Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت میں کامل ہوتے ہیں وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں سے محبت اور تعلق خاطر نہیں رکھتے گویا ایمان اور اللہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں کی محبت ونصرت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے یہ مضمون قرآن مجید میں اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلا (لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ 28) 3 ۔ آل عمران :28) (قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ 24؀ ) 9 ۔ التوبہ :24) ۔ وغیرہ۔ 22۔ 2 اس لیے کہ ان کا ایمان ان کو ان کی محبت سے روکتا ہے اور ایمان کی رعایت ابوت بنوت اخوت اور خاندان و برادری کی محبت و رعایت سے زیادہ اہم اور ضروری ہے چناچہ صحابہ کرام (رض) نے عملا ایسا کر کے دکھایا ایک مسلمان صحابی نے اپنے باپ اپنے بیٹے اپنے بھائی اور اپنے چچا ماموں اور دیگر رشتے داروں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کیا اگر وہ کفر کی حمایت میں کافروں کے ساتھ لڑنے والوں میں شامل ہوتے سیر و تواریخ کی کتابوں میں یہ مثالیں درج ہیں اسی ضمن میں جنگ بدر کا واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب اسیران بدر کے بارے میں مشورہ ہوا کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا قتل کردیا جائے تو حضرت عمر (رض) نے مشورہ دیا تھا کہ ان کافر قیدیوں میں سے ہر قیدی کو اس کے رشتے دار کے سپرد کردیا جائے جسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرے اور اللہ تعالیٰ کو حضرت عمر (رض) کا یہی مشورہ پسند آیا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67؀) 8 ۔ الانفال :67) کا حاشیہ۔ 22۔ 3 یعنی راسخ اور مضبوط کردیا ہے۔ 22۔ 4 روح سے مراد اپنی نصرت خاص، یا نور ایمان ہے جو انہیں ان کی مذکورہ خوبی کی وجہ سے حاصل ہوا۔ 22۔ 5 یعنی جب یہ اولین مسلمان صحابہ کرام (رض) ایمان کی بنیاد پر اپنے عزیز واقارب سے ناراض ہوگئے حتی کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل تک کرنے میں تامل نہیں کیا تو اس کے بدلے میں اللہ نے ان کو اپنی رضامندی سے نواز دیا اور ان پر اس طرح اپنے انعامات کی بارش فرمائی کہ وہ بھی اللہ سے راضی ہوگئے اس لیے آیت میں بیان کردہ اعزاز رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔ اگرچہ خاص صحابہ کرام (رض) کے بارے میں نازل نہیں ہوا ہے تاہم وہ اس کا مصداق اولین اور مصداق اتم ہیں اسی لیے اس کے لغوی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ صفات سے متصف ہر مسلمان (رض) کا مستحق بن سکتا ہے جیسے لغوی معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان شخص پر (علیہ الصلوۃ والسلام) کا دعائیہ جملے کے طور پر اطلاق کیا جاسکتا ہے لیکن اہل سنت نے ان کے مفہوم لغوی سے ہٹ کر ان کو صحابہ کرام (رض) اور انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ کسی اور کے لیے بولنا لکھنا جائز قرار نہیں دیا ہے۔ یہ گویا شعار ہیں (رض) صحابہ کے لیے اور علیہم الصلواۃ والسلام انبیائے کرام کے لیے یہ ایسے ہی ہے جیسے (رح) اللہ کی رحمت اس پر ہو یا اللہ اس پر رحم فرما‏ئے کا اطلاق لغوی مفہوم کی رو سے زندہ اور مردہ دونوں پر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جس کے ضرورت مند زندہ اور مردہ دونوں ہی ہیں لیکن ان کا استعمال مردوں کے لیے خاص ہوچکا ہے اس لیے اسے زندہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ 22۔ 6 یعنی یہی گروہ مومنین فلاح سے ہمکنار ہوگا دوسرے ان کی بہ نسبت ایسے ہی ہوں گے جیسے وہ فلاح سے بالکل محروم ہیں جیسا کہ واقعی وہ آخرت میں محروم ہوں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] کافروں سے دوستی رکھنا بھی کفر ہے :۔ یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت دو متضاد باتیں ہیں جو ایک دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں جیسے دن اور رات یا روشنی اور تاریکی ایک ہی وقت میں جمع نہیں ہوسکتے۔ لیکن منافقوں کی فریب کاری یہ ہے کہ وہ دونوں کام بیک وقت کر رہے ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہوسکتی ہے۔ اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی رکھ ہی نہیں سکتے۔ اور اگر دوستی رکھتے ہیں تو کبھی ایماندار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے۔ پھر اللہ کے دشمنوں سے ایک ایماندار کیسے دوستی رکھ سکتا ہے ؟