9۔ 1 ان سے انصار مدینہ مراد ہیں جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کر کے آنے سے قبل امین بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے یہ انصار ایمان لا چکے تھے کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے یعنی من قبلھم کا مطلب من قبل ھجرتھم ہے اور دار سے دار الھجرۃ یعنی مدینہ مراد ہے۔ 9۔ 2 یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ دے، اس پر حسد محسوس نہیں کرتے، جیسے فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔ 9۔ 3 یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مہمان آیا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں کچھ نہ تھا چناچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا گھر جا کر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں صبح جب وہ صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیات نازل فرمائی ہے۔ ویوثرون علی انفسھم۔ الایۃ صحیح بخاری۔ ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کرلے۔ صحیح بخاری۔ کتاب النکاح۔ 9۔ 4 حدیث میں ہے شح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کرلیا (صحیح مسلم)
[١١] انصار کا مہاجرین کے لیے ایثار اور فے میں ان کا حصہ :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی کمال فضیلت بیان فرمائی جو مسلمانوں کے ہجرت کرکے مدینہ آنے سے پیشتر بیعت عقبہ کی رو سے ایمان لاچکے تھے اور انہوں نے مہاجر مسلمانوں کو آتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔ اور مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں وہ مثال قائم کی جس کی مثال پیش کرنے سے پوری دنیا کی تاریخ قاصر ہے۔ ان اولین انصار نے مہاجرین کو اپنی جائیداد، گھر بار اور نخلستانوں میں شریک کرلیا۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس وقت انصار مدینہ نے آپ سے عرض کیا : ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں کھجور کے درخت تقسیم کر دیجئے تو آپ نے فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا (جائیداد تمہاری ہی رہے گی) تب انصار مہاجرین سے کہنے لگے۔ اچھا ایسا کرو۔ درختوں کی خدمت تم کرو۔ ہم پیداوار میں تمہیں شریک بنا لیتے ہیں۔ تب مہاجر کہنے لگے بہت خوب ہم نے سنا اور مان لیا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی المعاملۃ) اس سے اگلا ایثار یہ تھا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مہاجرین تو کھیتی باڑی نہیں جانتے۔ تو انصار نے اس معاملہ میں بھی اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کی۔ تاہم نصف پیداوار انہیں دینا قبول کرلیا۔ اور اب جب بنونضیر کے اموال فے تقسیم کرنے کی باری آئی تو انصار نے از خود یہ کہہ دیا کہ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم کردیجئے۔ اور ہمارے پہلے نخلستان ہی ہمارے پاس رہنے دیجئے۔ (یعنی اب ان میں مہاجرین شریک نہ ہوں گے) بلکہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم ان میں سے بھی دینے کو تیار ہیں۔ یہ تھا وہ ایثار جس کی بنا پر ان کا درجہ بہت بلند ہوگیا تھا۔ اور اللہ نے بطور خاص ان انصار کی تعریف فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے بطور حق یہ ارشاد فرمایا کہ ایسے ایثار کرنے والے انصار کا بھی اموال فئے میں خاص طور پر خیال رکھا جائے۔ لیکن وہ از راہ ایثار اپنے اس حق سے اپنے مہاجر بھائیوں کے حق میں دستبردار ہوگئے اس ایثار نے مہاجرین کے دل میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- سیدنا عمر نے (مرتے وقت) وصیت کی کہ : میرے بعد جو خلیفہ ہو وہ مہاجرین کا حق پہچانے اور انصار کا بھی حق پہچانے۔ جنہوں نے نبی کریم کی ہجرت سے پہلے مدینہ میں جگہ پکڑی اور ایمان کو سنبھالا۔ خلیفہ کو لازم ہے کہ ان میں سے جو نیک ہوں اس کی قدر کرے اور برے کی برائی سے درگزر کرے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اور مہاجرین کی آمد پر جس قدر خوشی انصار کو ہوتی تھی وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے :- مہاجرین کی آمد پر انصار کی خوشی :۔ سیدنا براء بن عازب کہتے ہیں کہ (مدینہ میں) آپ کے اصحاب میں سے سب سے پہلے مصعب بن عمیر اور عبداللہ بن ام مکتوم ہمارے پاس آئے۔ وہ دونوں ہمیں قرآن پڑھاتے رہے۔- پھر عمار بن یاسر (رض) ، بلال (رض) اور سعد بن ابی وقاص (رض) آئے پھر سیدنا عمر (رض) بیس آدمی اپنے ساتھ لیے ہوئے آئے۔ پھر ان کے بعد آپ تشریف لائے۔ مدینہ والے اتنے خوش کبھی بھی نہ ہوئے تھے جتنے خوش آپ کی تشریف آوری سے ہوئے۔ بچے بچیاں تک یوں کہہ رہے تھے۔ دیکھو یہ اللہ کے رسول تشریف لائے ہیں۔ میں آپ کی آمد سے پہلے ہی سورة اعلیٰ اور اس جیسی کئی سورتیں پڑھ چکا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة الاعلیٰ )- انہیں دنوں ایک انفرادی واقعہ بھی پیش آیا : جس میں ایک انصاری نے کمال ایثار کا ثبوت دیا تھا۔ محدثین اس واقعہ کو بھی اس آیت کی تفسیر میں لائے ہیں۔ اور وہ حدیث یوں ہے :- انصار کے ایثار کا ایک منفرد قصہ :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص ( ابوہریرہ (رض) آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ میں بہت بھوکا ہوں آپ نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن وہاں کچھ نہ نکلا۔ پھر آپ نے صحابہ کو کہا : کوئی ہے جو اس رات اس شخص کی مہمانی کرے۔ اللہ اس پر رحم کرے ایک انصاری (ابوطلحہ (رض) نے کہا : یارسول اللہ میں اس کی مہمانی کروں گا اور اس شخص ( ابوہریرہ (رض) کو اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی (ام سلیم) سے کہا : یہ شخص رسول اللہ کا (بھیجا ہوا) مہمان ہے لہذا جو چیز بھی موجود ہو اسے کھلاؤ وہ کہنے لگی : اللہ کی قسم میرے پاس تو بمشکل بچوں کا کھانا ہے ابو طلحہ (رض) نے کہا : اچھا یوں کرو۔ بچے جب کھانا مانگنے لگیں تو انہیں سلا دو ۔ اور جب ہم دونوں (میں اور مہمان) کھانا کھانے لگیں تو چراغ گل کردینا۔ اس طرح ہم دونوں آج رات کچھ نہیں کھائیں گے (اور مہمان کھالے گا) چناچہ ام سلیم نے ایسا ہی کیا۔ صبح جب ابو طلحہ (رض) آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ فلاں مرد (ابوطلحہ) اور فلاں عورت (ام سلیم) پر اللہ عزوجل بہت خوش ہوا اور اسے ہنسی آگئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ ) 59 ۔ الحشر :9) (بخاری۔ کتاب التفسیر)- [١٢] لفظ شح کے لغوی معنیٰ :۔ شُحَّ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک مال و دولت جمع کرنے میں حریص ہونا، دوسرے مال و دولت خرچ کرنے میں انتہائی بخیل ہونا اور جس شخص میں یہ دونوں قباحتیں جمع ہوجائیں اسے شحیح اور شحاح کہتے ہیں۔ اب ایسے شخص میں تنگ نظری، تنگ ظرفی، سنگدلی، بےمروتی وغیرہ جیسی صفات پیدا ہوسکتی ہیں اور ان کا ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے۔ اگرچہ مال و دولت سے محبت ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لیکن اس طرح دولت کے پیچھے اندھے ہوجانا اور دولت کا پجاری بن جانا انتہائی قبیح خصلت ہے۔ جس سے اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ اسلام اس بدخصلت کے علاج کے لیے انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور ایثار کی راہ دکھاتا ہے جس سے سماحت، وسعت نظر، ہمدردی، مروت اور اخوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ گویا شح سے نجات پاجانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے اور جنت میں لے جانے کا سبب بنتی ہے۔
١۔ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ :” بوا یبوی “ ( تفعیل) جگہ دینا ، ٹھکانہ دینا ، جیسا کہ فرمایا :(وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ ) ( یونس : ٩٣) ’ ’ اور بلا شبہ یقینا ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانہ دیا ، با عزت ٹھکانہ۔” تبوا یتبوا “ کسی جگہ میں ٹھکانہ بنانا ، مقیم ہونا ۔” الدار “ میں الف لام عہد کا ہے ، اس گھر میں جہاں مہاجرین ہجرت کر کے پہنچے۔ ” دار ہجرت “ مدینہ منورہ کا لقب ہے ، امام مالک (رح) تعالیٰ کو اسی لیے ” امام دار الجھرۃ “ کہا جاتا ہے کہ وہ مدینہ منورہ میں رہتے تھے ۔ یعنی اموال فے فقراء مہاجرین کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جنہوں نے مہاجرین کے آنے سے پہلے ہی دار ہجرت اور ایمان میں جگہ بنا لی تھی ، یعنی پہلے ہی مدینہ میں رہتے تھے اور ایمان لے آئے تھے ۔ ایمان لانے کے لیے یہاں ایمان میں جگہ اور ٹھکانہ بنانے کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ استعارہ ہے جس میں ایمان کو ایک مضبوط پناہ گاہ اور ٹھکانے کے ساتھ تشبیہ دی ہے ، جس میں وہ پہلے ہی داخل ہوچکے تھے۔ ان لوگوں سے مراد تمام انصار ہیں جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس وقت ایمان لائے جب کوئی مہاجر مدینہ میں نہیں آیا تھا ، یعنی بیعت عقبہ اولیٰ والے انصار اور وہ بھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے ایمان لا چکے تھے جب کچھ مہاجرین آچکے تھے اور کچھ آنے والے تھے اور مکہ فتح ہونے تک مسلمان ہونے والے تمام انصار بھی ، کیونکہ وہ بھی کئی مہاجرین سے پہلے ایمان لے آئے تھے۔- ٢۔ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ : یہ انصار کی دوسری فضیلت ہے کہ وہ ہجرت کر کے اپنے پاس آنے والوں سے محبت رکھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انصار نے ہجرت کر کے آنے والوں کو گلے لگایا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ انہوں نے مہاجرین کو اپنی جائیداد ، گھر بار ، زمینوں اور باغوں میں شریک کرلیا اور اتنے اصرا ر کے ساتھ ان میں سے ہر ایک کو اپنے گھروں میں ٹھہرانے کی کوشش کی کہ مہاجرین کو قرعہ ڈال کر ان کے گھروں میں تقسیم کیا گیا ، جیسا کہ ام علاء انصاریہ (رض) نے فرمایا :( انھم اقتسموا المجھاجرین قرعۃ، قالت فطار لنا عثمان بن مظعون، وانزلناہ فی ابیاتنا) ( بخاری ، التفسیر ، باب رویہ النسائ، ٧٠٠٣) ” انصار نے مہاجرین کو قرعہ کے ساتھ تقسیم کیا ، ہمارے حصے میں عثمان بن مظعون آئے ، تو ہم نے انہیں اپنے گھروں میں ٹھہرا لیا “۔