لغت میں جب لفظ ” مع “ کسی قید کے بغیر بولا جاتا ہے تو اس کا معنی لغت میں مطلق ساتھ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ، پھر جب اسے کسی خاص معنی کے ساتھ مقید کیا جائے تو اس معنی میں ساتھ ہونے پر دلالت کرتا ہے ، چناچہ کہا جاتا ہے کہ ہم چلتے رہے اور چاند یا ستارہ ہمارے ساتھ تھا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں سامان میرے ساتھ ہے ، کیونکہ وہ تمہارے پاس ہوتا ہے ، خواہ وہ تمہارے سر کے اوپر ہو ۔ سو اللہ تعالیٰ حقیقت میں اپنی مخلوق کے ساتھ اور حقیقت میں اپنے عرش پر بھی ہے “۔- ٥۔ سلف صالحین میں سے بہت سے اہل علم نے ” وھو معکم “ کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر ہے اور وہ اپنے علم ، رؤیت اور قدر ت کے ساتھ ہمارے ساتھ ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ زیر تفسیر آیت میں ” وھو معکم “ سے پہلے ہر چیز کے علم کا ذکر ہے اور بعد میں ہر چیز کو دیکھنے کا ۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر ہے اور وہ ہمارے ساتھ بھی ہے ہم جہاں بھی ہوں ، مگر وہ زمین پر اپنی مخلوق کے ساتھ اس طرح نہیں جس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ، اسے دیکھنے والا اور اس پر پوری قدرت اور تصرف رکھنے والا ہے۔ یہ تمام صفات حسنیٰ اس کے لیے ثابت ہیں ، مگر معیت کا معنی علم یا قدرت نہیں بلکہ یہ بذات خود ایک صفت ہے جس کی اصل کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس لیے اس بات پر ایمان رکھنا لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر ہے اور ہمارے ساتھ ہے ہم جہاں بھی ہوں ۔ رہی یہ بات کہ کس طرح ہے ؟ تو اس کی اصل کیفیت وہی جانتا ہے ، چاند یا سورج کی مثالیں صرف سمجھانے کے لیے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کے اوپر ہے ، وہ مخلوق کے ساتھ ہوسکتا ہے اور ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کی ایک اور ادنیٰ سی مثال بجلی ہے کہ وہ اپنے اصل ٹھکانے میں ہونے کے باوجود ہزاروں میل دور تک موجود ہوتی ہے اور اس کا وجود سب محسوس کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی معیت اور مخلوق پر مؤثر ہونے کے لیے یہ مثال بھی نہایت ادنیٰ مثال ہے ، جبکہ اللہ کی صفات بہت اعلیٰ ہیں ، چناچہ فرمایا (وللہ المثل الاعلیٰ ) (النحل : ٦٠)” اور اللہ کی سب سے اونچی صفت ہے “۔ اس کے لیے عرش پر رہ کر ہر ایک کے ساتھ ہونا بالکل معمولی بات ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ، " یعنی اللہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی " اس معیت کی حقیقت اور کیفیت کسی مخلوق کے احاطہ علم میں نہیں آسکتی، مگر اس کا وجود یقینی ہے، اس کے بغیر انسان کا نہ وجود قائم رہ سکتا ہے نہ کوئی کام اس سے ہوسکتا ہے، اس کی مشیت وقدرت ہی سے سب کچھ ہوتا ہے، جو ہر حال اور ہر جگہ میں ہر انسان کے ساتھ ہے واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۝ ٠ ۭ يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْــرُجُ مِنْہَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْہَا۝ ٠ ۭ وَہُوَمَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ ٤- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - ولج - الوُلُوجُ : الدّخول في مضیق . قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ- [ الأعراف 40] ، وقوله : يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ- [ الحج 61] فتنبيه علی ما ركّب اللہ عزّ وجلّ عليه العالم من زيادة اللیل في النهار، وزیادة النهار في اللیل، وذلک بحسب مطالع الشمس ومغاربها .- ( و ل ج ) الولوج ( ض ) کے معنی کسی تنک جگہ میں داخل ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے ۔ اور آیت : ۔ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج 61]( کہ خدا ) رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ میں اس نظام کائنات پت متنبہ کیا گیا ہو جو اس عالم میں رات کے دن اور دن کے رات میں داخل ہونے کی صورت میں قائم ہے اور مطالع شمسی کے حساب سے رونما ہوتا رہتا ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - عرج - العُرُوجُ : ذهابٌ في صعود . قال تعالی: تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] ، والمَعَارِجُ : المصاعد . قال : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] ، ولیلة المِعْرَاجُ سمّيت لصعود الدّعاء فيها إشارة إلى قوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وعَرَجَ عُرُوجاً وعَرَجَاناً : مشی مشي العَارِجِ. أي : الذاهب في صعود، كما يقال : درج : إذا مشی مشي الصاعد في درجه، وعَرِجَ : صار ذلک خلقة له «4» ،- ( ع ر ج ) العروج - کے معنی اوپر چڑھنا کے ہیں قرآن میں ہے : تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] جس کی طرف روح ( الامین ) اور فرشتے چڑھتے ہیں ۔ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں ۔ اور معارج کے معنی سیڑھیوں کے ہیں اس کا مفرد معرج ( اور معراج ) ہے ۔ قرآن میں ہے :- ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ( نازل ہوگا ) ۔ اور شب معراج کو بھی لیلۃ المعراج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دعائیں اوپر چڑھتی ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ؛- إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ - أين - أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن .- وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله .- قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک .- وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ :- ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته .- والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان .- وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم .- قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین .- این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔- بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور وہ ایسا ہے کہ اس نے آسمان اور زمین کو دنیا کے ابتدائی دنوں میں چھ روز کی مدت کے زمانہ میں پیدا کیا کہ ہر ایک دن ایک ہزار سال کے برابر تھا جن میں سے پہلا دن اتوار اور آخری جمعہ تھا۔- اور پھر تخت شاہی پر قائم ہوا اور وہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پہلے ہی تخت شاہی پر قائم تھا اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو چیز بارش خزانوں اور مردوں میں سے زمین کے اندر داخل ہوتی ہے اور جو چیز اس میں سے نکلتی ہے مثلا نباتات مردے پانی اور خزانے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے جیسا کہ پانی رزق فرشتے اور مصیبتیں اور جو چیز آسمان پر چڑھتی ہے مثلا ملائکہ کراما کاتبین اور وہ تم سے بخوبی واقف ہے خواہ تم خشکی میں ہو یا تری میں اور تمہاری نیکیوں اور برائیوں کو بھی دیکھتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ” وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں ‘ پھر وہ متمکن ہوا عرش پر۔ “- یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا ” وہ جانتا ہے جو کچھ داخل ہوتا ہے زمین میں اور جو کچھ نکلتا ہے اس سے ‘ اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے اور جو کچھ چڑھتا ہے اس میں۔ “- بالکل یہی الفاظ اس سے پہلے سورة سبا کی آیت ٢ میں بھی آ چکے ہیں۔ اس فقرے میں بہت سی چیزوں کا احاطہ ہوگیا ‘ مثلاً زمین میں پانی جذب ہوتا ہے ‘ مختلف قسم کے بیج بوئے جاتے ہیں ‘ ُ مردے دفن ہوتے ہیں۔ اسی طرح آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے اور فرشتے احکامِ الٰہی لے کر اترتے ہیں۔ آسمان کی طرف چڑھنے کی مثال بخارات کی ہے ‘ اور پھر فرشتے بھی فوت ہونے والے انسانوں کی ارواح اور دنیا کے حادثات و واقعات کی رپورٹس لے کر اوپر جاتے ہیں۔ - وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ ” اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ “- جو کچھ اچھے یا برے اعمال تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ بذاتِ خود ان کا چشم دید گواہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :4 یعنی کائنات کا خالق بھی وہی ہے اور فرمانروا بھی وہی ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی 41 ۔ 42 یونس ، حاشیہ 4 ۔ الرعد ، حواشی 2 تا 5 ۔ جلد چہارم ، حٰم السجدہ ، حواشی 11 تا 15 ) ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :5 بالفاظ دیگر وہ محض کلیات ہی کا عالم نہیں ہے بلکہ جزئیات کا علم بھی رکھتا ہے ۔ ایک ایک دانہ جو زمین کی تہوں میں جاتا ہے ، ایک ایک پتی اور کونپل جو زمین سے پھوٹتی ہے ، بارش کا ایک ایک قطرہ جو آسمان سے گرتا ہے ، اور بخارات کی ہر مقدر جو سمندروں اور جھیلوں سے اٹھ کر آسمان کی طرف جاتی ہے ، اس کی نگاہ میں ہے اس کو معلوم ہے کہ کونسا دانہ زمین میں کس جگہ پڑا ہے ، تبھی تو وہ اسے پھاڑ کر اس میں سے کونپل نکالتا ہے اور اسے پرورش کر کے بڑھاتا ہے ۔ اس کو معلوم ہے کہ بخارات کی کتنی کتنی مقدار کہاں کہاں سے اٹھی ہے اور کہاں پہنچی ہے ، تبھی تو وہ ان سب کو جمع کر کے بادل بناتا ہے اور زمین کے مختلف حصوں پر بانٹ کر ہر جگہ ایک حساب سے بارش برساتا ہے ۔ اسی پر ان دوسری تمام چیزوں کی تفصیلات کو قیاس کیا جا سکتا ہے جو زمین میں جاتی اور اس سے نکلتی ہیں اور آسمان کی طرف چڑھتی اور اس سے نازل ہوتی ہیں ۔ ان سب پر اللہ کا علم حاوی نہ ہو تو ہر چیز کی علیٰحدہ علیٰحدہ تدبیر اور ہر ایک کا انتہائی حکیمانہ طریقہ سے انتظام کیسے ممکن ہے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :6 یعنی کسی جگہ بھی تم اس کے علم ، اس کی قدرت ، اس کی فرمانروائی اور اس کی تدبیر و انتظام سے باہر نہیں ہو ۔ زمین میں ، ہوا میں ، پانی میں ، یا کسی گوشہ تنہائی میں ، جہاں بھی تم ہو ، اللہ کو معلوم ہے کہ تم کہاں ہو ۔ وہاں تمہارا زندہ ہونا بجائے خود اس کی علامت ہے کہ اللہ اسی جگہ تمہاری زندگی کا سامان کر رہا ہے ۔ تمہارا دل اگر دھڑک رہا ہے ۔ تمہارے پھیپھڑے اگر سانس لے رہے ہیں ، تمہاری سماعت اور بینائی اگر کام کر رہی ہے تو یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ اللہ کے انتظام سے تمہارے جسم کے سب کل پرزے چل رہے ہیں ۔ اور اگر کسی جگہ بھی تمہیں موت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے بقا کا انتظام ختم کر کے تمہیں واپس بلا لینے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف : 54، سورۃ یونس : 3 اور سورۃ رعد : 2 یہی حقیقت قرآن کریم نے سورۃ طه : 5 سورۃ فرقان : 59، سورۃ تنزیل السجدہ : 4 اور سورۃ حم السجدة : 11 میں بھی بیان فرمائی ہے۔