Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بلند و عظیم مرتبہ قرآن مجید قرآن کریم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فی الواقع یہ پاک کتاب اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ دل اس کے سامنے جھک جائیں ، رونگٹے کھڑے ہو جائیں ، کلیجے کپکپائیں ، اس کے سچے وعدے اور اس کی حقانی ڈانٹ ڈپٹ ہر سننے والے کو بید کی طرح تھرادے ، اور دربار اللہ میں سریہ سجود کرا دے ، اگر یہ قرآن جناب باری کسی سخت بلند اور اونچے پہاڑ پر بھی نازل فرماتا اور اسے غور و فکر اور فہم و فراست کی حس بھی دیتا تو وہ بھی اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ، پھر انسانوں کے دلوں پر جو نسبتاً بہت نرم اور چھوٹے ہیں ۔ جنہیں پوری سمجھ بوجھ ہے ، اس کا بہت بڑا اثر پڑنا چاہئے ، ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے ان کے غور و فکر کے لئے اللہ تالیٰ نے بیان فرما دیا ، مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو بھی ڈر اور عاجزی چاہئے ، متواتر حدیث میں ہے کہ منبر تیار ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بن گیا ، بچھ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور وہ تنادور ہو گیا ، تو اس میں سے رونے کی آواز آنے لگی اور اس طرح سسکیاں لے لے کر وہ رونے لگا جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر روتا ہو اور اسے چپ کرایا جا رہا ہو کیونکہ وہ ذکر وحی کے سننے سے کچھ دور ہو گیا تھا ۔ امام بصری اس حدیث کو بیان کر کے فرماتے تھے کہ لوگو ایک کھجور کا تنا اس قدر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شائق ہو تو تمہیں چاہئے کہ اس سے بہت زیادہ شوق اور چاہت تم رکھو ۔ اسی طرح کی یہ آیت ہے کہ جب ایک پہاڑ کا یہ حال ہو تو تمہیں چاہئے کہ تم تو اس حالت میں اس سے آگے رہو اور جگہ فرمان اللہ ہے ( ترجمہ ) یعنی اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس کے باعث پہاڑ چلا دیئے جائیں یا زمین کاٹ دی جائے یا مردے بول پڑیں ( تو اس کے قابل یہی قرآن تھا ) ( مگر پھر بھی ان کفار کو ایمان نصیب نہ ہوتا ) اور جگہ فرمان عالی شان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی بعض پتھر ایسے ہیں جن میں سے نہریں بہ نکلتی ہیں بعض وہ ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلتا ہے بعض اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ تو کوئی پالنے اور پرورش کرنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کسی کی ایسی نشانیاں ہیں کہ اس کی کسی قسم کی عبادت کوئی کرے اس کے سوا جن جن کی لوگ پرستش اور پوجا کرتے ہیں وہ سب باطل ہیں ، وہ تمام کائنات کا علم رکھنے والا ہے ، جو چیزیں ہم پر ظاہر ہیں اور جو چیزیں ہم سے پوشیدہ ہیں سب اس پر عیاں ہیں ، خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں ہوں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہوں یہاں تک کہ اندھیریوں کے ذرے بھی اس پر ظاہر ہیں ، وہ اتنی بڑی وسیع رحمت والا ہے کہ اس کی رحمت تمام مخلوق پر محیط ہے ، وہ دنیا اور آخرت میں رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے ، ہماری تفسیر کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گذر چکی ہے ، قرآن کریم میں اور جگہ ہے ۔ ( ترجمہ ) میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر لای ہے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحم و رحمت لکھ لی ہے ۔ اور فرمان ہے ( ترجمہ ) کہدو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ ہی خوش ہونا چاہئے تمہاری جمع کردہ چیز سے بہتر یہی ہے ۔ اس مالک رب معبود کے سوا اور کوئی ان اوصاف والا نہیں ، تمام چیزوں کا تنا وہی مالک و مختار ہے ہر چیز کا ہیر پھیر کرنے والا سب پر قبضہ اور تصرف رکھنے والا بھی وہی ہے کوئی نہیں جو اس کی مزاحمت یا مدافعت کر سکے یا اسے ممانعت کر سکے ، وہ قدوس ہے یعنی طاہر ہے ، مبارک ہے ، ذاتی اور صفاتی نقصانات سے پاک ہے تمام بلند مرتبہفرشتے اور سب کی سب اعلیٰ مخلوق اس کی تسبیح و تقدیس میں علی الدوام مشغول ہے کل عیبوں اور نقصانوں سے مبرا اور منزہ ہے ، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اپنے افعال میں بھی اس کی ذات ہر طرح کے نقصان سے پاک ہے ، وہ مومن ہے یعنی تمام مخلوق کو اس نے اس بات سے بےخوف رکھا ہے کہ ان پر کسی طرح کا کسی وقت اپنی طرف سے ظلم ہو ، اس نے یہ فرما کر کہ یہ حق ہے سب کو امن دے رکھا ہے ، اپنے ایماندار بندوں کے ایمان کی تصدیق کرتا ہے ، وہ مہیمن ہے یعنی اپنی تمام مخلوق کے اعمال کا ہر وقت یکساں طور شاہد ہے اور نگہبان ہے ، جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد ہے اور فرمان ہے ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال پر گواہ ہے اور جگہ فرمایا ( ترجمہ ) الخ مطلب یہ ہے کہ ہر نفس جو کچھ کر رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ، وہ عزیز ہے ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے کل مخلوق پر وہ غالب ہے پس اس کی عزت عظمت جبروت کبریائی کی وجہ سے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ، وہ جبار اور متکبر ہے ، جبریت اور کبر صرف اسی کے شایان شان ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عظمت میرا تہمد ہے اور کبریائی میری چادر ہے جو مجھ سے ان دونوں میں سے کسی کو چھیننا چاہے گا میں اسے عذاب کروں گا ، اپنی مخلوق کو جس چیز پر چاہے وہ رکھ سکتا ہے ، کل کاموں کی اصلاح اسی کے ہاتھ ہے ، وہ ہر برائی سے نفرت اور دوری رکھنے والا ہے ، جو لوگ اپنی کم سمجھی کی وجہ سے دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرا رہے ہیں وہ ان سب سے بیزار ہے ، اس کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے ، اللہ تعالیٰ خالق ہے یعنی مقدر مقرر کرنے والا ، پھر باری ہے یعنی اسے جاری اور ظاہر کرنے والا ، کوئی ایسا نہیں کہ جو تقدیر اور تنقید دونوں پر قادر ہو جو چاہے اندازہ مقرر کرے اور پھر اسی کے مطابق اسے چلائے بھی کبھی بھی اس میں فرق نہ آنے دے ، بہت سے ترتیب دینے والے اور اندازہ کرنے والے ہیں جو پھر اسے جاری کرنے اور اسی کے مطابق برابر جاری رکھنے پر قادر نہیں ، تقدیر کے ساتھ ایجاد اور تنقید پر بھی قدرت رکھنے والی اللہ کی ہی ذات ہے ، پس خلق سے مراد تقدیر اور برء سے مراد تنفیذ ہے ، عرب میں یہ الفاظ ان معنوں میں برابر بطور مثال کے بھی مروج ہیں ، اسی کی شان ہے کہ جس چیز کو جب جس طرح کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی طرح اسی صورت میں ہو جاتی ہے جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) جس صورت میں اس نے چاہا تجھے ترکیب دی ، اسی لئے یہاں فرماتا ہے ہو مصور بےمثل ہے یعنی جس چیز کی ایجاد جس طرح کی چاہتا ہے کہ گذرتا ہے ۔ پیارے پیارے بہترین اور بزرگ تر ناموں والا وہی ہے ، سورہ اعراف میں اس جملہ کی تفسیر گذر چکی ہے ، نیز وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جو بخاری مسلم میں بہ روایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں شمار کر لے یاد رکھ لے وہ جنت میں داخل ہو گا وہ وتر ہے یعنی واحد ہے اور اکائی کو دوست رکھتا ہے ، ترمذی میں ان ناموں کی صراحت بھی آئی ہے جو نام یہ ہیں ۔ اللہ کہ نہیں کوئی معبود مگر وہی ، رحمٰن ، رحمی ، ملک ، قدوس ، سلام ، مومن ، مہیمن ، عزیز ، جبار ، متکبر ، خالق ، باری ، مصور ، غفار ، قہار ، وہاب ، رزاق ، فتاح ، علیم ، قابض ، باسط ، خافض ، رافع معز ، ، سمیع ، بصیر ، حکم ، عدل ، لطیف ، خبیر ، حلیم ، عظیم ، غفور ، شکور ، علی ، کبیر ، حفیظ ، مقیت ، حسیب ، جلیل ، کریم ، رقیب ، مجیب ، واسع ، حکیم ، ودود ، مجید ، باعث ، شہید ، حق ، وکیل ، قوی ، متین ، ولی ، حمید ، محصی ، مبدی ، معید ، محی ، ممیت ، حی و قیوم ، واجد ، ماجد ، واحد ، صبر ، قادر ، مقتدر ، مقدم ، موخر ، اول ، آخر ، ظاہر ، باطن ، والی ، متعال ، بر ، تواب ، منتقم ، عفو ، رؤف ، مالک الملک ، ذوالجلا ، والا کرام ، مقسط ، جامع ، غنی ، مغنی ، معطی ، مانع ، ضار ، نافع ، نور ، ہادی ، بدیع ، باقی ، وارث ، رشید ، صبور ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں کچھ تقدیم تاخیر کمی زیادتی بھی ہے الغرض ان تمام احادیث وغیرہ کا بیان پوری طرح سورہ اعراف میں گذر چکا ہے اس لئے یہاں صرف اتنا لکھ دینا کافی ہے باقی سب کو دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ آسمان و زمین کی کل چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ، ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان میں جو مخلوق ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے بیشک وہ بردبار اور بخشش کرنے والا ہے ، وہ عزیز ہے اس کی حکمت والی سرکار اپنے احکام اور تقدیر کے تقدر میں ایسی نہیں کہ کسی طرح کی کمی نکالی جائے یا کوئی اعتراض قائم کیا جا سکے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص صبح کو تین مرتبہ ( ترجمہ ) پڑھ کر سورہ حشر کے آخر کی ( ان ) تین آیتوں کو پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے وہ بھی اسی حکم میں ہے ، ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب بتاتے ہیں ۔ الحمد اللہ سورہ حشر کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 اور پہاڑ میں فہم و ادراک کی صلاحیت پیدا کردیتے جو ہم نے انسان کے اندر رکھی ہے۔ 21۔ 2 یعنی قرآن کریم میں ہم نے بلاغت و فصاحت، قوت و استدلال اور وعظ تذکرہ کے ایسے پہلو بیان کئے ہیں کہ انہیں سن کر پہاڑ بھی باوجود اتنی سختی اور وسعت و بلندی کے خوف الٰہی سے ریزہ ریزۃ ہوجاتا۔ یہ انسان کو سمجھایا اور ڈرایا جا رہا ہے کہ تجھے عقل و فہم کی صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ لیکن قرآن سن کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا تو تیرا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ 21۔ 3 تاکہ قرآن کے مواعظ سے وہ نصحیت حاصل کریں اور زواجر کو سن کر نافرمانیوں سے اجتناب کریں بعض کہتے ہیں کہ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے کہ ہم نے آپ پر یہ قرآن مجید نازل کیا جو ایسی عظمت شان کا حامل ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا لیکن یہ آپ پر ہمارا احسان ہے کہ ہم نے آپ کو اتنا قوی اور مضبوط کردیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کو برداشت کرلیا جس کو برداشت کرنے کی طاقت پہاڑوں میں بھی نہیں ہے۔ فتح القدیر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی صفات بیان فرما رہا ہے جس سے مقصود توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] قرآن کی عـظمت اور انسان کی غفلت :۔ یعنی اگر پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ وہ سمجھ، اختیار اور عقل و شعور عطا کردیتا، جو انسان کو عطا کی گئی ہے پھر انہیں یہ بتایا جاتا کہ تمہیں اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنا ہوگا اور پھر تمہارے اعمال کی تم سے باز پرس بھی ہوگی تو وہ بھی اس تصور سے کانپ اٹھتے لیکن انسان کی بےحسی کا یہ عالم ہے کہ اس بار امانت کو اٹھا لینے کے بعد بھی اس پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ ہی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگر اس نے اپنی زندگی غفلت اور خدا فراموشی میں گزار دی تو آخرت میں اپنے پروردگار کے سامنے کیا جواب دے گا اور اس کی گرفت سے کیسے بچ سکے گا۔ بلکہ وہ قرآن سن کر اور تمام حقائق پر مطلع ہونے کے بعد بھی ایسے غیر متاثر رہتا ہے جیسے کوئی بےجان اور بےشعور پتھر ہو۔ جسے ان بےجان چیزوں کے علاوہ کوئی انسانی قوتیں دی ہی نہیں گئیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ ۔۔۔۔