اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دن چڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے ۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے ، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی رنگت کو متغیر کر دیا ، آپ گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر حضرت بلال کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت ( ترجمہ ) الخ ، تلاوت کی پھر سورہ حشر کی آیت ( ترجمہ ) الخ ، پڑھی اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آ گئیں آپ برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ ، ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ہر چیز کے ڈھیر لگ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ نے فرمایا جو بھی کسی اسلامی کار خیر کر شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں ، اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شروع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں ( مسلم ) آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر ، پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے ، پھر تاکید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ یہی لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں ، جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ ( ترجمہ ) مسلمانو تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں ، طبرانی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ نہ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ، کیا تم نہیں جانتے؟ کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو ، پس تمہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گذارو ، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرفاپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کر سکتا ، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے ( ترجمہ ) خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لئے وہ دربار الہیہ میں جا پہنچے ، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کر لی ، کہاں ہیں؟ وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے ، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں ، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے مضبوط قلعے کھڑے کئے ، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں ، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آ سکے ، اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور ان کی اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا ( ترجمہ ) یعنی وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے ، سنو وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو ، وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو ، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے ۔ اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں ، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقابت یا عدم ثقاہت سے معرف نہیں ، لیکن امام ابو داؤد سجستانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے استاذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں ، واللہ علم ۔ پھر ارشاد ہتا ہے کہ جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں ، جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں با ایمان نیک کار لوگوں کے مثل کر دیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) الخ ، اندھا اور دیکھتا ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں ، تم بہت ہی کم نصیحت اصل کر رہے ہو ، اور ( ترجمہ ) الخ کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنا دیں گے یا پرہیز گاروں کو مثل فاجروں کے بنا دیں گے؟ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ، مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہو گا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہو گا ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور ، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے ۔
