1 6 ۔ 1 یہ یہود اور منافقین کی ایک اور مثال بیان فرمائی کہ منافقین نے یہودیوں کو اسی طرح بےیارو مددگا چھوڑ دیا جس طرح شیطان انسان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے پہلے وہ انسان کو گمراہ کرتا ہے اور جب انسان شیطان کے پیچھے لگ کر کفر کا ارتکاب کرلیتا ہے تو شیطان اس سے براءت کا اظہار کردیتا ہے۔ 16۔ 2 شیطان اپنے اس قول میں سچا نہیں ہے، مقصد صرف اس کفر سے علیحدگی اور چھٹکارا حاصل کرتا ہے جو انسان شیطان کے گمراہ کرنے سے کرتا ہے۔
[٢٢] شیطان کا طریقہ واردات :۔ شیطان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو کئی طرح کے سبزباغ دکھا کر اسے اپنے دام تزویر میں پھنسا لیتا ہے۔ پھر جب انسان شیطانی جال میں پھنس کر اس کا آلہ کار اور ایجنٹ بن جاتا ہے تو شیطان نیا شکار تلاش کرنے لگتا ہے۔ اور پہلے کی طرف سے مطمئن اور بےنیاز ہوجاتا ہے۔ اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ شیطان قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کے سامنے ایسی ہی تقریر کرکے خود صاف طور پر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرے گا۔ اور اس کی عملی شکل میدان بدر میں پیش آئی۔ جب شیطان میدان بدر میں بنوکنانہ کے رئیس سراقہ بن مالک کی شکل دھار کر نمودار ہوا اور کافروں کو اکسانے اور فتح کی یقین دہانی کرانے لگا۔ پھر جب اس نے اس میدان میں فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اترتے دیکھا تو چپکے سے وہاں سے کھسکنے لگا۔ اور اس کی تفصیل سورة انفال کی آیت نمبر ٤٨ کے تحت گزر چکی ہے۔- جنگ بدر میں شیطان کی آمد اور فرار :۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ منافقوں نے بھی یہود بنونضیر سے شیطان کا سا ہاتھ کھیلا۔ انہیں جھوٹے وعدے اور امداد کی جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔ پھر جب بنونضیر نے منافقوں کے ان وعدوں اور انگیخت پر سرکشی اختیار کی اور ان کا محاصرہ ہوگیا تو منافق بڑے اطمینان سے اپنے وعدوں سے دامن جھاڑ کر ان کا تماشہ دیکھتے رہے۔
کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ ۔۔۔۔۔۔ یعنی بنو قریظہ کو لڑنے پر ابھارنے والے منافقوں کا حال شیطان کے حال جیسا ہے اور وہ انہیں اسی طرح بےیارو مدد گار چھوڑ دیں گے جیسے شیطان انسان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے کہ وہ انسان کو گمراہ کرتا ہے ، پھر سب وہ اس کے پیچھے الگ کر کفر کا ارتکاب کرلیتا ہے تو شیطان کہہ دیتا ہے کہ میرا تجھ سے کوئی تعلق نہیں ، میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کتنے انسانوں کو اس طرح گمراہ کیا اور گمراہ کرنے کے بعد ان سے بری ہوگیا ۔ قرآن مجید میں اس کی مثال دنیا میں بدر کے موقع پر شیطان کی کفار قریش کو اپنی حمایت کا یقین دلا کر یین موقع پر فرار اختیار کرنا اور ان سے برأت کا اظہار کرنا بیان ہوئی ہے۔ ( دیکھئے انفال : ٤٨) اور قیامت کے دن اس کا اپنے تمام پیروکاروں سے برأت کا اعلان سورة ٔ ابراہیم (٢٢) میں مذکور ہے۔