- اس محبت کا مظہر مواخات تھی ، جس کی وجہ سے سعد بن ربیع انصاری (رض) نے عبد الرحمن بن عوف (رض) کو اپنی ساری جائیداد اور تمام مکانوں میں سے نصف کی اور دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق کے بعد ان کے نکاح میں دینے کی پیش کش کی ، جس پر انہوں نے انہیں برکت کی دعا دی مگر یہ پیش کش قبول نہ کی ۔ ( دیکھئے بخاری : ٢٠٤٩) انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا :( یا رسول اللہ ما راینا رمثل قوم یدمنا علیھم احسن مواساۃ فی قلیل ، ولااحسن بدلا فی کثیر ، لقد کفونا المثونۃ ، واشر کونا فی المھنا ، حتی لقد حسبنا ان یدھبوا بالاجر کلہ ، قال لا ، مااینتم علیھم ، ودعوتم اللہ عزوجل لھم) (مسند احمد : ٣، ٢٠٠، ٢٠١، ح : ١٣٠٧٥، قال المحقق ، سنادۃ صحیح علی شرط الشیخین، ترمذی : ٢٤٨٧) ” اے اللہ کے رسول ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے جن کے پاس ہم آئے ہیں ، جو تھوڑے میں اچھی سے اچھی غم خواری کرتے ہوں اور زیادہ میں بہتر سے بہتر خرچ کرتے ہوں ۔ وہ ہماری جگہ خود محنت مشقت کر رہے ہیں اور انہوں نے آمدنی میں ہمیں شریک کر رکھا ہے ، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوتا ہے کہ سارا اجر وہی لے جائیں گے ۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” نہیں ، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دعا کرتے رہو گے “۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو بلایا تا کہ بحرین کا علاقہ بطور جاگیر ان کے لیے لکھ دیں۔ انہوں نے کہا :” جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم نہیں لیں گے “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( اما لا ، فاصبروا حتیٰ تلقونی ، فانہ سیصیبکم بعدی اترۃ) (بخاری ، مناقب الانصار ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) للانصار : ” اصبروا حتی ً تلقوانی علی الحوض “: ٣٧٩٤)” اگر تم نہیں لیتے تو صبر کرو ، یہاں تک کہ مجھ سے آملو ، کیونکہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی “۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انصار نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا :” اے اللہ کے رسول ہمارے کھجوروں کے درخت ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کر دیجئے “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں ۔ “ تو انصار نے ( مہاجرین سے ) کہا : ’ ’ تمہ ہماری جگہ محنت کرو گے اور ہم تمہیں پھلوں کی پیداوار میں شریک کرلیں گے “۔ مہاجرین نے کہا :” ہم نے تمہاری بات سنی اور مان لی “۔ (بخاری ، الحرث والمزارعۃ ، باب اذا قال اکنفی موونۃ النحل۔۔: ٢٣٢٥)- ٣۔ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا : یعنی انصار کے دل میں مہاجرین کی ایسی محبت اور ہمدردی ہے کہ مہاجرین کو کوئی چیز دی جائے تو انصار کے دل میں اپنے لیے اس کی خواہش تک پیدا نہیں ہوتی ، اس کا مطالبہ تو بہت دور کی بات ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کی چھوڑی ہوئی تمام زمینیں اور باغات مہاجرین کو دے دیئے اور انصار نے بخوشی اسے قبول کرلیا ۔- ٤۔ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ط :” خص یخص خصاصۃ وخصاصا وخصاصاء (ع) “” افتفر “ محتاج ہونا ” خصاصۃ “ فقر و فاقہ۔ اپنی ضرورت سے زائد چیز خرچ کرنا بھی اگرچہ خوبی ہے ، مگر وہ تھوڑا بہت جو آدمی کے پاس ہو ، خود فقر و فاقہ برداشت کرتے ہوئے اسے دوسرے پر خرچ کردینا بہت ہی اونچی بات ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پوچھا :” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( جھد المقل وابداء بمن نقول) (ابو داؤد ، الزکاۃ ، باب الرخصۃ فی ذلک : ١٦٧٧، وقال الالبانی صحیح)” کم مال والے کی کوشش اور ابتداء اس سے کرو جس کی تم پرورش کر رہے ہو “۔- ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کے پاس پیغام بھیجا ، ان کی طرف سے جواب آیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( من یضم او یضیف ھذا ؟ )” اس مہمان کو اپنے ساتھ کون لے جائے گا ؟ “ انصار میں سے ایک آدمی نے کہا :” میں لے جاؤ گا۔ “ چناچہ وہ اسے لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا :” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مہمان کی خاطر تواضع کرو “۔ اس نے کہا :” ہمارے پاس بچوں کے کھانے کے سوا کچھ نہیں “۔ اس نے کہا :” کھانا تیار کرلو ، چراغ جلا لو اور بچے جب کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو ۔ “ اس نے کھاناتیار کرلیا ، چراغ جلا دیا اور بچوں کو سلا دیا ۔ پھر وہ اس طرح اٹھی جیسے چراغ دراست کرنے لگی ہے اور اس نے چراغ بجھا دیا ۔ میاں بیوی دونوں اس کے سامنے یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ کھا رہے ہیں ، مگر انہوں نے وہ رات خالی پیٹ گزار دی ۔ جب صبح ہوئی اور وہ انصاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( صحک اللہ اللیلۃ او عجب من فعالکما) ” آج رات تم دونوں میاں بیوی کے کام پر اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا فرمایا کہ اس نے تعجب کیا ۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ( الحشر : ٩) ” اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں ، خواہ انہیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں “۔ ( بخاری ، مناقب الانصار ، باب قول اللہ عزوجل :(ویوثرون علی انفسھم۔۔۔۔۔ ) : ٣٧٩٨۔ مسلم : ٢٠٥٤) صحیح میں اس انصاری کا نام بھی مذکور ہے کہ وہ ابو طلحہ (رض) تھے۔- ٥۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ ۔۔۔۔۔” یوق “ ” و فی یقی و قایۃ “ (ض) ( بچانا) سے فعل مضارع مجہول ہے ، اصل میں ” یوفی “ تھا، ” من “ کے جزم دینے کی وجہ سے الف گرگیا ۔ راغب نے فرمایا :’ ’ الشح بخل مع حرص و فتک فیا کانت عادۃ “” شح “ وہ بخل ہے جس کے ساتھ حرص بھی ہو اور یہ آدمی کی عادت ہو۔” یعنی “ شح یہ نہیں کہ آدمی کسی وقت بخل کر جائے یا حرض سے کام لے لے ، بلکہ یہ دونوں چیزیں اس کی عادت ہوں ۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ ” شح “ یہ ہے کہ جو آدمی کے پاس ہو اس پر بخل کرے اور جو نہیں اس کی حرص رکھے۔” وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ “ سے ظاہ رہے کہ ہر انسان میں یہ عادت پائی جاتی ہے ، بچتا وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ بچائے اور جنہیں اس بری خصلت سے بچا لیا جائے وہی کامیاب ہیں ۔ آیت میں ” شح “ سے بچنے کی تاکید اور فضیلت کا ب یان ہے ، پھر جو کوشش کرے اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاط وَاِنَّ اللہ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ) ( العنکبوت : ٦٩)” اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بلا شبہ اللہ یقینا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے “۔ اور ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ومن یستعفف یعفہ اللہ ومن یستغن یعنہ اللہ ، ومن یتصبر یصبرہ اللہ ، وما اعطی احد عطاء خیرا و اوسع من الصبر) (بخاری ، الزکۃ باب الاستعفاف عن المسئلۃ : ١٤٦٩) ” اور جو ( سوال سے) بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا اور جو غنی بننے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی بنا دے گا اور جو صبر کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطاء کردے گا اور کسی شخص کو کوئی ایسا عطیہ نہیں دیا گیا جو صبر سے اچھا اور زیادہ وسیع ہو “۔ اور جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( اتقوا الظلم فاک الظلم ظلمات یوم القیامۃ واتقوا الشح فان الشح اھلک من کان قبلکم حملھم علی ان سفکوا دماء ھم واستحلوا محارمھم) (مسلم ، البروالصلۃ ، باب تحریم الظلم : ٢٥٨٧)” ظلم سے بچو ، کیونکہ ظلم قیامت کے دن بہت سی تاریکیاں ہوگا اور ’ ’ شح “ ( بخل و حرص) سے بچو ، کیونکہ شح نے ان لوگوں کو ہلاک کردیا جو تم سے پہلے تھے۔ اس نے انہیں اس بات پر ابھارا کہ انہوں نے اپنے خون بہائے اور اپنے اوپر حرام چیزوں کو حلال کرلیا “۔- ٦۔ اس آیت میں انصار کی جو صفات بیان ہوئی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انہی کے ساتھ خاص ہیں بلکہ وہ مہاجرین میں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ ان کی ہجرت ہی ان تمام صفات کی جامع ہے ، کیونکہ آدمی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ ، اسکے رسول اور ایمان والوں کی محبت اور انہیں اپنے جان و مال پر ترجیح دیے بغیر ہجرت کرسکے ۔ پھر ہر موقع پر انصار کی طرح مہاجرین نے بھی جس طرح اپنے مال و جان کو اللہ کی راہ میں قربان کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ جنگ تبوک کے موقع پر ابوبکر صدیق (رض) گھر میں جو کچھ تھا سب لے آئے اور عمر (رض) آدھا سامان لے آئے۔ یہ ” شیخ “ سے محفوظ ہونے اور ایثار کی بلند ترین مثالیں ہیں ۔ اسی طرح پہلی آیت میں مہاجرین کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں ان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صرف انہی کے ساتھ خاص ہیں ، بلکہ وہ انصار میں بھی موجود تھے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا ذکر اکٹھا فرمایا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے دوست اور سچے مومن قرار دیا ہے۔ چناچہ فرمایا :(اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ط ) ( الانفال : ٧٢)” بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور انپے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی ، یہ لوگ انکے بعض بعض کے دوست ہیں “۔ اور اس کے بعد فرمایا :(وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْا اُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ) ( الانفال : ٧٤)” اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں “۔ غرض مہاجرین و انصاری میں سے کوئی بھی فضیلت میں کمی نہیں ، تا ہم مہاجرین کو اپنی نصیحت کی وجہ سے انصار پر ایک قسم کی برتری حاصل ہے ، اس لیے ان آیات میں ان کا ذکر پہلے آیا ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کی غنیمتوں کی تقسیم کے موقع پر انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :(اترضون ان یدھب الناس بالشاۃ والبعیر ، وتذھبون بالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی رحالکم ؟ لولا الھجرۃ لکنت امرا من الانصار ولو سلک الناس وادیا وشعبا لسلکت وادی الانصار وشعبھا ، الانصار شعار والناس دثار) ( بخاری ، المغازی ، باب غزوۃ الطائف فی شوال سنۃ ثمان : ٤٣٣)” کیا تم پسند کرتے ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے جائیں اور تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے گھروں کی طرف لے جاؤ ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک آدمی ہوتا اور اگر لوگ کسی وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور ان کی گھاٹی میں چلوں گا ۔ انصار شعار ( جسم کے ساتھ ملا ہوا کپڑا ) ہیں اور دوسرے لوگ دثار ( اوپر لیا جانے والا کپڑا) ہیں “۔