18۔ 1 اہل ایمان کو خطاب کرکے انہیں وعظ کیا جارہا ہے اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں بجا لاؤ جن سے روکا ہے ان سے رک جاؤ آیت میں یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا کیونکہ یہ تقوی اللہ کا خوف ہی انسان کو نیکی کرنے پر اور برائی سے اجتناب پر آمادہ کرتا ہے۔ 18۔ 2 اسے کل سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ اس کا وقوع زیادہ دور نہیں، قریب ہے۔ 18۔ 3 چناچہ وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا، نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی جزا۔
[٢٤] خہر شخص کو آخرت کا دھیان رکھنا چاہئے :۔ کل سے مراد قیامت کا دن یا اخروی زندگی ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں اس کی دنیا کی پوری زندگی آج ہے۔ دنیا دارالعمل ہے جس کا پھل اسے عقبیٰ میں یا آخرت میں ملے گا، جو کچھ بوئے گا، وہی کچھ کاٹے گا اور جتنا بوئے گا اتنا ہی کاٹے گا۔ ان اصولوں کے تحت ہر انسان کو خود اپنا محتسب بنایا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اعمال پر خود نظر رکھے۔ اسے سیدھے اور غلط راستے، نیکی اور بدی، اچھے اور برے کی تمیز بھی عطا کردی گئی ہے اور پوری وضاحت کے ساتھ سب کچھ بتا بھی دیا گیا ہے۔ اب یہ اس کا اپنا کام ہے کہ خود دیکھتا رہے کہ وہ کون سی راہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس راہ پر وہ گامزن ہے۔ وہ اسے جہنم کی طرف لے جارہی ہو ؟ اور سورة قیامۃ میں فرمایا کہ انسان کو اتنی سمجھ دے دی گئی ہے کہ وہ اپنے اعمال کا خود ہی محاسبہ کرسکے۔ اگر وہ اپنے حق میں مصالحت اور بہانہ تراشیاں چھوڑ دے تو وہ اپنے اعمال کا وزن کرسکتا ہے۔ اور اسے ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اس لیے کہ اگر وہ ہر وقت اللہ سے ڈرتا رہے گا تو سیدھے راستے سے چوکے گا نہیں۔ اور نہ ہی اللہ کی نافرمانی کے کام کرے گا۔ دوسری بات جو اسے ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے یہ ہے کہ اس کا مال و دولت، اس کی تندرستی، اس کی استعداد اور اس کی سرگرمیاں آیا دنیا کے حصول تک ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہیں یا وہ آخرت کے لیے کچھ سامان مہیا کر رہا ہے۔ یہ احتساب خود اسے ایسی باتوں پر آمادہ کر دے گا جو آخرت میں اس کے لیے سود مند ہوں۔
١۔ یٰٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ : غزوۂ بنو نضیر میں مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات ، یہود کی عہد شکنی کی سزا اور منافقین کی ریشہ دوانیوں اور ان کے انجام کے ذکر کے بعد تمام مسلمانوں کو نصیحت کی جا رہی ہے۔” یٰٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا “ کے الفاظ کے ساتھ مخلص مسلمانوں کو بھی خطاب ہے اور منافق مسلمانوں کو بھی جو یہود سے دوستی رکھتے اور انہیں اپنی مدد کا یقین دلاتے تھے۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور قیامت کے دن کی تیاری کی نصیحت کی گئی ہے ، تا کہ مخلص مسلمان دنیا میں ملنے والی فتوحات اور نعمتوں کی خوشی میں آخرت کی تیاری کو نہ بھول جائیں اور منافقین میں سے جن کے دلوں میں ایمان کی کوئی رمق باقی ہے وہ اپنی روش پر نادم ہوں اور اللہ سے ڈر کر نفاق سے باز آجائیں اور آنے والے وقت کی فکر کرلیں۔- ٢۔ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ :” اتقو اللہ “ پر ” وانظروا “ کے ساتھ عطف کے بجائے ” والتنظر نفس “ کے ساتھ عطف یہ احساس دلانے کے لیے ڈالا گیا ہے کہ یہ حکم ہر شخص کے لیے ہے۔ ’ ’ نفس “ کو نکرہ لانے سے بھی عموم مراد ہے ۔ گویا ” نفس “ یہاں ” کل نفس “ کے معنی میں ہے ، کیونکہ جس طرح نکرہ نفی کے سیاق میں آئے تو عموم مراد ہوتا ہے ، اسی طرح اگر نکرہ امر ، دعا اور ان جیسی چیزوں مثلاً شرط کے سیاق میں آئے تو وہاں بھی عموم مراد ہوتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ ) ( التوبۃ : ٦)” اور اگر مشرکین میں سے کوئی ایک تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے “۔ ( ابن عاشور) ۔- ٣۔ مَّا قَدَّمَتْ لِغَد :” غد “ (کل) سے مراد آخرت ہے۔ دنیا آج ہے اور آخرت کل ، جو مرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے۔ دور ہونے کے باوجود اسے ” غد “ کہنے میں یہ سبق ہے کہ اسے دور مت سمجھو، کیونکہ جو آنے والا ہے وہ قریب ہی ہے ، خصوصاً جس کا علم ہی نہ ہو کہ کب آئے گا اور جو اگلے لمحے ہی آسکتا ہو اس کے ” غد “ ہونے میں کیا شبہ ہے۔- ٤۔ وَاتَّقُوا اللہ ط اِنَّ اللہ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ : یہاں ” اتقوا اللہ “ کو دوبارہ لایا گیا ہے ، اس کی تین توجیہیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں ، ایک یہ کہ تکرار کا مقصد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی تاکید ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ پہلے ” اتقوا اللہ “ کے ساتھ اللہ سے ڈرنے کا اور آخرت کی تیاری کا حکم دیا ، اس کے بعد ” اِنَّ اللہ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ “ کے ساتھ اس کی وجہ بیان کرنا تھی ، کیونکہ ” ان “ تعلیل کے لیے ہوتا ہے ، لیکن چونکہ پہلے ” اتقو اللہ “ کے بعد فاصلہ زیادہ ہو رہا تھا ، اس لیے ” اتقوا اللہ “ کو دوبارہ لا کر اس کی وجہ بیان فرما دی کہ اللہ سے ڈرجاؤ ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ تمہارا کوئی کام اس سے مخفی نہیں جس پر تم اس کی گرفت سے بچ جاؤ ، یا اچھا ہے تو اس کے انعام سے محروم رہو ۔ تیسری توجیہ یہ ہے کہ پہلے ” اتقوا اللہ “ سے مراد تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم ہے جس کی بدولت آدمی نیکی کرتا ہے اور گناہ سے بچتا ہے اور دوسرے ” اتقوا اللہ “ سے مراد اس پر دوام ہے ، یعنی ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو ، کیونکہ تم جو کچھ کرتے ہو یا کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح با خبر ہے۔ اس معنی کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ بعد میں فرمایا :(ولا تکونوگالذین نسو اللہ) اور ان لوگوں یعنی منافقین کی طرح نہ ہوجاؤ جو ( ایمان لانے کے بعد ) اللہ کو بھول گئے، بلکہ ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو ( تم نے نافرمانوں کا انجام سن لیا سو تم) اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے (یعنی اعمال صالحہ میں کوشش کرو جو کہ ذخیرہ آخرت ہیں) اور (جس طرح تحصیل طاعات و اعمال صالحہ میں تقویٰ کا حکم ہے، اسی طرح سیئات و معاصی سے بچے کے بارے میں تم کو حکم ہے کہ) اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی سب خبر ہے (پس معاصی کے ارتکاب سے اندیشہ عقوبت ہے، پس پہلا اتَّقُوا اللّٰهَ طاعات کے متعلق ہے جس کا قرینہ قدمت لغد ہے، اور دوسرا معاصی کے متعلق ہے، جس کا قرینہ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہے) اور (آگے ان احکام کی مزید تاکید کے لئے ارشاد ہے کہ) تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے اللہ ( کے احکام) سے بےپروائی کی (یعنی عمل بالاحکام کو ترک کردیا، اس طرح کہ اوامر کے خلاف کیا اور نواہی کا ارتکاب کیا) سو (اثر اس کا یہ ہوا کہ) اللہ تعالیٰ نے خود ان کی جان سے ان کو بےپرواہ بنادیا (یعنی ان کی ایسی عقل ماری گئی کہ خود اپنے نفع حقیقی کو نہ سمجھا اور نہ حاصل کیا) یہی لوگ نافرمان ہیں (اور نافرمانی کی سزا بھگتیں گے اور اوپر جن دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہوا، یعنی ایک وہ جو اہل تقویٰ ہوئے اور دوسرے وہ جو مارک احکام ہوئے ان میں ایک اہل جنت ہیں دوسرے اہل نار اور) اہل نار اور اہل جنت باہم برابر نہیں (بلکہ) جو اہل جنت ہیں وہ لوگ کامیاب ہیں (اور اہل نار ناکام ہیں جیسا اوپر (آیت) اولٓئک ھم الفسقون سے معلوم ہوا پس تم کو اصحاب الجنتہ میں سے ہونا چاہئے، اہل نار میں سے نہ ہونا چاہئے اور یہ چند نصائح جس قرآن کے ذریعہ سے تم کو سنائے جاتے ہیں وہ ایسا ہے کہ) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے (اور اس میں سمجھنے کا مادہ رکھ دیتے اور شہوات کا مادہ نہ رکھتے) تو ( اے مخاطب) تو اس کو دیکھتا کہ خدا کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا (یعنی قرآن فی نفسہ ایسا موثر اور قوی الاثر ہے، مگر انسان میں بوجہ غلبہ شہوات کے قابلیت فاسد ہوگئی جس کے سبب تاثر نہیں ہوتا، پس ان کو چاہئے کہ تحصیل طاعات اور ترک معاصی سے اپنی شہوت کو مغلوب کرے تاکہ مواعظ قرآنیہ سے اس کو تاثر ہو اور احکام پر استقامت و استدامت اور ذکر و فکر نصیب ہو جس کا اوپر حکم ہوا ہے) اور ان مضامین عجیبہ کو ہم لوگوں کے (نفع کے) لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں ( اور منتفع ہوں، اسی لئے یہ مضمون لوانزلنا الخ یہاں بیان کیا گیا، آگے حق تعالیٰ کے صفات کمال بیان کئے جاتے ہیں جس سے حق تعالیٰ کی عظمت قلب پر نقش ہو کر احکام بجالانے میں مددگار ثابت ہو، پس ارشاد ہے کہ) وہ ایسا معبود ہے کہ اس کے سوا کوئی اور معبود (بننے کے لائق) نہیں وہ جانتے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا وہی بڑا مہربان رحم والا ہے (اور چونکہ توحید نہایت مہتم بالشان چیز ہے، اس لئے اس کی تاکید کے لئے مکرر فرمایا کہ) وہ ایسا معبود ہے کہ اس کے سوال کوئی اور معبود (بننے کے لائق) نہیں وہ بادشاہ ہے (سب عیبوں سے) پاک ہے، سالم ہے (یعنی نہ ماضی میں اس میں کوئی عیب ہوا جو حاصل ہے قدوسی کا اور نہ آئندہ اس کا احتمال ہے جو حاصل ہے سلام کا (کذافی الکبیر) اپنے بندوں کو خوف کی چیزوں سے) امن دینے والا ہے (اپنے بندوں کی خوف کی چیزوں سے) نگہبانی کرنے والا ہے (یعنی آفت بھی نہیں آنے دیتا اور آئی ہوئی کو بھی دور کردیتا ہے) زبردست ہے خرابی کا درست کردینے والا ہے، بڑی عظمت والا ہے، اللہ تعالیٰ ( جس کی یہ شان ہے کہ) لوگوں کے شرک سے پاک ہے وہ معبود (برحق) ہے پیدا کرنے والا ہے، ٹھیک ٹھیک بنانے والا ہے (یعنی ہر چیز کو حکمت کے موافق بناتا ہے) صورت (شکل) بنانے والا ہے، اس کے اچھے اچھے نام ہیں (جو اچھی اچھی صفتوں پر دلالت کرتے ہیں) سب چیزیں اس کی تسبیح (و تقدیس) کرتی ہیں (حالاً یا قالاً ) جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور وہی زبردست حکمت والا ہے (پس ایسے باعظمت کے احکام کی بجا آوری ضرور اور نہایت ضرور ہے) ۔- معارف و مسائل - سورة حشر میں شروع سے کفار اہل کتاب اور مشرکین و منافقین کے حالات و معاملات اور ان پر دنیا و آخرت کے وبال کا بیان فرمانے کے بعد اب آخر سورت تک مومنین کو متنبہ کرنا اور اعمال صالحہ کی پابندی کرنے کی ہدایت ہے۔- مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں ایک بلیغ انداز سے آخرت کی فکر اور اس کے لئے تیاری کا حکم ہے جس میں پہلے فرمایا :۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ، یعنی اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور تم میں سے ہر نفس کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ اس نے آخرت کے لئے کیا سامان بھیجا ہے۔ - یہاں چند باتیں غور طلب ہیں : اول :۔ یہ کہ اس آیت میں قیامت کو لفظ غد سے سے تعبیر کیا جس کے معنی ہیں آنے والی کل، اس میں تین چیزوں کی طرف اشارہ ہے، اول پوری دنیا کا بمقابلہ آخرت نہایت قلیل و مختصر ہونا ہے کہ ساری دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک دن کی مثال ہے اور حساب کے اعتبار سے تو یہ نسبت ہونا بھی مشکل ہے، کیونکہ آخرت دائمی ہے جس کی کوئی انتہا اور انقطاع نہیں، انسانی دنیا کی عمر تو چند ہزار سال ہی بتلائی جاتی ہے، اگر زمین و آسمان کی تخلیق سے حساب لگائیں تو چند لاکھ سال ہوجائیں گے، مگر پھر ایک محدود مدت ہے غیر محدود اور غیر متناہی سے اس کو کوئی بھی نسبت نہیں ہوتی۔- بعض روایات حدیث میں ہے الدنیا یوم و لنا فیہ صوم، یعنی ” ساری دنیا ایک دن ہے اور اس دن میں ہمارا روزہ ہے “ اور غور کرو تو تخلیق انسانی سے شروع کرو یا تخلیق زمین و آسمان سے یہ دونوں چیزیں ایک فرد انسانی کے لئے قابل اہتمام نہیں، بلکہ ہر فرد کی دنیا تو اس کی عمر کے ایام و سال ہیں اور وہ آخرت کے مقابلہ میں کتنی حقیر مدت ہے، اس کا ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے۔