- [٢٧] جنگ کے دوران کافر اقرباء سے مسلمانوں کا سلوک :۔ یہ آیت ان صحابہ کی شان میں نازل ہوئی جنہوں نے اللہ کے اس ارشاد پر عمل کرکے دنیا کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کیا تھا۔ غزوہ احد میں سیدنا مصعب بن عمیر (رض) نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ سیدنا عمر فاروق نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اور سیدنا علی (رض) سیدنا حمزہ اور عبیدہ بن الحارث نے علی الترتیب عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا۔ ایک دفعہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے بیٹے عبدالرحمن اپنے باپ سے کہنے لگے کہ ابا جان آپ جنگ میں عین میری تلوار کی زد میں تھے مگر میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے جواب دیا : بیٹا اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا۔ غزوہ احد کے قیدیوں کے متعلق مشورہ ہوا تو سیدنا عمر نے یہ مشورہ دیا کہ ہر آدمی اپنے قریبی رشتہ دار کو قتل کرکے موت کے گھاٹ اتار دے۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر عبداللہ بن ابی منافق نے آپ کی شان میں ناجائز کلمات کہے تو ان کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا اور سچے مومن تھے، آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ اگر آپ حکم فرمائیں تو میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا رکھوں۔ لیکن آپ نے اپنی طبعی رحم دلی کی بنا پر عبداللہ کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ غرضیکہ سچے ایمانداروں کی تو شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلہ میں کسی قریبی سے قریبی رشتہ دار حتیٰ کہ اپنی جان تک کی پروا نہیں کرتے۔- [٢٨] یعنی ایسے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے روح پھونک کر ان کی قوت ایمانی کو کئی گنا زیادہ طاقتور بنادیا ہے۔ نیز روح سے مراد روح القدس یا جبریل بھی ہوسکتے ہیں جو صرف جنگ کے دوران ہی نازل ہو کر مسلمانوں کی قوت ایمانی کو نہیں بڑھاتے بلکہ کوئی بھی اہم معاملہ ہو تو مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تائید حاصل ہوجاتی ہے۔ کفار نے رسول اللہ کی ہجو کی تو سیدنا حسان بن ثابتص نے اس ہجو کا جواب دیا۔ سیدنا حسان کے یہ اشعار سن کر آپ نے فرمایا : مشرکوں کی ہجو کر جبریل تیرے ساتھ ہیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب۔۔ ) اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں : یا اللہ حسان کی روح القدس سے مدد فرما (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل حسان بن ثابت (رض))- [٢٩] صحابہ کرام کی شان میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد قرآن میں بعض دیگر مقامات پر بھی مذکور ہے۔ جس سے ان کی انتہائی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ ان کے ایمان میں شک کرتے ہیں یا انکار کرتے ہیں۔ انہیں اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِ اللہ ِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ ۔۔۔۔۔۔: یعنی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں سے دوستی دو ایسی چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں ، خواہ وہ آدمی کے کتنے قریبی رشتہ دار ہوں ، اس لیے منافقین جو ایمان کے دعوے کے باوجود کفار سے دوستی رکھتے ہیں ان کا ایمان کا دعویٰ غلط ہے ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ آل عمران (٢٨ ) اور سورة ٔ توبہ (٢٣، ٢٤)- ٢۔ اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ : یعنی یہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والوں سے دوستی نہیں رکھتے ، خواہ وہ کتنے قریبی رشتہ دار ہوں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان نقش کردیا ہے ۔ اس کا مصداق صحابہ کرام (رض) ہیں ، کیونکہ انہوں نے ان تمام لوگوں سے دستی اور دلی تعلق کا رشتہ کاٹ پھینکا تھا جو اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت اور دشمنی رکھتے تھے ، خواہ وہ ان کے باپ تھے یا بیٹے یا بھائی یا خاندان کے لوگ ۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ صحابہ کرام (رض) نے کفر کی حمایت میں مسلمانوں سے لڑنے والے قریب ترین رشتہ داروں کو بھی قتل یا قید کرنے سے دریغ نہیں کیا ، خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی تھے یا کوئی اور رشتہ دار ۔ جنگ بدر میں جب قیدیوں کے متعلق مشورہ ہوا کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا قتل کردیا جائے ، تو عمر (رض) نے مشورہ دیا تھا کہ ان کافر قیدیوں میں سے ہر ایک کو اس کے رشتہ دار کے سپرد کیا جائے ، جسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرے اور اللہ تعالیٰ کو عمر (رض) ہی کا مشورہ پسند آیا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ انفال (٦٧) کی تفسیر ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس اور عقیل بن ابی طالب (رض) اسیر ہوئے تو دوسرے قیدیوں کی طرح فدیہ دے کر رہا ہوئے ۔ اسی طرح آپ کے داما ابو العاص اس شرط پر رہا ہوئے کہ آپ کی بیٹی زینب (رض) کو واپس بھجوا دیں گے۔- ٣۔ وَاَیَّدَ ھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ ط : یعنی انہیں اپنی طرف سے ایک عظیم روحانی قوت عطاء فرما کر ان کی مدد فرمائی۔- ٤۔ وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ۔۔۔۔ : یہ ہے جنتوں میں داخلے اس میں ابدی قیام اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وہ تصدیق نامہ جو صحابہ کرام (رض) کو اللہ کی جانب سے حاصل ہوا ۔ پھر ان لوگوں کی بدنصیبی کا کیا عالم ہوسکتا ہے جو ان سے دشمنی رکھتے اور ان کے بارے میں بد زبانی کرتے ہیں۔- ٥۔ اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللہ ِط :” حزب اللہ “ خبر معرفہ ہونے سے حصر کا مفہوم پیدا ہورہا ہے ، یعنی اللہ کی جماعت اور گروہ صرف یہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کو اپنا بنا لیا اور اپنے ان عزیزوں سے بیگانہ ہوگئے جو اس سے اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے تھے ۔ یاد رکھو صرف اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مسلمان کی دلی دوستی کسی کافر سے نہیں ہو سکتی :- (آیت) لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ الایتہ، پہلی آیات میں کفار و مشرکین سے دوستی کرنے والوں پر غضب الٰہی اور عذاب شدید کا ذکر تھا، اس آیت میں مومنین مخلصین کا حال ان کے مقابل بیان فرمایا کہ وہ کسی ایسے شخص سے دوستی اور دلی تعلق نہیں رکھتے جو اللہ کا مخالف یعنی کافر ہے، اگرچہ وہ ان کا باپ یا اولاد یا بھائی یا اور قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ - صحابہ کرام سب ہی کا حال یہ تھا، اس جگہ مفسرین نے بہت سے صحابہ کرام کے واقعات ایسے بیان کئے ہیں جن میں باپ بیٹے، بھائی وغیرہ سے جب کوئی بات اسلام یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سنی تو سارے تعلقات کو بھلا کر ان کو سزا دی بعض کو قتل کیا۔- عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے عبداللہ کے سامنے اس کے منافق باپ نے حضور کی شان میں گستاخانہ کلمہ بولا تو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی کہ میں اپنے باپ کو قتل کر دوں، آپ نے منع فرما دیا، حضرت ابوبکر کے سامنے ان کے باپ ابو قحافہ نے حضور کی شان میں کچھ کلمہ گستاخانہ کہہ دیا تو ارحم امت صدیق اکبر کو اتنا غصہ آیا کہ زور سے طمانچہ رسید کیا جس سے ابو قحافہ گر پڑے، آپ کو اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا، حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے والد جراح غزوہ احد میں کفار کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آئے تو میدان جہاد میں وہ بار بار حضرت ابو عبیدہ کے سامنے آتے وہ ان کے درپے تھے یہ سامنے سے ٹل جاتے جب انہوں نے یہ صورت اختیار کیے رکھی تو ابوعبیدہ نے ان کو قتل کردیا، یہ اور ان کے امثال بہت سے واقعات صحابہ کرام کے پیش آئے، ان پر آیات مذکورہ نازل ہوئیں (قرطبی)- مسئلہ : بہت سے حضرت فقہاء نے یہی حکم فساق و فجار اور دین سے عملاً منحرف مسلمان کا قرار دیا ہے کہ ان کے ساتھ دلی دوستی کسی مسلمان کی نہیں ہو سکتی، کام کاج کی ضرورتوں میں اشتراک یا مصاحبت بقدر ضرورت الگ چیز ہے، دل میں دوستی کسی فاسق و فاجر کی اسی وقت ہوگی جبکہ فسق و فجور کے جراثیم خود اس کے اندر موجود ہوں گے، اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے اللھم لا تجعل لفاجر علی یدا، یعنی یا اللہ مجھ پر کسی فاجر آدمی کا احسان نہ آنے دیجئے، کیونکہ شریف النفس انسان اپنے محسن کی محبت پر طبعاً مجبور ہوتا ہے اس لئے فساق و فجار کا احسان قبول کرنا جو ذریعہ ان کی محبت کا بنے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بھی پناہ مانگی (قرطبی)- وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ۭ، یہاں روح کی تفسیر بعض حضرات نے نور سے کی ہے جو منجانب اللہ مومن کو ملتا ہے اور وہی اس کے عمل صالح کا اور قلب کے سکون و اطمیان کا ذریعہ ہوتا ہے اور یہ سکون و اطمینان ہی بڑی قوت اور بعض حضرات نے روح کی تفسیر قرآن اور دلائل قرآن سے کی ہے وہی مومن کی اصل طاقت و قوت ہے (قرطبی) واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم - تمت - سورة المجادلة بحمدہ وعونہ لغرة - جمادی الاولیٰ س 1391 ھ یوم الجمعة- وللہ الحمد و یتلوہ انشآء اللہ تعالیٰ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۝ ٠ ۭ وَيُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ ۭ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ۝ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ٢٢ ۧ- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اہل حرب سے دوستی کی ممانعت - قول باری ہے (لا تجد قوما یومنون باللہ ولایوم الاخریوادون من حاد اللہ وورسولہ جو لوگ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہیں آپ نہیں نہیں پائیں گے کہ وہ ایسوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ محاورہ کے معنی یہ ہیں کہ فریقین میں سے ہر فریق ایک حد اور مقام میں ہو جو دوسرے فریق کی حد اور مقام سے الگ اور جدا ہو۔ ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ مذکورہ لوگوں سے اہل حرب مراد ہیں۔ کیونکہ ان کی حد الگ ہے اور ہماری حد الگ ۔ یہ بات اہلحرب سے خواہ وہ اہل کتاب ہی کیوں نہ ہوں شادی بیاہ کی کراہت پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ مناکحت ایک دوسرے کی دوستی کی موجب ہوتی ہے۔- قول باری ہے (ومن ایاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ اور اسی کی نشانیوں میں ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اور اس نے تمہارے (یعنی میاں بیوی کے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کردی) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اگلی آیت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے مکہ والوں کو رسول اکرم کی کچھ خفیہ باتوں سے مطلع کرنے کے لیے خط لکھا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا محمد جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں یعنی حضرت حاطب آپ انہیں ایسا نہیں دیکھیں گے کہ وہ ایسے افراد سے خیر خواہی کریں اور دین میں ان سے دوستی رکھیں یعنی مکہ والوں سے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے دین میں مخالفت کرتے ہیں گو ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔- ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی محبت اور ان کی تصدیق کو ثبت کردیا ہے اور اپنی رحمت یا یہ کہ اپنی مدد سے ان کو قوت دی ہے اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ، شہد، پانی اور شراب کی نہریں جاری ہوں گی جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور اعمال اور ان کی توبہ سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے اجر وثواب سے راضی ہوگئے۔- یہ لوگ یعنی حضرت حاطب اور دیگر صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کا گروہ ہے اور اللہ ہی کا گروہ عذاب و ناراضگی سے نجات پانے والا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جس چیز کی طلب کی اس کو پالیا اور جس شر سے بھاگے اس سے محفوظ رہے اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہ بدری ہیں ان کا مفصل واقعہ سورة ممتحنہ میں آئے گا۔- شان نزول : لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ (الخ)- ابن ابی حاتم نے ابن ثوذب سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ بدر کے دن انہوں نے اپنے باپ کو قتل کردیا تھا اور اسی روایت کو طبرانی اور حاکم نے مستدرک میں انہی الفاظ میں روایت کیا ہے کہ بدر کے دن حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے باپ ان پر حملہ کرنے کے لیے آتے تھے اور ابو عبیدہ ان سے کنارہ کشی کرتے تھے جب ان کے باپ نے زیادتی کی تو حضرت ابو عبیدہ نے اپنے باپ کو قتل کردیا تو ان کی تعریف میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔- اور ابن منذر نے ابن جریج سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ ابو قحافہ نے رسول اکرم کی شان میں گستاخی کی تو حضرت ابوبکر نے اپنے والد کے تھپڑ رسید کردیا جس سے وہ گر گئے اور پھر اس چیز کا حضور سے تذکرہ کیا آپ نے فرمایا اے ابوبکر تم نے ایسا کیا ؟ اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا اللہ کی قسم اگر میرے قریب تلوار ہوتی تو میں ان کی گردن اڑا دیتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ ” تم نہیں پائو گے ان لوگوں کو جو حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یوم آخرت پر کہ وہ محبت کرتے ہوں ان سے جو مخالفت کر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی “- یہ حکم ان کفار و مشرکین کے لیے ہے جو اسلام کی مخالفت میں فعال ( ) اور سرگرم عمل ہوں۔ جہاں تک ان کفار و مشرکین کا تعلق ہے جو ایسی کسی جدوجہد میں بالفعل فعال نہ ہوں ‘ ان کے بارے میں حکم آگے سورة الممتحنہ میں آئے گا۔- وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْط ” خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے رشتے دار ہوں۔ “- آیت کا یہ حصہ پڑھتے ہوئے سورة التوبہ کی آیت ٢٤ کا مضمون بھی ذہن میں تازہ کرلیں :- قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ - ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ‘ تمہارے بیٹے ‘ تمہارے بھائی ‘ تمہاری بیویاں (اور بیویوں کے لیے شوہر) ‘ تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں ‘ اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے ‘ اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں ‘ ( اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں اللہ ‘ اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد سے ‘ تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے۔ اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔ “- ان آیات کا پیغام بہت واضح ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک بندئہ مسلمان کی محبت کا اصل امتحان عشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زبانی دعوے اور نعتیہ اشعار میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے نہیں ‘ بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے ہوگا۔ اگر تو وہ اس آیت میں مذکور اپنی آٹھ محبتوں کو تج کر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کمربستہ ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میں سچا ہے ‘ لیکن اگر وہ اس کے لیے عملاً تیار نہیں ہے تو اس کے زبانی دعو وں کی کوئی حیثیت نہیں۔- اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ ” یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے “- دلوں کے اندر ایمان لکھ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان پختہ کردیا ہے۔ یعنی ایمان اب ان کے دلوں میں نقش کا لحجر (پتھر پر لکیر ) کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ - وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُط ” اور اس نے ان کی مدد کی ہے اپنی طرف سے روح کے ساتھ “- روح سے مراد یہاں فرشتہ بھی ہوسکتا ہے ‘ الہام بھی ہوسکتا ہے اور اللہ کا خصوصی فضل بھی ہوسکتا ہے۔ غرض اللہ کی طرف سے غیر مرئی انداز میں مدد کی کوئی صورت بھی ہوسکتی ہے۔- وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط ” اور وہ داخل کرے گا انہیں ان باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی ‘ جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ “- رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط ” اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ “- اس کا ترجمہ ایسے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ” اللہ ان سے راضی ہوجائے گا اور وہ اس سے راضی ہوجائیں گے۔ “- اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللّٰہِط ” یہ لوگ ہیں اللہ کی جماعت “- اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ ” آگاہ ہو جائو یقینا اللہ کی جماعت کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ “- سورة المائدۃ میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ۔ کہ یقینا اللہ کی جماعت کے لوگ ہی غالب رہنے والے ہیں۔ اگر حزب اللہ کی جدوجہد کے نتیجے میں اللہ کا دین دنیا میں غالب ہوجاتا ہے تو یہ یقینا ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ لیکن اصل اور حقیقی کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے ‘ جس کی بشارت ” حزب اللہ “ والوں کو اس آیت میں دی جا رہی ہے۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ آمین یارَبَّ الْعَالمین