: یعنی یہ یہود اور منافقین قرآن مجید کی آیات سننے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے ، حالانکہ وہ تو ایسی عظیم الشان اور پر تاثیر کتاب ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ بھی اللہ کے ڈر سے دب جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ، جیسا کہ فرمایا :(ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ) (البقرہ : ٧٤)” پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں یا سختی میں ان سے بھی بڑھ کر ہیں “۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہاڑوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ادراک اور سوجھ بوجھ رکھی ہے۔ ان کے سامنے امانت پیش کی گئی ، مگر وہ اس سے ڈر گئے اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا۔ ( دیکھئے احزاب : ٧٢) پہاڑوں اور جمادات میں ادراک کے وجود کے لیے سورة ٔ بقرہ (٧٣) بنی اسرائیل (٤٤) ، بخل (٤٨، ٤٩) اور سورة ٔ ص (١٨) کی تفاسیر پر نظر ڈال لیں۔- ٢۔ وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ ۔۔۔۔۔ یعنی ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں کہ ایسی زبردست تاثیر والی چیز بھی ان کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہورہی تو اس کا سبب کیا ہے ، پھر اس سبب کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ ، یہ ایک تمثیل ہے کہ اگر قرآن پہاڑوں جیسی سخت اور ثقیل چیز پر اتارا گیا ہوتا اور جس طرح انسان کو فہم و شعور دیا گیا ہے ان کو بھی دے دیا جاتا تو پہاڑ بھی اس قرآن کی عظمت کے سامنے جھک جاتے بلکہ ریزہ ریزہ ہوجاتے، مگر انسان اپنی خواہش پرستی اور خود غرضی میں مبتلا ہو کر اپنے فطری شعور کو کھو بیٹھا، وہ قرآن سے متاثر نہیں ہوتا، گویا یہ ایک فرضی مثال ہے کہ پہاڑوں میں شعور ہوتا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ پہاڑوں اور درختوں اور دنیا کی تمام چیزوں میں شعور و ادراک ہونا عقل و نقل سے ثابت ہے، اس لئے یہ کوئی فرضی مثال نہیں حقیقت ہے (مظہری) واللہ اعلم۔- انسان کو آخرت کی فکر اور قرآن کی عظمت بتلانے کے بعد آخر میں حق تعالیٰ کی چند صفات کمال کا ذکر کر کے سورت کو ختم کیا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـيَۃِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ۝ ٢١- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )- صدع - الصَّدْعُ : الشّقّ في الأجسام الصّلبة کالزّجاج والحدید ونحوهما . يقال : صَدَعْتُهُ فَانْصَدَعَ ، وصَدَّعْتُهُ فَتَصَدَّعَ ، قال تعالی: يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم 43] ، وعنه استعیر :- صَدَعَ الأمرَ ، أي : فَصَلَهُ ، قال : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] ، وکذا استعیر منه الصُّدَاعُ ، وهو شبه الاشتقاق في الرّأس من الوجع . قال : لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ- [ الواقعة 19] ، ومنه الصَّدِيعُ للفجر «1» ، وصَدَعْتُ الفلاة : قطعتها «2» ، وتَصَدَّعَ القومُ أي : تفرّقوا .- ( ص د ع ) الصدع - کے معنی ٹھوس اجسام جیسے شیشہ لوہا وغیرہ میں شگاف ڈالنا کے ہیں ۔ صدع ( ف) وصدع متعدی ہے اور انصدع وتصدع لازم اسی سے استعارہ کے طور پر صدع الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے ظاہر اور واضح کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ) ملا ہے اسے کھول کر بیان کرو۔ اور اسی سے صداع کا لفظ مستعار ہے جس کے معنی دوسرے کے ہیں جس سے گویا سر پھٹا جارہا ہو۔ قرآن میں ہے ؛لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة 19] اس سے نہ تو دروسر ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی ۔ اور اسی سے صدیع بمعنی فجر ہے ۔ اور صدعت الفلاۃ کے معنی بیاباں طے کرنے کے ہیں ۔ تصدع القوم لوگ منتشر ہوگئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ [ الروم 43] اس روز ( سب لوگ ) الگ الگ ہوجائیں گے ۔- - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اگر اس قرآن حکیم کو کسی بلند پہاڑ پر نازل کرتے کہ جس کی بلندی آسمان تک اور تہہ ساتویں زمین تک ہو اے مخاطب تو اس پہاڑ کو دیکھتا ہے کہ وہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا۔- اور ان مضامین میں عجیبہ کو ہم لوگوں کے فائدہ کے لیے قرآن کریم میں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ لَــوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْـتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ” اگر ہم اس قرآن کو اتار دیتے کسی پہاڑ پر تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے۔ “- یہ قرآن مجید کی عظمت کا بیان ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے یہاں یہ اہم نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید کی عظمت اور قرآن مجید کی افادیت دو الگ الگ موضوعات ہیں۔ ان دوموضوعات کو آپس میں گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک قرآن مجید کی افادیت کا تعلق ہے ‘ قرآن کی متعدد آیات اس حوالے سے ہماری راہنمائی کرتی ہیں ‘ لیکن سورة یونس کی یہ دو آیات اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں :- یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ لا وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ - قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔ - ” اے لوگو آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے اَمراض ) کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور (بہت بڑی) رحمت۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ) کہہ دیجیے کہ یہ ( قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے ‘ تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ “- یہ تو قرآن مجید کی افادیت کا ذکر ہے ‘ لیکن قرآن مجید فی نفسہٖ کیا ہے ؟ انسان کا محدود ذہن اس موضوع کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہے ۔ چناچہ قرآن مجید کی عظمت کے تصور کو انسانی ذہن کے لیے کسی حد تک قابل فہم بنانے کے لیے آیت زیر مطالعہ میں ایک تمثیل بیان کی گئی ہے۔ اس تمثیل کو سمجھنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کو ہِ طور پر پیش آنے والے واقعہ کی یاد دہانی ضروری ہے۔ یہ واقعہ سورة الاعراف کی آیت ١٤٣ میں بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب چالیس راتوں کے لیے کو ہِ طور پر گئے تو آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی : رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَط کہ اے میرے رب مجھے اپنا جلوہ دکھا ‘ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ قَالَ لَنْ تَرٰٹنِیْ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ وَلٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ البتہ تم اس پہاڑ کو دیکھو ‘ میں اپنی تجلی اس پر ڈالوں گا۔ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰٹنِیْج تو اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ قائم رہ سکا تو پھر تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر ایک تجلی ڈالی ‘ یعنی نورکا پرتو جب پہاڑ پر پڑا تو جَعَلَہٗ دَکًّا اس نے اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ دیا۔ وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًاج (الاعراف : ١٤٣) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس بالواسطہ تجلی کے مشاہدہ کی تاب نہ لاتے ہوئے بےہوش کر گرپڑے۔ اس واقعہ کے ساتھ آیت زیر مطالعہ میں بیان کی گئی تمثیل کی گہری مماثلت ہے۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ کو ہِ طور پر ” تجلی ذات “ کا معاملہ تھا اور یہاں اس تمثیل میں ” تجلی صفات “ کا ذکر ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام اپنے متکلم کی صفت ہوتا ہے ۔ اس لیے جو تاثیر ذات باری تعالیٰ کی تجلی کی ہے عین وہی تاثیر کلام اللہ کی تجلی کی ہے۔ علامہ اقبال اپنے انداز میں قرآن مجید کی عظمت کا بیان یوں کرتے ہیں : ؎- فاش گویم آنچہ در دل مضمر است - ایں کتابے نیست چیزے دیگر است - کہ اگر میں اپنے دل کی بات کروں تو یہ کہوں گا کہ قرآن مجید محض ایک کتاب نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی چیز ہے ۔ کیا چیز ہے ؟ اس کی مزید وضاحت علامہ یوں کرتے ہیں :- مثل ِحق پنہاں و ہم پیدا ست ایں - زندہ و پائندہ و گویا ست ایں - یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا حامل ہے اور اس حیثیت میں یہ پوشیدہ بھی ہے اور عیاں بھی ۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا بھی ہے اور گویا (بولتا ہوا) بھی ۔ قرآن حکیم کی عظمت کے حوالے سے سورة الواقعہ کی آیت لَا یَمَسُّہٗٓ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ ۔ کی تشریح کے تحت یہ نکتہ بھی زیر بحث آچکا ہے کہ قرآن مجید کی حقیقی معرفت ‘ اصل ہدایت اور روح باطنی تک رسائی کے لیے انسان کے باطن کا پاک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے باطن کا تجزیہ کیے بغیر قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے گا تو وہ صرف اس کی عبارت اور لغت کے ظاہری مطالب و معانی تک ہی رسائی حاصل کر پائے گا۔ یہی بات مولانا روم نے تعلی میز الفاظ میں یوں بیان کی ہے :- ما زِ قرآں مغزہا برداشتیم - استخواں پیش ِسگاں انداختیم - کہ ہم نے قرآن سے اس کا مغزلے لیا ہے اور ہڈیاں کتوں کے آگے ڈال دی ہیں۔- وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَـعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ۔ ” اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔ “- اب وہ تین عظیم آیات آرہی ہیں جن کا ذکر اس رکوع کے آغاز میں اسمائے حسنیٰ کے حوالے سے ہوا تھا۔ واضح رہے کہ صفات ِباری تعالیٰ کے موضوع پر سورة الحدید کی پہلی چھ آیات قرآن مجید کے ذروئہ سنام کا درجہ رکھتی ہیں۔ ( عربی میں اونٹ کی کو ہان کو سنام اور کسی چیز کی چوٹی یا بلند ترین حصے کو ذُروہ ذِروہ کہتے ہیں۔ چناچہ ذروئہ سنام کا مطلب ہے کو ہان کی بھی چوٹی۔ یعنی سب سے اونچا مقام یا کسی چیز کا نمایاں ترین حصہ ) جبکہ اسمائے حسنیٰ کے ذکر کے اعتبار سے سورة الحشر کی آخری تین آیات پورے قرآن میں منفرد و ممتاز مقام کی حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے حوالے سے یہاں ” ایمانِ مجمل “ کے یہ الفاظ بھی اپنے حافظے میں تازہ کرلیں : آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء وصفات کے ساتھ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے تمام احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :31 اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس طرح خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کر رہا ہے ، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب ہوتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا ۔ لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بے حسی اور بے فکری جو قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے حقیقت حال جان چکا ہے اور پھر بھی اس پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے ، نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں ان کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا ۔ بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان و بے شعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہے ہی نہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 120 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani