10۔ 1 یعنی اثم وعدوان اور معصیت رسول پر مبنی سرگوشیاں یہ شیطانی کام ہیں، کیونکہ شیطان ہی ان پر آمادہ کرتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے سے مومنوں کو غم میں مبتلا کرے۔ 10۔ 2 لیکن یہ سرگوشیاں اور شیطانی حرکتیں مومنوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں الا یہ کہ اللہ کی مشیت ہو اس لیے تم اپنے دشمنوں کی ان اوچھی حرکتوں سے پریشان نہ ہوا کرو بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو اس لیے کہ تمام معاملات کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے نہ کہ یہود اور منافقین جو تمہیں تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں سرگوشی کے سلسلے میں ہی مسلمانوں کو ایک اخلاقی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ جب تم تین آدمی اکٹھے ہو تو اپنے میں سے ایک کو چھوڑ کردو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں کیونکہ یہ طریقہ اس ایک آدمی کو غم ڈال دے گا۔ صحیح بخاری۔ البتہ اس کی رضامندی اور اجازت سے ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ اس صورت میں دو آدمیوں کا سرگوشی کرنا کسی کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔
[ ا ١] منافقوں کی ان سرگوشیوں سے غرض ہی یہ ہوتی تھی کہ مسلمان رنجیدہ اور دلگیر ہوں اور گھبرا جائیں۔ اور یہ کام ان سے شیطان کرا رہا تھا۔ مگر مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اور نہ ہی اس کے یہ چیلے کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ نفع و نقصان تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے لہذا انہیں صرف اللہ پر اعتماد رکھنا چاہیے اور منافقوں کی ان ناپاک سرگوشیوں کی پروا تک نہ کرنی چاہیے۔ یہ اعتماد ان کے دل میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول خطروں اور خیالی اندیشوں سے نجات مل جائے گی۔ انہیں چاہیے کہ منافقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ غلط کار لوگوں کے مقابلے میں آپے سے باہر نہ ہوں اور اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہیں۔
اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔۔۔۔۔:” حزن یحزن “ (س) غمگین ہونا اور ” حزن یحزن “ (ن) غمگین کرنا ۔ اس میں مسلمانوں کی تسلی دلائی ہے کہ یہود و منافقین کی یہ سرگوشیاں دراصل شیطان کی کار ستانی ہے ، جس سے وہ ایمان والوں کو غمگین کرنا چاہتا ہے ۔ اگر تم ایسی کوئی بات دیکھو تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو تو شیطان تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ ان سرگوشیوں سے تمہارا کچھ نقصان ہوسکتا ہے ، اس لیے اللہ ہی پر توکل رکھو اور غمگین ہو کر شیطان کو خوش رہونے کا موقع نہ دو ۔
اِنَّمَا النَّجْوٰى مِنَ الشَّيْطٰنِ لِيَحْزُنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيْسَ بِضَاۗرِّہِمْ شَـيْـــــًٔا اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ ٠ ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ١٠- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
منافقین کی یہودیوں کے ساتھ سرگوشی محض شیطان کی طرف سے اور اس کے حکم سے ہے تاکہ مسلمانوں کو رنج میں ڈالے اور منافقین کی یہ سرگوشی بغیر اللہ کے ارادہ کے ان مسلمانوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے اور اس کے علاوہ کسی پر بھروسا کریں۔- شان نزول : اِنَّمَا النَّجْوٰى مِنَ الشَّيْطٰنِ (الخ)- ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ منافقین آپس میں سرگوشیاں کیا کرتے تھے اور یہ چیز مسلمانوں کو غصہ دلاتی اور ان پر شاق گزرتی تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
آیت ١٠ اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ ” یہ نجویٰ تو شیطان کی طرف سے ہے “- منفی سرگوشیاں کرنا ایک شیطانی عمل ہے۔ جو لوگ اس میں ملوث ہوتے ہیں انہیں اس کی تحریک و ترغیب شیطان ہی کی طرف سے ملتی ہے۔ - لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ” تاکہ وہ اہل ایمان کو رنجیدہ کرے “- ان لوگوں کی سرگوشیوں اور خفیہ ملاقاتوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اہل ایمان کو نقصان پہنچا کر انہیں رنجیدہ ‘ دل گرفتہ اور پریشان کریں۔ آیت کے ان الفاظ سے یہ مفہوم بھی متبادر ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کی محفل سے الگ جا کر کھسر پھسر اور سرگوشیاں اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے اس عمل کو دیکھ کر مسلمان پریشان ہوں کہ یہ لوگ الگ بیٹھ کر ان کے خلاف نہ جانے کیا سازشیں کر رہے ہیں۔ گویا یہ لوگ ایک نفسیاتی حربے کے طور پر بھی نجویٰ کرتے تھے۔ ظاہر ہے جب بھری محفل سے تین چار لوگ الگ جا کر بیٹھ جائیں اور کھسر پھسر کرنا شروع کردیں تو اہل محفل کو فطری طور پر تجسس تو ہوگا کہ ہو نہ ہو یہ لوگ ضرور انہی کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ - وَلَـیْسَ بِضَآرِّہِمْ شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ” حالانکہ یہ (شیطان) انہیں کچھ بھی ضرر پہنچانے پر قادر نہیں مگر اللہ کے اذن سے۔ “- شیطان اپنے ارادے اور اختیار سے اہل ایمان کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ البتہ اگر اللہ کی طرف سے کسی کے لیے کوئی تکلیف یا آزمائش طے ہے تو وہ ضرور آئے گی ‘ اسے کوئی نہیں روک سکتا ۔- وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ ” اور اہل ایمان کو صرف اللہ پر توکل ّکرنا چاہیے ۔ “- اہل ایمان کو بھروسہ رکھنا چاہیے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور شیطانی حربوں یا دشمنوں کی سازشوں سے ان کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ اسی بھروسے کے ساتھ انہیں ہر وقت اپنے فرائض کی بجاآوری کے لیے کمربستہ رہنا چاہیے۔
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :25 یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کچھ لوگوں کی سرگوشیاں دیکھ کر یہ شبہ بھی ہو جائے کہ وہ اسی کے خلاف کی جا رہی ہیں ، تب بھی اسے اتنا رنجیدہ نہ ہونا چاہیے کہ محض شبہ ہی شبہ پر کوئی جوابی کارروائی کرنے کی فکر میں پڑ جائے ، یا اپنے دل میں اس پر کوئی غم ، یا کینہ ، یا غیر معمولی پریشانی پرورش کرنے لگے ۔ اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ یہ اعتماد اس کے قلب میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول اندیشوں اور خیالی خطروں سے اس کو نجات مل جائے گی اور وہ اشرار کو ان کے حال پر چھوڑ کر پورے اطمینان و سکون کو غارت کر دے ، نہ کم ظرف ہوتا ہے کہ غلط کار لوگوں کے مقابلے میں آپے سے باہر ہو کر خود بھی خلاف انصاف حرکتیں کرنے لگے ۔