Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آداب مجلس باہم معاملات اور علمائے حق و باعمل کی توقیر یہاں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ مجلسی آداب سکھاتا ہے ۔ انہیں حکم دیتا ہے کہ نشست و برخاست میں بھی ایک دوسرے کا خیال و لحاظ رکھو ۔ تو فرماتا ہے کہ جب مجلس جمع ہو اور کوئی آئے تو ذرا ادھر ادھر ہٹ ہٹاکر اسے بھی جگہ دو ۔ مجلس میں کشادگی کرو ۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں کشادگی دے گا ۔ اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کیلئے مسجد بنادے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دے گا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو کسی سختی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا ، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ تعالیٰ خود اپنے اس بندے کی مدد پر رہتا ہے اور بھی اسی طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مجلس ذکر کے بارے میں اتری ہے مثلاً وعظ ہو رہا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نصیحت کی باتیں بیان فرما رہے ہیں لوگ بیٹھے سن رہے ہیں اب جو دوسرا کوئی آیا تو کوئی اپنی جگہ سے نہیں سرکتا تاکہ اسے بھی جگہ مل جائے ۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ ایسا نہ کرو ادھر ادھر کھل جایا کرو تاکہ آنے والے کی جگہ ہو جائے ۔ حضرت مقاتل فرماتے ہیں جمعہ کے دن یہ آیت اتری ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن صفہ میں تھے یعنی مسجد کے ایک چھپر تلے جگہ تنگ تھی اور آپ کی عادت مبارک تھی کہ جو مہاجر اور انصاری بدر کی لڑائی میں آپ کے ساتھ تھے آپ ان کی بڑی عزت اور تکریم کیا کرتے تھے اس دن اتفاق سے چند بدری صحابہ دیر سے آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کھڑے ہوگئے آپ سے سلام علیک ہوئی آپ نے جواب دیا پھر اور اہل مجلس کو سلام کیا انہوں نے بھی جواب دیا اب یہ اسی امید پر کھڑے رہے کہ مجلس میں ذرا کشادگی دیکھیں تو بیٹھ جائیں لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا جو ان کیلئے جگہ ہوتی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو نہ رہا گیا نام لے لے کر بعض لوگوں کو ان کی جگہ سے کھڑا کیا اور ان بدری صحابیوں کو بیٹھنے کو فرمایا ، جو لوگ کھڑے کرائے گئے تھے انہیں ذرا بھاری پڑا ادھر منافقین کے ہاتھ میں ایک مشغلہ لگ گیا ، کہنے لگے لیجئے یہ عدل کرنے کے مدعی نبی ہیں کہ جو لوگ شق سے آئے پہلے آئے اپنے نبی کے قریب جگہ لی اطمینان سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے انہیں تو ان کی جگہ سے کھڑا کردیا اور دیر سے آنے والوں کو ان کی جگہ دلوا دی کس قدر ناانصافی ہے ، ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے ان کے دل میلے نہ ہوں دعا کی کہ اللہ اس پر رحم کرے جو اپنے مسلمان بھائی کیلئے مجلس میں جگہ کردے ۔ اس حدیث کو سنتے ہی صحابہ نے فوراً خود بخود اپنی جگہ سے ہٹنا اور آنے والوں کو جگہ دینا شروع کردیا اور جمعہ ہی کے دن یہ آیت اتری ( بن ابی حاتم ) بخاری مسلم مسند وغیرہ میں حدیث ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے ہٹاکر وہاں نہ بیٹھے بلکہ تمہیں چاہئے کہ ادھر ادھر سرک کر اس کیلئے جگہ بنا دو ۔ شافعی میں ہے ، تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے بلکہ کہہ دے کہ گنجائش کرو ۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ کسی آنے والے کیلئے کھڑے ہو جانا جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگ تو اجازت دیتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے سردار کیلئے کھڑے ہو جاؤ ، بعض علماء منع کرتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ لوگ اس کیلئے سیدھے کھڑے ہوں وہ جہنم میں اپنی جگہ بنالے ، بعض بزرگ تفصیل بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سفر سے اگر کوئی آیا ہو تو حاکم کیلئے عہدہ حکمرانی کے سبب لوگوں کا کھڑے ہو جانا درست ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کیلئے کھڑا ہونے کو فرمایا تھا یہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ بنو قریظہ کے آپ حاکم بنائے گئے تھے جب انہیں آتا ہوا دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنے سردار کیلئے کھڑے ہوجاؤ اور یہ ( بطور تعظیم کے نہ تھا بلکہ ) صرف اس لئے تھا کہ ان کے احکام کو بخوبی جاری کرائے واللہ اعلم ۔ ہاں اسے عادت بنالینا کہ مجلس میں جہاں کوئی بڑا آدمی آیا اور لوگ کھڑے ہوگئے یہ عجمیوں کا طریقہ ہے ، سنن کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب اور باعزت کوئی نہ تھا لیکن تاہم آپ کو دیکھ کر وہ کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے ، جانتے تھے کہ آپ اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔ سنن کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہی مجلس کے خاتمہ پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور جہاں آپ تشریف فرما ہوجاتے وہی جگہ صدارت کی جگہ ہو جاتی اور صحابہ کرام اپنے اپنے مراتب کے مطابق مجلس میں بیٹھ جاتے ۔ حضرت الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آپ دائیں جانب ، فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے بائیں اور عموماً حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما آپ کے سامنے بیٹھتے تھے کیونکہ یہ دونوں بزرگ کاتب وحی تھے آپ ان سے فرماتے اور یہ وحی کو لکھ لیا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ مجھ سے قریب ہو کر عقل مند ، صاحب فراست لوگ بیٹھیں پھر درجہ بدرجہ اور یہ انتظام اس لئے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشادات یہ حضرات سنیں اور بخوبی سمجھیں ، یہی وجہ تھی کہ صفہ والی مجلس میں جس کا ذکر ابھی ابھی گزرا ہے آپ نے اور لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹاکر وہ جگہ بدری صحابہ کو دلوائی ، گو اس کے ساتھ اور وجوہات بھی تھیں مثلاً ان لوگوں کو خود چاہئے تھا کہ ان بزرگ صحابہ کا خیال کرتے اور