[٢٩] آیت نمبر ٢٢ سے ٢٤ تک، تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی جامع صفات بیان کردی گئی ہیں۔ تاکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی پوری معرفت حاصل ہو اور وہ خود فراموشی یا غفلت سے بچا رہے۔ چند نام تو آیت ٢٢ میں گزر چکے ہیں۔ مزید جو بیان ہوئے وہ یہ ہیں :- [٣٠] الملک یعنی علی الاطلاق بادشاہ، کسی مخصوص علاقے، ملک یا پوری زمین کا ہی نہیں، بلکہ پوری کائنات کا بادشاہ، اور بادشاہ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ اپنی مملکت میں جو قانون چاہے رائج کرے اور اس کو نافذ کرے اور اس کی رعایا یا مملوک اس قانون کو تسلیم کرنے اور اس پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پوری کائنات میں قانونی حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہی مقتدر اعلیٰ ( ) ہے۔ اسی کی حاکمیت اور اسی کا قانون سب سے بالاتر ہے۔- [٣١] القُدُّوْسُ ۔ قَدُسَ کے معنی پاک و صاف ہونا ہے اور قدوس سے مراد وہ ذات ہے جو اضداد اور انداد (جمع ند بمعنی شریک) سے پاک ہو۔ (مقائیس اللغۃ) اور صاحب منجد کے نزدیک وہ ذات جو ہر بری بات اور نقص سے پاک ہو اور بابرکت بھی ہو۔ - [٣٢] السَّلاَمُ ۔ سلم یعنی بےگزند اور درست۔ صحیح وسالم اور بمعنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنا اور سلم ایسی چیز جو اپنی ذات میں درست بھی ہو اور اس پر کسی دوسرے کا کوئی حق نہ ہو۔ اور السلام کے معنی سراسر سلامتی ہی سلامتی۔ اس میں از خود مبالغہ پیدا ہوجاتا ہے جیسے کسی حسین کو یہ کہہ دیا جائے کہ وہ سراپا حسن ہے۔ سلام کا ایک مطلب تو مندرجہ معنی سے واضح ہے اور دوسرا مطلب یہ کہ وہ دوسروں کو بھی سلامتی عطا کرنے والا ہے۔- [٣٣] المؤمن۔ اَمَنَ بمعنی خوف و خطر سے محفوظ ہونا اور مؤمن کے معنی دوسروں کو امان دینے والا۔ امن عطا کرنے والا۔ یعنی ایسا قانون دینے والا جس سے فساد فی الارض کے بجائے امن وامان قائم ہو نیز مخلوق اللہ کی طرف سے کسی قسم کی حق تلفی، زیادتی یا ظلم کے خوف سے مکمل طور پر امن میں رہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس کے معنی مصدق کے ہیں۔ یعنی اپنی اور اپنے رسولوں کی قولاً اور فعلاً تصدیق کرنے والا یا مومنوں کے ایمان پر مہر تصدیق ثبت کرنے والا ہے۔- [٣٤] اسمائے حسنیٰ کی لغوی تشریح :۔ المُھَیْمِنُ کہتے ہیں ھَیْمَنَ الطائرُ علٰی فَراخِہٖ یعنی پرندے نے اپنے پر اپنے بچے پر بچھا دیئے۔ جیسے مرغی خطرہ کے وقت اپنے چوزوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔ لہذا مہیمن وہ ذات ہے جو (١) کسی کو خوف سے امن دے، (٢) ہر وقت نگہبانی رکھے اور (٣) کسی کا کوئی حق ضائع نہ ہونے دے (منتہی الارب) - [٣٥] العزیز بمعنی بالا دست (ضد ذلیل بمعنی زیردست) جیسے دیہات میں ایک طبقہ کمین لوگوں کا ہوتا ہے جو زیردست ہوتا ہے اور دوسرا زمینداروں کا جو بالا دست ہوتا ہے۔ اور العزیز سے مراد وہ بالا دست ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو۔ جس کی مزاحمت کرنا کسی کے بس میں نہ ہو۔ جس کے آگے سب بےبس بےزور اور کمزور ہوں۔- [٣٦] الجَبَّارُ ۔ جبر میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (١) زبردستی کرنا (٢) اصلاح۔ یعنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کردینا۔ اور جَبَرَ العَظْم بمعنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنا۔ نیز کبھی یہ لفظ محض زبردستی کرنے کے معنوں میں بھی آجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جبار اس لحاظ سے ہے، کائنات کے نظام کو بزور درست رکھنے والا ہے اور اپنے ارادوں کو جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتے ہیں پوری قوت سے نافذ کرنے والا ہے۔- [٣٧] المُتَکَبِّرُ کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر بڑا بننے کی کوشش کرے۔ خواہ وہ کوئی جن ہو یا انسان اور یہ صفت انتہائی مذموم ہے۔ دوسرا وہ جو فی الحقیقت بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے۔ اور یہ صفت صرف اللہ ہی کے لیے سزاوار ہے۔ اور اس کے حق میں یہ ایک خوبی ہے جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔ کائنات کی باقی تمام چیزیں خواہ جاندار ہوں یا بےجان اس کے مقابلہ میں چھوٹی یا حقیر ہیں۔- [٣٨] یعنی جو لوگ اللہ کی ذات یا صفات میں دوسروں کو بھی شریک بنالیتے ہیں وہ اللہ پر بہتان باندھتے ہیں۔ کیونکہ اللہ ایسی تمام باتوں سے پاک ہے۔ اس کے اختیارات و تصرفات میں کسی کو ذرہ بھر بھی دخل نہیں۔