فضائل انصار :- (آیت) وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ الایتہ، تبوء کے معنی ٹھکانے بنانے کے ہیں اور دار سے مراد دار ہجرت یا دار ایمان یعنی مدینہ طیبہ ہے اسی لئے حضرت امام مالک ایک حیثیت سے مدینہ طیبہ کو باقی دنیا کے سب شہروں سے افضل قرار دیتے تھے، فرماتے تھے کہ دنیا کے تمام شہر اور ملک جہاں جہاں اسلام پہنچا اور پھیلا ہے سب جہاد کے ذریعہ فتح ہوئے ہیں یہاں تک کہ مکہ مکرمہ بھی، بجز مدینہ طیبہ کے یہ صرف ایمان سے فتح ہوا ہے (قرطبی) - اس آیت میں تبو کے تحت میں دار کے ساتھ ایمان کا بھی ذکر فرمایا ہے، حالانکہ ٹھکانا پکڑنے کا تعلق کسی مقام اور جگہ سے ہوتا ہے، ایمان کوئی ایسی چیز نہیں جس میں ٹھکانا پکڑا جائے، اس لئے بعض حضرات نے فرمایا کہ یہاں ایک لفظ محذوف ہے یعنی اخلصوا یا تمکنوا، مطلب یہ ہوگا کہ یہی وہ حضرات ہیں جنہوں نے دارالہجرت میں ٹھکانا بنایا اور ایمان میں مخلص اور مضبوط ہوئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں استعارہ کے طور پر ایمان کو ایک محفوظ مکان سے تشبیہ دے کر اس میں پناہ گزین ہوجانے کو بیان فرمایا ہو اور لفظ من قبلہم یعنی مہاجرین سے پہلے کا مطلب یہ ہے کہ ان انصار مدینہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ جو شہر اللہ کے نزدیک دارالہجرت اور دارالایمان بننے والا تھا، اس میں ان لوگوں کا قیام وقرار مہاجرین سے پہلے ہوچکا تھا اور مہاجرین کے یہاں منتقل ہونے سے پہلے ہی یہ حضرات ایمان قبول کر کے اس میں پختہ ہوچکے تھے۔- دوسری صفت : حضرات انصار کی اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ ، یعنی یہ حضران ان لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے شہر میں چلے آئے ہیں جو عام دنیا کے انسانوں کے مزاج کے خلاف ہے، ایسے اجڑے ہوئے خستہ حال لوگوں کو اپنی بستی میں جگہ دینا کون پسند کرتا ہے، ہر جگہ ملکی اور غیر ملکی کے سوالات کھڑے ہوتے ہیں، مگر ان حضرات انصار نے صرف یہی نہیں کیا ان کو اپنی بستی میں جگہ دی، بلکہ اپنے مکانوں میں آباد کیا اور اپنے اموال میں حصہ دار بنایا اور اس طرح عزت و احترام کے ساتھ ان کا استقبال کیا کہ ایک ایک مہاجر کو اپنے پاس جگہ دینے کے لئے کئی کئی انصاری حضرات نے درخواست کی یہاں تک کہ قرعہ اندازی کرنا پڑی، قرعہ کے ذریعہ جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا اس کو سپرد کیا گیا (مظہری)- تیسرا وصف : حضرات انصار کا بیہ بیان فرمایا (آیت) وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا، اس جملے کا تعلق اس خاص واقعہ سے ہے جو بنو نضیر کے جلا وطن ہونے اور ان کے باغات و مکانات پر مسلمانوں کا قبضہ ہونے کے وقت پیش آیا۔- اموال بنو نضیر کی تقسیم کا واقعہ :- صورت یہ تھی کہ جب اس آیت میں اموال فئی کی تقسیم مہاجرین و انصار وغیرہ میں کرنے کا اختیار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیا گیا، یہ وہ وقت تھا کہ مہاجرین کے پاس نہ اپنا کوئی مکان تھا نہ جائیداد، وہ حضرات انصار کے مکانوں میں رہتے اور انہی کی جائیدادوں میں محنت مزدوری کر کے گزارہ کرتے تھے جب بنو نضیر اور بنو قینقاع کے اموال بطور فئی کے مسلمانوں کو حاصل ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار مدینہ کے سردار ثابت بن قیس بن شماس کو بلا کر فرمایا کہ اپنی قوم انصار کو میرے پاس بلا دو ، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ انصار کے اپنے قبیلہ خزرج کو یا سب انصار کو ؟ آپ نے فرمایا سب ہی کو بلانا ہے، یہ حضرات سب جمع ہوگئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خطبہ دیا، جس میں حمد و صلوٰة کے بعد انصار مدینہ کی اس بات پر مدح وثناء فرمائی کہ انہوں نے جو سلوک اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ کیا وہ بڑے عزم و ہمت کا کام تھا، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے اموال آپ لوگوں کو دے دیے ہیں، اگر آپ چاہیں تو میں ان اموال کو مہاجرین و انصار سب میں تقسیم کر دوں اور مہاجرین بدستور سابق آپ کے مکانوں میں رہائش پذیر رہیں اور آپ چاہیں تو ایسا کیا جائے کہ یہ بےگھر دبے زر لوگ ہیں، یہ اموال صرف ان میں تقسیم کردیئے جائیں اور یہ لوگ آپ کے گھروں کو چھوڑ کر الگ اپنے اپنے گھر بسا لیں۔- یہ سن کر انصار مدینہ کے دو بڑے سردار حضرت سعید بن عبادہ اور سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہماری رائے یہ ہے کہ یہ سب اموال بھی صرف مہاجر بھائیوں میں تقسیم فرما دیئے اور وہ پھر بھی ہمارے مکانوں میں بدستور مقیم رہیں، ان کی بات سن کر تمام حاضرین انصار بول اٹھے کہ ہم اس فیصلے پر راضی اور خوش ہیں، اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انصار اور ابناء انصار کو دعا دی اور ان اموال کو صرف مہاجرین میں تقسیم فرما دیا، انصار میں سے صرف دو حضرات کو جو بہت حاجت مند تھے اس میں سے حصہ عطا فرمایا، یعنی سہل بن حنیف اور ابو دجانہ اور سعد بن معاذ کو ایک تلوار عطا فرمائی جو ابن ابی الحقیق کی ایک ممتاز تلوار تھی (مظہری بحوالہ سیل الرشاد محمد بن یوسف الصالحی) - آیت مذکورہ میں جو یہ ارشاد فرمایا وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا، اس میں حاجت سے مراد ہر ضرورت کی چیز ہے اور مّمَّآ اُوْتُوْا کی ضمیر مہاجرین کی طرف راجع ہے، معنی آیت کے یہ ہیں کہ اس تقسیم میں جو کچھ مہاجرین کو دے دیا گیا، انصار مدینہ نے خوشی سے اس کو اس طرح قبول کیا کہ گویا ان کو ان چیزوں کی کوئی حاجت ہی نہیں، ان کو دینے سے برا ماننا یا شکایت کرنا اس کا تو دور دور کوئی امکان ہی نہ تھا، اس کے بالمقابل جب بحرین فتح ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاہا کہ یہ پورا مال صرف انصار میں تقسیم کردیا جائے مگر انصار نے اس کو قبول نہ کیا، بلکہ عرض کیا ہم اس وقت تک نہ لیں گے جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اس میں سے حصہ نہ دیا جائے (رواہ البخاری انس بن مالک، از ابن کثیر)- چوتھا وصف : انصار مدینہ کا اس آیت میں یہ ذکر فرمایا ہے : - وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ، خصاصہ کے معنی فقر و فاقہ کے ہیں اور ایثار کے معنی دوسروں کی خواہش اور حاجت کو اپنی خواہش و حاجت پر مقدم رکھنے کے ہیں، معنی آیت کے یہ ہیں کہ حضرت انصار اپنے اوپر دوسروں کو یعنی مہاجرین کو ترجیح دیتے تھے کہ اپنی حاجت و ضرورت کو پورا کرنے سے پہلے ان کی حاجت کو پورا کرتے تھے، اگرچہ یہ خود حاجت مند اور فقر و فاقہ میں ہوں۔- حضرت صحابہ خصوصاً انصار کے ایثار کے چند واقعات :- اگرچہ تفسیر آیات کے لئے بیان واقعات کی ضرورت نہیں مگر یہ واقعات ہر انسان کو اعلیٰ انسانیت کا سبق دینے والے اور زندگی میں انقلاب لانے والے ہیں، اس لئے حضرات مفسرین نے اس موقع پر ان کو تفصیل سے لکھا ہے، خصوصاً قرطبی نے، اسی سے چند واقعات نقل کئے جاتے ہیں - ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری کے گھر رات کو کوئی مہمان آ گیا، ان کے پاس صرف اتنا کھانا تھا کہ یہ خود اور ان کے بچے کھا سکیں، انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ بچوں کو تو کسی طرح سلاد دو اور گھر کا چراغ گل کردو، پھر مہمان کے سامنے کھانا رکھ کر برابر بیٹھ جاؤ کہ مہمان سمجھے کہ ہم بھی کھا رہے ہیں، مگر ہم نہ کھائیں، تاکہ مہمان بافراعت کھانا کھا سکے، اس پر یہ آیت مذکورہ وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ نازل ہوئی (قال الترمذی ھٰذا حسن صحیح )- اور ترمذی ہی میں حضرت ابوہریرہ سے ایک دوسرا واقعہ یہ منقول ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں بھوک سے پریشان ہوں، آپ نے ازواج مظہرات میں سے ایک کے پاس اطلاع بھیجی تو ان کا جواب آیا کہ ہمارے پاس تو اس وقت بجز پانی کے کچھ نہیں، دوسری کے پاس پیغام بھیجا وہاں سے بھی یہی جواب آیا، پھر تیسری چوتھی یہاں تک کہ تمام امہات المومنین کے پاس بھیجا اور سب کا ایک ہی جواب آیا کہ پانی کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں، اب آپ نے حاضرین مجلس سے خطاب فرمایا کہ کون ہے جو آج رات اس شخص کی مہمانی کرے ایک انصاری نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کروں گا وہ ان کو ساتھ لے گئے اور جا کر گھر میں پوچھا کہ کھانے کے لئے کچھ ہے تو بیوی نے بتلایا کہ صرف اتنا ہے کہ ہمارے بچے کھا لیں انصاری بزرگ نے بچوں کو سلا دینے کے لئے فرمایا اور فرمایا کہ مہمان کے سامنے کھانا رکھنے اور خود ساتھ بیٹھ جانے کے بعد اٹھ کر چراغ گل کردینا کہ ہمارے نہ کھانے کا مہمان کو احساس نہ ہو، مہمان نے کھانا کھالیا، جب یہ صبح کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس معاملہ کو جو تم نے گزشتہ رات اپنے مہمان کے ساتھ کیا بہت پسند فرمایا۔- اور مہدوی نے ایک ایسا ہی واقعہ ایک انصاری بزرگ کا حضرت ثابت بن قیس کے ساتھ رات کو چراغ گل کر کے کھانا کھلانے کا ذکر کیا ہے اور تمام واقعات کے ساتھ روایت میں یہ بھی ہے کہ آیت مذکورہ اس واقعہ میں نازل ہوئی ہے۔