22۔ 1 غیب مخلوقات کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کے لیے تو کوئی چیز غیب نہیں مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو جانتا ہے چاہے وہ ہمارے سامنے ہو یا ہم سے غائب ہو حتی کہ وہ تاریکیوں میں چلنے والی چیونٹی کو بھی جانتا ہے۔
[٢٧] غیب اور شہادت سے کیا مراد ہے ؟ شہادت سے مراد وہ تمام اشیائ، واقعات اور علوم ہیں جو انسان کے علم میں آچکے ہیں یا جنہیں وہ مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل کرچکا ہے اور غیب سے مراد وہ تمام اشیاء واقعات اور علوم ہیں جن تک تاحال انسان کی رسائی نہیں ہوسکی۔ خواہ یہ اشیاء عالم اکبر یا کائنات سے متعلق ہوں یا عالم اصغر یا انسان کے جسم کی اندرونی کائنات سے متعلق ہوں۔ اور اللہ کے لیے سرے سے کوئی چیز غائب ہے ہی نہیں۔ اس کے لیے سب کچھ شہادت ہی شہادت ہے۔ اور قرآن میں جہاں یہ غیب اور شہادت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو صرف انسان کو سمجھانے کی غرض سے استعمال ہوئے ہیں۔ اور اللہ کے لیے کوئی چیز غائب اس لیے نہیں ہوتی کہ ہر چیز کو اور ہر واقعہ اور حادثہ کو وجود میں لانے والا تو وہ خود ہے۔ لہذا اس سے کوئی چیز مخفی یا غائب کیسے رہ سکتی ہے ؟- [٢٨] رحمن اور رحیم میں فرق :۔ وہ رحمن اور رحیم اس لحاظ سے ہے کہ ہر چیز کے وجود، اس کی زندگی اور زندگی کے بقا کے لیے جو جو اشیاء ضروری اور لازمی تھیں وہ اس نے اس کی پیدائش سے پہلے ہی مہیا فرما دی ہیں اور یہ اس کی کمال مہربانی ہے۔ کائنات میں کوئی دوسرا اس غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دوسرے جانداروں میں اگر رحم کی صفت پائی بھی جاتی ہے۔ تو ایک تو وہ جزوی اور محدود ہوتی ہے دوسری یہ کہ وہ اس کی ذاتی صفت نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ ہی کی عطا کردہ ہوتی ہے اور اسے اس لیے عطا کی گئی ہے کہ وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ جیسے والدین اپنی اولاد کے حق میں رحیم ہوتے ہیں اور یہ چیز بذات خود اس کی رحمت بےپایاں کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ رحمن صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور اس میں بہت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اس کا تعلق ان رحمتوں اور انعامات سے ہے جو زندگی اور اس کی بقاء کے لیے ضروری ہیں مثلاً انسان کی پیدائش سے پہلے سورج، چاند، ہوا، بارش اور زمین میں قوت روئیدگی کا انتظام کرنا۔ یا حمل قرار پاتے ہی ماں کے پستانوں کی مشینری کا متحرک ہونا، خون کو دودھ میں تبدیل کرنے کا عمل اور بچہ کی پیدائش پر ماں کے پستانوں میں دودھ اتر آنا اور بچے کو دودھ کی طرف لپکنے اور دودھ چوسنے کا طریقہ سکھانا۔ جبکہ رحیم اللہ کے علاوہ دوسری مخلوق بھی ہوسکتی ہے۔
١۔ ہُوَ اللہ ُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ : اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی ضمیروں اور صفات کا ذکر چالیس (٤٠) مرتبہ آیا ہے، چوبیس (٢٤) بار لفظ ” اللہ “ کے ساتھ اور سولہ (١٦) مرتبہ ضمیر ظاہر یا صفات عالیہ کے ساتھ ۔ غرض پوری سورت ہی اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور اس کے عجیب و غریب تصرفات کے ذکر سے بھرئی ہوئی ہے ، اس لیے اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی صفات عزیز و حکیم کے ساتھ ہوئی ہے اور اختتام بھی اس کی ایسی صفات کے ساتھ ہوا ہے جن کے ذکر سے ایمان والوں کے دلوں میں اس کی خشیت و محبت میں اضافہ ہو اور سرکشوں کو اس کی گفت اور ہیبت و جلال سے خوف دلای جائے ۔ ساتھ ہی ان صفات میں توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کے دلائل بھی موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ ہر صفت کا سورت میں مذکور واقعات و مضامین میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ تعلق بھی ہے۔ ( ابن عاشور ، ملخص)- ٢۔ ہُوَ اللہ ُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُو : اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے پہلے اس کے ” الہٰ واحد “ ہونے کی صفت بیان فرمائی ، کیونکہ یہ دوسری تمام صفات کی اصل ہے ۔ دوسری تمام صفات اس صفت کی دلیل ہیں کہ عبادت اس اکیلے کا حق ہے ، اس لیے قرآن مجید میں اسم مبارک ” اللہ “ کے بعد اکثر اس صفت کا ذکر آتا ہے ، جیسا کہ آیت الکرسی میں اور سورة ٔ آل عمران کے شروع میں فرمایا :(اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم)” اللہ ( وہ ہے کہ ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، زندہ ہے ، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے “۔- ٣۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ :” الغیب “ اور ” الشھادۃ “ مصدر ہیں جو اسم فاعل کے معنی میں ہیں ، یعنی غائب و شاید ۔ مبالغے کے لیے اسم فاعل کی جگہ مصدر کا لفظ استعمال کیا گیا ، جیسا کہ ” زیدعادل “ کے بجائے مبالغے کے لیے ” زید عدل “ کہہ دیتے ہیں کہ زید سراپا عدل ہے۔” الغیب والشھادۃ “ پر الف لام استغراق کا ہے ، یعنی وہ ہر غائب و حاضر کو جاننے والا ہے۔ وحدانیت کے بعد دوسری صفت علم بیان فرمائی ، کیونکہ معبود ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہو اور اس کا علم کامل ہو ۔ وہ معبود کیسا جسے معلوم ہی نہیں کہ کوئی میری عبادت کر رہا ہے۔ ( دیکھئے احقاف : ٥، ٦) ” الغیب والشھادۃ “ دوسروں کے اعتبار سے فرمایا، ورنہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز غائب نہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ ” عالم الغیب “ تو واقعی صرف اللہ تعالیٰ ہے مگر ” عالم الشہادت “ تو اور لوگ بھی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ” الشہادت “ کا علم بھی اس کے سوا کسی کے پاس نہیں ، چند چیزیں جاننے والے کو ” عالم الشہادت “ نہیں کہا جاسکتا ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ رعد (٩، ١٠) اور سورة ٔ اعلیٰ (٧) کی تفسیر۔- ٤۔ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ : اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ فاتحہ کی تفسیر۔
عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہر چھپی اور کھلی چیز اور غائب و حاضر کا پوری طرح جاننے والا ہے
ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ٠ ۚ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ ٠ ۚ ہُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ ٢٢- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - شَّهَادَةُ- : قول صادر عن علم حصل بمشاهدة بصیرة أو بصر . وقوله : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف 19] ، يعني مُشَاهَدَةِ البصر ثم قال : سَتُكْتَبُ شَهادَتُهُمْ [ الزخرف 19] ، تنبيها أنّ الشّهادة تکون عن شُهُودٍ ، وقوله : لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران 70] ، أي : تعلمون، وقوله : ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف 51] ، أي : ما جعلتهم ممّن اطّلعوا ببصیرتهم علی خلقها، وقوله : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة 6] ، أي : ما يغيب عن حواسّ الناس وبصائرهم وما يشهدونه بهما - الشھادۃ ۔ ( 1 ) وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدہ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے ۔ اور آیت کریمہ : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف 19] کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر ستکتب شھادتھم ( عنقریب ان کی شھادت لکھ لی جائے گی ) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران 70] اور تم اس بات پر گواہ ہو ۔ میں تشھدون کے معنی تعلمون کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو ۔ اور آیت کریمہ ۔ ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف 51] میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطع ہوجائیں اور آیت کریمہ : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ۔ میں غالب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
وہ ایسا معبود ہے کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ ان تمام باتوں کو جاننے والا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہیں اور ان باتوں کو بھی جو پوشیدہ نہیں اور وہی بڑا مہربان ہے کہ نیک ہو یا بد سب کو روزی دیتا ہے اور خاص طور پر مومنین پر رحم کرنے والا ہے کہ ان کے گناہ معاف فرمائے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا۔