١۔ ہُوَ اللہ ُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُو : مزید صفات کے بیان کے لیے یہ جملہ دوبارہ ذکر فرمایا۔ تکرار سے مقصود اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک ” اللہ “ کی عظمت اور اس کی وحدانیت کا خاص اہتمام ہے۔- ٢۔ ” الملک “: یہ دوسری خبر ہے ، اس پر الف لام کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ وہی ہے ، کوئی اور نہیں ، کیونکہ دوسرا اگر بادشاہ ہے تو چند لوگوں کا ہے ، سب کا نہیں اور کچھ وقت کے لیے ہے ، ہمیشہ کے لیے نہیں ، جب کہ اللہ تعالیٰ سب کا بادشاہ اور ہمیشہ کے لیے بادشاہ ہے ، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ؎- سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمران ہے کا وہی باق بتان آزری - مزید دیکھئے سورة ٔ ملک کی پہلی آیت کی تفسیر ۔ قرآن مجید میں اکیلے اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کا ذکر متعدد صفات پر ہے ، دیکھئے سورة ٔ روم (٢٦) ، حدید (٥) ، فرقان (٢) ، یٰسین (٨٣) اور آل عمران (٢٦) ۔- ٣ القدوس : نہایت پاک ۔ ” الملک “ کے بعد ” القدوس “ لانے میں ایک مناسبت یہ ہے کہ بادشاہ ہونے کے باوجودوہ دنیا کے حکمرانوں میں پائے جانے والے عیوب اور خامیوں سے نکل پاک ہے۔- ٤۔ السلم : سراسر سلامتی ہے ، یعنی سلامتی والا ہے ۔ خود ہر آفت اور مصیبت سے سالم ہے اور سب کو سلامتی دینے والا اور محفوظ رکھنے والا ہے ، دوسرے صاحب قوت لوگوں کی طرح ناحق تباہی و بربادی پھیلانے والا نہیں ۔ ایک دعا میں یہ الفاظ ہیں (اللھم انت السلام و منک السلام) (مسلم ، المساجد ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفۃ ، ٥٦٢)” اے اللہ تو ہی سراسر سلامتی والا ہے اور تجھی سے سلامتی ملتی ہے “۔- ٥۔ المومن : امن دینے والا ۔ جسے بھی امن ملتا ہے اسی سے ملتا ہے۔- ٦۔ المھیمن : نگران، نگہبان ۔ تیسیرا القرآن میں ہے :’ الھیمن “ کہتے ہیں : ” ھیمن الطائر علی فراخہ “ یعنی پرندے نے اپنے پر اپنے بچوں ڈ پر بچھا دیئے ، جیسے مرغی خطے کے وقت اپنے چو وزوں کو اپنی پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔ لہٰذا ” المھیمن “ وہ ذات ہے جو (١) کسی کو خوف سے امن دے (٢) ہر وقت نگہبانی رکھے اور (٣) کسی کو کوئی حق ضائع نہ ہونے دے۔ (منتہی الارب)- ٧۔ العزیز الجبار ” الجبار “ اپنی مرضی منوانے والا ، جو دوسرے کو اپنا کام کرنے پر مجبور کر دے ۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق پر جبار ہے ، کیونکہ ان میں سے کسی کی جرأت نہیں کہ وہ اس سے جو کروانا چاہے وہ نہ کرے ، جیسا کہ فرمایا :(ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ وَھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْکَرْھًاط قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ ) (حم السجدۃ : ١١) ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہو اور وہ ایک دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ آؤ خوشی سے یا مجبوری سے ۔ دونوں نے کہا ہم خوشی سے آگئے “۔ کوئی اس حد سے تجاوز نہیں کرسکتا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کردی ہے ، جیسا کہ انسان ایک ٹانگ تو اٹھا کر کھڑا ہوسکتا ہے مگر دونوں نہیں ۔ جبر کا ایک معنی ٹوٹی ہوئی ہڈی جوڑنا اور نقصان پورا کرنا بھی ہے ، یعنی وہی ہے جو ہر ایک کا نقصان پورا کرنے والا ہے۔- ٨۔ المتکبر : اس کے دو مفہوم ہیں ، ایک یہ کہ کوئی شخص فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر بڑا بننے کی کوشش کرے ، خواہ وہ کوئی جن ہو یا انسان اور یہ صفت انتہائی مذموم ہے۔ دوسرا وہ جو فی الحقیقت بڑا ہو اور وہ بڑا ہی ہو کر رہے اور یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سزا وار ہے اور اس کے حق میں یہ ایک خوبی ہے جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی ۔ کائنات کی باقی تمام چیزیں خواہ جان دار ہوں یا بےجان اس کے مقابلے میں چھوٹی اور حقیر ہیں۔ ( تیسرالقرآن)- ٩۔ سُبْحٰنَ اللہ ِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ : یعنی یہ صفات دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے پاک ہے جنہیں مشرکین نے اس کا شریک بنا رکھا ہے۔