- اور قشیری نے حضرت عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے ایک بزرگ کو کسی شخص نے ایک بکری کا سر بطور ہدیہ پیش کیا، اس بزرگ نے خیال کیا کہ ہمارا فلاں بھلائی اور اس کے اہل و عیال ہم سے زیادہ ضرورت مند ہیں، یہ سر ان کے پاس بھیج دیا، اس دوسرے بزرگ کے پاس پہنچا تو اسی طرح انہوں نے تیسرے کے پاس اور تیسرے نے چوتھے کے پاس بھیج دیا، یہاں تک کہ سات گھروں میں پھرنے کے بعد پھر پہلے بزرگ کے پاس واپس آ گیا، اس واقعہ پر آیات مذکورہ نازل ہوئیں، یہی واقعہ ثعلبی نے حضرت انس سے بھی روایت کیا ہے۔- مؤطاء امام مالک میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک مسکین نے اس سے سوال کیا، ان کے گھر میں صرف ایک روٹی تھی اور ان کا اس روز روزہ تھا، آپ نے اپنی خادمہ سے فرمایا کہ یہ روٹی اس کو دے دو خادمہ نے کہا کہ اگر یہ دے دی گئی تو شام کو آپ کے افطار کرنے کے لئے کوئی چیز نہ رہے گی، حضرت صدیقہ نے فرمایا کہ پھر بھی دے دو ، یہ خادمہ کہتی ہیں کہ جب شام ہوئی تو ایک ایسے شخص نے جس کی طرف سے ہدیہ دینے کی کوئی رسم نہ تھی ایک سالم بکری بھنی ہوئی اور اس کے اوپر آٹے میدے کا خول چڑھا ہوا پختہ، جو عرب میں سب سے بہترین کھانا سمجھا جاتا ہے، ان کے پاس بطور ہدیہ بھیج دیا، حضرت صدیقہ نے خادمہ کو بلایا کہ آؤ یہ کھاؤ یہ تمہاری اس روٹی سے بہتر ہے۔- اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ بیمار تھے اور انگور کو جی چاہا ان کے لئے ایک درہم میں ایک خوشہ انگور کا خرید کر لایا گیا، اتفاق سے ایک مسکین آ گیا اور سوال کیا، آپ نے فرمایا کہ یہ خوشہ اس کو دے دو ، حاضرین میں سے ایک شخص خفیہ طور پر اس کے پیچھے گیا اور خوشہ اس مسکین سے خرید کر پھر ابن عمر کو پیش کردیا، مگر یہ سائل پھر آیا اور سوال کیا تو حضرت ابن عمر نے پھر اس کو دیدیا، پھر کوئی صاحب خفیہ طور پر گئے اور اس مسکین کو ایک درہم دے کر خوشہ خرید لائے اور حضرت ابن عمر کی خدمت میں پیش کردیا، وہ سائل پھر آنا چاہتا تھا لوگوں نے منع کردیا اور حضرت ابن عمر کو یہ اطلاع ہوتی کہ یہ وہی خوشہ ہے جو انہوں نے صدقہ میں دے دیا تھا، تو ہرگز نہ کھاتے، مگر ان کو یہ خیال ہوا کہ لانے والا بازار سے لایا ہے اس لئے استعمال فرما لیا۔- اور ابن مبارک نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم نے چار سو دینار ایک تھیلی میں بھر کر تھیلی غلام کے سپرد کی کہ ابوعبیدہ بن جراح کے پاس لے جاؤ کہ ہدیہ ہے قبول کر کے اپنی ضرورت میں صرف کریں اور غلام کو ہدایت کردی کہ ہدیہ دینے کے بعد کچھ دیر گھر میں ٹھہر جانا اور یہ دیکھنا کہ ابوعبیدہ اس رقم کو کیا کرتے ہیں، غلام نے حسب ہدایت یہ تھیلی حضرت ابوعبیدہ کی خدمت میں پیش کردی اور ذرا اٹھہر گیا، ابوعبیدہ نے تھیلی لے کر کہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو یعنی عمر بن خطاب کو اس کا صلہ دے اور ان پر رحمت فرمائے اور اسی وقت اپنی کنیز کو کہا کہ لو یہ سات فلاں شخص کو پانچ فلاں کو دے آؤ، یہاں تک کہ پورے چار سو دینار اسی وقت تقسیم کردیئے۔- غلام نے واپس آ کر واقعہ بیان کردیا، حضرت عمر بن خطاب نے اسی طرح چار سو دینار کی ایک دوسری تھیلی تیار کی ہوئی غلام کو دے کر ہدایت کی کہ معاذبن جبل کو دے آؤ اور وہاں بھی دیکھو وہ کیا کرتے ہیں، یہ غلام لے گیا، انہوں نے تھیلی لے کر حضرت عمر کے حق میں دعا دی (رح) و وصلہ یعنی ” اللہ ان پر رحمت فرمائے اور ان کو صلہ دے “ اور یہ بھی تھیلی لے کر فوراً تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئے اور اس کے بہت سے حصے کر کے مختلف گھروں میں بھیجتے رہے، حضرت معاذ کی بیوی یہ سب ماجرا دیکھ رہی تھیں، آخر میں بولیں کہ ہم بھی تو بخدا مسکین ہی ہیں، ہمیں بھی کچھ ملنا چاہئے، اس وقت تھیلی میں صرف دو دینار رہ گئے تھے وہ ان کو دے دیے، غلام یہ دیکھنے کے بعد لوٹا اور حضرت عمر سے بیان کیا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ سب بھائی بھائی ہیں سب کا مزاج ایک ہی ہے۔- اور حذیفہ عدوی فرماتے ہیں کہ میں جنگ یرموک میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش شہداء کی لاشوں میں کرنے کے لئے نکلا اور کچھ پانی ساتھ لیا کہ اگر ان میں کچھ جان ہوئی تو پانی پلا دوں گا، ان کے پاس پہنچا تو کچھ رمق زندگی کی باقی تھی، میں نے کہا کہ کیا آپ کو پانی پلا دوں، اشارہ سے کہا ہاں، مگر فوراً ہی قریب سے ایک دوسرے شہید کی آواز آہ آہ کی آئی تو میرے بھائی نے کہا کہ یہ پانی ان کو دے دو ، ان کے پاس پہنچا اور پانی دینا چاہا تو تیسرے آدمی کی آواز ان کے کان میں آئی، اس نے بھی اس تیسرے کو دینے کے لئے کہہ دیا، اسی طرح یکے بعد دیگرے سات شہیدوں کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا، جب ساتویں شہید کے پاس پہنچا تو وہ دم توڑ چکے تھے، یہاں سے اپنے بھائی کے پاس پہنچا تو وہ بھی ختم ہوچکے تھے۔- یہ چند واقعات ہیں جن میں کچھ انصار کے کچھ مہاجرین کے ہیں، اکثر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آیت ایثار اس واقعہ میں نازل ہوئی، مگر ان میں کوئی تضاد و اختلاف نہیں، کیونکہ جس طرح کے واقعہ میں ایک آیت نازل ہوچکی ہے اگر اسی طرح کا کوئی دوسرا واقعہ پیش آجائے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس میں یہ آیت نازل ہوئی اور حقیقت یہ ہے کہ سبھی واقعات نزول آیت کا سبب یا مصداق ہیں۔- ایک شبہ کا جواب :- حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات ایثار جو اوپر بیان ہوئے ہیں ان پر ایک شبہ روایات حدیث سے یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا پورا مال صدقہ کر ڈالنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک بیضہ کے برابر سونے کا ٹکڑا بغرض صدقہ پیش کیا، تو آپ نے اس کو اسی کی طرف پھینک کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بعض لوگ اپنا سارا مال صدقہ کرنے کو لے آتے ہیں پھر محتاج ہو کر لوگوں سے بھیک مانگتے ہیں۔- جواب اس شبہ کا انہی روایات سے یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں، ہر حال کا حکم الگ ہے، پورا مال صدقہ کر ڈالنے کی ممانعت ان لوگوں کے لئے ہے جو بعد میں فقر و فاقہ پر صبر نہ کرسکیں، اپنے صدقہ کئے ہوئے پر پچھتائیں یا پھر لوگوں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں اور وہ لوگ جن کے عزم و ہمت اور ثبات و استقلال کا یہ حال ہو کہ سب کچھ خرچ کر ڈالنے کے بعد فقر و فاقہ پر انہیں کوئی پریشانی نہ ہو، بلکہ ہمت کے ساتھ اس پر صبر کرسکتے ہوں ان کے لئے سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالنا جائز ہے، جیسا کہ حضرت صدیق اکبر نے ایک جہاد میں چندہ میں اپنا سارا مال پیش کردیا تھا، اسی کے نظائر یہ واقعات ہیں جو اس جگہ مذکور ہیں، ایسے حضرات نے اپنے اہل و عیال کو بھی اسی صبر و استقلال کا خوگر بنا رکھا تھا، اس لئے اس میں ان کی بھی کوئی حق تلفی نہ تھی، اگر مال خود اہل و عیال کے قبضہ میں ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتے (قرطبی باضافہ اشیاء)- حضرات مہاجرین کی طرف سے ایثار انصار کی مکافات :- دنیا میں کوئی اجتماعی کام یک طرفہ روا داری و ایثار سے قائم نہیں رہتا جب تک دونوں طرف سے اسی طرح کا معاملہ نہ ہو، اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جیسا اس کی ترغیب دی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دے کر باہمی محبت بڑھایا کریں، اسی طرح جن کو ہدیہ دیا گیا ہے ان کو یہ بھی تعلیم دی کہ تم بھی ہدیہ دینے والے کے احسان کی مکافات کرو، اگر مالی وسعت اللہ تعالیٰ عطا فرما دے تو مال سے ورنہ دعا ہی سے اس کی مکافات کرو، بےحسی کے ساتھ کسی کے احسانات کا بار سر پر لیتے رہنا شرافت اور خلق کے خلاف ہے۔- حضرات مہاجرین کے معاملہ میں حضرات انصار نے بڑے ایثار سے کام لیا، اپنے مکانوں، دکانوں، کاروبار، زمین اور زراعت میں ان کو شریک کرلیا، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان مہاجرین کو وسعت عطا فرمائی تو انہوں نے بھی حضرات انصار کے احسانات کی مکافات میں کمی نہیں کی۔- قرطبی نے بحوالہ صحیحین حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ جب مہاجرین مکہ مکرمہ سے مدینہ طبیہ آئے تو ان کے ہاتھ میں کچھ نہ تھا اور انصار مدینہ زمین و جائیداد والے تھے، انصار نے ان حضرات کو ہر چیز نصفا نصف تقسیم کردی، اپنے باغات کے آدھے پھل سالانہ ان کو دینے لگے اور حضرت انس کی والدہ ام سلیم نے اپنے چند درخت کھجور کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیے تھے، جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ بن زید کی والدہ ام ایمن کو عطا فرما دیئے۔- امام زہری کہتے ہیں کہ مجھے حضرت انس بن مالک نے خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خیبر کے جہاد سے کامیابی کے ساتھ فارغ ہو کر مدینہ طیبہ واپس آئے ( اس غزوہ میں مسلمانوں کو اموال غنیمت کافی مقدار میں ہاتھ آئے) تو سب مہاجرین نے حضرات انصار کے سب عطایا کا حساب کر کے ان کو واپس کردیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری والدہ کے درخت ام ایمن سے لے کر ان کو واپس کردیئے اور اس کی جگہ ام ایمن کو اپنے باغ میں سے درخت عطا فرمائے۔- (آیت) وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ حضرات انصار کے ایثار اور اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کردینے کا ذکر کرنے کے بعد عام ضابطہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچ گئے تو اللہ کے نزدیک وہ ہی فلاح و کامیابی پانے والے ہیں، لفظ شیخ اور بخل تقریباً ہم معنی ہیں، لفظ شح میں کچھ مبالغہ ہے کہ بہت شدید بخل کو کہا جاتا ہے، بخل و شح اگر حقوق واجبہ میں کیا جائے خواہ وہ اللہ کے حقوق ہوں، جیسے زکوٰة، صدقتہ الفطر، عشر، قربانی وغیرہ کہ ان کی ادائیگی میں بوجہ بخل کے کوتاہی کرے، یا انسانوں کے حقوق واجبہ ہوں جیسے اہل و عیال کا نفقہ یا اپنے حاجت مند والدین اور عزیزوں کا نفقہ واجبہ جو بخل ان حقوق واجبہ کی ادائیگی سے مانع ہو وہ قطعاً حرام ہے اور جو امور مستجہ اور فضائل انفاق سے مانع ہو وہ مکروہ و مذموم ہے اور جو محض رسمی چیزوں میں خرچ سے مانع ہو وہ شرعاً بخل نہیں۔