نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی منسوخ شرط اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے نبی سے جب تم کوئی راز کی بات کرنا چاہو تو اس سے پہلے میری راہ میں خیرات کرو تاکہ تم پاک صاف ہو جاؤ اور اس قابل بن جاؤ کہ میرے پیغمبر سے مشورہ کرسکو ، ہاں اگر کوئی غریب مسکین شخص ہو تو خیر ۔ اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کے رحم پر نظریں رکھنی چاہئیں یعنی یہ حکم صرف انہیں ہے جو مالدار ہوں ۔ پھر فرمایا شاید تمہیں اس حکم کے باقی رہ جانے کا اندیشہ تھا اور خوف تھا کہ یہ صدقہ نہ جانے کب تک واجب رہے ۔ جب تم نے اسے ادا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرمایا اب تو اور مذکورہ بالا فرائض کا پوری طرح خیال رکھو ، کہا جاتا ہے کہ سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے کا شرف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا پھر یہ حکم ہٹ گیا ، ایک دینار دے کر آپ نے حضور سے پوشیدہ باتیں کیں دس مسائل پوچھے ۔ پھر تو یہ حکم ہی ہٹ گیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خود بھی یہ واقعہ بہ تفصیل مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کرسکا ، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھناکر میں نے دس درہم لے لئے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دیدیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم اٹھ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکتا ہے ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے پوچھا کیا صدقہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنی چاہئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت ہوئی ۔ فرمایا پھر آدھا دینار کہا ہر شخص کو اس کی بھی طاقت نہیں آپ نے فرمایا اچھا تم ہی بتاؤ کس قدر؟ فرمایا ایک جو برابر سونا آپ نے فرمایا واہ واہ تم تو بڑے ہی زاہد ہو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پس میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت پر تخفیف کردی ، ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مسلمان برابر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے راز داری کرنے سے پہلے صدقہ نکالا کرتے تھے لیکن زکوٰۃ کے حکم نے اسے اٹھا دیا ، آپ فرماتے ہیں صحابہ نے کثرت سے سوالات کرنے شروع کردیئے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر آپ پر تخفیف کردی کیونکہ اب لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے ، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کشادگی کردی اور اس حکم کو منسوخ کردیا ، عکرمہ اور حسن بصری کا بھی یہی قول ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے ، حضرت قتادہ اور حضرت مقاتل بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت قتادہ کا قول ہے کہ صرف دن کی چند ساعتوں تک یہ حکم رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی عمل کرسکا تھا اور دن کا تھوڑا ہی حصہ اس حکم کو نازل ہوئے تھا کہ منسوخ ہوگیا ۔
12۔ 1 ہر مسلمان نبی سے مناجات اور خلوت میں گفتگو کرنے کی خواہش رکھتا تھا، جس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاصی تکلیف ہوتی، بعض کہتے ہیں کہ منافقین یوں ہی بلا وجہ نبی سے مناجات میں مصروف رہتے تھے، جس سے مسلمان تکلیف محسوس کرتے تھے، اس لئے اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا، تاکہ آپ سے گفتگو کرنے کے رحجان عام کی حوصلہ شکنی ہو 12۔ 2 بہتر اس لیے کہ صدقے سے تمہارے ہی دوسرے غریب مسلمان بھائیوں کو فائدہ ہوگا اور پاکیزہ تر اس لیے کہ یہ ایک عمل صالح اور اطاعت الہی ہے جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ امر بطور استحباب کے تھا وجوب کے لیے نہیں۔