آیت ٢٢ ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ ” وہی ہے اللہ ‘ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ “- عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِج ” وہ جاننے والا ہے چھپے کا اور کھلے کا۔ “- یہ پورا مرکب اللہ تعالیٰ کے ایک اسم پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی جانتا ہے جو ہمارے سامنے ہے اور اسے بھی جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن میں جہاں اللہ کے لیے غیب اور شہادۃ کے الفاظ آتے ہیں ‘ وہ ہم انسانوں کے لیے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے لیے تو سب شہادہ ہی شہادہ ہے ‘ اس کے لیے تو کوئی چیز بھی غیب نہیں۔ ہم انسانوں کے لیے کچھ چیزیں تو وہ ہیں جنہیں ہم اپنے حواس خمسہ سے محسوس کرسکتے ہیں۔ ایسی تمام اشیاء ہمارے لیے ” ظاہر “ (الشَّہَادَۃ) کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی چیز کو ہم مائیکرو سکوپ یا ٹیلی سکوپ سے بھی دیکھ لیں تو اس کی حیثیت بھی ہمارے لیے ” ظاہر “ ہی کی ہے۔ دوسری طرف کچھ ایسے حقائق ہیں جنہیں ہم سے چھپا دیا گیا ہے ‘ انہیں ہم کسی طرح بھی اپنے حواس کے احاطہ میں نہیں لاسکتے۔ ایسی سب چیزیں ہمارے لیے غیب کا درجہ رکھتی ہیں ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ فرشتے ‘ جنت ‘ دوزخ ‘ عالم ِ آخرت وغیرہ ‘ سب ہمارے لیے غیب ہیں۔ یہ مضمون سورة الجن میں دوبارہ واضح تر انداز میں آئے گا۔- ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ۔ ” وہ بہت رحم کرنے والا ‘ نہایت مہربان ہے۔ “- سورة الفاتحہ کی دوسری آیت ان ہی دو اسمائے حسنیٰ پر مشتمل ہے۔ لغوی اور اشتقاقی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو متعلقہ آیت کی تشریح۔
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :32 ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف سے یہ قرآن تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ، جس نے یہ ذمہ داریاں تم پر ڈالی ہیں ، اور جس کے حضور بالآخر تمہیں جواب دہ ہونا ہے ، وہ کیسا خدا ہے اور کیا اس کی صفات ہیں ۔ اوپر کے مضمون کے بعد متصلاً صفات الہیٰ کا یہ بیان خود بخود انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اس کا سابقہ کسی معمولی ہستی سے نہیں ہے بلکہ اس عظیم و جلیل ہستی سے ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اگرچہ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات بے نظیر طریقے سے بیان کی گئی ہیں جن سے ذات الٰہی کا نہایت واضح تصور حاصل ہوتا ہے ، لیکن دو مقامات ایسے ہیں جن میں صفات باری تعالیٰ کا جامع ترین بیان پایا جاتا ہے ۔ ایک سورہ بقرہ میں آیت الکرسی ( آیت 255 ) ۔ دوسرے ، سورہ حشر کی یہ آیات ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :33 یعنی جس کے سوا کسی کی یہ حیثیت اور مقام اور مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی بندگی و پرستش کی جائے ۔ جس کے سوا کوئی خدائی کی صفات و اختیارات رکھتا ہی نہیں کہ اسے معبود ہونے کا حق پہنچتا ہو ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :34 یعنی جو کچھ مخلوقات سے پوشیدہ ہے اس کو بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان پر ظاہر ہے اس سے بھی وہ واقف ہے اس کے علم سے اس کائنات میں کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں ۔ ماضی میں جو کچھ گزر چکا ہے ، حال میں جو کچھ موجود ہے ، اور مستقبل میں جو کچھ ہو گا ، ہر چیز اس کو براہ راست معلوم ہے ۔ کسی ذریعہ علم کا وہ محتاج نہیں ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :35 یعنی وہی ایک ہستی ایسی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے ، تمام کائنات پر وسیع ہے ، اور کائنات کی ہر چیز کو اس کا فیض پہنچتا ہے ۔ سارے جہان میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے ۔ دوسری جس ہستی میں بھی صفت رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے ، اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے کسی مصلحت اور ضرورت کی خاطر اسے عطا کی ہے ۔ جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی دوسری مخلوق کے لیے جذبہ رحم پیدا کیا ہے ، اس لیے پیدا کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے ۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمت بے پایاں کی دلیل ہے ۔