- بخ و شح اور دوسروں پر حسد ایسی مذموم خصلتیں ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان کی بڑی مذمت آتی ہے اور جو ان سے بچ جائے اس کے لئے بڑی بشارت ہے، حضرات انصار کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں ان کا بخل و حسد سے بری ہونا واضح ہے۔- کینہ اور حسد سے پاک ہونا جنتی ہونے کی علامت ہے :- ابن کثیر نے بحوالہ امام احمد حضرت انس سے روایت کیا ہے :۔- ” ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا کہ ابھی تمہارے سامنے ایک شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے، چناچہ ایک صاحب انصار میں سے آئے جن کی ڈاڑھی سے تازہ وضو کے قطرات ٹپک رہے تھے اور بائیں ہاتھ میں اپنے نعلین لئے ہوئے تھے، دوسرے دن بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور یہی شخص اسی حالت کے ساتھ سامنے آیا، تیسرے روز پھر یہی واقعہ پیش آیا اور یہی شخص اپنی مذکورہ حالت میں داخل ہوا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجلس سے اٹھ گئے تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص اس شخص کے پیچھے لگے (تاکہ اس کے اہل جنت ہونے کا راز معلوم کریں) اور ان سے کہا کہ میں نے کسی جھگڑے میں قسم کھالی ہے کہ میں تین روز تک اپنے گھر نہ جاؤں گا، اگر آپ مناسب سمجھیں تو تین روز مجھے اپنے یہاں رہنے کی جگہ دیدیں، انہوں نے منظور فرما لیا، عبداللہ بن عمرو نے یہ تین راتیں ان کے ساتھ گزاریں، تو دیکھا کہ رات کو تہجد کے لئے نہیں اٹھتے البتہ جب سونے کے لئے بستر پر جاتے تو کچھ اللہ کا ذکر کرتے تھے پھر صبح کی نماز کے لئے اٹھ جاتے تھے، البتہ اس پورے عرصہ میں میں نے ان کی زبان سے بجز کلمہ خیر کے کوئی کلمہ نہیں سنا جب تین راتیں گزر گئیں اور قریب تھا کہ میرے دل میں ان کے عمل کی حقارت آجائے تو میں نے ان پر اپنا راز کھول دیا کہ ہمارے گھر کوئی جھگڑا نہیں تھا لیکن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین روز تک یہ سنتا رہا کہ تمہارے پاس ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے اور اس کے بعد تینوں دن آپ ہی آئے، اس لئے میں نے چاہا کہ میں آپ کے ساتھ رہ کر دیکھوں کہ آپ کا وہ کیا عمل ہے جس کے سبب یہ فضیلت آپ کو حاصل ہوئی، مگر عجیب بات ہے کہ میں نے آپ کو کوئی بڑا عمل کرتے نہیں دیکھا، تو وہ کیا چیز ہے جس نے آپ کو اس درجہ پر پہنچایا، انہوں نے کہا میرے پاس تو بجز اس کے کوئی عمل نہیں جو آپ نے دیکھا ہے، میں یہ سن کر واپس آنے لگا تو مجھے بلا کر کہا کہ ہاں ایک بات ہے کہ ” میں اپنے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کینہ اور برائی نہیں پاتا اور کسی پر حسد نہیں کرتا جس کو اللہ نے کوئی خیر کی چیز عطا فرمائی ہو عبداللہ بن عمرو نے کہا کہ بس یہی وہ صفت ہے جس نے آپ کو یہ بلند مقام عطا کیا ہے “۔- ابن کثیر نے اس کو نقل کر کے فرمایا کہ اس کو نسائی نے بھی عمل الیوم واللیلہ میں نقل کیا ہے اور اس کی اسناد صحیح علیٰ شرط الشیخین ہے۔
وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَيْہِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ٠ ۭ ۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٩ ۚ - بَوءَ- أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال : مکان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس 87] ، وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ [يونس 93] ، تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] ، يَتَبَوَّأُ مِنْها حَيْثُ يَشاءُ [يوسف 56] ، وروي أنه : (کان عليه السلام يتبوّأ لبوله كما يتبوّأ لمنزله) وبَوَّأْتُ الرمح : هيأت له مکانا، ثم قصدت الطعن به، وقال عليه السلام : «من کذب عليّ متعمّدا فلیتبوأ مقعده من النّار» وقال الراعي في صفة إبل :- لها أمرها حتی إذا ما تبوّأت ... بأخفافها مأوى تبوّأ مضجعا - أي : يتركها الراعي حتی إذا وجدت مکانا موافقا للرعي طلب الراعي لنفسه متبوّأ لمضجعه . ويقال : تَبَوَّأَ فلان کناية عن التزوّج، كما يعبّر عنه بالبناء فيقال : بنی بأهله . ويستعمل البَوَاء في مراعاة التکافؤ في المصاهرة والقصاص، فيقال : فلان بواء لفلان إذا ساواه، وقوله عزّ وجلّ : باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال 16] ، أي : حلّ مبّوأ ومعه غضب الله، أي : عقوبته، وقوله : بِغَضَبٍ في موضع حال، کخرج بسیفه، أي : رجع، لا مفعول نحو : مرّ بزید . واستعمال ( باء) تنبيها علی أنّ مکانه الموافق يلزمه فيه غضب الله، فكيف غيره من الأمكنة ؟ وذلک علی حدّ ما ذکر في قوله : فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] ، وقوله : إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ [ المائدة 29] أي : تقیم بهذه الحالة . قال :- أنكرت باطلها وبؤت بحقّها وقول من قال : أقررت بحقها فلیس تفسیر ه بحسب مقتضی اللفظ . والبَاءَة كناية عن الجماع . وحكي عن خلف الأحمر أنه قال في قولهم : حيّاک اللہ وبيّاك :- إنّ أصله : بوّأك منزلا، فغيّر لازدواج الکلمة، كما غيّر جمع الغداة في قولهم : آتيه الغدایا والعشایا - ( ب و ء ) البواء - ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری - ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ ( سورة يونس 93) اور ہم نے نبی اسرائیل کور رہنے کو عمدہ جگہ دی ۔ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ( سورة آل عمران 121) ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر ( موقع بہ موقع ) متعین کرنے لگے ۔ يَتَبَوَّأُ مِنْها حَيْثُ يَشاءُ [يوسف 56] وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے ۔ ایک روایت میں ہے (45) انہ کان (علیہ السلام) یتبواء لبولہ کما یتبوا المنزلہ کہ آنحضرت پیشاب کرنے کے لئے ہموار اور مناسب جگہ تلاش کرتے جیسے کوئی شخص اقامت کے لئے جگہ تلاش کرتا ہے ۔ بوآت الرمح میں نے مناسب جگہ پر نیزہ مارا ۔ ایک حدیث میں ہے (40) من کذا علی متعمدا فلیتبواء مقعدہ من النار جو عمدا مجھ پر جھوٹ لگائے اس کا ٹھکانا جہنم ہے الراعی نے اونٹوں کی صفت میں کہا ہے ع (71) لھا امر ھا حتیٰ اذا ماتبوات باخفا فھا ماؤی تبوا مضجعا یعنی چرواہا اونٹ چھوڑ دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ چرنے کے لئے جگہ ہمورا پالیتے ہیں تو وہ اپنی آرام گاہ پر آکر سوجاتا ہے ۔ اور تبواء فلان ( کنایہ ) کے معنی نکاح کرنے کے ہیں جیسا کہ بنیٰ باھلہ وغیرہ اس معنی میں استعمال ہوتا ہے اور بواء کا لفظ مصاہرت یا قصاص میں برابر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان بواء لفلان ۔ وہ فلاں کا ہمسر ہے یعنی رشتہ مصاہرت میں اس کا کفو ہے یا قصاص میں اس کے مساوٰی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال 16] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسی جگہ پر اترا کہ اس کے ساتھ اللہ کا غضب یعنی عقوبت ہے ۔ تو یہاں بغضب موضع حال میں ہے جیسے خرج بسیفہ میں ہے اور مربزید کی طرح مفعول نہیں ہے ۔ اور بغضب پر باد لاکر تنبیہ کی ہے کہ موافق جگہ میں ہونے کے باوجود غضب الہی میں گرفتار بےتو ناموافق جگہ میں بالاولیٰ اس پر غضب ہوگا ۔ لہذا یہ فبشرھم بعذاب کی مثل ہے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ [ المائدة 29] میں بتوء باثمی کے معنی یہ ہیں کہ تو ا س حالت کے ساتھ ہمیشہ رہے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (72) ، ، انکرت باطلھا ویؤت بحقہا ، ، میں نے اس کے باطل کے انکار کیا اور اس کے حق پر اقرار کیا ۔ جن لوگوں نے اس کے معنی اقررت بحقھا یعنی اس کے حق کا اقرار کیا ) کئے ہیں تو یہ تفسیر متقضی لفظ کے مطابق نہیں ہے ۔- الباءۃ :- ۔ کنایہ ازجماع خلف الاحمر منقول ہے کہ حیاک اللہ و بیاک اللہ میں بیاک اصل میں بوؤک منزلا ہے جیسا کہ اتیتہ الغدایا والعشایا میں ہے یعنی عشایا کی مناسبت سے غدایا کہا جاتا ہے ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔- حاجَّة- والمُحاجَّة : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر :- يحجّ مأمومة في قعرها لجف - الحاجۃ ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : أتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- أثر - أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر .- والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل - ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔- خص - التّخصیص والاختصاص والخصوصيّة والتّخصّص : تفرّد بعض الشیء بما لا يشارکه فيه الجملة، وذلک خلاف العموم، والتّعمّم، والتّعمیم، وخُصَّان الرّجل : من يختصّه بضرب من الکرامة، والْخاصَّةُ : ضدّ العامّة، قال تعالی: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً [ الأنفال 25] ، أي : بل تعمّكم، وقد خَصَّهُ بکذا يخصّه، واختصّه يختصّه، قال : يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 74] ، وخُصَاصُ البیت : فرجة، وعبّر عن الفقر الذي لم يسدّ بالخصاصة، كما عبّر عنه بالخلّة، قال : وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ- [ الحشر 9] ، وإن شئت قلت من الخصاص، والخُصُّ : بيت من قصب أو شجر، وذلک لما يرى فيه من الخصاصة .- ( خ ص ص ) التخصیص والاختصاص والخصومیۃ والتخصیص کسی چیز کے بعض افرادکو دوسروں سے الگ کرکے ان کے ساتھ خصوصی برتاؤ کرنا یہ ۔ المعمو والتعمم والتعمیم کی ضد ہے ۔ خصان الرجل ۔ جن پر خصوصی نوازش کرتا ہو۔ الخاصۃ ۔ یہ عامۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً [ الأنفال 25] اور اس فتنے سے ڈر و وجو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں یعنی ) بلکہ سب پر واقع ہوگا ۔ خصہ بکذا واختصہ ۔ کسی کو کسی چیز کے ساتھ مختص کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 74] جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرلیتا ہے ۔ خصاص البیت مکان میں شگاف کو کہتے ہیں ۔ اسی سے خصاصۃ اس فقر اور احتیاج کو کہتے ہیں جو ختم نہ ہوئی ہو ۔ اس قسم کے فقر کو خلۃ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ [ الحشر 9] اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو ۔ لہذا آپ اسے خصاص سے ماخوذ قرار دے سکتے ہیں ۔ الخص ۔ بانس یا لکڑی کا جھونپڑ اور اسے خص اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں جھرکے نظر آتے ہیں ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان 56] ، وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد 34] ، ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد 37] ، قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم 6]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان 56] اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے گا ۔ وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد 34] اور ان خدا کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ۔ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد 37] تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مدد گار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم 6] اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ ۔ - شح - الشُّحُّ : بخل مع حرص، وذلک فيما کان عادة . قال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، وقال سبحانه : وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ [ الحشر 9] . يقال : رجل شَحِيحٌ ، وقوم أَشِحَّةٌ ، قال تعالی: أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ [ الأحزاب 19] ، أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ [ الأحزاب 19] . وخطیب شَحْشَح : ماض في خطبته، من قولهم : شَحْشَحَ البعیر في هديره «2» .- وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبائع تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں ۔ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ [ الحشر 9] اور جو شخص حرص نفس سے بچالیا گیا ۔ رجل شحیح بخیل آدمی قوم اشحۃ بخیل لوگ قرآن میں ہے : أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ [ الأحزاب 19] مال میں بخل کریں ۔ ( یہ اس لئے کہ تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں ۔ خطیب شحیح خوش بیان ار بلیغ ۔ لیکچرار ۔ یہ شحشح البعیر فی ھدیرہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے مستی میں آواز کو پھرانے کے ہیں ۔- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَحُ أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة 22] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى- [ الأعلی 14] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون 1] ، لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة 189] ، إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون 117] ، فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر 9] ، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه 64] ، فيصحّ أنهم قصدوا به الفلاح الدّنيويّ ، وهو الأقرب، وسمّي السّحور الفَلَاحَ ، ويقال : إنه سمّي بذلک لقولهم عنده : حيّ علی الفلاح، وقولهم في الأذان : ( حي علی الفَلَاحِ ) أي : علی الظّفر الذي جعله اللہ لنا بالصلاة، وعلی هذا قوله ( حتّى خفنا أن يفوتنا الفلاح) أي : الظّفر الذي جعل لنا بصلاة العتمة .- ( ف ل ح ) الفلاح - الفلح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة 22] ( اور ) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] بیشک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] جس نے اپنے نفس یعنی روح کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون 1] بیشک ایمان والے رستگار ہوئے ۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة 189] تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون 117] کچھ شک نہیں کہ کافر رستگاری نہیں پائیں گے ۔ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر 9] وہ تو نجات پانے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه 64] اور آج جو غالب رہا وہ کامیاب ہوا ۔ میں یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے فلاح دنیوی مراد لی ہو بلکہ یہی معنی ( بلحاظ قرآن ) اقرب الی الصحت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور سحور یعنی طعام سحر کو بھی فلاح کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت حی علی الفلاح کی آواز بلند کی جاتی ہے اور اذان میں حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ اس کامیابی کیطرف آؤ جو نما زکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اور حدیث (76) حتی خفنا ان یفوتنا الفلاح ( حتی کہ فلاح کے فوت ہوجانے کا ہمیں اندیشہ ہوا ) میں بھی فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو صلاۃ عشا ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے لئے مقدر کی گئی ہے ۔
قول باری ہے (ولا یجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتوا اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے) حسن کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حضرات انصار حضرات مہاجرین سے اللہ کے دیے ہوئے فضل پر حسد نہیں کرتے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرات انصار حضرات مہاجرین پر جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس سے ان کے دلوں میں تنگی پیدا نہیں ہوتی۔- صدقہ کی کہاں تک حد ہے ؟- قول باری ہے (ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ۔ اور وہ اپنی ذات پر انہیں ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں) خصاصہ حاجت کو کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے حضرات انصار کے اس طرز عمل پر ان کی تعریف کی کہ وہ انفاق کے سلسلے میں اپنی ذات پر حضرات مہاجرین کو ترجیح دیتے ہیں اگر خود انہیں خرچ کی ضرورت اور حاجت ہوتی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا کہ میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ اسے اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے، آپ نے فرمایا کہ اسے اپنے بال بچوں پر خرچ کرو۔ اس نے پھر عرض کیا کہ میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا صدقہ کردو۔- ایک شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس انڈے کے برابر سونے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا اور عرض کیا ” اللہ کے رسول اسے صدقہ میں دے دیجئے میرے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ “ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف کرلیا، وہ شخص دوسری طرف سے آپ کے سامنے آگیا، آپ نے اپنا چہرہ اس کے سامنے سے ہٹا لیا لیکن جب اس نے اپنی بات پھر دہرائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کا وہ ٹکڑا اس کے ہاتھ سے لے کر زور سے زمین پردے مارا کہ اگر اسے وہ ٹکڑا الگ جاتا تو وہ زخمی ہوجاتا۔- پھر آپ نے فرمایا : ” میرے پاس ایک شخص اپنا سب کچھ لے کر آجاتا ہے اور صدقہ کردیتا ہے اور پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے اپنی ضروریات کے لئے دست سوال دراز کرتا رہتا ہے۔ صدقہ تو وہ ہوتا ہے جسے دینے کے بعد صدقہ کرنے والے کے پاس اتنا کچھ بچ رہے کہ اسے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا وہ بڑا شکستہ حال تھا۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی، چناچہ لوگوں نے کپڑے اور دراہم صدقہ میں دیے، آپ نے اس شخص کو دو کپڑے دے دیے، اور دوبارہ لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی، اس شخص نے اپنا ایک کپڑا صدقہ کے طور پر پیش کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے اس اقدام کو بہت ناپسند فرمایا۔- ان روایات میں اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے کے اقدام کو ناپسند کیا گیا ہے بلکہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اگر کچھ بچ رہے تو اسے صدقہ میں دیا جاسکتا ہے ان تمام باتوں کا جواب یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کے اقدام کو اس لئے ناپسند کیا تھا کہ آپ کو صدقہ کرنے والے کے متعلق یہ بھروسہ نہیں تھا کہ وہ فقر کو برداشت بھی کرسکے گا۔ بلکہ آپ کو یہ خطرہ تھا کہ جب اس کے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ نہ ہوگا تو یہ لوگوں سے مانگتا پھرے گا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا کہ ” میرے پاس ایک شخص اپنا سب کچھ لے کر آجاتا ہے اور صدقہ کردیتا ہے پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا رہتا ہے۔ “ جن لوگوں کی یہ کیفیت ہو آپ نے ان کے لئے اپنی ذات پر ایثار کو ناپسند کیا ہے ۔ حضرات انصار جن کی اللہ تعالیٰ نے ایثار کی صفت کی بنا پر تعریف کی ہے ان کی یہ کیفیت نہیں تھی۔ - بلکہ ان کی کیفیت تو اس قول باری کے مطابق تھی (والصابرین فی الباسآء والضراء وحین الیاس، اور تنگی و مصیبت کے وقت اور حق وباطل کی جنگ میں صبر کریں) ایسے حضرات کا ایثار ان کے امساک سے افضل تھا۔ البتہ جو شخص فقروفاقہ کو برداشت نہ کرسکتا ہو اور لوگوں سے مانگنا شروع کردیتا ہو اس کے حق میں امساک یعنی دوسروں کے لئے خرچ نہ کرنا ایثار سے افضل ہے۔- محارب بن وثار نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی کو بکری کی سری تحفے کے طور پر بھیجی گئی۔ انہوں نے تحفہ دینے والے سے فرمایا کہ فلاں شخص اور اس کے اہل وعیال ہم سے زیادہ ضرورت مند ہیں یہ تحفہ انہیں دے دو ، اسی طرح دوسرے شخص نے تیسرے کی طرف بھیج دیا اور تیسرے نے چوتھے کی طرف۔ یہ سری نو خاندانوں سے پھرتے پھراتے پھر پہلے شخص کے پاس واپس آگئی۔- اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ومن یوق شح نفسہ فالئک ھم المفلحون۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کی تنگی سے بچا لیے گئے سوای سے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں)- اعمش نے جامع بن شداد سے روایت کی ہے، انہوں نے الاسود بن ہلال سے کیہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا : ” ابو عبدالرحمن مجھے خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں میں اس آیت کی زد میں نہ آجائوں ۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس چیز کو روکنا میرے بس میں ہوتا ہے اسے کسی کو دے دینے کو میرا دل ہی نہیں چاہتا۔ “- حضرت ابن مسعود (رض) نے سن کر فرمایا : ” یہ بخل ہے اور بخل بھی اپنی جگہ بری چیز ہے تاہم آیت میں جس چیز کا ذکر ہے وہ شح ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم ناجائز طور پر اپنے بھائی کے مال پر قبضہ کر جائو۔ “ سعید بن جبیر سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ شح کا مفہوم یہ ہے کہ حرام مال جمع کرتے رہنا اور زکوٰۃ ادا نہ کرنا۔