(آیت) كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ الایة یہ دوسری مثال ان منافقین کی ہے جنہوں نے بنو نضیر کو جلا وطنی کا حکم نہ ماننے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ پر جنگ کرنے کے لئے ابھارا اور ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا، مگر جب مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا تو کوئی منافق امداد کو نہ پہنچا ان کی مثال قرآن کریم نے شیطان کے ایک واقعہ سے دی ہے کہ شیطان نے انسان کو کفر پر آمادہ کیا اور اس سے طرح طرح کے وعدے کئے، مگر جب وہ کفر میں مبتلا ہوگیا تو سب سے مکر گیا۔- شیطان کے ایسے واقعات خدا جانے کتنے ہوئے ہوں گے، ان میں سے ایک واقعہ تو خود قرآن کریم میں منصوص ہے جس کا بیان سورة انفال کی ان آیات میں آیا ہے (آیت) (واذ زین لھم الشیطن اعمالھم وقال لاغالب لکم الیوم من الناس انی جار لکم فلما ترآءت الفئتن نکص علے ٰ عقبیہ وقال انی بری منکم الآیة) ، یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے جس میں شیطان نے بطور وسوسہ کے یا بشکل انسانی سامنے آ کر مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے مقابلہ پر ابھارا اور اپنی مدد کا یقین دلایا، مگر جب مسلمانوں سے مقابلہ ہوا تو مدد کرنے سے صاف انکار کردیا، اس واقعہ کی پوری تشریح معارف القرآن جلد چہارم صفحہ 256 سے صفحہ 258 تک تفصیل کے ساتھ آچکی ہے۔- اگر آیت مذکورہ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے تو یہ ارشاد کہ شیطان انسان سے کفر کرنے کو کہتا ہے اور جب وہ کرلیتا ہے تو اس سے بری ہو کر الگ ہوجاتا ہے، اس پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس واقعہ پر بظاہر شیطان نے ان کو کفر کرنے کے لئے نہیں کہا، کافر تو وہ پہلے ہی سے تھے، شیطان نے تو ان کو مقابلہ پر جمع کرنے کے لئے کہا تھا، جواب ظاہر ہے کہ کفر پر جمے رہنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ پر قتال کرنے کو کہنا بھی اسی حکم میں ہے کہ ان کو کفر کرنے کے لئے کہا جائے۔- اور تفسیر مظہری و قرطبی و ابن کثیر وغیرہ میں اس جگہ شیطان کی اس مثال کے واقعات بنی اسرائیل کے متعدد راہبوں اور عبادت گزاروں کو شیطان کے بہکا کر کفر تک پہنچا دینے کے متعلق نقل کئے ہیں، مثلاً بنی اسرائیل کا ایک راہب عبادت گزار جو اپنے صومعہ میں ہمیشہ عبادت میں مشغول رہتا اور روزے اس طرح رکھتا تھا کہ دس دن میں صرف ایک مرتبہ افطار کرتا تھا، ستر سال اس کے اسی حال میں گزرے، شیطان اس کے پیچھے پڑا اور اپنے سب سے زیادہ مکار، ہوشیار شیطان کو اس کے پاس بصورت راہب عبادت گزار بنا کر بھیجا جس نے اس کے پاس جا کر اس راہب سے بھی زیادہ عبادت گزاری کا ثبوت دیا یہاں تک کہ راہب کو اس پر اعتماد ہوگیا۔- بالآ خر مصنوعی راہب شیطان اس بات میں کامیاب ہوگیا کہ اس راہب کو کچھ دعائیں ایسی سکھلائیں جس سے بیماروں کو شفا ہوجائے، پھر اس نے بہت سے لوگوں کو اپنے اثر سے بیمار کر کے ان کو خود ہی اس راہب کا پتہ دیا جب یہ راہب ان پر دعا پڑھتا تو یہ شیطان اپنا اثر اس سے ہٹا دیتا، وہ شفایات ہوجاتا تھا اور عرصہ دراز تک یہ سلسلہ جاری رکھنے کے بعد اس نے ایک اسرائیلی سردار کی حسین لڑکی پر اپنا یہ عمل کیا اور اس کو بھی راہب کے پاس جانے کا مشورہ دیا، یہاں تک کہ اس کو راہب کے صومعہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا اور رفتہ رفتہ اس کو اس لڑکی کے ساتھ زنا میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہوا جس کے نتیجہ میں اس کو حمل ہوگیا، تو رسوائی سے بچنے کے لئے اس کو قتل کرنے کا مشورہ دیا، قتل کرنے کے بعد شیطان ہی نے سب کو واقعہ قتل وغیرہ بتلا کر راہب کے خلاف کھڑا کردیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کا صومعہ ڈھا دیا اور اس کو قتل کر کے سولی دینے کا فیصلہ کیا، اس وقت شیطان اس کے پاس پھر پہنچا کہ اب تو تیری جان بچنے کی کوئی صورت نہیں، ہاں اگر تو مجھے سجدہ کرلے تو میں تجھے بچا سکتا