15۔ 1 اس سے بعض نے مشرکین مکہ مراد لیے ہیں جنہیں غزوہ بنی نصیر سے کچھ عرصہ قبل جنگ بدر میں عبرت ناک شکست ہوئی تھی یعنی یہ بھی مغلوبیت اور ذلت میں مشرکین ہی کی طرح ہیں جن کا زمانہ قریب ہی ہے بعض نے یہود کے دوسرے قبیلے بنو قینقاع کو مراد لیا ہے جنہیں بنو نضیر سے قبل جلا وطن کیا جا چکا تھا جو زمان ومکان دونوں لحاظ سے ان کے قریب تھے۔ ابن کثیر۔ 15۔ 2 یعنی یہ وبال جو انہوں نے چکھا، یہ تو دنیا کی سزا ہے، آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے جو نہایت دردناک ہوگی۔
[٢١] تھوڑی مدت پہلے یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کو جس قدر ذلت و خواری سے نکالا گیا وہ یہ یہود بنی نضیر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور اس کی تفصیل پہلے اسی سورة کی آیت ٢ کے حواشی میں گزر چکی ہے اور کافر تھوڑی مدت پہلے جنگ بدر میں اپنی کرتوتوں کی سزا پاچکے ہیں۔ یہ تو انہیں دنیا میں سزا ملی اور آخرت میں دردناک عذاب تو جوں کا توں باقی ہے۔
کَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ ۔۔۔۔:” کمثل الذین “ سے پہلے مبتداء محذوف ہے : ’ ’ ای مثلھم “ یعنی ان بنو قریظہ کا حال جنہیں منافقین لڑنے پر ابھار رہے ہیں اور اپنی ہر طرح کی مدد کا یقین دلا رہے ہیں ان لوگوں کے حال جیسا ہے جو ان سے پہلے قریب ہی تھے۔ مراد ان سے بنو نضیر ہیں جنہوں نے اپنی بد عہدی کا وبال چکھا ، وہ اپنی تمام تر قلعہ بندیوں ، فوجی تیاریوں ، بہادری کے دعوؤں اور منافقین و مشرکین کی امداد کے وعدوں کے باوجود پہلی چوٹ بھی نہ سہ سکے اور اپنی زمینیں ، باغات اور مکانات مسلمانوں کے لیے چھوڑ کر ذلیل و رسوا ہو کر جلا وطن ہوگئے اور ان کے لیے آئندہ بھی دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا ہے۔
معارف و مسائل - (آیت) كَمَثَلِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِيْبًا الخ، یہ بنو نضیر کی مثال کا بیان ہے اور الذین من قبلہم کی تفسیر میں حضرت مجاہد نے فرمایا کہ کفار اہل بدر مراد ہیں اور حضرت ابن عباس نے فرمایا بنو قینقاع (قبیلہ یہود) مراد ہیں اور دونوں کا انجام بد اور مقتول و مغلوب اور ذلیل و خوار ہونا اس وقت واضح ہوچکا تھا کیونکہ بنو نضیر کی جلاوطنی کا واقعہ غزوہ بدر و احد کے بعد واقع ہوا اور بنو قینقاع کا واقعہ بھی بدر کے بعد پیش آ چکا تھا، بدر میں مشرکین عرب کے ستر سردار مارے گئے اور باقی بڑی ذلت و خواری کے ساتھ واپس ہوئے اور بقول ابن عباس یہ مراد ہیں تو مطلب آیت کا واضح ہے کہ ان کے بارے میں جو آیت میں فرمایا : ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ ، یعنی انہوں نے اپنے کرتوت کا بدلہ چکھ لیا، یہ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں آنکھوں کے سامنے آ گیا، اسی طرح اگر الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ سے مراد یہود ہی کا قبیلہ بنو قینقاع ہو تو ان کا واقعہ بھی ایسا ہی عبرتناک ہے۔- بنوقینقاع کی جلا وطنی :- واقعہ یہ تھا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مدینہ کے آس پاس جتنے قبائل یہود کے تھے سب کے ساتھ ایک معاہدہ صلح کا ہوگیا تھا جس کی شرائط میں یہ داخل تھا کہ ان سے کوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے کسی مخالف کی امداد نہ کرے گا، ان معاہدہ کرنے والوں میں قبیلہ بنو قینقاع بھی شامل تھا، مگر اس نے چند مہینوں کے بعد ہی عذر و عہد شکنی شروع کردی اور غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین کے ساتھ خفیہ سازش و امداد کے کچھ واقعات سامنے آئے، اس وقت یہ آیت قرآن نازل ہوئی (آیت) (واما تخافن من قوم خیانتہ فانبذ الیھم علے ٰ سواء) یعنی ” اگر (معاہدہ اور صلح کے بعد) کسی قوم کی خیانت کا خطرہ لاحق ہو تو آپ ان کا معاہدہ صلح ختم کرسکتے ہیں “ بنو قینقاع اس معاہدہ کو اپنی غداری سے خود توڑ چکے تھے، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا اور علم جہاد حضرت حمزہ کو عطا فرمایا اور مدینہ طیبہ کے شہر پر حضرت ابولبابہ کو اپنا خلیفہ مقرر کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی تشریف لے گئے، یہ لوگ مسلمانوں کا لشکر دیکھ کر اپنے قلعہ میں بند ہوگئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا، پندرہ روز تک تو یہ لوگ محصور ہو کر صبر کرتے رہے، بالآخر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور یہ سمجھ گئے کہ مقابلہ سے کام نہ چلے گا اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور کہا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی ہیں جو آپ ہمارے بارے میں نافذ کریں۔