اس پر رسول اکرم نے انصار سے فرمایا کہ یہ غنیمتیں اور باغات بالخصوص فقرا مہاجرین کا حق ہیں اب اگر تمہاری مرضی ہو تو تمہارے گھروں کو اور مالوں کو ان مہاجرین میں تقسیم کردوں اور تمہیں یہ غنیمتیں دے دوں اور اگر چاہو تو تمہارے پاس تمہارے اموال اور گھر بدستور رہیں اور یہ غنیمت میں ان فقرا مہاجرین پر تقسیم کردوں اس پر انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم ان کے درمیان اپنے اور گھروں کو بھی تقسیم کردیتے ہیں اور خود پر مال غنیمت میں ان ہی کو ترجیح دیتے ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے انصار کی تعریف فرمائی کہ ان لوگوں کا بھی حق ہے جو دار الہجرت اور دار الایمان یعنی مدینہ منورہ میں مہاجرین کے آنے سے پہلے ہی ایمان کی حالت میں رہتے ہیں، صحابہ کرام میں سے جو مدینہ منورہ ہجرت کر کے آتا ہے یہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو مال غنیمت میں سے جو کچھ ملتا ہے یہ انصار اس سے اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں کرتے بلکہ ان کو اپنے اموال اور گھروں میں خود سے مقدم رکھتے ہیں، اگرچہ ان پر فاقہ اور تنگی ہو اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے تو ایسے ہی لوگ ناراضگی اور عذاب سے نجات حاصل کرنے والے ہیں۔- شان نزول : وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ (الخ)- ابن جریر نے قتادہ اور مجاہد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور ابن منذر نے یزید احم سے روایت کیا ہے کہ انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان زمین کو برابر تقسیم کردیجیے آپ نے فرمایا نہیں تم مشقت برداشت کرتے ہو اور پھلوں کو تقسیم کرتے ہو اس لیے زمین تمہاری ہی ہے اس پر انصار نے عرض کیا کہ ہم راضی ہیں تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔- شان نزول : وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ (الخ)- امام بخاری نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھوک کی سخت شکایت ہے، آپ نے ازواج مطہرات کے پاس آدمی بھیجا وہاں کچھ نہیں ملا آپ نے فرمایا کوئی شخص ہے جو اس رات اس کی مہمان نوازی کرے اس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے تو ایک انصاری شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں ہوں، چناچہ وہ شخص گھر گئے اور اپنی بیوی سے جاکر کہا کہ رسول اللہ کے مہمان ہیں کیا تو نے کچھ رکھ چھوڑا ہے، انہوں نے عرض کیا اللہ کی قسم میرے پاس تو بچوں کے کھانے کے سوا اور کچھ نہیں، تو یہ انصاری کہنے لگے کہ جب بچے شام کا کھانا مانگیں تو انہیں سلا دینا اور اٹھ کر چراغ بجھا دینا اور یہ رات ہم بھوک ہی کی حالت میں کاٹ لیں گے، چناچہ ایسا ہی کیا صبح کو یہ شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فلاں مرد اور فلاں عورت سے خوش ہوا یا یہ کہ ہنسا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسدد نے اپنی مسند میں اور ابن المنذر ابو المتوکل الناجی سے اسی طرح روایت نقل کی ہے باقی اس میں اتنا اضافہ ہے کہ مہمان نوازی کرنے والے ثابت بن قیس بن شماس ہیں ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل لوئی ہے اور واحدی نے محارب بن وثار کے واسطہ سے حضرت عمر سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے ایک صحابی نے شخص کو بکری کا سر تحفہ میں دیا تو وہ کہنے لگے کہ میرا فلاں بھائی اور اس کے گھر والے اس چیز کے زیادہ محتاج ہیں۔ چناچہ اس سر کو اس کی طرف بھیج دیا غرض کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو بھیجتا رہا یہاں تک کہ وہ سات گھروں میں پہنچا اور پھر ان ہی کے پاس لوٹ آیا ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
آیت ٩ وَالَّذِیْنَ تَـبَـوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَـبْلِہِمْ ” اور (اس مال میں ان کا بھی حق ہے) جو آباد تھے اپنے گھروں میں اور جن کے پاس ایمان بھی تھا ان (مہاجرین کی آمد) سے پہلے “- یہ انصارِ مدینہ کا ذکر ہے کہ مہاجرین کی آمد پر ان کا طرزعمل کیا تھا : - یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَـیْہِمْ ” وہ محبت کرتے ہیں ان سے جنہوں نے ہجرت کی ان کی طرف “- مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ ان میں سے کسی کے دل میں قطعاً کوئی ایسا خیال نہیں آیا کہ ان لوگوں کے آنے سے ہماری آبادی بڑھ جائے گی اور ان کی ناداری و محرومی ہماری معیشت پر بوجھ بن جائے گی۔- وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّـآ اُوْتُوْا ” اور وہ نہیں پاتے اپنے سینوں میں کوئی حاجت اس بارے میں کہ جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے “- انصارِ مدینہ کے دل اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے ایثار و قربانی کے اعلیٰ جذبات سے لبریز ہیں ‘ اور یہ جذبات ان کے دلوں میں اس دولت ایمان کے باعث پیدا ہوئے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بہرہ ور فرمایا ہے۔ یہ آیت دراصل انصارِ مدینہ کی تسکین وتشفی کے لیے ان کے جذبہ ایمان کو اپیل کرتے ہوئے نازل ہوئی تاکہ اگر ان میں سے کچھ لوگوں کے دلوں میں بنونضیر کے چھوڑے ہوئے مال سے متوقع حصہ نہ ملنے کے باعث کچھ ملال وغیرہ کے احساسات پیدا ہوئے ہوں تو وہ ختم ہوجائیں۔- وَیُـؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَـوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط ” اور وہ تو خود پر ترجیح دیتے ہیں دوسروں کو خواہ ان کے اپنے اوپر تنگی ہو۔ “- ایثار کے معنی کسی کے لیے قربانی دینے اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کے ہیں۔ ظاہر ہے انصارِ مدینہ میں سے بھی سب لوگ دولت مند تو نہیں تھے ‘ ان میں بھی بہت سے لوگ نادار اور تنگ دست تھے ‘ لیکن ان میں سے ہر ایک نے اپنی احتیاج اور ضرورت کو پس پشت ڈال کر استطاعت بھر اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کی تھی۔ ان کے اسی جذبہ ایثار کا اعتراف یہاں اس آیت میں کیا گیا ہے۔- وَمَنْ یُّـوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ ” اور جو کوئی بھی بچالیا گیا اپنے جی کے لالچ سے تو وہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔ “- اب اس کے بعد جو آیت آرہی ہے وہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ایران ‘ عراق ‘ مصر ‘ شام وغیرہ کے مفتوحہ علاقوں کی زمینوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے اس آیت سے استدلال کیا تھا۔ ان علاقوں کی زمینیں بہت زرخیز ہیں ‘ خصوصی طور پر عراق اور شام کے درمیان صحرا میں واقع وہ علاقہ جو کہلاتا ہے ‘ اپنی زرخیزی کے اعتبار سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ جب یہ وسیع و عریض علاقے فتح ہوئے تو ان کی زرعی زمینوں کے نظم و نسق کا مسئلہ سامنے آیا ۔ اس معاملے میں زیادہ تر صحابہ (رض) کی رائے یہ تھی کہ مال غنیمت کی تقسیم کے اصول کے مطابق پانچواں حصہ بیت المال کے لیے مختص کر کے باقی زمینیں ہر محاذ کے مجاہدین میں تقسیم کردی جائیں۔ البتہ حضرت عمر (رض) اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ آپ کی رائے یہ تھی کہ ان ممالک کی زمینیں مال غنیمت کے بجائے مالِ فے کے زمرے میں آتی ہیں ‘ اس لیے ان پر مال فے کے قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ اس نکتے کی مزید وضاحت یہ ہے کہ مال غنیمت صرف وہ مال ہے جو جنگ میں دشمن کو شکست دینے کے بعد عین محاذ جنگ سے مسلمان مجاہدین کے ہاتھ لگے۔ جیسے اسلحہ ‘ راشن ‘ بھیڑ بکریاں ‘ اونٹ گھوڑے ‘ جنگی قیدی وغیرہ۔ لیکن اگر کسی ایک جنگ کے نتیجے میں کوئی پورا ملک فتح ہوجائے (جیسے ابراہیم لودھی پانی پت کے میدان میں بابر سے صرف ایک جنگ ہارا تو اس کے نتیجے میں پورے ہندوستان پر بابر کا قبضہ ہوگیا) تو میدانِ جنگ سے باہر کی اراضی ‘ املاک اور آبادی کو مال فے شمار کیا جائے گا۔ حضرت عمر (رض) نے اس معاملے میں اگلی آیت کے ان الفاظ سے استدلال کیا تھا : وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ ” اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے “۔ پچھلی آیات کے مضمون سے اس آیت کے ان الفاظ کا ربط یوں بنتا ہے کہ مال فے پر حق ہے اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عزیز و اقارب کا ‘ غرباء و مساکین کا ‘ انصار و مہاجرین کا (بحوالہ آیات ٧ اور ٨) اور ان لوگوں کا جو ان کے بعد آئیں گے۔ ان آیات کے سیاق وسباق میں حضرت عمر (رض) کا موقف یہ تھا کہ آج کے مال فے میں اس امت کے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا بھی حق ہے اور اگر آج یہ زمینیں چندہزار مجاہدین میں تقسیم کردی گئیں تو بعد میں آنے والے مسلمان گویا اس حق سے محروم رہ جائیں گے۔- حضرت عمر (رض) کے اس استدلال سے بعض معتبر صحابہ (رض) نے اختلاف بھی کیا اور مذکورہ زمینوں کو مال غنیمت کے قانون کے تحت متعلقہ مجاہدین میں تقسیم کرنے پر اصرار کیا۔ اس اختلافِ رائے کے بعد حضرت عمر (رض) نے اس معاملے میں غور و خوض کے لیے اوس ‘ خزرج اور مہاجرین میں سے چند صحابہ (رض) پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دے دیا۔ کمیشن کے ارکان نے مسئلے سے متعلق مختلف آراء اور دیگر پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متفقہ طور پر جو فیصلہ دیا وہ حضرت عمر (رض) کی رائے کے عین مطابق تھا اور بعد میں اسی فیصلے پر تمام صحابہ (رض) کا اجماع ہوا۔ صحابہ (رض) کے اس اجماع یا فیصلے کے مطابق تمام مسلم ممالک کی اراضی دو اقسام میں بٹ گئی۔ جن علاقوں کے لوگ لڑے بھڑے بغیر ایمان لے آئے ان کی زمینیں ” عشری زمینیں “ (ایسی زمین جو انفرادی ملکیت میں ہو اور اس کی پیداوار سے باقاعدہ ُ عشر وصول کیا جاتا ہو) قرار پائیں۔ جبکہ بزور شمشیر فتح ہونے والے ممالک کی زمینوں کو ” خراجی زمینوں “ (ایسی زمینیں جو بیت المال کی ملکیت ہوں اور ان کو کاشت کرنے والے لوگ اسلامی حکومت کو خراج ادا کریں) کا درجہ دیا گیا۔ مثلاً مدینہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی جنگ کے نتیجے میں فتح نہیں کیا تھا بلکہ مدینہ کے لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہاں آنے کی خود دعوت دی تھی ‘ اس لیے اوس اور خزرج کی تمام زمینیں ” عشری “ قرار پائیں اور متعلقہ لوگوں کی انفرادی ملکیت میں ہی رہیں ‘ جبکہ ایران ‘ عراق ‘ مصر ‘ شام وغیرہ ممالک کی زمینیں خراجی زمینوں کی حیثیت سے اسلامی حکومت کی تحویل میں چلی گئیں۔ اس طرح حضرت عمر (رض) کے اجتہاد کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ زمین کی اجتماعی ملکیت ( ) کا نظام متعارف ہوا۔ اس وقت مفتوحہ علاقوں کی زمینیں اگر مال غنیمت کی حیثیت سے چند ہزار مجاہدین میں تقسیم کردی جاتیں تو اسلامی حکومت کے تحت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جاگیرداری وجود میں آجاتی۔ اور پھر یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہ ہوتا بلکہ جس ملک کی اراضی و املاک پر مال غنیمت کے قانون کا اطلاق ہوتا اس ملک کی پوری آبادی کو جنگی قیدیوں کی حیثیت سے غلام اور لونڈیاں بنا کر تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی آتا۔- اسی قانون کے تحت پچھلی صدی تک ہندوستان کی زمینوں کے بارے میں بھی یہاں کے علماء کا اجماع تھا کہ یہاں کی تمام زمینیں خراجی ہیں اور اس حیثیت سے یہ زمینیں یہاں کے مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہیں اور یہ کہ ہندوستان میں کوئی عشری زمین نہیں ہے۔ اس کا ذکر ہندوستان کے عظیم مفسر و محدث قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے فقہ کے مسائل سے متعلق اپنے رسالے ” مَالاَ بُدَّ مِنْہ “ میں بھی کیا ہے۔ قاضی صاحب موصوف بہت بڑے صوفی اور مفتی بھی تھے ۔ ان کی لکھی ہوئی ” تفسیر مظہری “ جسے انہوں نے اپنے مرشد مرزا مظہر جانِ جاناں (رح) کے نام سے منسوب کیا ہے ‘ آج کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ قاضی صاحب کا مرتب کردہ مذکورہ رسالہ فقہ کے بنیادی اور ابتدائی مسائل پر مشتمل ہے اور برصغیر کے تمام عربی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے عشر سے متعلق مسائل شامل ہی نہیں کیے اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جب ہندوستان میں کوئی عشری زمین ہے ہی نہیں اور عشر سے متعلق احکام کی تنفیذ و تعمیل کا کوئی امکان ہی نہیں تو ان مسائل کو لکھنے ‘ پڑھنے یا سمجھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے میں جب کبھی اسلامی حکومت قائم ہو تو نئے بندوبست اراضی کے تحت بڑے بڑے جاگیرداروں سے وہ زمینیں واپس لی جاسکتی ہیں جو ماضی کے بادشاہوں ‘ انگریز حکمرانوں اور سپہ سالاروں کی ” نظر کرم “ کے باعث انہیں عطا ہوئی تھیں۔
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :17 مراد ہیں انصار ۔ یعنی فَے میں صرف مہاجرین ہی کا حق نہیں ہے ، بلکہ پہلے سے جو مسلمان دار الاسلام میں آباد ہیں وہ بھی اس میں سے حصہ پانے کے حق دار ہیں ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :18 یہ تعریف ہے مدینہ طیبہ کے انصار کی ۔ مہاجر جب مکہ اور دوسرے مقامات سے ہجرت کر کے ان کے شہر میں آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پیش کش کی کہ ہمارے باغ اور نخلستان حاضر ہیں ، آپ انہیں ہمارے اور ان مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ تو باغبانی نہیں جانتے ، یہ اس علاقے سے آئے ہیں جہاں باغات نہیں ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنے ان باغوں اور نخلستانوں میں کام تم کرو اور پیداوار میں سے حصہ ان کو دو؟ انہوں کہا سمعنا و اطعنا ( بخاری ، ابن جریر ) ۔ اس پر مہاجرین نے عرض کیا ہم نے کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں ۔ یہ کام خود کریں گے اور حصہ ہم کو دیں گے ۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ سارا اجر یہی لوٹ لے گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتے رہو گے ، تم کو بھی اجر ملتا رہے گا ( مسند احمد ) ۔ پھر جب بنی النضیر کا علاقہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب بندوبست کی ایک شکل یہ ہے کہ تمہاری املاک اور یہودیوں کے چھوڑے ہوئے باغات اور نخلستانوں کو ملا کر ایک کر دیا جائے اور پھر اس پورے مجموعے کو تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دیا جائے ۔ اور دوسری شکل یہ ہے کہ تم اپنی جائدادیں اپنے پاس رکھو اور یہ متروکہ اراضی مہاجرین میں بانٹ دی جائیں ۔ انصار نے عرض کیا یہ جائدادیں آپ ان میں بانٹ دیں ، اور ہماری جائدادوں میں سے بھی جو کچھ آپ چاہیں ان کو دے سکتے ہیں ۔ اس پر حضرت ابوبکر پکار اٹھے جزاکم اللہ یا معشر الانصار خیراً ( یحیٰ بن آدم ۔ بَلَاذری ) ۔ اس طرح انصار کی رضا مندی سے یہودیوں کے چھوڑے ہوئے اموال مہاجرین ہی میں تقسیم کیے گئے اور انصار میں سے صرف حضرت ابو دجانہ ، حضرت سہل بن حنیف اور ( بروایت بعض ) حضرت حارث بن الصمہ کو حصہ دیا گیا ، کیونکہ یہ حضرات بہت غریب تھے ( بلاذری ۔ ابن ہشام ۔ روح المعانی ) ۔ اسی ایثار کا ثبوت انصار نے اس وقت دیا جب بحرین کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اس علاقے کی مفتوحہ اراضی انصار کو دی جائیں ، مگر انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس میں سے کوئی حصہ نہ لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ دیا جائے ( یحیٰ بن آدم ) ۔ انصار کا یہی وہ ایثار ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :19 بچ گئے نہیں فرمایا گیا بلکہ بچا لیے گئے ارشاد ہوا ہے ، کیونکہ اللہ کی توفیق اور اس کی مدد کے بغیر کوئی شخص خود اپنے زور بازو سے دل کی تونگری نہیں پا سکتا ۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو خدا ہی کے فضل سے کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔ شُح کا لفظ عربی زبان میں کنجوسی اور بخل کے لیے استعمال ہوتا ہے ، مگر جب اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کر کے شح نفس کہا جائے تو یہ تنگ نظری ، تنگ دلی ، کم حوصلگی ، اور دل کے چھوٹے پن کا ہم معنی ہو جاتا ہے جو بخل سے وسیع تر چیز ہے ، بلکہ خود بخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے ۔ اسی صفت کی وجہ سے آدمی دوسرے کا حق ماننا اور ادا کرنا تو درکنار اس کی خوبی کا اعتراف تک کرنے سے جی چراتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ اسی کو مل جائے اور کسی کو کچھ نہ ملے ۔ دوسروں کو خود دینا تو کجا ، کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دکھتا ہے ۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے ، یا کم از کم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش دنیا میں جو اچھی چیز بھی ہے اسے پنے لیے سمیٹ لے اور کسی کے لیے کچھ نہ چھوڑے ۔ اسی بنا پر قرآن میں اس برائی سے بچ جانے کو فلاح کی ضمانت قرار دیا گیا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان بد ترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتقوا الشح فان الشح اھلک من قبلکم ، حملھم علیٰ ان سفکوا دماء ھم واستحلوا محارمھم ( مسلم ، مسند احمد ، بیہقی ، بخاری فی الادب ) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں الفاظ یہ ہیں : امرھم بالظلم فظلموا وامرھم بالفجور ففجروا ، وامرھم بالقطیعۃ فقطعوا ( مسند احمد ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ یعنی شُح سے بچو کیونکہ شُح ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ۔ اسی نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کر لینے پر اکسایا ۔ اس نے ان کو ظلم پر آمادہ کیا اور انہوں نے ظلم کیا ، فجور کا حکم دیا اور انہوں نے فجور کیا ، قطع رحمی کرنے کے لیے کہا اور انہوں نے قطع رحمی کی ۔ حضرت ابوہُریرہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان اور شح نفس کسی کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ( ابن ابی شیبہ ، نسائی ، بیہقی فی شعبِ الایمان ، حاکم ) ۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دو خصلتیں ہیں جو کسی مسلمان کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں ، بخل اور بد خلقی ( ابوداؤد ، ترمذی ، بخاری فی الادب ) ۔ اسلام کی اسی تعلیم کا ثمرہ ہے کہ افراد سے قطع نظر ، مسلمان بحیثیت قوم دنیا میں آج بھی سب سے بڑھ کر فیاض اور فراخ دل ہیں ۔ جو قومیں ساری دنیا میں تنگ دلی اور بخیلی کے اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتیں ، خود انہی میں سے نکلے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں مسلمان اپنے ہم نسل غیر مسلموں کے سایہ بسایہ رہتے ہیں ۔ دونوں کے درمیان دل کی فراخی و تنگی کے اعتبار سے جو صریح فرق پایا جاتا ہے اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ یہ اسلام کی اخلاقی تعلیم کا فیض ہے جس نے مسلمانوں کے دل بڑے کر دیے ہیں ۔
7: اس سے مراد وہ انصاری صحابہ ہیں جو مدینہ منورہ کے اصل باشندے تھے، اور انہوں نے مہاجرین کی مدد کی۔ 8: اگرچہ سارے ہی انصار کی یہی کیفیت تھی کہ وہ ایثار سے کام لیتے تھے، لیکن روایات میں ایک صحابی (حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ) کا خاص طور پر ذکر آیا ہے جن کے گھر میں کھانا بہت تھوڑا سا تھا، پھر بھی جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ کچھ مہمانوں کو اپنے گھر لے جائیں، اور انہیں کھانا کھلائیں تو یہ کچھ مہمان اپنے ساتھ لے گئے، اور ان کی تواضع اس طرح کی کہ خود کچھ نہیں کھایا، اور چراغ بجھا کر مہمانوں کو بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کچھ نہیں کھا رہے۔ اس آیت میں اُن کے ایثار کی بھی تعریف فرمائی گئی ہے۔