3 1وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی، وہی ظاہر ہے۔ یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں، وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔
[٤] یعنی جب کائنات کی کوئی چیز موجود نہ تھی اس وقت بھی اللہ موجود تھا اور جب کائنات کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی سب فنا ہوجائیں گی اس وقت بھی وہ موجود رہے گا اور وہ ظاہر اس لحاظ سے ہے کہ ہر چیز کا وجود اور ظہور اس کے وجود سے ہے۔ کائنات اکبر کے نظام میں غور کریں یا کائنات اصغر یا انسان کے جسم کے نظام میں غور کریں تو اس کی قدرت اور اس کے وجود پر بہت سے دلائل مل جاتے ہیں۔ کائنات کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اپنے خالق پر رہنمائی نہ کرتی ہو۔ اور وہ باطن اس لحاظ سے ہے کہ حواس خمسہ سے اس کا ادراک تو درکنار ہم عقل سے اس کی ذات یا صفات کے متعلق کوئی صحیح تصور بھی قائم نہیں کرسکتے۔ اس مادی دنیا میں ہمارے سامنے اس قدر غیب کے پردے حائل ہیں کہ ہم ان آنکھوں سے اسے کبھی نہیں دیکھ سکتے۔
ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج ۔۔۔۔:” ظھر یظھر “ (ف) کا معنی پوشیدہ کے مقابلے میں ظار ہونا بھی ہے اور بلند اور غالب ہونا بھی جیسا کہ فرمایا :(لیظھرہٗ علی الدین کلہ) (التوبۃ : ٣٣) ” تا کہ وہ اسے ہر دین پر غالب کر دے “۔ یہاں بھی ” ھو “ مبتداء کی چاروں خبروں ” الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج “ پر الف لام کی وجہ سے حصر پیدا ہو رہا ہے ، یعنی وہی ہے جو سب سے پہلے ہے ، اس کی کوئی ابتداء نہیں اور وہی سب سے آخر ہے ، اس کے بعد کوئی نہیں ، اس کی انتہاء بھی کوئی نہیں ، اس کے سوا سب فناء ہونے والے ہیں ، اس پر فنا نہیں ۔ وہی ہے جس کا وجود ظاہر ہے ، جو کائنات کی ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اسے بنانے والا موجود ہے ، جو ہر چیز پر غالب ہے کہ اس نے جو چاہا بنادیا اور جو چاہتا ہے بنا دیتا ہے ، کوئی اس سے اوپر نہیں جو اسے روک سکے اور وہی ہے جس کی ذات پوشیدہ ہے جس کا آنکھیں ادراک نہیں کرسکتیں ۔ اس کے سوا کسی میں ان چاروں صفات میں سے ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی ۔ اس آیت کی بہترین تفسیر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آئی ہے ، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں حکم دیتے تھے کہ جب ہم اپنے ستر پر لیٹیں تو یہ کہیں :(اللھم رب السماوات ورب الارض و رب العرش العظیم ، ربنا ورب کل شیئ، فالق الحب وشوی ، ومنزل التوراۃ والانجیل والفرقان ، اعوذ بک من شرکل شیء انت آخذ بنا صیتہٖ ، اللھم انت الاول فلیس قبلک شیء وانت الآخر فلیس بعدک شیء وانت الظاھر فلیس فوقک شیء وانت الباطن قیس دونک شیء ، اقض عنا الدین واغننا من الفقر) ( مسلم ، الذکر والدعا ، باب ما یقول عند النوم و اخذالمضجع : ٢٧١٣)” اے اللہ اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب ہمارے رب اور ہر چیز کے رب دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑ نکالنے والے اور تورات و انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ مانگنا ہوں جس کی پیشانی کے بالوں کو تو پکڑے ہوئے ہے۔ اے اللہ تو ہی اول ہے ، سو تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور تو ہی آخر ہے ، سو تیرے بعد کوئی چیز نہیں اور تو ہی ظاہر ہے ، سو تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں اور تو ہی باطن ہے ، سو تجھ سے ” دون ‘ ‘(بعد) کوئی چیز نہیں ۔ تو ہم سے قرض ادا کرے اور ہمیں فقیر سے غنی کر دے “۔