لحاظ و مروت برت کر خود ہٹ کر انہیں جگہ دیتے جب انہوں نے از خود ایسا نہیں کیا تو پھر حکماً ان سے ایسا کرایا گیا ، اسی طرح پہلے کے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے کلمات پوری طرح سن چکے تھے اب یہ حضرات آئے تھے تو آپ نے چاہا کہ یہ بھی بہ آرام بیٹھ کر میری حدیثیں سن لیں اور دینی تعلیم حاصل کرلیں ، اسی طرح امت کو اس بات کی تعلیم بھی دینی تھی کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو امام کے پاس بیٹھنے دیں اور انہیں اپنے سے مقدم رکھیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی صفوں کی درستی کے وقت ہمارے مونڈھے خود پکڑ پکڑ کر ٹھیک ٹھاک کرتے اور زبانی بھی فرماتے جاتے سیدھے رہو ٹیڑھے ترچھے نہ کھڑے ہوا کرو ، دانائی اور عقلمندی والے مجھ سے بالکل قریب رہیں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ ۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے اس حکم کے باوجود افسوس کہ اب تم بڑی ٹیڑھی صفیں کرتے ہو ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ظاہر ہے کہ جب آپ کا یہ حکم نماز کیلئے تھا تو نماز کے سوا کسی اور وقتوں میں تو بطور اولیٰ یہی حکم رہے گا ، ابو داؤد شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفوں کو درست کرو ، مونڈھے ملائے رکھو ، صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑو اپنے بھائیوں کے پاس صف میں نرم بن جایا کرو ، صف میں شیطان کیلئے سوراخ نہ چھوڑو صف ملانے والے کو اللہ تعالیٰ ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ کاٹ دیتا ہے ، اسی لئے سید القراء حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب پہنچتے تو صف اول میں سے کسی ضعیف العقل شخص کو پیچھے ہٹا دیتے اور خود پہلی صف میں مل جاتے اور اسی حدیث کو دلیل میں لاتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مجھ سے قریب ذی رائے اور اعلیٰ عقل مند کھڑے ہوں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر اگر کوئی شخص کھڑا ہوجاتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے اور اس حدیث کو پیش کرتے جو اوپر گزری کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ میں کوئی اور نہ بیٹھے ، یہاں بطور نمونے کے یہ چند مسائل اور تھوڑی حدیثیں لکھ کر ہم آغے چلتے ہیں بسط و تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں نہ یہ موقع ہے ، ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے ایک تو مجلس کے درمیان جگہ خالی دیکھ کر وہاں آکر بیٹھ گئے دوسرے نے مجلس کے آخڑ میں جگہ بنآلی تیسرے واپس چلے گئے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں میں تمہیں تین شخصوں کی بابت خبر دوں ایک نے تو اللہ کی طرف جگہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جگہ دی ، دوسرے نے شرم کی ۔ اللہ نے بھی اس سے حیا کی ، تیسرے نے منہ پھیر لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ کسی کو حلال نہیں کہ دو شخصوں کے درمیان تفریق کرے ، ہاں ان کی خوشنودی سے ہو تو اور بات ہے ( ابوداؤد ترمذی ) امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے ، حضرت ابن عباس حضرت حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں مجلسوں کی کشادگی کا حکم جہاد کے بارے میں ہے ، اسی طرح اٹھ کھڑے ہونے کا حکم بھی جہاد کے بارے میں ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی جب تمہیں بھلائی اور کارخیر کی طرف بلایا جائے تو تم فوراً آجاؤ ، حضرت مقاتل فرماتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں نماز کیلئے بلایا جائے تو اٹھ کھڑے ہو جایا کرو ، حضرت عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں کہ صحابہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آتے تو جاتے وقت ہر ایک کی چاہت یہ ہوتی کہ سب سے آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا میں ہوں ، بسا اوقات آپ کو کوئی کام کاج ہوتا تو بڑا حرج ہوتا لیکن آپ مروت سے کچھ نہ فرماتے اس پر یہ حکم ہوا کہ جب تم سے کھڑے ہونے کو کہا جائے تو کھڑے ہو جایا کرو ، جیسے اور جگہ ہے وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ ۔ پھر فرماتا ہے کہ مجلسوں میں جگہ دینے کو جب کہا جائے تو جگہ دینے میں اور جب چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جانے میں اپنی ہتک نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مرتبہ بلند کرنا اور اپنی توقیر کرانآ ہے اسے اللہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس پر دنیا اور آخرت میں نیک بدلہ دے گا ، جو شخص احکام الٰہیہ پر تواضع سے گردن جھکا دے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور اس کی شہرت نیکی کے ساتھ کرتا ہے ۔ ایمان والوں اور صحیح علم والوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ اللہ کے احکام کے سامنے گردن جھکا دیا کریں اور اس سے وہ بلند درجوں کے مستحق ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ بلند مرتبوں کا مستحق کون ہے اور کون نہیں؟ حضرت نافع بن عبدالحارث سے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات عسفان میں ہوئی ہے حضرت عمر نے انہیں مکہ شریف کا عامل بنایا تھا تو ان سے پوچھا کہ تم مکہ شریف میں اپنی جگہ کسے چھوڑ آئے ہو؟ جواب دیا کہ ابن ابزیٰ کو حضرت عمر فاروق نے فرمایا وہ تو ہمارے مولیٰ ہیں یعنی آزاد کردہ غلام انہیں تم اہل مکہ کا امیر بناکر چلے آئے ہو؟ کہا ہاں اس لئے کہ وہ اللہ کی کتاب کا ماہر اور فرائض کا جاننے والا اور اچھا وعظ کہنے والا ہے ، حضرت عمر نے اس وقت فرمایا سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے ایک قوم کو عزت پر پہنچا کر بلند مرتبہ کرے گا اور بعض کو پست و کم مرتبہ بنا دے گا ۔ ( مسلم ) علم اور علماء کی فضیلت ، جو اس آیت اور دیگر آیات واحادیث سے ظاہر ہے میں نے ان سب کو بخاری شریف کی کتاب العلم کی شرح میں جمع کردیا ہے والحمدللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 اس میں مسلمانوں کو مجلس کے آداب بتلائے جا رہے ہیں مجلس کا لفظ عام ہے جو ہر اس مجلس کو شامل ہے جس میں مسلمان خیر اور اجر کے حصول کے لیے جمع ہوں وعظ و نصیحت کی مجلس ہو یا جمعہ کی مجلس ہو تفسیر القرطبی کھل کر بیٹھو کا مطلب ہے کہ مجلس کا دائرہ وسیع رکھو تاکہ بعد میں آنے والوں کے لے بیٹھنے کی جگہ رہے دائرہ تنگ مت رکھو کہ بعد میں آنے والے کو کھڑا رہنا پڑھے یا کسی بیٹھے ہو‏ئے کو اٹھا کر اس کی جگہ وہ بیٹھے کہ یہ دونوں باتیں ناشائستہ ہیں چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھے اس لیے مجلس کے دائرے کو فراخ اور وسیع کرلو۔ صحیح بخاری۔ 11۔ 2 یعنی اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں وسعت عطا فرمائے گا یا جہاں بھی تم وسعت و فراخی کے طالب ہوگے، مثلاً مکان میں، رزق میں، قبر میں، ہر جگہ تمہیں فراخی عطا فرمائے گا۔ 11۔ 3 یعنی جہاد کے لئے، نماز کے لئے یا کسی بھی عمل خیر کے لئے۔ یا مطلب ہے کہ جب مجلس سے اٹھ کر جانے کو کہا جائے تو فوراً چلے جاؤ۔ مسلمانوں کو یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ صحابہ کرام نبی کی مجلس سے اٹھ کر جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس طرح بعض دفعہ ان لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی جو نبی سے خلوت میں کوئی گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ 11۔ 4 یعنی اہل ایمان کے درجے غیر اہل ایمان پر اور اہل علم کے درجے اہل ایمان پر بلند فرمائے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے ساتھ علوم دین سے واقفیت مزید رفع درجات کا باعث ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] آداب مجلس :۔ کسی مجلس یا اجتماع میں دو یا چند آدمیوں کا الگ ہو کر کانا پھوسی کرنا بھی آداب مجلس کے خلاف ہے۔ اسی نسبت سے اس آیت میں چند مزید آداب مجلس کا خیال رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کوئی شخص دوسرے کو اٹھا کر وہاں خود نہ بیٹھے۔ نیز فرمایا کہ (جب جگہ تنگ ہو تو) کھل کر نہ بیٹھو اور آنے والوں کو جگہ دو ۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس) - ٢۔ سیدنا جابر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے بلکہ یوں کہے کہ پھیل جاؤ (مسلم۔ کتاب السلام۔ باب من اتٰی مجلسا فوجد فرجۃ فیجلس۔۔ )- ٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص جب (کسی ضرورت کے لیے) اپنی جگہ سے اٹھے پھر واپس آئے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے (مسلم۔ کتاب السلام۔ باب اذاقام من مجلسہ ثم عاد الیہ فھواحق بہ)- [١٣] یعنی اللہ تمہاری دل کی تنگیوں اور مادی تنگیوں کو دور کردے گا اور اپنی رحمت کے دروازے کشادہ کردے گا۔- [١٤] اس آیت، مذکورہ بالا احادیث اور بعض دیگر نصوص سے جو آداب مجلس مسلمانوں کو سکھائے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔- ١۔ مجلس میں پہنچ کر اہل مجلس کو سلام کہا جائے۔- ٢۔ پھر جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ دوسروں کو تنگ نہ کرنا چاہیے۔ نہ اس بات میں اپنی ہتک محسوس کرنا چاہیے۔- ٣۔ اہل مجلس جب دیکھیں کہ جگہ تنگ ہو رہی ہے اور نئے آنے والوں کو جگہ نہیں مل رہی تو انہیں مجلس کا حلقہ وسیع کرلینا چاہیے۔ یا اگر جمعہ وغیرہ کا اجتماع ہو تو سکڑ کر اور سمٹ کر بیٹھ جانا چاہیے۔ تاکہ آنے والوں کے لیے جگہ بن جائے۔- ٤۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ مجلس میں رسول اللہ کے قریب ہو کر بیٹھے یا جیسے خطبہ جمعہ میں اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ امام کے قریب ہو کر بیٹھیں۔ تو ایسی صورت میں کسی کے لئے، خواہ وہ عزت اور مرتبہ میں بڑا ہو، یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔- ٥۔ حفظ مراتب کا بھی ایک مقام ہے۔ اگر کوئی چھوٹا کسی بڑے کو آتے دیکھ کر از راہ تواضع اور آنے والے کا احترام کرتے ہوئے اپنی جگہ اس کے لیے چھوڑ کر خود پیچھے ہٹ جائے تو یہ چیز چھوٹے کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بن جائے گی۔ اور رسول اللہ کی مجلس میں اکثر ایسا ہوتا تھا۔- ٦۔ اگر کوئی شخص مثلاً خطبہ جمعہ میں وضو ٹوٹ جانے یا کسی اور وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھ جاتا ہے اور وضو کرکے واپس آتا ہے تو کوئی دوسرا اس کی جگہ پر قبضہ نہ جمالے۔ بلکہ پہلا شخص ہی اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔- ٧۔ اگر میر مجلس مجلس کو برخاست کرنے اور چلنے جانے کا حکم دے یا کسی ایک شخص کو کسی مصلحت کی بنا پر چلے جانے کو کہے تو اسے اس حکم میں نہ عار محسوس کرنی چاہیے اور نہ اسے اس کی تعمیل میں اپنی توہین یا ہتک محسوس کرنا چاہیے۔- ٨۔ اگر کھانا کھانے کی مجلس ہو تو کھانے سے فراغت کے بعد باتوں میں مشغول ہو کر میزبان کو پریشان اور تنگ نہ کرنا چاہیے بلکہ فراغت کے بعد جلد اجازت لے کر رخصت ہوجانا چاہیے۔- [١٥] مجالس میں نظم وضبط :۔ یہ نہ سمجھو کہ مجلس میں دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم میر مجلس سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گرگیا یا اگر تمہیں اٹھ کر چلے جانے کے لیے کہا گیا تو اس میں تمہاری توہین ہوگئی۔ رفع درجات کا اصل مقصد ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کون میر مجلس کے قریب بیٹھا ہے اور کون اس سے دور ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ احکام یا آداب مجلس صرف دور نبوی کی مجالس سے ہی مختص نہیں بلکہ آج بھی ان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ نظم و ضبط قائم رہے اور ہر ایک کو درجہ بدرجہ استفادہ کا موقع ملے۔ اسلام ابتری کے بجائے انتہائی نظم اور شائستگی سکھاتا ہے۔ پھر جب عام مجالس کے متعلق نظم و ضبط کے ایسے احکام ہیں تو میدان جہاد اور صفوف جنگ میں تو اس سے بڑھ کر نظم و ضبط اور امیر کی اطاعت ضروری ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ٰیٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا ۔۔۔۔۔: پچھلی آیات میں مجلس کے آداب میں سے سرگوشی سے ممانعت کا ادب بیان ہوا ، اس آیت میں اس کے مزید کچھ آداب بیان ہوئے ہیں ۔ ان آداب کی ضرورت اس لیے پڑی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں ہر شخص آپ کے زیادہ سے زیادہ قریب رہنے کی خواہش رکھتا تھا، جس سے مجلس میں تنگی پیش آتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ادب سکھایا کہ جب حاضرین مجلس کی سہولت کے لیے کہا جائے کہ کھل جاؤ ، تا کہ سب لوگ آسانی سے کھلے ہو کر بیٹھ سکیں تو کھل جاؤ ، صرف میر مجلس کے قریب کے پیش نظر ایک دوسرے کے اوپر چڑھ کر بیٹھے رہنے پر اصرار نہ کرو ۔ اسی طرح اگر مجلس میں کچھ اور لوگ آجائیں اور ان کی جگہ بنانے کے لیے کھل جانے کے لیے کہا جائے تو کھل جاؤ اور دل میں تنگی محسوس نہ کرو۔- ٢۔ یَفْسَحِ اللہ ُ لَکُمْ :” یفسح “ فعل مضارع معلوم ہے جو ” تفسحوا “ امر کا جواب ہونے کی وجہ سے محروم ہے ، آگے ملانے کے لیے اسے کسرہ دیا گیا ہے ، یعنی تم مجلس میں کشادگی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے فراخی کر دے گا ، اس فراخی میں سب سے پہلے فراخی تو دل کی فراخی ہے کہ خوش دلی سے کھل جاؤ گے تو دلوں کی تنگی دور ہوگی اور ان میں بھائیوں کے لیے وسعت پیدا ہوگی۔ اس کے علاوہ بھی اللہ دنیا و آخرت کے ہر معاملے میں تمہیں فراخی عطا فرمائے گا ، کیونکہ ہر عمل کا بدلہ ہی جیسا ہوتا ہے ، جیسا کہ عثمان بن عفان (رض) نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( من بنی مسجد اللہ بنی اللہ لہ فی الجنۃ مثلہ) (مسلم ، المساجد ، باب فضل بناء المساجد والحث علیھا : ٢٥، ٥٣٣، بخاری : ٤٥٠)” جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے اللہ اس کے لیے اس کی مثال جنت میں (گھر) بنائے گا “۔ اور ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( من نفس عن مومن کر بۃ من کرب الدنیا نفس اللہ عنہ کر بۃ من کرب یوم القیامۃ ومن یسر علی معسر یسر اللہ علیہ فی الدنیا والآخرۃ ومن ستر مسلما ًسترہ اللہ فی الدنیا والآخرۃ واللہ فی عون لعبد ما کان العبدما کان العبد فی عون اخیہ) (مسلم ، الذکر، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن و علی الذکر : ٢٦٩٩)” جو شخص کسی مومن سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا ۔ اور جو کسی تنگی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جو شخص کسی مسلم (کے عیبوں) پر پردہ ڈالے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس ( کے عیبوں) پر پردہ ڈالے گا اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے “۔- ٣۔ وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا :” نشر ینشز نشزا “ (ض، ن)” الرجل عن مکانہ “ آدمی کا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہونا ۔ جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہوجاؤ تو اٹھ کھڑے ہوجاؤ ، یعنی جب مجلس کا امیر یا مجلس کے منتظمین حاضرین میں سے کسی کے علم و فضل اور شرف و مرتبہ کے پیش نظر اسے امیر کے قریب لانے کے لیے کہیں تو اسے چاہیے کہ اٹھ جائے اور اپنے دل میں کوئی تنگی یا ملال نہ لائے ، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( لیلنی منکم اولو الاحلام والنھی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم) (مسلم ، الصلاۃ ، باب تسویۃ الصفوف واقامنھا۔۔۔ ٤٣٢)” تم میں سے میرے قریب وہ لوگ ہوں جو سمجھ اور عقل والے ہوں ، پھر جو ان سے ( سمجھ اور عقل میں) قریب ہوں “۔ اسی طرح اگر امیر کسی شخص سے یا کچھ لوگوں سے مشورہ کرنے کے لیے یا ان کی بات سننے کے لیے کسی کو اس کی جگہ سے اٹھ جانے کے لیے کہے تو اسے کسی ملال کے بغیر اٹھ جانا چاہیے۔ یہ ادب اس لیے مقرر فرمایا کہ بعض اوقات عام سمجھ والے مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کی وجہ سے یا منافقین اپنے خبث باطن کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ساری جگہ گھیر لیتے ، پھر کوئی بزرگ صحابی مثلاً ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما وغیرہ آتے تو ان کے لیے جگہ نہ چھوڑتے اور اگر اٹھنے کے لیے کا جاتا تو برا مناتے۔ ظاہر ہے اگر اس ادب کا خیال نہ رکھا جائے تو کسی امیر کی کوئی مجلس صحیح طریقے سے چل ہی نہیں سکتی ۔ اسی طرح اگر میرا مجلس کو برخاست کر دے اور سب کو اٹھ جانے کے لیے کہے تو انہیں اٹھ جانا چاہیے اور اس میں اپنی توہین محسوس نہیں کرنی چاہیے۔- ٤۔ یَرْفَعِ اللہ ُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔۔۔۔:” یرفع “ فعل مضارع ہے جو ” فانشزوا “ امر کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے کسرہ اسے آگے ملانے کے لئے دیا گیا ہے۔ یعنی جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہوجاؤ تو اٹھ کھڑے ہوجاؤ ۔ جب تم اللہ کا حکم سمجھ کر تواضع اختیار کرو گے اور اٹھنے میں کسی طرح کی توہین یا کسر شان کا خیال دل میں نہیں لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو درجوں میں بلندکر دے گا جو ایمان لائے ، کیونکہ ایمان کا تقاضا تواضع ہے اور ایمان اور کبر کبھی جمع نہیں ہوسکتے ۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من کبر ولا یدخل النار من کان فی قلبہ مثقال خردل من ایمان) (ابو داؤد ، اللباس ، باب ما جاء فی الکبر ، ٤٠٩١، وقال الالبانی صحیح)” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کبر ہوگا اور وہ شخص آگ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہوگا “۔- ٥۔ یَرْفَعِ اللہ ُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا : بظاہر یہاں الفاظ یہ ہونے چاہئیں تھے کہ ” یرفع اللہ الذین نشزوا منکم “ یعنی ” جب تمہیں کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہوجاؤ تو اٹھ کھڑے ہوجاؤ) تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اٹھ کھڑے ہوں گے درجات میں بلند کر دے گا “۔ مگر اللہ تعالیٰ نے منافقین کو نکالنے کیلئے ” امنوا منکم “ کی قید لگا دی کہ منافقین اس حکم پر اٹھ کھڑے ہوں تب بھی انہیں رفع درجات کا شرف حاصل نہیں ہوسکتا ، ان کا ٹھکانہ ” الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج “ (آگ کا سب سے نچلا درجہ) ہی ہے۔ دیکھئے سورة ٔ نساء (١٤٥)- ٨۔ وَالَّذِیْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط : یہ ” الذین امنوا “ ہی کی صفت ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام (رض) کو ” الذین امنوا العلم “ قرار دیا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ محمد (١٦) کی تفسیر اور ایمان کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ بھی علم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ، جیسا کہ فرمایا :(فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللہ ُ ) (محمد : ١٩)” پس جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں “۔ ہاں، علم اور ایمان کے مدارج میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ اسی طرح جنت میں علم کے لحاظ سے اہل ایمان کے مدارج میں بلندی ہوگی ۔ عبد اللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یقال لصاحب القرآن اقرا وارتق ورتل کما کنت ترتل فی الدنیا فان منزلک عند آخر آیۃ تقروھا) (ابو داؤد، الوتر ، باب کیف یستحب الترتیل فی القراء ۃ : ٤٢١٤، وقال الالبانی حسن صحیح)” قرآن والے شخص سے کہا جائے گا پڑھ اور چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا ، تیرا مقام آخری آیت کے پاس ہے جسے تو پڑھے گا “۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔ (ان اللہ یرفع بھذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین “ ( مسلم صلاۃ المسافرین ، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔۔۔۔: ١٤١٢، عن عمر (رض) ) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا درجات میں بلندی عطاء فرمائے گا ، وہ جس قدر ایمان اور علم میں زیادہ ہوں گے اتنے ہی درجوں میں بلند ہوں گے۔ اس آیت سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔- ٧۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ” الذین امنوا منکم “ اور ” والذین اوتوا العلم “ کو عطف کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ، جو مغایرت کے لیے ہوتا ہے ، تو یہ دونوں ایک ہی موصوف کی صفت کیسے ہوسکتے ہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں موصوف میں مغایریت مراد نہیں صفات میں مغایرت مراد ہے اور بعض اوقات ایک ہی موصوف کی صفات اس طرح بھی لائی جاتی ہیں ، جیسا کہ سورة ٔ اعلیٰ میں ہے :(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی وَ الَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی وَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی ) (الاعلیٰ : ١ تا ٤)” اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے ، وہ جس نے پیدا کیا ، پس درست بنایا ۔ اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا ، پھر ہدایت کی ، اور وہ جس نے چار اگایا “۔- ٨۔ وَ اللہ ُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ : یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے پوری طرح با خبر ہے کہ تم اٹھنے کا حکم ملنے پر خوش دلی سے اٹھ کھڑے ہوتے ہو یا نفاق اور کبر کی وجہ سے مجبوراً اٹھتے ہو اور وہ تمہیں تمہارے عمل کے مطابق ہی جزا دے گا ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بعض آداب مجلس :- (آیت) (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا) الایتہ،- یہ حکم عام مجلس کا ہے جہاں مسلمانوں کا اجتماع ہو کہ جب مجلس میں کچھ لوگ بعد میں آجائیں تو مسلمان ان کیلئے جگہ دینے کی کوشش کریں اور سمٹ کر بیٹھ جائیں، ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ وسعت پیدا فرما دیں گے، یہ وسعت آخرت میں تو ظاہر ہی ہے، کچھ بعید نہیں کہ دنیوی معیشت میں بھی یہ وسعت حاصل ہو۔ - اس آیت میں دوسرا حکم آداب مجلس کے متعلق یہ کہ وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یعنی ” جب ( تم میں سے کسی سے) کہا جائے کہ مجلس سے اٹھ جاؤ تو اسے اٹھ جانا چاہئے “ اس آیت میں لفظ قیل مجہول استعمال فرمایا ہے اس کا ذکر نہیں کہ یہ کہنے والا کون ہو، مگر احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنے والے شخص کو اپنے لئے جگہ کرنے کے واسطے کسی کو اس کی جگہ سے اٹھانا جائز نہیں۔- صحیحین اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا یقیم الرجل الرجل من مجلسہ فیجلس فیہ ولکن تفسحوا وتوسعوا یعنی ” کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے، بلکہ مجلس میں کشادگی پیدا کر کے آنے والے کو جگہ دے دیا کرو (ابن کثیر)- اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو اس کی جگہ سے اٹھ جانے کے لئے کہنا آنے والے شخص کے لئے تو جائز نہیں اس لئے ظاہر یہ ہے کہ اس کا کہنے والا امیر مجلس یا مجلس کا انتظام کرنے والے افراد ہو سکتے ہیں، تو مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اگر امیر مجلس یا اس کی طرف سے مقرر کردہ منتظمین کسی کو اس کی جگہ سے اٹھ جانے کیلئے کہیں تو ادب مجلس یہ ہے کہ ان سے مزاحمت نہ کرے، اپنی جگہ سے اٹھ جائے، کیونکہ بعض اوقات خود صاحب مجلس کسی ضرورت سے خلوت اختیار کرنا چاہتا ہے، یا کچھ مخصوص لوگوں سے کوئی راز کی بات کرنا چاہتا ہے، یا بعد میں آنے والے حضرات کے لئے اس کے سوا کوئی انتظام نہیں پاتا کہ بعض بےتکلف لوگوں کو مجلس سے اٹھاوے جن کے متعلق معلوم ہو کہ ان کا کوئی نقصان مجلس سے اٹھنے میں نہیں ہوگا، یہ دوسرے وقت میں استفادہ کرسکیں گے۔- البتہ صاحب مجلس یا منتظمین مجلس کے لئے یہ لازم ہے کہ طریقہ ایسا اختیار کریں کہ اٹھنے والا اپنی خفت محسوس نہ کرے، اس کو ایذا نہ پہنچے۔- اور جس واقعہ میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفہ مسجد میں تشریف رکھتے تھے، یہ جگہ حاضرین سے پر ہوچکی تھی، بعد میں بعض اکابر صحابہ جو شرکاء بدر ہونے کے سبب قابل احترام زیادہ تھے وہ پہنچے اور جگہ نہ ہونے کے سبب کھڑے رہے، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے تو عام حکم یہ دیا کہ ذرا کھسک کر مجلس میں کشادگی پیدا کرو اور ان کو جگہ دے دو اور بعض حضرات صحابہ کو اٹھ جانے کے لئے بھی فرمایا، جن کو مجلس سے اٹھایا ان میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ ہر وقت کے حاضر باش لوگ ہوں جن کے اس وقت کی مجلس سے اٹھ جانے میں کوئی بڑا نقصان نہیں تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے جب مجلس میں وسعت کرنے اور سمٹ کر بیٹھنے کا حکم دیا تو کچھ لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، ان تادیباً مجلس سے اٹھ جانے کا حکم دیا ہو۔ - بہرحال اس آیت اور احادیث واردہ سے آداب مجلس کے متعلق ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ اہل مجلس کو چاہئے کہ بعد میں آنے والوں کو جگہ دینے کی کوشش کریں اور دوسری بات آنے والوں کے لئے یہ ثابت ہوئی کہ وہ کسی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائیں، تیسری بات صاحب مجلس کے لئے یہ ثابت ہوئی کہ وہ ضرورت سمجھے تو بعض لوگوں کو مجلس سے اٹھا دینے کی بھی اس کو گنجائش ہے اور بعض دوسری روایات حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والوں کے لئے ادب یہ ہے کہ پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں میں گھسنے کے بجائے کسی کنارے پر بیٹھ جائے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں تین آنے والے شخصوں کا ذکر ہے ان میں ایک وہ بھی ہے جو مجلس میں جگہ نہ پانے کی وجہ سے ایک گوشہ میں بیٹھ گیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی پھر تعریف وثناء فرمائی۔- مسئلہ : مجلس کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دو شخصوں کے درمیان بغیر ان کی اجازت کے داخل نہ ہو کہ بعض اوقات دونوں کے یک جا بیٹھنے میں ان کی کوئی خاص مصلحت ہوتی ہے، حضرت اسامہ بن زید لیثی کی روایت ابوداؤد و ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لایحل لرجل ان یفرق بین اثنین الا باذنھما یعنی ” کسی شخص کے لئے حلال نہیں کہ دو شخص جو ملے بیٹھے ہیں ان کے درمیان تفریق پیدا کرے جب تک کہ ان سے ہی اجازت نہ ملے “ (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللہُ لَكُمْ۝ ٠ ۚ وَاِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۝ ٠ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝ ١١- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- فسح - الفُسْحُ والْفَسِيحُ : الواسع من المکان، والتَّفَسُّحُ : التّوسّع، يقال : فَسَّحْتُ مجلسه فَتَفَسَّحَ فيه . قال تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ [ المجادلة 11] ، ومنه قيل : فَسَّحْتُ لفلان أن يفعل کذا، کقولک : وسّعت له، وهو في فُسْحَةٍ من هذا الأمر .- ( ف س ح ) الفسح والفسیح کے معنی وسیع جگہ کے ہیں اور تفسح کے معنی وسیع ہونے کے چناچہ محاورہ ہے ۔ فستحت مجلسۃ میں نے اس کے لئے محفل میں جگہ کردی تو وہ اس میں کھل کر بیٹھ گیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ [ المجادلة 11] اے مومنوں جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھ جایا کرو خدا تم کو کشادگی بخشے گا ۔ اسی سے فسحت لفلان ان یفعل کذا کا محاورہ ہے جس کے معنی وسعت لہ کے ہیں ھونی فسحۃ من ھذا الامر وہ اس معاملہ میں آزاد ہے - جلس - أصل الجَلْس : الغلیظ من الأرض، وسمي النجد جلسا لذلک، وروي «أنّه عليه السلام أعطاهم معادن القبلية غوريّها وجَلْسِيّها»وجَلَسَ أصله أن يقصد بمقعده جلسا من الأرض، ثم جعل الجُلُوس لکل قعود، والمَجْلِس : لكلّ موضع يقعد فيه الإنسان . قال اللہ تعالی: إِذا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ [ المجادلة 11] .- ( ج ل س ) الجلس اس کے معنی سخت زمین کے ہیں ۔ اسی لحاظ سے نجد یعنی بلند زمین کو جلس کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت نے انہیں و بلال بن حارث ) قبلۃ کانیں نشیں اور بلند سب کی سب ( بطور جاگیر ) عطا کردیں ۔ اصل میں جلس کے معنی انسان کے اپنی مقعد کو سخت زمین پر رکھنے کے ہیں ۔ پھر محض بیٹھنے کو جلوس اور بیٹھنے کی جگہ کو مجلس کہا جاتا ہے اور مجلس کی جمع مجالس آتی ہے قرآن میں ہے : ۔إِذا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ [ المجادلة 11] جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھا کرو خدا تم کو کشادگی بخشے گا ۔- نشز - النَّشْزُ : المُرْتَفِعُ من الأرضِ ، ونَشَزَ فلانٌ: إذا قصد نَشْزاً ، ومنه : نَشَزَ فلان عن مقرِّه : نَبا، وكلُّ نابٍ نَاشِزٌ. قال تعالی: وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة 11] ويعبّر عن الإحياء بِالنَّشْزِ والإِنْشَازِ ، لکونه ارتفاعا بعد اتِّضاع . قال تعالی: وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة 259] ، وقُرِئَ بضَمِّ النون وفَتْحِهَا وقوله تعالی: وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء 34] ونُشُوزُ المرأة : بُغْضُها لزَوْجها ورفْعُ نفسِها عن طاعتِه، وعَيْنِها عنه إلى غيره، وبهذا النَّظر قال الشاعر :إِذَا جَلَسَتْ عِنْدَ الإمامِ كأَنَّهَا ... تَرَى رُفْقَةً من ساعةٍ تَسْتَحِيلُهَا وعِرْقٌ نَاشِزٌ. أيْ : نَاتِئٌ.- ( ن ش ز ) النشز۔ بلند زمین کو کہتے ہیں ۔ اور نشز فلان کے معنی بلند زمین کا قصد کرنے کے ہیں ۔ اسی سے نشز فلان عن مقرہ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی کے اپنی قرارگاہ سے اوپر ابھر آنے کے ہیں ۔ اور ہر اوپر اٹھنے والی چیز کو ناشز کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو۔ اور نشز ونشاز کے معنی زندہ کرنا ۔۔۔ بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ زندگی میں بھی ایک طرح کا ابھار پایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة 259] اور ( وہاں ) گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکہ جوڑ دیتے ہیں اور ان پر ( کس طرح ) گوشت ( پوست) چڑھادیتے ہیں ۔ اور نشرھا کے نون پر ضمہ اور فتحۃ دونوں جائز ہیں ۔ اور نشوزا المرءۃ کے معنی عورت کے اپنے شوہر کو برا سمجھنے اور سرکشی کرنے اور کسی دوسرے مرد پر نظر رکھنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء 34] اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی ( اور بدخوئی ) کرنے لگی ہیں ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (426) اذا جلست عندا الامام کانھا تریٰ رفقۃ من ساعۃ تستحیلھا اور عرق ناشز کے معنی پھولی ہوئی رگ کے ہیں ۔- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛- درج - الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] - ( د ر ج ) الدرجۃ - : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امتداد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق منزلہ رفیع یعنی - بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

آداب مجلس - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوا اے ایمان والو جب تم سے یہ کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کردیا کرو اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا) قتادہ کہتے ہیں کہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے چناچہ انہیں جگہ کھول دینے کا حکم دیا گیا۔- حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس سے قتال کی مجلس مراد ہے۔ قتادہ نے قول باری (و اذا قیل انشزوا فانشزوا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ جائو تو اٹھ جایا کرو) کی تفسیر میں کہا ہے کہ جب تمہیں کسی کار خیر کی دعوت دی جائے تو اٹھ کھڑے ہوجایا کرو۔- ایک قول کے مطابق (انشووا) کے معنی ہیں ” مجلس میں بلند ہوجایا کرو۔ “ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اہل علم کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی لوگ رفعت اور بلندی کے زیادہ حق دار ہیں۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل علم کی نشستوں کو دوسرے لوگوں کی نشستوں سے بلند رکھتے تھے تاکہ لوگوں کے سامنے آپ کے نزدیک اہل علم کی فضیلت ومنزلت واضح ہوجائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی اسی طریق کار کو اپنانا واجب ہے۔- اہل علم کا مرتبہ - قول باری ہے (یرفع اللہ الذین امنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات، اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے جنہیں علم عطا ہوا ہے درجے بلند کردے گا)- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی یہی ارشاد ہے (لیلینی منکم اولوا الاحلام والنھیٰ ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم، مجھ سے وہ لوگ قریب رہیں جو تم میں سے سمجھدار اور عقلمند ہوں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب اور پھر وہ لوگ جو ان لوگوں کے قریب ہوں ) آپ نے سمجھدار اور عقلمند لوگوں کو سب سے اونچے مرتبے پر رکھا کیونکہ آپ نے انہیں وہ مرتبہ عطا کیا جو مرتبہ نبوت سے متصل تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے ایمان والو جب تم سے نبی اکرم فرمائیں کہ مجلس میں جگہ کھول دو تو تم جگہ کھول دیا کرو اللہ تعالیٰ آخرت اور جنت میں تم پر کشادگی فرمائے گا یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جس کا واقعہ سورة حجرات میں گزر چکا ہے۔- اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت اصحاب بدر میں سے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان ہی میں سے ثابت بن قیس بن شماس بھی ہیں، واقعہ یہ پیش آیا کہ یہ حضرات نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ جمعہ کے دن حضرت صفیہ کے چبوترے پر تشریف فرما تھے تو ان حضرات کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملی یہ مجلس کے کونے پر کھڑے ہوگئے تو رسول اکرم نے ان لوگوں سے جو بدری نہیں تھے فرمایا اے فلاں تم اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاؤ اور فلاں تم اپنی جگہ سے ہٹ جاؤ تاکہ بدری حضرات اس جگہ پر بیٹھ جائیں کیونکہ آپ بدر والوں کی تعظیم کیا کرتے تھے تو جن حضرات کو آپ نے مجلس سے کھڑا کیا تھا آپ نے ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔- اور جب تم سے کہا جائے کہ نماز و جہاد اور ذکر خداوندی میں اٹھ کھڑے ہوا کرو اللہ تعالیٰ تم میں ایمان والوں کے اور ان لوگوں کے جن کو ایمان کے ساتھ علم دین عطا ہوا ہے ظاہر و باطن میں درجے بلند کرے گا کیونکہ وہ مومن جو کہ عالم ہو وہ اس مومن سے افضل ہے جو کہ عالم نہ ہو لہذا ان مومنین کے جو عالم ہیں جنت میں غیر عالموں سے درجے بلندے کرے گا اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ (الخ)- قتادہ سے روایت ہے کہ منافقین جب کسی کو آتا ہوا دیکھتے تو رسول اکرم کے پاس اپنی مجلس میں پھیل کر بیٹھ جاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت جمعہ کے دن نازل ہوئی وقعہ یہ پیش آیا کہ اصحاب بدر میں سے کچھ حضرات آئے اور جگہ تنگ تھی اور مجلس والوں نے بھی ان کو جگہ نہ دی اور وہ حضرات کھڑے رہے نتیجہ یہ ہوا کہ رسول اکرم نے اہل مجلس میں سے کچھ لوگوں کو اٹھا کر ان کی جگہ ان حضرات کو بٹھا دیا اس پر اس اٹھنے والی جماعت کو ناگواری ہوئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١ یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَـکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَـکُمْ ” اے مسلمانو جب تمہیں کہا جائے کہ مجالس میں کھل کر بیٹھو تو کھل جایا کرو ‘ اللہ تمہارے لیے کشادگی پیدا کر دے گا۔ “- یہ سمجھانے کا بہت عمدہ انداز ہے۔ یہ نصیحت بھی دراصل منافقین کے ایک مخصوص طرزعمل کی وجہ سے کی جارہی ہے۔ منافقین کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفلوں میں ٹولیوں کی صورت میں باہم جڑکر بیٹھتے تھے تاکہ درمیان میں کوئی اور (سچا مسلمان) نہ بیٹھ سکے۔ ایسے الگ حلقے بنا کر محفل کے دوران وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات پر اپنی مرضی کے تبصرے کرتے اور استہزائیہ فقرے چست کرتے رہتے ۔ ان کے اس طرزعمل کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ عمومی ہدایت جاری کی گئی کہ محفل میں حلقے بنا کر بیٹھنے کے بجائے کھل کر بیٹھا کرو تاکہ معلوم ہو کہ یہ ایک اجتماع ہے۔- وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا ” اور جب کہا جائے کہ اٹھ جائو تو اٹھ جایا کرو “- اس حکم کا باعث بھی منافقین کا طرزعمل ہی تھا۔ ان لوگوں کا معمول تھا کہ وہ مجلس برخاست ہوجانے کے بعد بھی ٹولیوں کی صورت میں اسی جگہ پر بیٹھے محو گفتگو رہتے تھے۔ فرض کریں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو کسی ضروری مشورے کے لیے بلایا۔ اس پر سب لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے ‘ ضروری گفتگو ہوئی اور صلاح و مشورے کا مرحلہ طے ہوگیا۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفل کو برخاست کرنے کا حکم دے کر وہاں سے تشریف لے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر سب مسلمان بھی چلے گئے ‘ مگر یہ منافقین ہیں کہ ابھی بھی ٹولیوں کی صورت میں اسی جگہ پر بیٹھے سرگوشیوں میں مصروف ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں نہ صرف اجتماعیت کے نظم و ضبط کے خلاف تھیں بلکہ ان سے بہت سی غلط فہمیاں بھی جنم لے سکتی تھیں۔ اس لیے یہ حکم دیا گیا کہ جب مجلس برخاست کرنے کا کہہ دیا جائے تو وہاں سے اٹھ جایا کرو۔- یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ” اللہ بلند فرما دے گا ان لوگوں کے درجات جو تم میں سے واقعی ایمان والے ہیں اور جن کو حقیقی علم عطا ہوا ہے۔ “- وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔ ” اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :26 اس کی تشریح سورہ کے دیباچے میں کی جاچکی ہے ۔ بعض مفسرین نے اس حکم کو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس تک محدود سمجھا ہے ۔ لیکن جیسا کہ امام مالک نے فرمایا ہے ، صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام مجلسوں کے لیے یہ ایک عام ہدایت ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول نے اہل اسلام کو جو آداب سکھائے ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کسی مجلس میں پہلے سے کچھ لوگ بیٹھے ہوں اور بعد میں مزید کچھ لوگ آئیں ، تو یہ تہذیب پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں میں ہونی چاہیے کہ وہ خود نئے آنے والوں کو جگہ دیں اور حتیٰ الامکان کچھ سکڑ اور سمٹ کر ان کے لیے کشادگی پیدا کریں ، اور اتنی شائستگی بعد کے آنے والوں میں ہونی چاہیے کہ وہ زبردستی ان کے اندر نہ گھسیں اور کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کرے ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لایقیم الرجل الرجل من مجلسہ فیجلس فیہ و لکن تفسحوا وتوسعوا ۔ کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے بلکہ تم لوگ خود دوسروں کے لیے جگہ کشادہ کرو ۔ ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ) ۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : لا یحل لرجل ان یفرق بین اثنین الا باذنہما ۔ کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر دھس جائے ( مسند احمد ، ابو داؤد ، ترمصی ) ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :27 عبدالرحمان بن زید بن اسلم کا بیان ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں دیر تک بیٹھے رہتے تھے اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ آخر وقت تک بیٹھے رہیں ۔ اس سے بسا اوقات حضور کو تکلیف ہوتی تھی ، آپ کے آرام میں بھی خلل پڑتا تھا اور آپ کے کاموں کا بھی حرج ہوتا تھا ۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جب تم لوگوں سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جاؤ ( ابن جریر و ابن کثیر ) ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :28 یعنی یہ نہ سمجھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم آپ سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گر گیا ، یا اگر مجلس برخاست کر کے تمہیں اٹھ جانے کے لیے کہا گیا تو تمہاری کچھ ذلت ہو گئی ۔ رفع درجات کا اصل ذریعہ ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کس کو مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا ، اور کون زیادہ دیر تک آپ کے پاس بیٹھا ۔ کوئی شخص اگر آپ کے قریب بیٹھ گیا ہو تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسے بڑا مرتبہ مل گیا ۔ بڑا مرتبہ تو اسی کا رہے گا جس نے ایمان اور علم کی دولت زیادہ پائی ہے ۔ اسی طرح کسی شخص نے اگر زیادہ دیر تک بیٹھ کر اللہ کے رسول کو تکلیف دی تو اس نے الٹا جہالت کا کام کیا ۔ اس کے درجے میں محض یہ بات کوئی اضافہ نہ کر دے گی کہ اسے دیر تک آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا ۔ اس سے بدرجہا زیادہ بلند مرتبہ اللہ کے ہاں اس کا ہے جس نے آپ کی صحبت سے ایمان اور علم کا سرمایہ حاصل کیا اور وہ اخلاق سیکھے جو ایک مومن میں ہونے چاہییں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد نبوی کے ساتھ اس چبوترے پر تشریف فرما تھے جسے صفہ کہا جاتا ہے۔ آپ کے ارد گرد بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ ایسے بزرگ صحابہ آئے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، اور ان کا درجہ اونچا سمجھا جاتا تھا۔ ان کو مجلس میں بیٹھنے کی جگہ نہ ملی تو وہ کھڑے رہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شرکائے مجلس سے فرمایا کہ وہ ذرا سمٹ سمٹ کر آنے والوں کے لئے جگہ پیدا کریں، اس کے باوجود ان کے لئے جگہ کافی نہ ہوئی تو آپ نے بعض شرکائے مجلس سے فرمایا کہ وہ اٹھ جائیں، اور آنے والوں کے لئے جگہ خالی کردیں۔ اس پر کچھ منافقین نے بُرا منایا کہ لوگوں کو مجلس سے اٹھایا جا رہا ہے۔ عام طور سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ معمول نہیں تھا، لیکن شاید کچھ منافقین نے آنے والوں کو جگہ دینے میں تردد کیا ہو، اس لئے آپ نے اُنہیں اٹھا دیا ہو۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں ایک تو مجلس کا عام حکم بیان فرمایا گیا کہ آنے والوں کے لئے گنجائش پیدا کرنی چاہئے، اور دُوسرے یہ حکم بھی واضح کردیا گیا کہ اگر مجلس کا سربراہ کسی وقت محسوس کرے کہ آنے والوں کے لئے جگہ خالی کرنی چاہئے تو وہ مجلس میں پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ وہ اُٹھ کر نئے آنے والوں کو بیٹھنے کی جگہ دیں۔ البتہ کوئی نیا آنے والا خود کسی کو اٹھنے پر مجبور نہیں کرسکتا، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہی تعلیم مذکور ہے۔