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :37 اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں ۔ ایک بات اصولی ہے ، اور دوسری امر واقعی کا بیان ۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعدائے دین کی محبت ، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے ۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنان خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں ، بالکل اسی طرح جیسے ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نے ایسے لوگوں سے محبت کا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں تو یہ غلط فہمی تمہیں ہرگز لاحق نہ ہونی چاہیے کہ شاید وہ اپنی اس روش کے باوجود ایمان کے دعوے میں سچا ہو ۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑ رکھا ہے وہ خود بھی اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کرلیں کہ وہ فی الواقع کیا ہیں ، مومن ہیں یا منافق؟ اور فی الواقع کیا ہونا چاہتے ہیں ، مومن بن کر رہنا چاہتے ہیں یا منافق؟ اگر ان کے اندر کچھ بھی راستبازی موجود ہے ، اور وہ کچھ بھی یہ احساس اپنے اندر رکھتے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے منافقت انسان کے لیے ذلیل ترین رویہ ہے ، تو انہیں بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش چھوڑ دینی چاہیے ۔ ایمان تو ان سے دو ٹوک فیصلہ چاہتا ہے ۔ مومن رہنا چاہتے ہیں تو ہر اس رشتے اور تعلق کو قربان کر دیں جو اسلام کے ساتھ ان کے تعلق سے متصادم ہوتا ہو ۔ اسلام کے رشتے سے کسی اور رشتے کو عزیز تر رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایمان کا جھوٹا دعویٰ چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہے اصولی بات ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوئے ۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا ۔ مکہ سے جو صحابہ کرام ہجرت کر کے آئے تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گئے تھے ۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا ۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا ۔ حضرت عمر نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا ۔ حضرت ابو بکر اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ حضرت علی ، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے عتبہ ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے ۔ حضرت عمر نے اسیران جنگ بدر کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے ۔ اسی جنگ بدر میں حضرت مصعب بن عمیر کے سگے بھائی ابو عزیز بن عمیر کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہا تھا ۔ حضرت مصعب نے دیکھا تو پکار کر کہا ذرا مضبوط باندھنا ، اس کی ماں بڑی مالدار ہے ، اس کی رہائی کے لیے وہ تمہیں بہت سا فدیہ دے گی’‘ ۔ ابوعزیز نے کہا تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو؟ حضرت مصعب نے جواب دیا اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کر رہا ہے ۔ اسی جنگ بدر میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص گرفتار ہو کر آئے اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی امتیازی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا ۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھایا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوا کرتا ہے ۔ دیلَمی نے حضرت معاذ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا نقل کی ہے کہ : اللھم لا تجعل لفاجر ( وفی روایۃٍ لفاسق ) عَلَیَّ یداً ولا نعمۃ فیودہ قلبی فانی وجدت فیما اوحیت اِلیّ لا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ۔ خدایا ، کسی فاجر ( اور ایک روایت میں فاسق ) کا میرے اوپر کوئی احسان نہ ہونے دے کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی محبت پیدا ہو ۔ کیونکہ تیری نازل کردہ وحی میں یہ بات بھی میں نے پائی ہے کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور رسول کے مخالفوں سے محبت کرتے نہ پاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: سورۃ آل عمران (28:3)کے حاشیہ میں تفصیل سے بتایا جا چکا ہے کہ غیر مسلموں سے کس قسم کی دوستی جائز اور کس قسم کی ناجائز ہے۔