- ٢۔” الباطن “ کی ایک تفسیر وہ ہے جو عام طور پر کی جاتی ہے ، یعنی پوشیدہ۔ اس کے مطابق ” لیس دونک شئی “ کا مطلب یہ ہے کہ تو ہی پوشیدہ ہے ، سو تجھ سے زیادہ پوشیدہ کوئی چیز نہیں ۔ یہ مفہوم ” لا تدرکہ الابصار “ میں بیان ہوا ہے ، دیکھئے سورة ٔ انعام (١٠٣) کی تفسیر اور ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مروی حدیث میں بھی یہی بات ہوئی ہے ، انہوں نے فرمایا :( قام مینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بخمس کلمات فقال ان اللہ عزوجل لا ینام ولا ینبغی لہ ان ینام، یحنض القسط و یرفعہ یرفع الیہ عمل اللیل قبل عمل النھار و عمل النھار قبل عمل اللیل، حجابہ النوروفی روایۃ ابی بکر النار لو کشفہ لا حرقت سبحات وجھہ ما انتھی الیہ بصرہ من خلقہ) (مسلم الایمان باب فی قولہ (علیہ السلام) :” ان اللہ لا ینام۔۔۔۔۔ “: ١٧٩)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں بیان فرمائیں ، چناچہ آپ نے فرمایا :” اللہ عزوجل سوتا نہیں اور اس کے لائق نہیں کہ وہ سوئے ، وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اسے اٹھاتا ہے ، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے ۔ اس کا حجاب نور ہے ( اور ابوبکر کی روایت میں ہے کہ نار ہے) اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی کرنیں اس کی خلوق میں سے ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے “۔- ٣۔ اور ” الباطن “ کی ایک تفسیر وہ ہے جو مفسر طبری نے بیان فرمائی ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں :” والظاھر ‘ ‘ یقول وھو الظاھر علی کل شئی دونہٗ وھو العالی فوق کلی شیء فلاشیء اعلیٰ منہ “” والباطن “ یقول وھو الباطن جمیع الاشیاء ، فلا شیء اقرب الی شیء منہ ، کمال قال :(وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ) (ق : ١٦)” یعنی “ ” والظاھر “ کا مطلب یہ ہے کہ وہی اپنے سوا ہر چیز پر ظاہر ہے اور وہی ہر چیز کے اوپر بلند ہے ، کوئی چیز اس سے بلند نہیں اور ” والباطن “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام اشیاء سے باطن ہے ، چناچہ کوئی چیز کسی چیز سے اس سے زیادہ قریب نہیں ، جیسا کہ فرمایا :(وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ) (ق : ١٦) ” اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں “۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز سے زیادہ بلند بھی وہی ہے اور ہر چیز کے زیادہ سے زیادہ قریب بھی وہی ہے۔ بہت سے اہل علم نے اس قرب سے مراد علم کے لحاظ سے قریب ہونا اور ” الباطن “ کا معنی علم کے لحاظ سے ہر چیز کے قریب کیا ہے۔ بحث آگ آیت (٤) ” وھو معکم “ میں کچھ تفصیل سے آرہی ہے۔
وساوس شیطانیہ کا علاج :- حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اگر کبھی تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ اور دین حق کے معاملے میں شیطان کوئی وسوسہ ڈالے تو یہ آیت آہستہ سے پڑھ لیا کرو :۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (ابن کثیر)- اس آیت کی تفسیر اور اول و آخر، ظاہر و باطن کے معنی میں حضرات مفسرین کے اقوال دس سے زیادہ منقول ہیں، جن میں کوئی تعارض نہیں، سبھی کی گنجائش ہے، لفظ اول کے معنی تو تقریباً متعین ہیں، یعنی وجود کے اعتبار سے تمام موجودات و کائنات سے مقدم اور پہلا ہے، کیونکہ ساری موجودات اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اس لئے وہ سب سے اول ہے اور آخر کے معنی بعض حضرات نے یہ کئے ہیں کہ تمام موجودات کے فنا ہونے کے بعد بھی وہ باقی رہے گا، جیسا کہ آیت (كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ) میں اس کی تصریح ہے، اور فنا سے مراد عام ہے خواہ فنا و عدم کا وقوع ہوجائے، جیسا قیامت کے روز عام مخلوقات فنا ہوجاوے گی، یا فنا کا وقوع نہ ہو، مگر اس کی فنا و عدم کا وقوع ہوجائے، جیسا قیامت کے روز عام مخلوقات فنا ہوجاوے گی، یا فنا کا وقوع نہ ہو، مگر اس کی فنا و عدم ممکن ہو اور وہ اپنی ذات میں عدم کے خطرہ سے خالی نہ ہو، اس کو موجود ہونے کے وقت بھی فانی کہہ سکتے ہیں، اس کی مثال جنت و دوزخ اور ان میں داخل ہونے والے اچھے برے انسان ہیں کہ ان کا وجود فنا نہیں ہوگا مگر باوجود وقوعاً فنا نہ ہونے کے امکان و احتمال فنا سے پھر بھی خالی نہیں، صرف حق تعالیٰ کی ذات ہے جس پر کسی حیثیت اور کسی مفہوم سے نہ پہلے کبھی عدم طاری ہوا اور نہ آئندہ کبھی اس کا امکان ہے، اس لئے اس کو سب سے آخر کہہ سکتے ہیں۔- اور امام غزالی نے فرمایا کہ حق تعالیٰ کو آخر باعتبار معرفت کے کہا گیا ہے کہ سب سے آخر معرفت اس کی ہے انسان علم و معرفت میں ترقی کرتا رہتا ہے، مگر یہ سب درجات جو اس کو حاصل ہوئے راستہ کی مختلف منزلیں ہیں اس کی انتہا اور آخری حد حق تعالیٰ کی معرفت ہے (از روح المعانی)- اور ظاہر سے مراد وہ ذات جو اپنے ظہور میں ساری چیزوں سے فائق اور برتر ہو اور ظہور چونکہ وجود کی فرع ہے، تو جب حق تعالیٰ کا وجود سب موجودات پر فائق اور مقدم ہے اس کا ظہور بھی سب پر فائق ہے کہ اس سے زیادہ اس عالم میں کوئی چیز ظاہر نہیں کہ اس کی حکمت وقدرت کے مظاہر دنیا کے ہر ہر ذرہ میں نمایاں ہیں اور باطن اپنی ذات کی کنہ اور حقیقت کے اعتبار سے ہے کہ اس کی حقیقت تک کسی عقل و خیال کی رسائی نہیں ہو سکتی۔- اے برتر از قیاس و گمان و خیال و وہم - اے بروں از جملہ قال و قیل من - و زہرچہ دیدہ ایم و شنیدیم و خواندہ ایم - خاک بر فرق من و تمثیل من
ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ٠ ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ٣- الاول۔- ہر چیز سے پہلا۔ کوئی اس سے پہلے نہیں۔ ہر موجود چیز کو نیستی سے ہستی میں لانے والا وہی ہے۔- الاخر - ہر چیز کے فنا ہوجانے کے بعد باقی رہنے والا۔ ہر چیز اپنی ذات کے اعتبار سے فناء پذیر ہے اللہ تعالیٰ کا وجود اصل ہے جو قابل زوال نہیں۔ - الظاھر - ۔ ہر چیز سے بڑھ کر اس کا ظہور ہے۔ یہ ظھور سے جس کے معنی ظاہر ہونے بلند جگہ پر ہونے اور قابو پانے کے ہیں۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ اسماء الٰہی میں الظاھر سے مراد وہ ذات عالی ہے جو ہر شے سے اوپر ہو اور ہر چیز پر غالب ہو۔ - الباطن - سب سے چھپا ہوا۔ بطن وبطرن سے واحد مذکر اسم فاعل کا صیغہ ہے جو غیر محسوس ہو اور آثار و افعال کے ذریعہ سے اس کا ادراک کیا جائے۔ اس کی حقیقت ذات سے مخفی ہے۔- والظاهر والباطن - في صفات اللہ تعالی: لا يقال إلا مزدوجین، كالأوّل والآخرفالظاهر قيل : إشارة إلى معرفتنا البديهية، فإنّ الفطرة تقتضي في كلّ ما نظر إليه الإنسان أنه تعالیٰ موجود، كما قال : وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلهٌ [ الزخرف 84] ، ولذلک قال بعض الحکماء : مثل طالب معرفته مثل من طوف في الآفاق في طلب ما هو معه .- والبَاطِن - : إشارة إلى معرفته الحقیقية، وهي التي أشار إليها أبو بکر رضي اللہ عنه بقوله : يا من غاية معرفته القصور عن معرفته . وقیل : ظاهر بآیاته باطن بذاته، وقیل : ظاهر بأنّه محیط بالأشياء مدرک لها، باطن من أن يحاط به، كما قال عزّ وجل : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] .- صفات الہی سے ہیں ۔ اور الاول والاخر کی طرح مزدجر یعنی ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں ۔ الظاھر کے متعلق بعض کا قول ہے کہ یہ اس معرفت کی طرف اشارہ ہے جو ہمیں بالبداہت حاصل ہوتی کیونکہ انسان جس چیز کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھے اس کی فطرت کا یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلهٌ [ الزخرف 84] اور وہی ایک آسمانوں میں معبود ہے اور دوہی زمین میں معبود ہے اسی لئے بعض حکماء کا قول ہے کہ معرفت الہی کے طالب کی مثال اس شخص کی ہے جو اطراف عالم میں ایسی چیز کی تلاش میں سر گردان پھر رہا ہو ۔ جو خود اس کے پاس موجود ہو ۔ اور الباص سے اس حقیقی معرفت کی طرف اشارہ ہے جس کے متعلق حضرت ابوبکر نے فرمایا ہے ۔ اے وہ ذات جس کی معرفت کی انتہا اس کی معرفت سے در ماندگی ہے ) بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی آیات دولائل قدرت کے لحاظ سے ظاہر ہے اور باعتبار ذات کے باطن ہے ۔ اور بعض نے کہا کہ الظاہر سے اس کا تمام اشیاء پر محیط ہونا مراد ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ ہمارے احاطہ اور اک میں نہیں آسکتا الباطن ہے ۔ چناچہ فرمان الہی ہے ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] وہ ایسا ہے کہ ) نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔
اور ہر ایک چیز پر غالب ہے اور ہر ایک ظاہر و باطن سے واقف اور باخبر ہے اور اس کے اس علم میں سے کسی کے مطلع کرنے کی حاجت نہیں یا مطلب ہے کہ وہ ہر ایک چیز سے پہلے ہے اور اس اولیت کی کوئی انتہا نہیں اور ہر ایک چیز کے بعد بھی ہے اور اس کے بعد رہنے کی کوئی انتہا نہیں یا یہ کہ وہ اول ہے کہ ہر ایک پہلی چیز کو اولیت عطا کرنے والا ہے اور آخر ہے یعنی ہر ایک بعد والی چیز کو اخرویت عطا کرنے والا ہے اور وہ سب سے اول ہے اس سے پہلے کوئی نہیں اور وہ آخر ہے کہ سب کے فنا کرنے کے بعد وہی رہے گا۔- اور وہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کی ذات موت و فنا زوال سے پاک ہے اور کوئی چیز خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ اول ہو یا آخر وہ سب سے واقف ہے۔
آیت ٣ ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ” وہی اول ہے ‘ وہی آخر ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی باطن ہے۔ “- ایک انسان کے لیے اس کیفیت کو سمجھنا یقینا مشکل ہے کہ ہر زمان ‘ ہر مکان اگر وہ ہی وہ ہے تو پھر باقی سب کیا ہے۔ غالب ؔنے اس صورت حال سے متعلق انسانی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : ؎- جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود - پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟- اس آیت کے بارے میں امام رازی (رح) کا درج ذیل قول بہت فکر انگیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس آیت کو پڑھ کر وہ جلالِ ذات کے رعب کے باعث ساکت و ششدر ہوئے کھڑے ہیں۔ لکھتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذا المَقامَ مقامٌ غامِضٌ عمیقٌ مُہیبٌ” جان لو کہ یہ بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بڑا ُ پرہیبت مقام ہے “ اس کی حقیقت کا سمجھنا آسان کام نہیں ہے۔ گویا بقول شاعر ع ” ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را “ اس راستے پر خبردار ہو کر چلنا ‘ اب تمہار اپائوں تلوار کی دھار پر آگیا ہے - صوفیاء نے ” وحدت الوجود “ کا فلسفہ اسی آیت سے اخذ کیا ہے ‘ لیکن یہ فلسفے کا بھی مشکل ترین مسئلہ ہے۔ ” وحدت الوجود “ کی تعبیر میں کچھ لوگوں نے ” ہمہ اوست “ کا تصور گھڑا ہے جس کے کفر و شرک ہونے میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔ بہرحال ” وحدت الوجود “ کے بارے میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔ البتہ میں نے اپنے مذکورہ دروس میں اپنی حد تک اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم (١٨٩٦۔ ١٩٨٤ ئ) سے مجھے اپنی اس وضاحت کی سند بھی مل چکی ہے ۔ ایک مرتبہ اسی سورت کے میرے ایک درس میں پروفیسر صاحب بھی موجود تھے۔ درس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ اس ” وحدت الوجود “ کے مسئلے کو پڑھتے پڑھاتے اور سمجھتے سمجھاتے مجھے پچاس برس ہوگئے ہیں ‘ لیکن آپ نے اس ایک درس میں اسے جس انداز میں واضح کیا ہے میں آج تک نہیں کرسکا۔ یہاں ان سطور میں اس مسئلے کی وضاحت کرنا میرے لیے ممکن نہیں ۔ تفصیل معلوم کرنے کے خواہش مند حضرات سورة الحدید پر میرے متعلقہ دروس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہرحال اس آیت کا آسان مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات ” حادث “ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ موجود نہیں تھی اور جب یہ موجود نہیں تھی اس وقت کون موجود تھا ؟ ظاہر ہے اللہ اس وقت بھی موجود تھا۔ تو اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہوا ؟ اللہ سے پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس کائنات میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ۔ (الرحمن) ” جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ “ تو جب یہ سب کچھ نہیں رہے گا تو اس وقت کون موجود ہوگا ؟ وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ ۔ (الرحمٰن) ” اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی والا اور بہت عظمت والا ہے۔ “ تو جب کچھ نہیں رہے گا تو اللہ اس وقت بھی موجود ہوگا۔ تو پھر ” آخر “ کون ہوا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ اب یوں سمجھیں کہ اول اور آخر کے مابین ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی وہ ہے۔- اس مشکل مضمون کو درج ذیل حدیث نے عام لوگوں کے لیے آسان کردیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے :- (اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ‘ رَبَّـنَا وَرَبَّ کُلَّ شَیْئٍ ‘ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ‘ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ ‘ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ ‘ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ اْلآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ) (١) - ” اے اللہ آسمانوں اور زمین کے رب اے عرش عظیم کے مالک اے ہمارے رب اور ہرچیز کے پروردگار اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے اور تورات ‘ انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے میں ہرچیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اے اللہ تو ہی اوّل ہے ‘ پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور تو ہی آخر ہے ‘ تیرے بعد کوئی چیز نہ ہوگی ‘ اور تو ہی ظاہر ہے ‘ تجھ سے بالاتر کوئی چیز نہیں ‘ اور تو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے مخفی کوئی چیز نہیں۔ “- وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ۔ ” اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔ “- جب ہر زمان ‘ ہر مکان وہ ہی وہ ہے ‘ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی تو کائنات کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ کیسے ہوسکتی ہے بلکہ وہ تو انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔ اس حوالے سے سورة قٓ کی یہ آیت ہم پڑھ چکے ہیں : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ۔ ” اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ‘ اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں “۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہرچیز پر قادر (عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ) ہونے کا اعلان ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس کے علم ِکل ُ کا بیان ہے کہ اسے ہرچیز کا علم ہے (وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ) ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :3 یعنی جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہ رہے تو وہ رہے گا ۔ وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے ، کیونکہ دنیا میں جو کچھ بھی ظہور ہے اسی کی صفات اور اسی کے افعال اور اسی کے نور کا ظہور ہے ۔ اور وہ ہر مخفی سے بڑھ کر مخفی ہے ، کیونکہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار ، عقل و فکر و خیال تک اس کی کنہ و حقیقت کو نہیں پا سکتے ۔ اس کی بہترین تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں جنہیں امام احمد ، مسلم ، ترمذی ، اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے اور حافظ ابو یعلیٰ موصلی نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے : انت الاول فلیس قبلک شیءٍ تو ہی پہلا ہے ، کوئی تجھ سے پہلے نہیں وانت الاٰخر فلیس بعدک شیءٍ تو ہی آخر ہے ، کوئی تیرے بعد نہیں و انت الظاھر فلیس فوقک شئٍ تو ہی ظاہر ہے کوئی تجھ سے اوپر نہیں و انت الباطن فلیس دونک شئٍ تو ہی باطن ہے ، کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے خلود اور ابدی زندگی کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہ بات کیسے نبھ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر ہے ، یعنی جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا ؟ اس کا جواب خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے کہ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ ( القصص ۔ 88 ) ۔ یعنی ہر چیز فانی ہے اللہ کی ذات کے سوا ۔ دوسرے الفاظ میں ذاتی بقا کسی مخلوق کے لیے نہیں ہے ۔ اگر کوئی چیز باقی ہے یا باقی رہے تو وہ اللہ کے باقی رکھنے ہی سے باقی ہے ۔ اور اس کے باقی رکھنے ہی سے باقی رہ سکتی ہے ، ورنہ بذات خود اس کے سوا سب فانی ہیں ۔ جنت اور دوزخ میں کسی کو خلود اس لیے نہیں ملے گا کہ وہ بجائے خود غیر فانی ہے ، بلکہ اس لیے ملے گا کہ اللہ اس کو حیات ابدی عطا فرمائے گا ۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے کہ وہ بذات خود غیر فانی نہیں ہیں ۔ جب اللہ نے چاہا تو وہ وجود میں آئے ، اور جب تک وہ چاہے اسی وقت تک وہ موجود رہ سکتے ہیں ۔
2: اللہ تعالیٰ اول اس معنی میں ہے کہ اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، اور وہ ہمیشہ سے موجود ہے، وہ آخراس معنی میں ہے کہ جب اس کائنات کی ہرچیز فنا ہوجائے گی تو وہ اس وقت بھی موجود رہے گا، وہ ظاہر اس لحاظ سے ہے کہ اس کے وجود اس کی قدرت اور اس کی حکمت کی نشانیاں اس کائنات میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں، جو اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ وہ موجود ہے، اور چھپا ہوا اس معنی میں ہے کہ یہاں دنیا میں وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