21۔ 1 یعنی تقدیر اور لوح محفوظ میں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہ مضمون سورة مومن میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ 21۔ 2 جب یہ بات لکھنے والا، سب پر غالب اور نہایت زورآور ہے تو پھر اور کون ہے جو اس فیصلے میں تبدیلی کرسکے۔ ؟ مطلب یہ ہوا کہ یہ فیصلہ قدر محکم اور امر مبرم ہے۔
[٢٥] اہل حق کا غلبہ کن کن معنوں میں ہوتا ہے ؟ :۔ غالب رہنے سے مراد صرف سیاسی غلبہ نہیں بلکہ یہ صرف اس غلبہ کا ایک پہلو ہے اور یہ بھی بسا اوقات اللہ کی پارٹی کو حاصل ہوجاتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا۔ اور جو یقینی غلبہ ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کی پارٹی کا اخلاقی تفوق بہرحال ایک مسلمہ امر ہے۔ راست بازی اور مکروفریب سے اجتناب اس پارٹی کے زریں اصول ہیں۔ جنہیں ہر قسم کے لوگ دل سے پسند کرتے ہیں۔ دوسرا پہلو نظریات کا استقلال اور غلبہ ہے۔ باطل نظریات ہر دور میں نئے نئے بنتے بگڑتے اور آپ ہی اپنی موت مرتے رہتے ہیں۔ جبکہ اللہ کی پارٹی کے نظریات و عقائد سیدنا آدم سے لے کر آج تک بدستور قائم اور برقرار رہے ہیں اور آئندہ بھی تاقیامت برقرار رہیں گے۔
١۔ کَتَبَ اللہ ُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ط : کفار کے ” الاذلین “ ہونے کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اہل ایمان کی عزت اور ان کے غلبے کا بیان فرمایا، تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ صافات (٧١ تا ١٧٣) کی تفسیر۔- ٢۔ اِنَّ اللہ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ : یہ اللہ اور اس کے رسولوں کے غالب آنے کی علت ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت قوت والا اور سب پر غالب ہے ، پھر اس پر غالب کون آسکتا ہے ؟
كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ٢١- كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
یہ آیت خاص طور پر عبداللہ بن ابی منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس نے مومنین مخلصین سے کہا تھا کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے ہاتھ پر فارس و روم فتح ہوجائے گا۔
آیت ٢١ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ” اللہ نے لکھ دیا ہے کہ یقینا میں غالب رہوں گا اور میرے رسول۔ “- میں اور میرے رسول لازماً غالب ہو کر رہیں گے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة الصافات کی ان آیات میں بھی آچکا ہے : وَلَقَدْ سَبَـقَتْ کَلِمَتُـنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ - اِنَّـہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ - وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ۔ ” اور ہماری یہ بات پہلے سے طے شدہ ہے اپنے ان بندوں کے لیے جن کو ہم (رسول بنا کر) بھیجتے رہے ہیں ‘ کہ ان کی لازماً مدد کی جائے گی ‘ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔ “- اس بارے میں قبل ازیں بھی متعدد بار ذکر ہوچکا ہے کہ اہم مضامین قرآن حکیم میں کم از کم دو مرتبہ ضرور آتے ہیں۔ یہ مضمون بھی اسی اصول کے تحت سورة الصَّافَّات کے بعد یہاں پھر آیا ہے۔- اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ ۔ ” بیشک اللہ زبردست ہے ‘ زور آور ہے۔ “- حزب الشیطان کے ذکر کے بعد فوری تقابل ( ) کے طور پر اب اگلی آیت میں حزب اللہ کا ذکر ہے۔ یہ آیت حزب اللہ کی رکنیت کے معیار کے حوالے سے بھی ہے۔ اس ٹیسٹ کا تعلق انسان کے قلبی تعلقات اور قریبی رشتوں سے ہے۔ اگر کسی مسلمان کا کوئی رشتہ دار ‘ چاہے وہ اس کا باپ ‘ بیٹا یا بھائی ہی کیوں نہ ہو ‘ کافر و مشرک ہے اور وہ اسلام کی مخالفت میں باقاعدہ سرگرمِ عمل ہے ‘ تو اس مسلمان کے لیے لازم ہے کہ اس کے ایمان کی تلوار اس دشمن ِخدا کے ساتھ موجود اپنے رشتے کو کاٹ پھینکے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور کسی ایسے فرد کے ساتھ اس کے قلبی تعلق کا پیوند بدستور استوار رہا جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں سرگرم عمل ہے تو ایسا مسلمان حزب اللہ سے خارج سمجھا جائے گا۔
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :36 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الصافات ، حاشیہ 93 ۔