ہوں، راہب سب کچھ گناہ پہلے کرچکا تھا، کفر کا راستہ ہموار ہوچکا تھا اس نے سجدہ بھی کرلیا، اس وقت شیطان نے صاف کہہ دیا کہ تو میرے قبضہ میں نہ آتا تھا میں نے یہ سب مکر تیرے مبتلائے کفر کرنے کے لئے کئے تھے، اب میں تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ یہ واقعہ تفسیر قرطبی اور مظہری میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ ٠ ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] ،- ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
اور ان منافقین کی مثال بنو قریظہ کے ساتھ جبکہ انہوں نے ان کو رسوا کیا راہب کے ساتھ شیطان کی سی مثال ہے کہ پہلے تو شیطان اسے کہتا ہے کہ تو کافر ہوجا اور جب وہ کفر اختیار کرلیتا ہے تو پھر شیطان کہہ دیتا ہے کہ میرا تجھ سے اور تیرے دین سے کوئی واسطہ نہیں میں تو رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔
آیت ١٦ کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ ” جیسے شیطان کی مثال ‘ جب وہ انسان کو کہتا ہے کہ کفر کر “- فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّنْکَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ ” پھر جب وہ کفر کا ارتکاب کرلیتا ہی تو وہ (شیطان) کہتا ہے میں تم سے لاتعلق ہوں ‘ میں تو ڈرتا ہوں اللہ سے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ “
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :27 یعنی یہ منافقین بنی نضیر کے ساتھ وہی معاملہ کر رہے ہیں جو شیطان انسان کے ساتھ کرتا ہے ۔ آج یہ ان سے کہہ رہے ہیں کہ تم مسلمانوں سے لڑ جاؤ اور ہم تمہارا ساتھ دیں گے ۔ مگر جب وہ واقعی لڑ جائیں گے تو یہ دامن جھاڑ کر اپنے سارے وعدوں سے بری الذمہ ہو جائیں گے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھیں گے کہ ان پر کیا گزری ہے ۔ ایسا ہی معاملہ شیطان ہر کافر سے کرتا ہے ، اور ایسا ہی معاملہ اس نے کفار قریش کے ساتھ جنگ بدر میں کیا تھا ، جس کا ذکر سورہ انفال ، آیت 48 میں آیا ہے ۔ پہلے تو وہ ان کو بڑھاوے دے کر بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ پر لے آیا اور اس نے ان سے کہا کہ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ ۔ ( آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے اور میں تمہاری پشت پر ہوں ) ، مگر جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹا پھر گیا اور کہنے لگا کہ اِنِّیْ بَرِئٓءٌ مِّنْکُمْ ، اِنِّیْ اَریٰ مَا لَا تَرَوْنُ ، اِنِّیْ اَخَافُ اللہ ( میں تم سے بری الذمہ ہوں ، مجھے وہ کچھ نظر آ رہا ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا ، مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے ۔ ) ۔
12: شیطان کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ شرع میں تو اِنسان کو کفر اور گناہوں پر اُکساتا ہے، لیکن جب اُس کے نتیجے میں اُس کی بات ماننے والوں کو کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ اُن سے بے تعلقی اختیار کرلیتا ہے۔ اس کا ایک واقعہ غزوہ بدر کے سلسلے میں سورۃ انفال (۸:۴۸) میں گذر چکا ہے۔ اور آخرت میں تو وہ کافروں کی ذمہ داری لینے سے صاف مکر ہی جائے گا۔ جس کی تفصیل سورۃ ابراہیم (۴۱:۲۲) میں بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح یہ منافق لوگ شروع میں تو یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف اُکساتے رہے، لیکن جب وقت آیا تو مدد کرنے سے صاف مکر گئے۔