[١٦] آپ سے سرگوشی کرنے پر صدقہ کی عارضی پابندی اور اس کے فوائد :۔ بعض منافقوں کی یہ عادت تھی کہ محض اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے اور بڑائی جتانے کی خاطر آپ سے سرگوشی شروع کردیتے اور بےکار باتوں میں آپ کا اتنا وقت ضائع کردیتے تھے جس سے دوسروں کو آپ سے استفادہ کا وقت نہ ملتا تھا۔ یا کسی وقت آپ خلوت چاہتے تو آپ کو ایسا موقع میسر نہ آتا تھا۔ پھر منافقوں کی دیکھا دیکھی کچھ مسلمان بھی ایسا کرنے لگے تھے اور آپ ہر ایک کی بات سننے کو تیار ہوجاتے اور مروت اور اخلاق کی وجہ سے کسی کو منع نہ فرماتے اس سے کئی قسم کے نقصان ہو رہے تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے خود ایسی آزادی پر پابندی لگا دی اور فرمایا کہ جو شخص آپ سے سرگوشی کرنا چاہے وہ کچھ نہ کچھ پہلے صدقہ کرے۔ تب اسے سرگوشی کی اجازت ہوگی اور اس حکم میں بہت سے فائدے تھے۔ مثلاً محتاجوں کی خدمت، صدقہ کرنے والے کے نفس کا تزکیہ، کسی کو بدظنی پیدا نہ ہونا، مخلص اور منافق کی تمیز اور سرگوشی کرنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس حکم میں استثناء صرف یہ تھا کہ اگر فی الواقع کوئی شخص انتہائی نادار ہو اور اسے سرگوشی کی ضرورت بھی حقیقی ہو تو وہ صدقہ دیئے بغیر آپ سے سرگوشی کرسکتا ہے اس حکم سے منافقوں نے اپنے طبعی بخل کی وجہ سے یہ عادت چھوڑ دی۔ اور مسلمان بھی سمجھ گئے کہ زیادہ سرگوشی کرنا اللہ کو پسند نہیں اور اس کے کیا کچھ نقصانات ہیں۔
١۔ یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ ۔۔۔۔: ہر مسلمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مناجات اور خلوت میں گفتگو کی خواہش رکھتا تھا ، جس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشقت اٹھانا پڑتی تھی ۔ اس پر مزید منافقین کا رویہ تھا کہ انہوں نے محض اپنی بڑائی جتانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشیاں شروع کردیں۔ ایک ایک آدمی آپ کا خاصا وقت لے جاتا ، اس سے دو سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ، کیونکہ انہیں عام فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملنا ، خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ان کا یہ طرز عمل شاق گزرتا ، مگر آپ مروت و اخلاق کی وجہ سے کسی کو منع نہ فرماتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو شخص بھی اپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں گفتگو کرنا چاہیے وہ اس سے پہلے صدقہ دے کر آئے ، البتہ نادار مسلمانوں کے لیے گنجائش رکھی کہ اگر صدقہ کرنے کے لیے تمہارے پاس کچھ نہ ہو اور تمہیں علیحدگی میں گفتگو کرنا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ منافقین عموماً مال دار تھے مگر سخت بخیل تھے ، لہٰذا انہوںں نے بخل کی وجہ سے علیحدگی میں گفتگو کر کے آپ کا وقت ضائع کرنا ترک کردیا۔- ٢۔ ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاَطْھَرُ ط : یعنی اس حکم کا مقصد صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشقت ہٹانا نہیں بلکہ تمہاری تربیت بھی ہے کہ جب بھی تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں گفتگو کی خواہش ہوگی اور ہر بار اس سے پہلے تم صدقہ کرو گ تو اس سے فقراء کا فائدہ ہوگا اور تمہیں خرچ کرنے کی عادت پڑے گی ، بخل کی کمینگی دور ہوگی ، مال میں برکت ہوگی ، آفات و مصائب اور جہنم سے حفاظت ہوگی اور اموال و قلوب کو طہارت حاصل ہوگی۔
(آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ الایة، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلیم و اصلاح خلق کے کام میں تو شب و روز مشغول رہتے ہی تھے، مجالس عامہ میں سب حاضرین مجلس آپ کے ارشادات سے فائدہ اٹھاتے تھے، اس سلسلے میں ایک صورت یہ بھی تھی کہ بعض لوگ آپ سے علیحدگی میں خفیہ بات کرنا چاہتے اور آپ وقت دے دیتے تھے، یہ ظاہر ہے کہ ایک ایک شخص کو الگ وقت دینا بڑا وقت بھی چاہتا ہے اور محنت بھی، اس میں کچھ منافقین کی شرارت بھی شامل ہوگئی کہ مخلص مسلمانوں کو ایذاء پہنچانے کے لئے آپ سے علیحدگی اور سرگوشی کا وقت مانگتے اور اس میں مجلس کو طویل کردیتے تھے، بعض ناواقف مسلمان بھی بات لمبی کر کے مجلس طویل کردیتے تھے، حق تعالیٰ نے آپ سے یہ بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ابتداً یہ حکم نازل فرمایا کہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں خفیہ بات کرنا چاہے وہ پہلے کچھ صدقہ کر دے، اس صدقہ کی کوئی مقدار قرآن میں منقول نہیں، مگر جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس پر عمل فرمایا اور ایک دینار صدقہ کر کے آپ سے علیحدگی میں بات کرنے کا وقت لیا۔