Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 جس طرح یہود اور منفقین کا شیوہ ہے یہ گویا اہل ایمان کو تربیت اور کردار سازی کے لیے کہا جارہا ہے کہ اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو تو تمہاری سرگوشیاں یہود اور اہل نفاق کی طرح اثم وعدوان پر نہیں ہونی چاہئیں۔ 9۔ 2 یعنی جس میں خیر ہی خیر ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مبنی ہو، کیونکہ یہی نیکی اور تقویٰ ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] سرگوشی کی تین صورتیں اور ان کا مقام :۔ اس آیت میں عام مسلمانوں سے خطاب ہے جن میں منافقین بھی شامل ہیں۔ سرگوشی، کاناپھوسی اور کھسر پھسر سب ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور ان کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سرگوشی، بدنیتی، برے ارادوں یا کسی ناپاک سازش پر محمول ہو۔ جیسے منافق لوگ مسلمانوں کے خلاف سرگوشیاں کیا کرتے تھے۔ یہ شیطان کی انگیخت ہوتی ہے جیسا کہ اگلی آیت میں صراحت سے مذکور ہے۔ اور یہ بالاتفاق حرام ہے۔ دوسرے یہ کہ سرگوشی بھلائی اور نیکی پر محمول ہو مثلاً دو لڑنے والوں کے درمیان سمجھوتہ کے لیے سرگوشی کی جائے یا جیسے سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے جب اپنے بھائی بن یمین کو اپنے ہاں روک لیا تھا تو باقی بھائیوں نے لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر بات چیت کی تھی۔ ایسی سرگوشی جائز ہی نہیں مستحسن ہے۔ بلکہ بعض اوقات واجب بھی ہوسکتی ہے۔ تیسرے ایسی سرگوشی جس کا تعلق صرف دو سرگوشی کرنے والوں سے ہی ہو دوسرے لوگوں سے نہ ہو۔ جیسے خود رسول اللہ نے اپنی وفات سے بیشتر سیدہ فاطمہ (رض) سے کی تھی۔ جس سے ایک بار تو وہ رونے لگیں اور دوسری دفعہ ہنس دیں۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب من ناجی بین الناس۔۔ ) ایسی سرگوشی جائز ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ سرگوشی کرنے کے بعد کچھ آداب ہیں جو درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتے ہیں۔- سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب کہیں تم صرف تین آدمی ہوں تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر کانا پھوسی نہ کریں۔ اس سے اس کو رنج ہوگا۔ البتہ اگر اور بھی آدمی موجود ہوں تو پھر کوئی مضائقہ نہیں (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب اذا کانوا اکثر من ثلثۃ۔۔ ) اور ان آداب کا اصل مدعا یہ ہے کہ کسی شخص کو رنج نہ پہنچے یا وہ کسی بدظنی میں مبتلا نہ ہوجائے۔ یعنی :- ١۔ اگر صرف تین آدمی ہیں۔ تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں۔ ہاں اگر تیسرے سے اجازت لے لیں تو پھر وہ سرگوشی کرسکتے ہیں۔ اس طرح اس کی بدظنی کا امکان ختم ہوجائے گا۔- ٢۔ اگر آدمی تین سے زیادہ ہوں تو دو آدمی کانا پھوسی کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہو کہ آدمی چار ہوں اور تین آدمی ایک کو چھوڑ کر کاناپھوسی میں مشغول ہوجائیں۔ وقس علی ہذا - ٣۔ اگر آدمی زیادہ ہوں اور دو آدمی کاناپھوسی کرنے لگیں تو ان میں سے کوئی شخص مجلس میں بیٹھے ہوئے کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ کرے اور نہ اسے دیکھے۔ جس سے مشار الیہ کے دل میں خواہ مخواہ بدظنی پیدا ہوجائے۔ - سرگوشی سے منافقوں کا مقصد :۔ غرض بدظنی پیدا کرنے اور رنج پہنچانے والی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں اس آیت کی رو سے سب حرام ہیں اور منافقوں کا تو کام ہی یہ ہوتا تھا کہ جہاں کہیں مسلمانوں کے ساتھ اکٹھ ہوتا تو ناپاک قسم کی کھسر پھسر شروع کردیتے تھے۔ مثلاً جہاد پر روانگی کے وقت یہ کھسر پھسر شروع کردیتے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب جہاد پر روانہ والے ان مسلمانوں میں کوئی بھی بچ کر واپس نہ آئے گا۔ معلوم نہیں یہ لوگ کون سے سنہرے خواب دیکھ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ ۔۔۔۔۔: جیسا کہ آیت (٧) کے فوائد میں گزرا کہ ” نجویٰ “ کا لفظ عموماًبرے مقاصد کے لیے سرگوشیوں پر استعمال ہوتا ہے جو حرام ہیں ، لیکن بعض اوقات ” نجوی “ ( خفیہ مشورہ) اچھے مقاصد کے لیے بھی ہے، اس کی اجازت ہے ، بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ باعث اجر ہے۔ ( دیکھئے نساء : ١١٤) اس آیت میں ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو گناہ ، زیادتی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی والی سرگوشیوں اور خفیہ مجلسوں سے منع فرمایا ، کیونکہ یہ ایمان کے دعویٰ کے خلاف ہے اور نیکی اور تقویٰ والی سرگوشیوں کی اجازت بلکہ نصیحت فرمائی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوگوشی کی ہر ایسی صورت سے منع فرمایا جس سے کسی مسلمان کی دل آزادی ہوتی ہو۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجی رجلان دون الآخر حتیٰ تختلطو ا بالناس ، اجل ان یحزنہ) (بخاری ، استذان ، باب اذا کانوا کثر من ثلاثۃ فلا باس بالمسارۃ المناجاۃ : ٦٢٩٠۔ مسلم : ٢١٨٤)” جب تم تین آدمی ہو تو وہ آدمی تیسرے کے بغیر آپس میں سر گوشی نہ کریں ، یہاں تک کہ تم دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جاؤ ، کیونکہ یہ چیز اسے غمگین کرے گی ۔ “ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر تین سے زیادہ آدمی ہوں تو کوئی دو آدمی آپس میں سر گوشی کرسکتے ہیں ۔ البتہ چار یا پانچ یا زیادہ آدمی ایک شخص کو اکیلے چھوڑ کر الگ سرگوشی کریں تو اس اکیلے کا غمگین اور پریشان ہونا تو لازمی بات ہے ، اس لیے اس حدیث کے مطابق وہ بھی ناجائز ہے۔ تین آدمیوں میں سے دو اگر ایسی زبان میں بات شروع کردیں جو تیسرا نہیں جانتا تو اس حدیث کے مطابق وہ بھی جائز نہیں ۔ ہاں اگر دو آدمی تیسرے سے اجازت لے کر آپس میں سر گوشی کرلیں تو یہ جائز ہے ، جیسا کہ ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناج اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذلک یحزنہ) (مسند احمد : ٢، ١٤٦، ح : ٦٣٣٨۔ مصنف عبد الرزاق ، ح : ١٩٨٠٦، وسندہ صحیح)” جب تم تین آدمی ہو تو وہ دو آدمی تیسرے کے بغیر سرگوشی نہ کریں ، مگر اس کی اجازت کے ساتھ ، کیونکہ یہ چیز اسے غمگین کرے گی “۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَـنَاجَوْا بالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بالْبِرِّ وَالتَّقْوٰى، سابقہ آیات میں کفار کو ناجائز سرگوشی پر تنبیہ کی گئی تھی، اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ اپنی سرگوشیوں اور مشوروں میں اس کا دھیان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے سب حالات اور گفتگو کا علم ہے اور اس استحضار کے ساتھ یہ کوشش کریں کہ ان کے مشورے اور سرگوشی میں کوئی بات فی نفسہ گناہ کی یا دوسروں پر ظلم کرنے کی یا کسی خلاف شرع کام کی نہ ہو، بلکہ جب بھی آپس میں مشورہ کرو نیک کاموں کے لئے کرو۔ - کفار کی شرارت پر بھی نرمی اور شریفانہ مدافعت کی ہدایت :- سابقہ آیات کے ضمن میں یہودیوں اور منافقوں کی ایک شرارت یہ بھی ذکر کی گئی ہے کہ وہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو بجائے السلام علیکم کے السام علیکم کہتے تھے، سام کے معنی موت کے ہیں اور لفظوں میں زیادہ فرق نہ ہونے کے سبب مسلمانوں کی اس طرف التفات نہ ہوتا تھا، ایک روز ایسا ہی ہوا، صدیقہ عائشہ بھی سن رہی تھیں جب انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو السام علیکم کہا تو صدیقہ عائشہ نے جواب دیا السام علیکم و لعنکم اللہ و غضب علیکم یعنی ” ہلاکت تم پر ہو اور خدا کی لعنت و غضب “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیقہ کو ایسا کہنے سے روکا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فحش کلام کو پسند نہیں فرماتے، آپ کو سختی و درشتی سے بچنا اور نرمی اختیار کرنا چاہئے، صدیقہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ ان لوگوں نے آپ کو کیا کہا ہے، آپ نے فرمایا کہ ہاں سن بھی لیا اور اس کا معتدل بدلہ بھی لے لیا، کہ میں نے جواب میں کہہ دیا علیکم یعنی ” ہلاکت تم پر ہو “ اور یہ ظاہر ہے کہ ان کی دعا قبول ہوگی نہیں، میری دعا قبول ہوگی، اس لئے ان کی شرارت کا بدلہ ہوگیا (رواہ البخاری، از مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَـنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰى٠ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْٓ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۝ ٩- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- نجو) سرگوشي)- والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا - [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80]- ( ن ج و )- النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر :- 7-- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة 283] .- وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما .- وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ- [ المائدة 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) " تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔- عُدْوَانِ- ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] ، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ عُدْواناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ ناراً [ النساء 30] ، وقوله تعالی: فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ، أي : غير باغ لتناول لذّة، وَلا عادٍأي متجاوز سدّ الجوعة . وقیل : غير باغ علی الإمام ولا عَادٍ في المعصية طریق المخبتین «2» . وقد عَدَا طورَهُ : تجاوزه، وتَعَدَّى إلى غيره، ومنه : التَّعَدِّي في الفعل . وتَعْدِيَةُ الفعلِ في النّحو هو تجاوز معنی الفعل من الفاعل إلى المفعول . وما عَدَا كذا يستعمل في الاستثناء، وقوله : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] ، أي : الجانب المتجاوز للقرب .- اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔ وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ عُدْواناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ ناراً [ النساء 30] اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشر طی کہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ضرورت سے باہر نہ نکل جائے ۔ میں باغ سے وہ شخص مراد ہے جو لذت اندوزی کے لئے مردار کا گوشت کھانے کی خواہش کرتا ہے اور عاد سے مراد وہ شخص ہے جو قدر کفایت سے تجاوز کرتا ہے بعض نے باغ کے معنی خلیفہ وقت کا باغی اور عاد سے وہ شخص مراد لیا ہے جو عجزو نیاز کرنے والوں کے طریق سے تجاوز کرنے والا ہو اور یہ عدی طور سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں اپنے رتبہ سے تجاوز کرنے والا اور اسی سے تعدیتہ فی الفعل ہے اور علم نحو میں فعل کے تعدیتہ سے مراد ہوتا ہے فعل کا اپنے فاعل سے گزر کر مفعول تک پہنچ جانا اور ماعدا کا لفظ استثناء کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافربعید کے ناکے پر ۔ میں عدوٹ الدنیا سے مدینہ کی جانب کا کنارہ مراد ہے جو حد قریب سے کچھ دور تھا ۔- عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - برَّ- البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر :- أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل .- والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته .- ( ب رر)- البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔.- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے ایمان والو جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو جھوٹ ظلم اور رسول اکرم کے حکم کی مخالفت کی سرگوشیاں مت کیا کرو جیسا کہ منافقین یہودیوں کے ساتھ سرگوشیاں کرتے ہیں اور فرائض خداوندی کی تعمیل اور ایک دوسرے کے ساتھ احسان و بھلائی اور معاصی و ظلم کے چھوڑنے کے بارے میں سرگوشی کیا کرو اور مومنین مخلصین کے علاوہ سرگوشی کرنے سے اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے پاس تم سب آخرت میں جمع کیے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ ” اے اہل ایمان اگر تمہیں کوئی سرگوشی کرنی ہو “- فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ ” تو گناہ ‘ زیادتی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی باتوں سے متعلق ہرگز سرگوشی نہ کرو “- اگر تم میں سے چند لوگوں کا علیحدہ بیٹھ کر کوئی گفتگو یا منصوبہ بندی کرنا ناگزیر ہو تو یاد رکھو ‘ تمہاری اس خفیہ بات چیت یا سرگوشی کا موضوع ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے جس سے گناہ ‘ کسی پر زیادتی یا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا کوئی پہلو نکلتاہو۔- وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ” ہاں تم نیکی اور تقویٰ کے بارے میں سرگوشی کرسکتے ہو ۔ “- کسی کو علیحدگی میں لے جا کر کوئی اچھا مشورہ دینا ہو ‘ نیکی کے کسی کام کا بتانا ہو ‘ یا صدقہ و خیرات کی تلقین کرنی ہو تو ایسی سرگوشیوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔- وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَـیْہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ ” اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تمہیں جمع کیا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :24 اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ ( آپس میں راز کی بات کرنا ) بجائے خود ممنوع نہیں ہے ، بلکہ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں ، اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے ، اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں ۔ جن لوگوں کا اخلاص ، جن کی راست بازی ، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو ، انہیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بد کرداری کے لیے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیدا کر دیتی ہیں کہ ضرور کسی نئے فتنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار آدمی باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کرلیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے ۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل وتیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے ۔ اور کچھ نہیں تو اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے ۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں ۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سر گوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے ، یا کسی کا حق دلوانا ہے ، یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے ، تو یہ کوئی برائی نہیں ہے ، بلکہ کار ثواب ہے ۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کے لیے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے ، یا کسی کا حق مارنا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجائے خود ایک برائی ہے اور اس کے لیے نجویٰ برائی پر برائی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں آداب مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجیٰ اثنان دون صاحبھما فان ذالک یحزنہٗ ۔ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں ، کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہو گا ( بخاری ۔ مسلم ۔ مسند احمد ۔ ترمذی ۔ ابو داؤد ) ۔ دوسری حدیث میں حضور کے الفاظ یہ ہیں فلا یتناجیٰ اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذٰالک یحزنہٗ ۔ دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر ، کیونکہ یہ اس کے لیے باعث رنج ہو گا ( مسلم ) ۔ اسی ناجائز سرگوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو ۔ اور اس سے بھی زیادہ ناجائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani