Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی اللہ نے بطور جزا انہیں ایسا کردیا کہ وہ ایسے عملوں سے غافل ہوگئے جن میں ان کا فائدہ تھا اور جن کے ذریعے سے وہ اپنے نفسوں کو عذاب الٰہی سے بچا سکتے تھے یوں انسان خدا فراموشی سے خود فراموشی تک پہنچ جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] اللہ کو بھولنے کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہوتا ہے :۔ یعنی اللہ کو بھول جانے یا بھلائے رکھنے کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ کی معرفت سے ہی انسان کو اپنی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ جو انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اس کائنات میں اللہ کی کیا حقیقت ہے اور اس کی اپنی کیا حیثیت ہے۔ وہ ہمیشہ غلط راستوں پر پڑ کر اپنی عاقبت برباد کرلیتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اس کائنات کا بھی اور خود اس کا بھی خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی سب چیزوں کا خالق، مالک اور پروردگار ہے اور انسان اس کی مخلوق، مملوک اور محتاج ہے۔ لہذا انسان کی ہر طرح کی عبادتوں اور نیازمندیوں کا وہی مستحق ہے۔ وہی اس کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ باقی سب چیزیں بھی اسی طرح اللہ کی مخلوق، مملوک اور محتاج ہیں۔ اس لحاظ سے وہ انسان کے برابر ہوئیں۔ لیکن چونکہ وہ اشرف المخلوقات پیدا کیا گیا ہے اس لحاظ سے وہ باقی تمام مخلوق سے برتر ہوا۔ اب اگر ایک برتر مخلوق اپنے جیسی یا اپنے سے بھی کم تر مخلوق کی عبادت کرے یا اسکی حاکمیت کو تسلیم کرے یا اس کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھے تو گویا اس نے انسانیت کے مرتبہ کی تذلیل اور توہین کی۔ یہی خالق و مخلوق کے درمیان باہمی رشتہ ہے۔ اس کو ملحوظ رکھے گا تو کبھی اللہ کا نافرمان نہیں ہوگا۔ اور اس رشتہ کو فراموش کر دے گا تو اس کی زندگی غلط راستوں پر پڑ کر فسق و فجور میں گزرے گی۔ اور وہ اپنے اخروی انجام سے بھی بیخبر اور غافل ہی رہے گا۔ لہذا صحیح راستے پر ثابت قدم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ہر وقت اپنا پروردگار یاد رہے اس سے غافل ہوتے ہی وہ اپنے آپ اور اپنے انجام کو بھول کر فسق و فجور میں مبتلا ہوجائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہ ۔۔۔۔: ایمان والوں کو اللہ کے تقویٰ اور آخرت کی تیاری کے حکم کے بعد اس کے احکام سے بےتوجیہی اور غفلت سے منع فرمایا ، کیونکہ اس کا نتیجہ فسق اور نافرمانی ہوتا ہے اور اس کے لیے یہ اسلوب اختیار فرمایا کہ انہیں ان لوگوں کی طرح ہوجانے سے منع فرمایا جنہوں نے اللہ کے احکام پر عمل کو ترک کردیا ، تا کہ ایسے لوگ اور ان کا انجام ان کے سامنے رہے اور وہ ان کے نقش قدم پر چلنے سے بچتے رہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ’ ’ صراط انعمت علیھم “ کے بعد ” غیر المغضوب علیھم ولا الضالین “ فرمایا ہے۔- رہی یہ بات کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں :(نسو اللہ) کہ وہ اللہ کو بھول گئے ، تو قرآن مجید میں یہ الفاظ منافقین کے متعلق آئے ہیں ، جیسا کہ فرمایا :(اَلْمُنٰـفِقُوْنَ وَالْمُنٰـفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍم یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْط نَسُوا اللہ فَنَسِیَہُمْط اِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) ( التوبہ : ٦٧)” منافق مرد اور منافق عورتیں ، ان کے بعض بعض سے ہیں ، وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں وہ اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں ۔ وہ اللہ کو بھول گئے تو اس نے انہیں بھلا دیا ۔ یقینا منافق لوگ ہی نافرمان ہیں “۔ ان کے علاوہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے متعلق بھی یہ الفاظ آئے ہیں ، چناچہ یہود کے متعلق فرمایا :(یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖلا وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ) (المائدہ : ١٣)” وہ کلام کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں اور وہ اس میں سے ایک حصہ بھول گئے جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی “۔ اور نصاریٰ کے متعلق فرمایا :(وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓی اَخَذْنَا مِیْثَاقَہُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہ) ( المائدۃ : ١٤) ” اور ان لوگوں سے جنہوں نے کہا بیشک ہم نصاریٰ ہیں ، ہم نے ان کا پختہ عہد لیا ، پھر وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی “۔ اور مشرکین کے متعلق فرمایا :(الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَھْوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاج فَالْیَوْمَ نَنْسٰہُمْ کَمَا نَسُوْا لِقَآئَ یَوْمِھِمْ ھٰذَا ) ( الاعراف : ٥١)” وہ جنہوں نے اپنے دین کو دل لگی اور کھیل بنا لیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا تو آج ہم انہیں بھلا دیں گے ، جیسے وہ اپنے اس دن کی ملاقات کو بھول گئے “۔ اس سورت میں چونکہ اس سے پہلے بنو نضیر کے یہود کا اور انہیں بد عہدی پر ابھارنے والے منافقین کا ذکر ہے ، اس لیے بظاہر یہاں ” گا لذین نسوا اللہ “ سے یہی دونوں مراد ہیں، اگرچہ الفاظ کے عموم میں ہر کافر و منافق داخل ہے۔- ٢۔ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ کو بھلانے اور اس کی عبادت ترک کرنے کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی اپنی جانوں کی فکر بھی فراموش کروا دی ۔ چناچہ وہ اپنے اچھے برے کی فکر سے بھی بےپرواہ ہوگئے ، نہ دنیا میں اپنی جانوں کی بھلائی کا اہتمام کیا اور نہ ہی آخرت کے عذاب سے انہیں بچانے کی کوشش کی ، اس بناء پر گناہوں اور نافرمانیوں میں پڑے رہے۔- ٣۔ نسیان سے مراد یہاں اللہ کے احکام پر عمل ترک کرنا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ طہٰ :(١١٥، ١٢٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ، یعنی ان لوگوں نے اللہ کو بھول اور نسیان میں کیا ڈالا اور حقیقتا خود اپنے آپ کو اس بھول میں ڈال دیا کہ اپنے نفع نقصان کی خبر نہ رہی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ ١٩- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢٠) اور منافقین کی طرح مت ہوجاؤ جنہوں نے خفیہ طور پر اطاعت خداوندی کو چھوڑ دیا یا یہ کہ یہود کی طرح مت ہوجاؤ جنہوں نے ظاہرا و باطنا اطاعت خداوندی کو ترک کردیا ہے اللہ تعالیٰ نے خود ان کو رسوا کیا اور یہ منافق یا یہ کہ یہودی کافر ہیں۔ اطاعت وثواب میں دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے اور اہل جنت کامیاب لوگ ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ ” اور (اے مسلمانو دیکھنا ) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔ “- اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔ ” یہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔ “- ہمارے لیے اس آیت کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنا فلسفہ خودی اسی آیت سے اخذ کیا تھا۔ علامہ کے اس بیان کے راوی سید نذیر نیازی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے ایک واقعہ رقم کیا ہے۔ (یہ واقعہ انہوں نے ہمارے ہاں قرآن کانفرنس میں اپنے ایک لیکچر میں بھی بیان کیا تھا۔ ) وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے علامہ اقبال سے ان کے فلسفہ خودی کے ماخذ کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے فلسفہ خودی کے ماخذ کے بارے میں بہت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں۔ کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ آپ نے یہ فلسفہ نطشے سے لیا ہے ‘ کوئی اس حوالے سے کسی دوسرے مغربی فلاسفر کا نام لیتا ہے۔ بہتر ہوگا آپ خود واضح فرما دیں کہ آپ کے اس فلسفہ کا ماخذ کیا ہے ؟ یہ سن کر علامہ اقبال نے انہیں فرمایا کہ آپ کل فلاں وقت میرے پاس آئیں ‘ میں آپ کو اس کے ماخذ کے بارے میں بتائوں گا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے کہ شاعر مشرق اور حکیم الامت انہیں یہ اعزاز بخش رہے ہیں کہ انہیں اس موضوع پر تفصیلی ڈکٹیشن دیں گے۔ لیکن اگلے دن جب وہ کاپی پنسل ہاتھ میں لیے مقررہ وقت پر حاضر خدمت ہوئے تو علامہ نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ ذرا قرآن مجید اٹھا لائو۔ پھر انہوں نے کہا کہ سورة الحشر کی یہ آیت (آیت ١٩) نکال کر تلاوت کرو اور انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ یہ ہے میرے فلسفہ خودی کا ماخذ - اب آیئے فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ کے مفہوم پر غور کریں۔ کیا کوئی شخص اپنے آپ کو اس طرح بھول سکتا ہے کہ وہ خوداپنی شخصیت سے ہی واقف نہ رہے ؟ کیا کوئی انسان ایسا بھی ہوسکتا ہے جسے اپنے پیٹ کا خیال نہ رہے ؟ یا جسے اپنی کوئی بیماری یاد نہ رہے ؟ ظاہر ہے کوئی انسان اپنے جسم اور اس کے تقاضوں سے غافل نہیں ہوسکتا۔ تو معلوم ہوا کہ حیوانی جسم کے علاوہ انسان کی کوئی اور حیثیت بھی ہے جسے وہ بھول جاتا ہے اور وہ ہے انسان کی اصل حقیقت یعنی اس کی ” روح “ ۔ جہاں تک انسان کے اللہ کو بھلانے کا تعلق ہے اس کا ذکر سورة المجادلہ کی آیت ١٩ میں بھی آیا ہے : اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰٹھُمْ ذِکْرَ اللّٰہِط ” شیطان نے ان پر قابو پا لیا ہے ‘ پس انہیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے “۔ اب آیت زیر مطالعہ میں ایسے لوگوں کی اس سزا کا ذکر ہے جو انہیں دنیوی زندگی میں ہی مل جاتی ہے ۔ یعنی جو لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ کو بھول جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کی اصل حقیقت سے غافل کردیتا ہے۔ پھر ان لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ انسان ہیں ‘ اشرف المخلوقات ہیں یا اللہ کے بندے ہیں۔ انہیں بس یہی یاد رہ جاتا ہے کہ بہت سے حیوانات کی طرح وہ بھی ایک حیوان ہیں۔ - آج ہماری جدید تہذیب بھی مختلف انداز سے ہمیں یہی سبق پڑھانے کی کوشش میں ہے کہ انسان محض ایک حیوان ہے۔ اس فلسفے کو متعارف کرانے اور پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ڈارون کے نظریہ ارتقاء ( ) نے ادا کیا ہے ۔ اس تھیوری کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک حیوان اور انسان میں بنیادی فرق صرف ارتقاء کے مراحل اور مدارج کا ہے ۔ جیسے گدھے اور گھوڑے میں صرف یہ فرق ہے کہ گدھا نچلے درجے کا ( ) جانور ہے ‘ جبکہ گھوڑا ارتقاء کا ایک مزید مرحلہ طے کر کے نسبتاً بہتر درجے میں چلا گیا ہے اور ایک اور تمکنت والاجانور ہے ‘ اسی طرح کا فرق ایک گوریلے ( ) اور انسان میں ہے۔ یعنی گوریلے کے مقابلے میں انسان نسبتاً بہتر قسم کا جانور ہے ‘ باقی ان دونوں کے جبلی تقاضے ( ) اور محرکات ( ) میں کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔۔ - جدید سائیکالوجی بھی انہی خطوط پر چل رہی ہے۔ چناچہ آج کے سائیکالوجسٹ کو بھی محرکاتِ عمل کے حوالے سے انسان اور حیوان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ تو جب یہ فرق مٹ گیا اور انسان اپنی اصلیت کو بھلا کر حیوان بن گیا تو گویا وہ ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے بھی آزاد ہوگیا۔ انیسویں صدی کے فرنچ لٹریچر میں بنیادی طور پر اسی نکتے کو فوکس کیا گیا ہے کہ حیوانات کی زندگی فطرت کے عین مطابق ہے ‘ اس لیے ہم انسانوں کو ان سے سبق لیتے ہوئے اپنی زندگی کو خواہ مخواہ کے تکلفات سے آزاد کرلینا چاہیے۔ مثلاً تمام حیوانات لباس سے بےنیاز ہیں ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ لباس فطرت کا تقاضا نہیں ہے ‘ انسان کی اپنی ایجاد ہے۔ اسی طرح بیوی ‘ بیٹی اور ماں کی تمیز بھی حیوانات میں نہیں پائی جاتی ‘ یہ پابندی بھی انسان نے اپنے اوپر خود ہی عائد کی ہے۔ یہ ہے آج کے انسان کا المیہ - بہرحال یہ آیت ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ جو انسان اللہ کو بھلا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کی حقیقت سے غافل کردیتا ہے۔ انسان کی روح خود اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر پھونکی ہے اور اسی کی وجہ سے وہ ” انسان “ کے مرتبے پر فائز ہوا ہے۔ چناچہ جب کوئی انسان اپنی روح اور اس کے تقاضوں سے غافل ہوجاتا ہے تو وہ انسان کے درجے سے گر کر حیوان بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اپنشد کا یہ جملہ بہت اہم ہے :- .- اسی کا دوسرانام ” انا “ ہے ‘ لیکن اس سے اصل مراد انسان کی ” روح “ ہی ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے فلسفیانہ انداز میں ” خودی “ کا نام دیا ہے : - ؎ نقطہ نوری کہ نام او خودی ست - زیر خاک ما شرار زندگی ست - ؎ ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں - غافل تو نرا صاحب ِادراک نہیں ہے - اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان حیوانی جسم اور روح کا مرکب ہے۔ بقول شیخ سعدی :- آدمی زادہ طرفہ معجون است - از فرشتہ سرشتہ وز حیوان - یعنی آدمی ایک ایسی معجونِ مرکب ہے جس میں فرشتہ اور حیوان دونوں ُ گندھے ہوئے ہیں ۔ فرشتے سے مراد یہاں وہ نورانی روح ہے جو عالم امر کی چیز ہے : وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً ۔ (بنی اسرائیل) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔ آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں نہیں دیا گیا علم مگر تھوڑا سا “۔ چناچہ انسان کی روح نورانی چیز ہے اور اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے ۔ اگر انسان اللہ کو بھلا دے گا تو اپنی روح یعنی اپنی اصلیت سے بیگانہ ہو کر محض ایک حیوان بن کر رہ جائے گا۔ اس کے بعد اس کی نظر میں اچھے برے اور حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں رہے گی۔ انسانی معاشرے کے ایسے ہی افراد آیت زیر مطالعہ کے حکم ” اُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ “ کے مصداق ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :30 یعنی خدا فراموشی کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہے ۔ جب آدمی یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کا بندہ ہے تو لازماً وہ دنیا میں اپنی ایک غلط حیثیت متعین کر بیٹھتا ہے اور اس کی ساری زندگی اسی بنیادی غلط فہمی کے باعث غلط ہو کر رہ جاتی ہے ، اسی طرح جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے تو وہ اس ایک کی بندگی تو نہین کرتا جس کا وہ درحقیقیت بندہ ہے ، اور ان بہت سوں کی بندگی کرتا رہتا ہے جن کا وہ فی الواقع بندہ نہیں ہے ۔ یہ پھر ایک عظیم اور ہمہ گیر غلط فہمی ہے جو اس کی ساری زندگی کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے ۔ انسان کا اصل مقام دنیا میں یہ ہے کہ وہ بندہ ہے ، آزاد و خود مختار نہیں ہے ۔ اور صرف ایک خدا کا بندہ ہے ، اس کے سوا کسی اور کا بندہ نہیں ہے ۔ جو شخص اس بات کو نہیں جانتا وہ حقیقت میں خود اپنے آپ کو نہیں جانتا ۔ اور جو شخص اس کے جاننے کے باوجود کسی لمحہ بھی اسے فراموش کر بیٹھتا ہے اسی لمحے کوئی ایسی حرکت اس سے سرزد ہو سکتی ہے جو کسی منکر یا مشرک ، یعنی خود فراموش انسان ہی کے کرنے کی ہوتی ہے ، صحیح راستے پر انسان کے ثابت قدم رہنے کا پورا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے خدا یاد رہے ۔ اس سے غافل ہوتے ہی وہ اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے ، اور یہی غفلت اسے فاسق بنا دیتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: یعنی وہ اس بات سے غافل اور بے پروا ہوگئے کہ خود ان کی جانوں کے لئے کونسی بات فائدے کی اور کونسی نقصان کی ہے، اور غفلت کے عالم میں وہی کام کرتے رہے جو انہیں تباہی کی طرف لے جانے والے تھے۔