- تو ظاہر ہے بعد میں نہ کرنا اس لئے کہ منسوخ ہوگئی وہ آیت یہی تقدیم صدقہ کی ہے (ابن کثیر)- یہ حکم اگرچہ منسوخ ہوگیا مگر جس مصلحت کے لئے جاری کیا گیا تھا وہ اس طرح حاصل ہوگئی کہ مسلمان تو اپنی دلی محبت کے تقاضہ سے ایسی مجلس طویل کرنے سے بچ گئے اور منافقین اس لئے کہ عام مسلمانوں کے طرز کے خلاف ہم نے ایسا کیا تو ہم پہچان لئے جاویں گے اور نفاق کھل جاوے گا، واللہ اعلم۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَۃً ٠ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاَطْہَرُ ٠ ۭ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٢- قدم - وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء 27]- ( ق د م ) القدم - عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔- «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي :- موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي :- قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة .- ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا،- بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں - صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6] .- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرنے سے پہلے صدقہ دینا - قول باری ہے (اذا نا جیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقۃ ، جب تم رسول کے ساتھ سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ خیرات دے دیا کرو) لیث نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : ” اللہ کی کتاب میں ایک ایسی آیت ہے جس پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں اور میرے بعد بھی اس پر کوئی عمل نہیں کرے گا۔ میرے پاس ایک دینار تھا میں نے اس کے درہم حاصل کرلیے، پھر میں جب بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرتا تو ایک درہم کا صدقہ کردیتا پھر یہ آیت منسوخ ہوگئی۔- علی بن طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مسلمان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثرت سے مسائل پوچھا کرتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے لئے بڑی مشقت پیدا کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بوجھ ہلکا کردینا چاہا۔- جب درج بالا آیت نازل ہوئی تو بہت سے لوگ مسائل پوچھنے سے باز رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے (اشفقتم ان تقدموا بین یدی نجواکم صدقات، کیا تم اس سرگوشی کرنے سے پہلے خیرات کرنے کا حکم سے ڈر گئے ؟ ) تا آخر آیت نازل فرمائی۔ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے وسعت پیدا فرمادی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت تین احکام پر دلالت کر رہی ہے۔ اول حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ خیرات کرنا بشرطیکہ یہ میسر ہو۔ دوم جسشخص کو کوئی خیرات میسر نہ ہو اسے بلا خیرات سرگوشی کی اجازت ہے۔ چناچہ ارشاد ہے۔ (فان لم تجدوا فان اللہ غفور رحیم، اگر تمہیں یہ میسر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ غفوررحیم ہے)- یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو صدقہ میسر نہیں تھا اس کے لئے بھی مسئلہ پوچھنا مباح تھا۔ سوم مسئلہ پوچھنے سے پہلے صدقہ کرنا واجب تھا۔- چنانچہ ارشاد ہے (ء اشفقتم ان تقدمو موا بین یدی نجواکم صدقات فاذلم تفعلوا تاب اللہ علیکم)- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے ایوب سے انہوں نے مجاہد سے قول باری (اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقۃ) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ حضرت علی (رض) نے یہ فرمایا تھا کہ اس آیت پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا یہاں تک کہ یہ آیت منسوخ ہوگئی۔ یہ آیت صرف ایک گھڑی کے لئے تھی۔
اے ایمان والو جس وقت تم رسول اکرم سے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا کرو تو اپنی اس سرگوشی سے پہلے کچھ خیرات دے دیا کرو۔ یہ آیت مال داروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان میں سے بعض حضرات رسول اکرم کے ساتھ زیادہ سرگوشی کیا کرتے تھے جس سے حضور اور فقرا کو بھی تکلیف ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس زیادتی سے منع کردیا اور رسول اکرم سے سرگوشی کرنے سے پہلے اس چیز کا حکم دیا کہ ہر ایک کلمہ کے بدلے ایک درہم مساکین کو دے دیا کریں۔ کیونکہ یہ صدقہ تمہارے لیے کنجوسی سے بہتر ہے اور یہ گناہوں سے تمہارے دلوں کی پاکی کا اچھا ذریعہ ہے یا یہ کہ فقرا کے دل میں جو کدورت ہوتی ہے اس کے لیے اچھا ذریعہ ہے اور اگر تمہیں صدقہ دینے کی قدرت نہ ہو تو رسول اکرم سے جس قدر چاہو بغیر صدقہ دیے ہوئے گفتگو کرو تو اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَيْتُمُ (الخ)- ابن ابی طلحہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ مسلمان رسول اکرم سے بہت زیادہ مسائل دریافت کرتے تھے حتی کہ آپ پر گراں ہوجاتا تھا اس لیے مشیت خداوندی ہوئی کہ اپنے نبی سے کچھ بوجھ ہلکا کردے اس پر یہ خیرات کرنے والی آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ جب یہ حکم نازل ہوا تو بہت سے لوگ زیادہ مسائل دریافت کرنے سے رک گئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا (الخ)
آیت ١٢ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰٹکُمْ صَدَقَۃً ” اے اہل ایمان جب تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تخلیہ میں کوئی بات کرنا چاہو تو اپنی اس بات چیت سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو۔ “- اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ منافقین میں سے اکثر لوگ وقتاً فوقتاً بلاوجہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تخلیہ میں بات کرنے کا تقاضا کرتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مروّت کے باعث ہر کسی کی بات مان تو لیتے ‘ لیکن منافقین کا یہ طرزعمل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے زحمت کا باعث تھا۔ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی ملاقاتیں محض اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے کرتے تھے ‘ تاکہ لوگ دیکھیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں بات کرنے والا یہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت قریب ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پر بہت اعتماد ہے۔ جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا معمول تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خطبہ جمعہ کے لیے کھڑے ہوتے تو وہ محض اپنی چودھراہٹ جتانے کے لیے فوراً اگلی صف میں کھڑا ہوجاتا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہتا کہ لوگو یہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ‘ ان کی بات غور سے سنو یہ شخص مدینہ کے سب سے بڑے قبیلے خزرج کا سردار تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے قبل اہل مدینہ کا اتفاق ہوچکا تھا کہ مدینہ میں ایک مستحکم ریاستی نظام قائم کیا جائے تاکہ روز روز کی جنگوں اور باہمی خون ریزی سے ان کی جان چھوٹ جائے۔ اس کے لیے عبداللہ بن ابی کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا اور اس کے لیے تاج بھی تیارہو چکا تھا۔ بس رسم تاجپوشی کا انعقاد باقی تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لے آئے اور آتے ہی مدینہ کے بےتاج بادشاہ بن گئے ۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کی بادشاہت کا خواب ناتمام رہ گیا۔ حالات کا رخ دیکھتے ہوئے اس نے ظاہری طور پر تو مسلمانی کا لبادہ اوڑھ لیا لیکن عمر بھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کا کوئی موقع اس نے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ بہرحال حالات کی مجبوری تھی کہ ایسا شخص بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی قربت جتلانے اور اپنی خصوصی حیثیت نمایاں کرنے کے لیے جمعہ کے اجتماع میں یہ ڈرامہ رچانا ضروری سمجھتا تھا۔- منافقین کے اس طرزعمل کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں بات کرنے پر ایک طرح کا ٹیکس عائد کردیا کہ اگر تمہارا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں بات کرنا ایسا ہی ضروری ہے تو پہلے اپنے مال میں سے کچھ صدقہ دو اور پھر آکر اس مقصد کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وقت مانگو۔ منافقین چونکہ انفاق سے گھبراتے ہیں اس لیے اس حکم کے بعد ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی صدقہ دے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں بات کرنے کی درخواست نہ کی۔ یہ حکم البتہ بہت تھوڑی دیر نافذ رہا اور جلد ہی اسے اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کردیا گیا۔ حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ میں واحد شخص تھا جس نے اس حکم پر عمل کیا اور صدقہ دے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں بات کرنے کی درخواست کی۔ - ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّــکُمْ وَاَطْہَرُ ” یہ تمہارے لیے بہتر بھی ہے اور زیادہ پاکیزہ بھی۔ “- فَاِنْ لَّـمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ ” البتہ اگر تم (صدقہ دینے کے لیے) کچھ نہ پائو تو اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔ “- یعنی غریب اور نادار لوگ اس حکم پر عمل نہیں بھی کرسکتے تو کوئی مضائقہ نہیں ‘ اللہ تعالیٰ ان کا عذر قبول فرماتے ہوئے انہیں معاف فرمائے گا۔ لیکن ظاہر ہے جن لوگوں کی وجہ سے یہ حکم نازل ہوا وہ تو سب کے سب متمول ‘ مرفہ الحال اور بڑے لوگ تھے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی قربت جتلا کر لوگوں کے سامنے مزید ” بڑے “ بننا چاہتے تھے۔
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :29 حضرت عبداللہ بن عباس اس حکم کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ باتیں ( یعنی تخلیہ کی درخواست کر کے ) پوچھنے لگے تھے حتیٰ کہ انہوں نے حضور کو تنگ کر دیا ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے نبی پر سے یہ بوجھ ہلکا کر دے ( ابن جریر ) ۔ زید بن اسلم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شخص بھی علیٰحدگی میں بات کرنے کی درخواست کرتا ، آپ اسے رد نہ فرماتے تھے ۔ جس کا جی چاہتا آ کر عرض کرتا کہ میں ذرا الگ بات کرنا چاہتا ہوں ، اور آپ اسے موقع دے دیتے ، یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے معاملات میں بھی آپ کو تکلیف دینے لگے جن میں الگ بات کرنے کی کوئی حاجت نہ ہوتی ۔ زمانہ وہ تھا جس میں سارا عرب مدینہ کے خلاف برسر جنگ تھا ۔ بعض اوقات کسی شخص کی اس طرح کی سرگوشی کے بعد شیطان لوگوں کے کان میں یہ پھونک دیتا تھا کہ یہ فلاں قبیلے کے حملہ آور ہونے کی خبر لایا تھا اور اس سے مدینہ میں افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا تھا ۔ دوسری طرف لوگوں کی اس حرکت کی وجہ سے منافقین کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو کانوں کے کچے ہیں ، ہر ایک کی سن لیتے ہیں ۔ ان وجوہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے ( احکام القرآن الابن العربی ) ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے کے لیے بھی بعض لوگ حضور سے خلوت میں بات کرتے تھے ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب یہ حکم آیا تو حضور نے مجھ سے پوچھا کتنا صدقہ مقرر کیا جائے؟ کیا ایک دینار؟ میں نے عرض کیا یہ لوگوں کی مقدرت سے زیادہ ہے ۔ آپ نے فرمایا نصف دینار؟ میں نے عرض کیا لوگ اس کی مقدرت بھی نہیں رکھتے ۔ فرمایا پھر کتنا ؟ میں نے عرض کیا بس ایک جَو برابر سونا ۔ فرمایا : انک لزھید ، یعنی تم نے تو بڑی کم مقدار کا مشورہ دیا ( ابن جریر ، ترمذی ، مسند ابو یعلیٰ ) ۔ ایک دوسری روایت میں حضرت علی فرماتے ہیں قرآن کی یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا ۔ اس حکم کے آتے ہی میں نے صدقہ پیش کیا اور ایک مسئلہ آپ سے پوچھ لیا ۔ ( ابن جریر ، حاکم ، ابنالمنذر ، عبد بن حمید ) ۔
8: جو لوگ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے تنہائی میں بات کرنے کا وقت مانگتے تھے، بعض اوقات وہ غیر ضرور طور پر آپ کا زیادہ وقت لے لیتے تھے، چونکہ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص آپ سے بات کرتا تو خود سے اُس کی بات نہیں کاٹتے تھے، اس لئے بعض لوگ اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے جن میں کچھ منافقین بھی شامل تھے۔ چنانچہ اس آیت نے یہ حکم دیا تھا کہ جو کوئی شخص آپ سے تنہائی میں بات کرنا چاہے، وہ پہلے کچھ غریبوں کو صدقہ خیرات کر کے آئے۔ البتہ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا تھا کہ اگر کسی کے پاس صدقہ کرنے کی استطاعت نہ ہو تو وہ اس حکم سے مستثنی ہے۔ صدقے کی کوئی مقدار متعین نہیں فرمائی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ تنہائی کا وقت لیا تو ایک دینار صدقہ کیا تھا۔ اس کی ایک مصلحت یہ تھی کہ وہی لوگ تنہائی میں آپ کا وقت لیں جنہیں واقعی ضرورت ہو۔ اگلی آیت میں اس حکم کو منسوخ کردیا گیا جیسا کہ اگلے حاشیہ میں آرہا ہے۔