- آپ کا فیصلہ ان کے مردوں کے قتل کا ہونے والا تھا کہ عبداللہ بن ابی منافق نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بےحد اصرار و الحاح کیا کہ ان کی جاں بخشی کردی جائے، بالآخر آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ یہ لوگ بستی خالی کر کے جلاوطن ہوجائیں اور ان کے اموال مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گے، اس قرار داد کے مطابق یہ لوگ مدینہ چھوڑ کر ملک شام کے علاقہ اذرعات میں چلے گئے اور ان کے اموال کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال عنیمت کے قانون کے مطابق اس طرح تقسیم فرمایا کہ ایک خمس بیت المال کا رکھ کر باقی چار خمس غانمین میں تقسیم کردیئے۔- غروہ بدر کے بعد یہ پہلا خمس تھا جو بیت المال میں داخل ہوا، یہ واقعہ بروز شنبہ 15 شوال سن 2 ھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے بیس ماہ بعد پیش آیا۔
كَمَثَلِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِيْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ ٠ ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١٥ ۚ- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] .- وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔- ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- بال - البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال :- قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] [ طه 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم .- ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي .- ( ب ی ل ) البال - اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ - فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
بد عہدی اور سزا کے اعتبار سے قریظہ والوں کی حالت ایسی ہے جیسی ان سے تقریبا دو سال پہلے والوں کی ہوئی یعنی بنو نضیر کی وہ اپنی بدعہدی کا مزہ چکھ چکے ہیں اور آخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
آیت ١٥ کَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ ” (ان کا وہی حال ہوگا) جیسے ان لوگوں کا معاملہ ہوا جو ان سے پہلے قریب ہی اپنے کیے کی سزا چکھ چکے ہیں۔ “- اس سے یہودی قبیلہ بنو قینقاع کے لوگ مراد ہیں جنہیں ٢ ہجری میں غزوئہ بدر کے بعد مدینہ سے جلاوطن کیا گیا تھا ‘ جبکہ بنونضیر کی جلاوطنی ‘ جس کا ذکر ہم اس سورت میں پڑھ رہے ہیں ‘ ٤ ہجری کو عمل میں آئی۔ اسی طرح ٥ ہجری میں غزوئہ احزاب کے بعد یہود مدینہ کا تیسرا اور آخری قبیلہ بنوقریظہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ - وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ ” اور ان کے لیے بہت ہی دردناک عذاب ہے۔ “
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :26 اشارہ ہے کفار قریش اور یہود بنی قینقاع کی طرف جو اپنی کثرت تعداد اور اپنے سر و سامان کے باوجود انہی کمزوریوں کے باعث مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سرو سامان جماعت سے شکست کھا چکے تھے ۔
11: اس سے مراد ایک اور قبیلے بنوقینقاع کے یہودی ہیں۔ انہوں نے بھی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے امن اور باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا، لیکن پھر خود ہی آپ سے جنگ ٹھان لی جس کے نتیجے میں انہوں نے شکست بھی کھائی، اور ان کو بھی مدینہ منوَّرہ سے جلا وطن کیا گیا۔