- دوسرا اشارہ اس میں قیامت کے یقینی ہونے کی طرف ہے، جیسے آج کے بعد کل کا آنا امر یقینی ہے کسی کو اس میں شبہ نہیں ہوتا، اسی طرح دنیا کے بعد قیامت و آخرت کا آنا یقینی ہے۔- تیسرا اشارہ اس طرف ہے کہ قیامت بہت قریب ہے جیسے آج کے بعد کل کچھ دور نہیں، بہت قریب سمجھی جاتی ہے، اسی طرح دنیا کے بعد قیامت بھی قریب ہے۔- اور قیامت ایک تو پورے عالم کی ہے جب زمین و آسمان سب فنا ہوجائیں گے، وہ بھی اگرچہ ہزاروں لاکھوں سال کے بعد ہو مگر بمقابلہ مدت آخرت کے بالکل قریب ہی ہے، دوسری قیامت ہر انسان کی اپنی ہے جو اس کی موت کے وقت آجاتی ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے من مات فقد قامت قیامتہ، یعنی ” جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو ابھی قائم ہوگئی “ کیونکہ قبر ہی سے عالم آخرت کے آثار شروع ہوجاتے ہیں اور عذاب وثواب کے نمونے سامنے آجاتے ہیں کیونکہ عالم قبر جس کو عالم برزخ بھی کہا جاتا ہے اس کی مثال دنیا کی انتظار گاہ (ویٹنگ روم) کی سی ہے جو فرسٹ کلاس سے لے کر تھرڈ کلاس تک کے لوگوں کے لئے مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور مجرموں کا ویٹنگ روم حوالات یا جیل خانہ ہوتا ہے، اسی انتظار گاہ ہی سے ہر شخص اپنا درجہ اور حیثیت متعین کرسکتا ہے، اس لئے مرنے کے ساتھ ہی ہر انسان کی اپنی قیامت آجاتی ہے اور انسان کا مرنا اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا معمہ بنایا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا فلسفی اور سائنسدان اس کا یقینی وقت مقرر نہیں کرسکتا، بلکہ ہر وقت ہر آن انسان اس خطرہ سے باہر نہیں ہوتا کہ شاید اگلا گھنٹہ زندگی کی حالت میں نہ آئے، خصوصاً اس برق رفتار زمانہ میں تو ہارٹ فیل ہونے کے واقعات نے اس کو روز مرہ کی بات بنادیا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں قیامت کو لفظ غد سے تعبیر کر کے بےفکرے انسان کو متنبہ کردیا کہ قیامت کو کچھ دور نہ سمجھو وہ آنے والی کل کی طرح قریب ہے اور ممکن یہ بھی ہے کہ کل سے پہلے ہی آجائے۔- دوسری غور طلب بات اس آیت میں یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اس میں انسان کو اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی کہ قیامت جس کا آنا یقینی بھی ہے اور قریب بھی اس کے لئے تم نے کیا سامان بھیجا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا اصل وطن اور مقام آخرت ہے، دنیا میں اس کا مقام ایک مسافر کی طرح ہے، وطن کے دائمی قیام وقرار کے لئے یہیں سے کچھ سامان بھیجنا ضروری ہے اور انسان کے اس سفر کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ یہاں رہ کر کچھ کمائے اور جمع کرے پھر اس کو اپنے وطن آخرت کی طرف بھیج دے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہاں سے دنیا کا سامان، مال و دولت کوئی وہاں ساتھ نہیں لے جاسکتا تو بھیجنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف مال منتقل کرنے کا جو طریقہ دنیا میں رائج ہے کہ یہاں کی حکومت کے بینک میں جمع کر کے دوسرے ملک کی کرنسی حاصل کرلے جو وہاں چلتی ہے، یہی صورت آخرت کے معاملہ میں ہے کہ جو کچھ یہاں اللہ کی راہ میں اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں خرچ کیا جاتا ہے وہ آسمانی حکومت کے بینک (اسٹیٹ بینک) میں جمع ہوجاتا ہے، وہاں کی کرنسی ثواب کی صورت میں اس کے لئے لکھ دی جاتی ہے، اور وہاں پہنچ کر بغیر کسی دعوے اور مطالبہ کے اس کے حوالہ کردی جاتی ہے۔