الْقُدُّوْسُ ، بضم قاف وہ ذات جو ہر عیب سے پاک اور ہر ایسی چیز سے بری ہو جو اس کے شایان شان نہیں، الْمُؤْمِنُ ، یہ لفظ جب انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ایمان لانے والے اور اللہ و رسول کے کلام کی تصدیق کرنے والے کے آتے ہیں اور جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی امن دینے والے کے ہوتے ہیں (کماقالہ ابن عباس) یعنی وہ اللہ رسول پر ایمان لانے والوں کو ہر طرح کے عذاب و مصیبت سے امن اور سلامتی دینے والا ہے۔- الْمُهَيْمِنُ ، اس کے معنی ہیں نگرانی کرنے والا (کذاقال ابن عباس و مجاہد و قتادہ (رح) قاموس میں ہے کہ ہمن یہیمن کے معنی دیکھ بھال اور نگرانی کرنے کے آتے ہیں (مظہری) - الْعَزِيْزُ بمعنی قوی، الْجَبَّارُ ، صاحب جبروت و عظمت اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ جبر سے مشتق ہو جس کے معنی ٹوٹی ہڈی وغیرہ کو جوڑنے کے آتے ہیں، اسی لئے جبیرہ اس پٹی کو کہا جاتا ہے جو ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑنے کے بعد اس پر باندھی جاتی ہے، تو معنی اس لفظ کے یہ ہوں گے کہ وہ ہر ٹوٹی ہوئی شکستہ و ناکارہ چیز کی اصلاح کر کے درست کردینے والا ہے (مظہری) - الْمُتَكَبِّرُ تکبر سے اور وہ کبریاء سے مشتق ہے، جس کے معنی بڑائی کے ہیں اور ہر بڑائی .... درحقیقت اللہ جل شانہ کے لئے مخصوص ہے جو کسی چیز میں کسی کا متحاج نہیں اور جو محتاج ہو وہ بڑا نہیں ہوسکتا، اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لئے یہ لفظ عیب اور گناہ ہے، کیونکہ حقیقت میں بڑائی حاصل نہ ہونے کے باوجود بڑائی کا دعویٰ جھوٹا ہے اور وہ ذات جو حقیقت میں سب سے بڑی اور بےنیاز ہے اس کی خاص صفت میں شرکت کا دعوی ہے، اس لئے متکبر کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے صفت کمال ہے اور غیر اللہ کے لئے جھوٹا دعویٰ ۔
ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ٠ ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ٠ ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ٢٣- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - قدس - التَّقْدِيسُ : التّطهير الإلهيّ المذکور في قوله : وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، دون التّطهير الذي هو إزالة النّجاسة المحسوسة، وقوله : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ- [ البقرة 30] ، أي : نطهّر الأشياء ارتساما لك . وقیل : نُقَدِّسُكَ ، أي : نَصِفُكَ بالتّقدیس .- وقوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، يعني به جبریل من حيث إنه ينزل بِالْقُدْسِ من الله، أي : بما يطهّر به نفوسنا من القرآن والحکمة والفیض الإلهيّ ، والبیتُ المُقَدَّسُ هو المطهّر من النّجاسة، أي : الشّرك، وکذلک الأرض الْمُقَدَّسَةُ. قال تعالی: يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] ، وحظیرة القُدْسِ. قيل : الجنّة .- وقیل : الشّريعة . وکلاهما صحیح، فالشّريعة حظیرة منها يستفاد القُدْسُ ، أي : الطّهارة .- ( ق د س ) التقدیس کے معنی اس تطہیرالہی کے ہیں جو کہ آیت وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے ۔ میں مذکور ہے ۔ کہ اس کے معنی تطہیر بمعنی ازالہ نجاست محسوسہ کے نہیں ہے اور آیت کریمہ : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ [ البقرة 30] اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ہم تیرے حکم کی بجا آوری میں اشیاء کو پاک وصاف کرتے ہیں اور بعض نے اسکے معنی ۔ نصفک بالتقدیس بھی لکھے ہیں ۔ یعنی ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] کہدو کہ اس کو روح القدس ۔۔۔ لے کر نازل ہوئے ہیں ۔ میں روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قدس یعنی قرآن حکمت اور فیض الہی کے کر نازل ہوتے تھے ۔ جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے ۔ اور البیت المقدس کو بیت مقدس اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نجاست شرک سے پاک وصاف ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] تو بھائیو تم ارض مقدس ( یعنی ملک شام ، میں جسے خدا نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے ۔ داخل ہو ۔ میں ارض مقدسہ کے معنی پاک سرزمین کے ہیں ۔ اور خطیرۃ القدس سے بعض کے نزدیک جنت اور بعض کے نزدیک شریعت مراد ہے اور یہ دونوں قول صحیح ہیں۔ کیونکہ شریعت بھی ایک ایسا حظیرہ یعنی احاظہ ہے جس میں داخل ہونے والا پاک وصاف ہوجاتا ہے۔- السلام - : ذو سلامۃ من النقائص یعنی ہر قسم کی خامیوں سے محفوظ ، بعض نے کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آلام و مصائب سے بچاتا ہے۔ - سلام - السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ- [ الشعراء 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها - [ البقرة 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی - __________- عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ- [ النور 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض .- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء - 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة - 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ - مھیمن - ( مهيما) ، اسم فاعل من (هيمن) الرباعيّ ، وزنه مفعلل بضمّ المیم وکسر اللام الأولی، وقال أبو البقاء العکبريّ. «وأصل مهيمن مؤيمن لأنه مشتقّ من الأمانة، لأن المهيمن الشاهد ولیس في الکلام همن حتّى تکون الهاء أصلا .- : اسم فاعل واحد مذکر ہیمنۃ مصدر ۔ نگران ۔ اس کا اصل ا امن فھو مؤامن ہے دوسرا ہمزہ یاء سے اور پہلا ہمزہ ” ہ “ سے بدل دیا گیا۔ اس طرح مہیمن بن گیا۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - جبر - أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، - والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] - ( ج ب ر ) الجبر - اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔ - تَّكَبُّرُ- والتَّكَبُّرُ يقال علی وجهين :- أحدهما : أن تکون الأفعال الحسنة كثيرة في الحقیقة وزائدة علی محاسن غيره، وعلی هذا وصف اللہ تعالیٰ بالتّكبّر . قال : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر 23] .- والثاني : أن يكون متکلّفا لذلک متشبّعا، وذلک في وصف عامّة الناس نحو قوله : فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقوله : كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر 35] ومن وصف بالتّكبّر علی الوجه الأوّل فمحمود، ومن وصف به علی الوجه الثاني فمذموم، ويدلّ علی أنه قد يصحّ أن يوصف الإنسان بذلک ولا يكون مذموما، وقوله :- سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف 146] فجعل متکبّرين بغیر الحقّ ، وقال : عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر 35] بإضافة القلب إلى المتکبّر .- ومن قرأ : بالتّنوین جعل المتکبّر صفة للقلب،- التکبر ۔ اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ایک یہ فی الحقیقت کسی کے افعال حسنہ زیادہ ہوں اور وہ ان میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہو ۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ صفت تکبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر 23] غالب زبردست بڑائی ۔ دوم یہ کہ کوئی شخص صفات کمال کا اعاء کرے لیکن فی الواقع وہ صفات حسنہ عاری ہو اس معنی کے لحاظ سے یہ انسان کی صفت بن کر استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا ہے ؛فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] متکبروں کا کیا بڑا ٹھکانا ہے ۔ كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر 35] اسی طرح خدا ہر سرکش متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ تو معنی اول کے لحاظ سے یہ صفات محمود میں داخل ہے اور معنی ثانی کے لحاظ سے صفت ذم ہے اور کبھی انسان کے لئے تکبر کرنا مذموم نہیں ہوتا جیسا کہ آیت ؛سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف 146] جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گا ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر الحق نہ ہو تو مذموم نہیں ہے : اور آیت ؛ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر 35] ہر متکبر جابر کے دل پر ۔ اور بعض نے قلب کی طرف مضاف ہے ۔ اور بعض نے قلب تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں متکبر قلب کی صفت ہوگا ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
اور وہ ایسا بادشاہ ہے کہ اس کی بادشاہت ہمیشہ ہے اور اولاد شریک سے پاک اور سالم ہے کہ اس کی مخلوق جتنا کہ مخلوق پر اس کے افعال کی وجہ سے عذاب واجب ہے اس میں زیادتی سے محفوظ ہے اور اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے یا یہ کہ وہ اپنے اولیاء کو عذاب سے بچانے والا ہے یا یہ کہ بندوں کے اعمال اور ان کی تقدیروں کا نگران ہے اور نگہبانی کرنے والا ہے اور جو ایمان نہ لائے اسے سزا دینے میں زبردست اور اپنے بندوں پر غالب ہے اور بڑی عظمت والا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کے شرک سے پاک ہے۔
آیت ٢٣ ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَ ” وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ “- اَلْمَلِکُ الْـقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُط ” حقیقی بادشاہ ‘ یکسرپاک ‘ سراپا سلامتی (اور ہر اعتبار سے سالم) ‘ امن دینے والا ‘ پناہ میں لینے والا ‘ زبردست (مطلق العنان ) ‘ اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا ‘ سب بڑائیوں کا مالک۔ “- سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ ” اللہ پاک ہے ان تمام چیزوں سے جو یہ شرک کرتے ہیں۔ “- اس ایک آیت میں آٹھ اسمائے حسنیٰ مسلسل ‘ بغیر حرفِ ” و “ کے آئے ہیں اور اس لحاظ سے یہ آیت پورے قرآن مجید میں منفرد ہے۔
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :36 اصل میں لفظ اَلْمَلِکْ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے ۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے ۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے ۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے ۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے ۔ اور اس کی حاکمیت ( ) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَلَہ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہ قٰنِتُوْنَ ( الروم: 26 ) زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں ، سب اس کے تابع فرمان ہیں ۔ یُدَ بِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض ، ( السجدہ 5 ) ۔ آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ۔ لَہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۔ ( الحدید: 5 ) ۔ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ ( الفرقان : 2 ) بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔ بِیَدِہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ ( یٰس : 83 ) ۔ ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔ ( البروج : 16 ) ۔ جس چیز کا ارادہ کرے اسے کر گزرنے والا ۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ ( الانبیاء : 23 ) جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے ، اور سب جواب دہ ہیں ۔ وَاللہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ۔ ( الرعد:41 ) اور اللہ فیصلہ کرتا ہے ، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ۔ وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ ۔ ( المؤمنون : 88 ) ۔ اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا ۔ قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکَ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ ( آل عمران : 26 ) ۔ کہو ، خدایا ، ملک کے مالک ، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے ۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ ان توضیحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمیت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں ، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے ۔ بلکہ درحقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے ۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو ، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو ، یا کوئی قوم ہو ، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل نہیں ہے ، کیونکہ حاکمیت سرے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو ، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہو جاتی ہو ، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہو ، جس کا قیام و بقاء عارضی و وقتی ہو ، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں ۔ لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے ، بلکہ بعد کے فقروں میں تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے ، سلام ہے ، مومن ہے ، مہیمن ہے ، عزیز ہے ، جبار ہے ، متکبر ہے ، خالق ہے ، باری ہے اور مصور ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :37 اصل میں لفظ قُدُّوس استعمال ہوا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ اس کا مادہ قدس ہے ۔ قدس کے معنی ہیں تمام بری صفات سے پاکیزہ اور منزہ ہونا ۔ اور قُدُّوس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدرجہا بالا و برتر ہے کہ اس کی ذات میں کوئی عیب ، یا نقص ، یا کوئی قبیح صفت پائی جائے ۔ بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے جس کے بارے میں کسی برائی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدوسیت در حقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے ۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی حامل کوئی ایسی ہستی ہو جو شریر اور بد خلق اور بد نیت ہو ۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں ۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کے بجائے برائی کا خطرہ لاحق ہو ۔ اسی بنا پر انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت نہیں بھی ہوتی تو اسے موجود فرض کر لیتا ہے ، کیونکہ قدوسیت کے بغیر اقتدار مطلق ناقابل تصور ہے ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا در حقیقت کوئی مقتدر اعلیٰ بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا ۔ شخصی بادشاہی ہو یا جمہور کی حاکمیت ، یا اشتراکی نظام کی فرمانروائی ، یا انسانی حکومت کی کوئی دوسری صورت ، بہرحال اس کے حق میں قدوسیت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :38 اصل میں لفظ السلام استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سلامتی ۔ کسی کو سلیم ، یا سام کہنے کے بجائے سلامتی کہنے سے خود بخود مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ مثلاً کسی کو حسین کہنے کے بجائے حسن کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سراپا حسن ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو السلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سراسر سلامتی ہے ۔ اس کی ذات اس سے بالا تر ہے کہ کوئی آفت ، یا کمزوری یا خامی اس کو لاحق ہو ، یا کبھی اس کے کمال پر زوال آئے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :39 اصل میں لفظ اَلْمُؤْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ امن ہے ۔ امن کے معنی ہیں خوف سے محفوظ ہونا ۔ اور مؤْمِن وہ ہے جو دوسرے کو امن دے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں مؤمِن کہا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے ۔ اس کی خلق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا ، یا اس کا حق مارے گا ، یا اس کا اجر ضائع کرے گا ، یا اس کے ساتھ اپنے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا ۔ پھر چونکہ اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کس کو امن دینے والا ہے ، بلکہ مطلقاً المؤمن کہا گیا ہے ، اس لیے اس سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ اس کا امن ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کے لیے ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :40 اصل میں لفظ اَلْمُھَیْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہیں ۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا ۔ دوسرے ، شاہد ، جو دیکھ رہا ہو کہ کون کیا کرتا ہے ۔ تیسرے ، قائم بامور الخلق ، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو ۔ یہاں بھی چونکہ مطلقاً لفظ المہیمن استعمال کیا گیا ہے ، اور اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کس کا نگہبان و محافظ ، کس کا شاہد ، اور کس کی خبر گیری کی ذمہ داری اٹھانے والا ہے ، اس لیے اس اطلاق سے خود بخود مفہوم نکلتا ہے کہ وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کر رہا ہے ، سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے ، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری ، اور پرورش ، اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :41 اصل میں لفظ العزیز استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے ایسی زبردست ہستی جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو ، جس کے فیصلوں کی مزاحمت کرنا کسی کے بس میں نہ ہو ، جس کے آگے سب بے بس اور بے زور ہوں ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :42 اصل میں لفظ الجبار استعمال ہوا ہے جس کا مادہ جبر ہے ۔ جبر کے معنی ہیں کسی شے کو طاقت سے درست کرنا ، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا ۔ اگرچہ عربی زبان میں کبھی جبر محض اصلاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، اور کبھی صرف زبردستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن اس کا حقیقی مفہوم اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ کو جبار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظم بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو ، جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے ، جبراً نافذ کرنے والا ہے ۔ علاوہ بریں لفظ جبار میں عظمت کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ عربی زبان میں کھجور کے اس درخت کو جبار کہتے ہیں جو اتنا بلند و بالا ہو کہ اس کے پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو ۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبار کہلاتا ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :43 اصل میں لفظ الْمُتَکَبِّر استعمال ہوا ہے جس کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک وہ جو فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر خواہ مخواہ بڑا بنے ۔ دوسرے وہ جو حقیقت میں بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے ۔ انسان ہو یا شیطان ، یا کوئی اور مخلوق ، چونکہ بڑائی فی الواقع اس کے لیے نہیں ہے ، اس لیے اس کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ایک جھوٹا ادعا اور بدترین عیب ہے ۔ اس کے برعکس ، اللہ تعالیٰ حقیقت میں بڑا ہے اور بڑائی فی الواقع اسی کے لیے ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں حقیر و ذلیل ہے ، اس لیے اس کا بڑا ہونا اور بڑا ہی ہو کر رہنا کوئی ادعا اور تصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے ، ایک بری صفت نہیں بلکہ ایک خوبی ہے جو اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :44 یعنی اس کے اقتدار اور اختیارات اور صفات میں ، یا اس کی ذات میں ، جو لوگ بھی کسی مخلوق کو اس کا شریک قرار دے رہے ہیں ۔ وہ در حقیقت ایک بہت بڑا جھوٹ بول رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کسی معنی میں بھی کوئی اس کا شریک ہو ۔