- اور لفظ مّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ عام ہے نیک اعمال اور بد اعمال دونوں کے لئے جس نے نیک اعمال آگے بھیجے ہیں اس کو ثواب کی صورت میں آخرت کے نقود ( کرنسی) مل جائے اور جس نے برے اعمال آگے بھیجے ہیں وہاں اس پر فرد جرم عائد ہوگی، اس کے بعد لفظ اتقواللہ کا اعادہ کیا گیا، یہ تاکید کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور وہ مراد بھی ہو سکتی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں بیان ہوئی ہے کہ پہلے اتقواللہ سے واجب و فرائض کی ادائیگی کا اہتمام سکھایا گیا اور دوسرے اتقوا اللہ سے گناہوں سے بچنے کا اہتمام بتلایا گیا ہے - اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے اتقوا اللہ سے اعمال و احکام خداوندی کی تعمیل کر کے آخرت کے لئے کچھ سامان بھیجنے کا حکم ہو اور دوسرے اتقوا اللہ سے اس طرف ہدایت ہو کہ دیکھو جو سامان وہاں بھیجتے ہو اس کو دیکھ لو، کہ وہ کوئی کھوٹا خراب سامان نہ ہو جو وہاں کام نہ آئے، کھوٹا سامان وہاں کے لئے وہ ہے کہ جس کی صورت عمل صالح کی ہو مگر اس میں اخلاص اللہ کی رضا کے لئے نہ ہو بلکہ نام و نمود یا اور کوئی غرض نفسانی شامل ہو، یا وہ عمل جو صورت میں تو عبادت ہے مگر دین میں اس کا کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بدعت و گمراہی ہے، تو اس دوسرے اتقوا اللہ کا خلاصلہ یہ ہوا کہ آخرت کے لئے محض سامان کی صورت بنادینا کافی نہیں، دیکھ کر بھیجو کہ کھوٹا سامان نہ ہو جو وہاں نہ لیا جائے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ٠ ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ١٨- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- الانْتِظَارُ- النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ،- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ [يونس 102] - ( ن ظ ر ) الانتظار - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور زمتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔ فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ [يونس 102] سو جیسے برے دن ان سے پہلے لوگوں پ رگذرچکے ہیں اسیی طرح کے دنوں کے یہ منتظر ہیں ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- قدم - وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء 27]- ( ق د م ) القدم - عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔- غَدٌ- يقال للیوم الذي يلي يومک الذي أنت فيه، قال : سَيَعْلَمُونَ غَداً [ القمر 26] ، ونحوه .- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر ایک شخص خواہ نیک ہو یا بد دیکھ بھال کرے کہ اس نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے کیونکہ قیامت میں اسی کا بدلہ ملے گا جو اس نے دنیا میں اعمال کیے ہیں اگر نیک ہیں تو اچھا اور برے ہیں تو برا اور اپنے اعمال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو وہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔
اب ہم اس سورت کے تیسرے اور آخری رکوع کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں جو بہت اہم آیات پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ جب قرآن مجید کے کسی مقام یا کسی آیت کی خصوصی اہمیت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے اس مقام یا آیت کا کوئی خاص پہلو یا خاص موضوع مراد ہوتا ہے ‘ ورنہ قرآن مجید کا تو ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اہم ہے۔ مثلاً قرآن مجید کے بعض مقامات فلسفہ و حکمت کے اعتبار سے اہم ہیں تو بعض دوسرے مقامات سائنسی حوالے سے لائق توجہ ہیں۔ بعض آیات روح دین سے بحث کرتی ہیں تو بعض ایمان کی ماہیت واضح کرتی ہیں۔ اسی طرح ہر آیت اور ہر مقام کی اہمیت اپنے موضوع اور مضمون کے اعتبار سے ہے۔ چناچہ سورة الحشر کے آخری رکوع کی اہمیت فلسفہ اور تصوف کے موضوع کی وجہ سے بھی ہے اور اسمائے حسنیٰ کے اس عظیم الشان گلدستے کے اعتبار سے بھی جو پورے قرآن میں بالکل یکتا اور منفرد ہے ۔ اس سورت کی آخری تین آیات اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے ذکر کے حوالے سے سورة الحدید کی ابتدائی چھ آیات کے ہم وزن ہیں۔ ان تین آیات میں ایک ساتھ سولہ اسمائے حسنیٰ آئے ہیں اور ان میں سے آٹھ اسمائے حسنیٰ تو ایک ہی آیت میں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اسمائے حسنیٰ کے ایک مقام پر اکٹھے ہونے کی اور کوئی مثال قرآن مجید میں نہیں ملتی۔- آیت ١٨ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج ” اے اہل ِایمان اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے “- ظاہر ہے یہ اس کل کے دن کی بات ہے جو بعث بعد الموت کے بعد آنے والا ہے ‘ جس دن ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا۔ اس دن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہر اہل ایمان اپنی زندگی اللہ کے تقویٰ کے سائے میں گزارنے کا اہتمام کرے اور اپنے اعمال کا مسلسل جائزہ لیتا رہے کہ اس نے آخرت کے حوالے سے اب تک کیا کمائی کی ہے اور کائناتی حکومت کے امپیریل بینک میں اپنے کل کے لیے اب تک کتنا سرمایہ جمع کرایا ہے۔- وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْـرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ ” اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ‘ یقینا تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “- اس آیت میں بنیادی طور پر دو باتوں پرز ور دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کا تقویٰ اور فکر آخرت۔ بلکہ اِتَّقُوا اللّٰہَ کا حکم یہاں خصوصی تاکید کے طور پر دو مرتبہ آیا ہے ۔ تقویٰ سے عام طور پر اللہ کا خوف اور ڈر مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں یہ اہم نکتہ ضرور مدنظر رہنا چاہیے کہ اس خوف میں شیر یا سانپ کے خوف کی طرح دہشت کا عنصر بالکل نہیں ‘ بلکہ اس کی مثال ایسے خوف کی سی ہے جیسا خوف اولاد اپنے والد سے محسوس کرتی ہے۔ اس خوف میں محبت اور احتیاط کے جذبات غالب ہوتے ہیں کہ ہمارے والد ہم سے ناراض نہ ہوجائیں اور ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ہمارے والد کے جذبات و احساسات مجروح ہوں ۔ چناچہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے دل میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ڈر رہے۔۔۔۔ تقویٰ کے لغوی معنی بچنے کے ہیں ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ بچ کر زندگی گزارنا۔
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :28 قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ جب کبھی منافق مسلمانوں کے نفاق پر گرفت کی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ انہیں نصیحت بھی کی جاتی ہے تاکہ ان میں سے جس کے اندر بھی ابھی کچھ ضمیر کی زندگی باقی ہے وہ اپنی اس روش پر نادم ہو اور خدا سے ڈر کر اس گڑھے سے نکلنے کی فکر کرے جس میں نفس کی بندگی نے اسے گرا دیا ہے ۔ یہ پورا رکوع اسی نصیحت پر مشتمل ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :29 کل سے مراد آخرت ہے ۔ گویا دنیا کی یہ پوری زندگی آج ہے اور کل وہ یوم قیامت ہے جو اس آج کے بعد آنے والا ہے ۔ یہ انداز بیان اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے انسان کو یہ سمجھایا ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ شخص نادان ہے جو آج کے لطف و لذت پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا ہے ۔ اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سر چھپانے کو جگہ بھی باقی رہے گی یا نہیں ، اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہو چکا ہے ، حالانکہ آخرت ٹھیک اسی طرح آنی ہے جس طرح آج کے بعد کل آنے والا ہے ، اور وہاں وہ کچھ نہیں پا سکتا اگر دنیا کی موجودہ زندگی میں اس کے لیے کوئی پیشگی سامان فراہم نہیں کرتا ۔ اس کے ساتھ دوسرا حکیمانہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محاسب بنایا گیا ہے ۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے اور بھلے کہ تمیز پیدا نہ ہو جائے ، اس کو سرے سے یہ احساس ہی نہیں ہو سکتا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ آخرت میں اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا ۔ اور جب اس کے اندر یہ حس بیدار ہو جائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے وقت ، اپنے سرمایے ، اپنی محنت ، اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششوں کو جس راہ میں صرف کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف سے جا رہی ہے یا جہنم کی طرف ۔ یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضا ہے ، نہ دیکھے گا تو آپ ہی اپنا مستقبل خراب کرے گا ۔