10۔ 1 یہ مال فئی کے مستحقین کی تیسری قسم ہے یعنی صحابہ (رض) کے بعد آنے والے اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تک ہونے والے اہل ایمان وتقوی آگئے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصار و مہاجرین کو مومن ماننے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے والے ہوں نہ کہ ان کے ایمان میں شک کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے اور ان کے خلاف اپنے دلوں میں بغض وعناد رکھنے والے امام مالک (رح) نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے یہی بات ارشاد فرمائی ہے ان الرافضی الذی یسب الصحابۃ لیس لہ فی مال الفی نصیب لعدم اتصافہ بما مدح اللہ بہ ھولاء فی قولھم رافضی کو جو صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین پر سب وشتم کرتے ہیں مال فیء سے حصہ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح کی ہے اور رافضی ان کی مذمت کرتے ہیں (ابن کثیر) ۔ اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ امرتم بالاستغفار لاصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فسببتموھم سمعت نبیکم یقول : لا تذھب ھذہ الامۃ حتی یلعن آخرھا اولھا۔ رواہ البغوی۔ تم لوگوں اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا مگر تم نے ان پر لعن طعن کی میں نے تمہارے نبی کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں۔ حوالہ مذکور۔
[١٣] اموال فے میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کا حصہ :۔ یعنی اموال فے کے حقداروں میں جن لوگوں کا اللہ نے بطور خاص ذکر فرمایا۔ ان میں پہلے محتاج مہاجرین کا بھی کا ذکر کیا۔ پھر ایثار کرنے والے مہاجرین کا، اور تیسرے نمبر پر بعد میں آنے والوں کا۔ کیونکہ اموال فے میں جائیداد غیرمنقولہ، زمینیں اور ان کے علاوہ وہ جزیہ و خراج کی رقوم بھی شامل ہیں جو سرکاری سطح پر وصول کی جاتی ہیں۔ چناچہ جب دور فاروقی میں مسلمانوں نے عراق اور شام کو فتح کرلیا اور ان زمینوں پر قبضہ ہوگیا تو امرائے فوج نے اصرار کیا کہ مفتوحات انہیں بطور جاگیر عنایت کئے جائیں اور باشندوں کو ان کی غلامی میں دیا جائے۔ سیدنا عمر نے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو وہاں کی مردم شماری کے لیے بھیجا۔ کل باشندوں اور اہل فوج کی تعداد کا موازنہ کیا تو ایک ایک فوجی کے حصے میں تین تین آدمی آتے تھے۔ یہ دیکھ کر سیدنا عمر کی رائے یہ قائم ہوگئی کہ زمین قومی تحویل میں لے لی جائے اور ان کے مالکوں کو بطور کاشتکار وہیں رہنے دیا جائے اور انہیں غلام نہ بنایا جائے۔ اکابر صحابہ میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف اہل فوج کے ہم زبان تھے۔ اموال غنیمت کے علاوہ زمینوں اور قیدیوں کی تقسیم پر بھی مصر تھے اور سیدنا بلال (رض) نے تو اس قدر جرح کی کہ سیدنا عمر (رض) نے زچ ہو کر فرمایا : اللھم اکفنی بلالا (اے اللہ میری طرف سے بلال کو خود سنبھال) سیدنا عمر (رض) یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر مفتوحہ علاقے فوج میں تقسیم کردیئے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی مدافعت، ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے مصارف کہاں سے آئیں گے اور یہ مصلحت بھی آپ کے پیش نظر تھی کہ اگر زمین افواج میں تقسیم کردی گئی تو وہ جہاد کی طرف سے غافل اور جاگیرداری میں مشغول ہوجائیں گے۔ لہذا اموال غنیمت تو فوج میں تقسیم کردینے چاہئیں۔ اور زمین بیت المال کی ملکیت قرار دی جانی چاہیے کیونکہ اتنی کثیر مقدار میں اموال اور زمین اس کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگنے کی توقع کم ہی نظر آرہی تھی۔ چناچہ سیدنا عمر نے فرمایا اگر مجھے پچھلے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں جو بستی فتح کرتا اسے فتح کرنے والوں میں بانٹ دیتا۔ جیسے رسول اللہ نے خیبر کو بانٹ دیا تھا (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الغنیمۃ لمن شھدالوقعۃ)- سیدنا عمر (رض) کا عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لینا :۔ جہاں تک اسلامی مملکت کے استحکام اور جملہ مسلمانوں کی خیر خواہی کا تعلق تھا، سیدنا عمر کو اپنی رائے کی اصابت کا مکمل یقین تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ وہ کوئی ایسی نص قطعی پیش نہ کرسکتے تھے جس سے وہ مجاہدین، سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) اور سیدنا بلال (رض) کو قائل کرسکیں۔ چونکہ دلائل دونوں طرف موجود تھے۔ لہذا سیدنا عمر (رض) نے فیصلہ کے لیے دس افراد پر مشتمل مجلس مشاورت طلب کی۔ اس مجلس میں پانچ قدماء مہاجرین اور پانچ انصار (اوس و خزرج) شریک ہوئے۔ سیدنا عثمان (رض) اور سیدنا طلحہ (رض) نے سیدنا عمر (رض) کی رائے سے اتفاق کیا۔ کئی دن بحث چلتی رہی مگر کچھ فیصلہ نہ ہوسکا۔ سیدنا عمر اس سلسلہ میں خاصے پریشان رہتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر کو یہی الفاظ (وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ ) سجھا دیئے جو اس بحث کو طے کرنے کے لیے نص قطعی کا درجہ رکھتے تھے اور یہ ایسی دلیل تھی جس کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سیدنا عمر نے ایک اجتماع عام بلا کر اس میں اسی جملہ کے حوالہ سے پرزور تقریر فرمائی جس پر سب لوگوں نے یک زبان ہو کر اعتراف کیا کہ آپ کی رائے درست ہے۔ یہاں یہ مسئلہ بھی سامنے آتا ہے کہ یہ الفاظ تو مدتوں پہلے نازل ہوچکے تھے۔ جنہیں سیدنا عمر سمیت سب صحابہ سینکڑوں مرتبہ پڑھ چکے تھے۔ لیکن ان کے اطلاق ( ) کا معاملہ ابھی تک سامنے آیا ہی نہ تھا۔ اور جب معاملہ سامنے آگیا تو اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی میں غور کرنے پر سیدنا عمر کو ان الفاظ کا مفہوم اور اس کی وسعت بھی سجھا دی۔ قرآن کا یہی وہ اعجاز ہے جس کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ اس کتاب کے عجائب لامتناہی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔- اس واقعہ سے ضمناً درج ذیل امور پر بھی روشنی پڑتی ہے :۔- نزاع کے وقت امیر کے اختیارات کی تعیین :۔ ١۔ امیر فیصلہ کرتے وقت کثرت رائے کا پابند نہیں ہوتا۔ فیصلہ کی اصل بنیاد اس کا اپنا دلی اطمینان یا انشراح صدر ہے۔ کیونکہ اس معاملہ میں اکثریت کی رائے سیدنا عمر کی رائے کے خلاف تھی۔- ٢۔ امیر اپنی مرضی یا رائے عوام پر ٹھونسنے کا حق نہیں رکھتا۔ بلکہ انہیں شرعی دلیل سے قائل کرنا اور انہیں اپنے اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام کا نظام حکومت استبدادی نہیں بلکہ شورائی ہے اور مشورہ میں مقصود دلیل کی تلاش ہے۔ خواہ وہ ایک آدمی سے مل جائے۔ یہاں کثرت رائے فیصلہ کی بنیاد نہیں ہوتی۔- ٣۔ آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے۔- [١٤] صحابہ کرام (رض) سے دشمنی رکھنے والوں کو تنبیہ :۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ صحابہ کرام (رض) سے خواہ وہ مہاجرین ہوں یا انصار۔ بغض عداوت، کینہ یا بیر رکھے اسے سب سے پہلے اپنے ایمان کی سلامتی کی دعا کرنا چاہئے۔ پھر یہ دعا کرنا چاہئے کہ یا اللہ ہمارا یہ گناہ معاف فرما دے اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ایمان لانے میں ہم سے سبقت لے چکے ہیں اور اگر ہمارے دلوں میں ان کے متعلق کچھ کینہ رہ گیا ہے تو اسے بھی نکال دے۔ سچا مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو صحابہ کرام (رض) کی اس پاکباز جماعت سے محبت رکھے اور انہیں اپنا قائدتسلیم کرے اور امام مالک (رح) نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص صحابہ سے بغض رکھے اور ان کی بدگوئی کرے، مال فے میں اس کے لیے کچھ حصہ نہیں۔
١۔ وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ : اس کا عطف مہاجرین و انصار پر ہے جن کا ذکر پچھلی دو آیات میں گزرا ۔ یعنی اموال فے مہاجرین و انصار کے فقراء کے لیے ہیں اور ان فقراء کے لیے جو ان کے بعد آئے۔ یہ اموال فے کے مستحقین کی تیسری قسم ہے۔ ان میں تابعین ، تبع تابعین اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمان شامل ہیں ، اگر ان میں سے وہ صفات موجود ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔- ٢۔ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ۔۔۔۔۔: ان میں سے پہلی صفت جو ” الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ “ سے ظاہر ہے ، یہ ہے کہ وہ مہاجرین و انصا کو مومن مانتے ہوں اور انہی چیزوں پر ایمان رکھتے ہو جن پر ان کا ایمان تھا۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ مہاجرین و انصار صحابہ اور ان کے پیروکاروں سے نہ صرف محبت رکھتے ہوں بلکہ دعا بھی کرتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ان کے بارے میں کوئی کینہ یا دشمنی باقی نہ رہنے دے اور نہ ہی پیدا ہونے دے۔ مفسرابن کثیر (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ امام مالک (رح) تعالیٰ نے اس آیت سے کیا ہی خوب صورت استنباط کیا ہے کہ رافضی جو صحابہ کو گالی دیتا ہو ، اس کا مال فے میں کوئی حصہ نہیں ، کیونکہ اس میں وہ اوصاف نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان ” وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ “ میں ذکر فرمائے ہیں۔ ام المومنین عائشہ (رض) نے اس آیت کے مفہوم کے پیش نظر اپنے بھانجے عروہ سے فرمایا :( یا ابن اختیی امرو ا ان یستغفروا الاصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فسبوھم) (مسلم ، التفیر ، باب فی تفسیر آیات منفرقہ، ٢٢، ٣٠) ” اے میرے بھانجے ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، لیکن وہ انہیں گالیاں دینے لگے “۔ بعض نے فرمایا : جس کے دل میں کسی صحابی کے متعلق کینہ ہو اور وہ تمام صحابہ کے لیے رحم کی دعا نہ کرتا ہو وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بالترتیب ایمان والوں کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں ، مہاجرین ، انصار اور ان کے وہ پیروکار جن میں وہ اوصاف ہوں جو آیت میں مذکور ہیں ، سو جو شخص ان صفات والے پیروکاروں میں سے نہ ہو وہ مومنوں کی اقسام سے خارج ہے۔- حقیقت یہ ہے کہ رافضی لوگوں سے ، جو صحابہ کو گالی دیتے ہیں ، یہود و نصاریٰ ہی اچھے رہے ، کیونکہ یہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا ، موسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب ۔ نصاریٰ سے پوچھا گیا ، تمہاری ملت میں سب سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا ، عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب ۔ رافضیوں سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے برے لوگ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ۔ ( نعوذ باللہ من ذلک) ۔- ٣۔ رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ : اپنے سے پہلے ایمان والوں کے لیے مغفرت کی دعا اور اپنے سینوں کو ان کے کینے سے پاک رکھنے کی دعا کے آخر میں اللہ تعالیٰ کو اس کے ان دو اسمائے حسنیٰ کا واسطہ دیا ، کیونکہ یہ دونوں چیزوں اس کی رافت و رحمت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔
مہاجرین و انصار کے بعد عام امت کے مسلمان - (آیت) وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ الایة، اس آیت کے مفہوم میں صحابہ کرام مہاجرین و انصار کے بعد پیدا ہونے والے قیامت تک کے مسلمان شامل ہیں اور اس آیت نے ان سب کو مال فئی میں حقدار قرار دیا ہے، یہی سبب تھا کہ حضرت فاروق اعظم نے دنیا کے بڑے ممالک عراق، شام، مصر وغیرہ فتح کئے، تو ان کی زمینوں کو غانمین میں تقسیم نہیں فرمایا بلکہ ان کو اگلی آنے والی نسلوں کے لئے وقف عام رکھا کہ ان کی آمدنی اسلامی بیت المال میں آتی رہے اور اس سے قیامت تک آنے والے مسلمان فائدہ اٹھا سکیں، بعض صحابہ کرام نے جو ان سے مفتوحہ زمینوں کی تقسیم کا سوال کیا تو انہوں نے اسی آیت کا حوال دے کر فرمایا کہ اگر میرے سامنے آئندہ آنے والی نسلوں کا معاملہ نہ ہوتا تو میں جو ملک فتح کرتا اس کی سب زمینوں کو بھی غانمین میں تقسیم کردیتا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی زمینوں کو تقسیم فرما دیا تھا، اگر یہ ساری زمینیں موجودہ مسلمانوں میں تقسیم ہوگئیں تو آنے والے مسلمانوں کے لئے کیا باقی رہے گا (رواہ مالک، قرطبی)- امت کے حق پر ہونے کی پہچان صحابہ کرام کی محبت و عظمت ہے :- اس مقام میں حق تعالیٰ نے پوری امت محمدیہ کے تین طبقے کئے، مہاجرین، انصار اور باقی تمام امت، مہاجرین و انصار کے خاص اوصاف اور فضائل بھی اس جگہ ذکر فرمائے مگر باقی امت کے فضائل و کمالات اور اوصاف میں سے صرف ایک چیز یہ بتلائی کہ وہ صحابہ کرام کی سبقت ایمانی اور ایمان کے ہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہونے کو پہچانیں اور سب کے لئے دعائے مغفرت کریں اور اپنے لئے یہ دعا کریں کہ ہمارے دلوں میں کسی مسلمان سے کینہ و نفرت نہ رہے۔- اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے بعد والے جتنے مسلمان ہیں ان کا ایمان و اسلام قبول ہونے اور نجات پانے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ صحابہ کرام کی عظمت و محبت اپنے دلوں میں رکھتے ہوں اور ان کے لئے دعا کرتے ہوں، جس میں یہ شرط نہیں پائی جاتی وہ مسلمان کہلانے کے قابل نہیں، اسی لئے حضرت مصعب بن سعد نے فرمایا کہ امت کے تمام مسلمان تین درجوں میں ہیں، جن میں سے دو درجے تو گزر چکے یعنی مہاجرین و انصار، اب صرف ایک درجہ باقی رہ گیا، یعنی وہ جو صحابہ کرام سے محبت رکھے، ان کی عظمت پہچانے، اب اگر تمہیں امت میں کوئی جگہ حاصل کرنی ہے تو اسی تیسرے درجہ میں داخل ہوجاؤ۔- حضرت حسین سے کسی نے حضرت عثمان غنی کے بارے میں سوال کیا ( جبکہ ان کی شہادت کا واقعہ پیش آ چکا تھا) تو انہوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا کہ تم مہاجرین میں سے ہو ؟ اس نے انکار کیا پھر پوچھا کہ انصار میں سے ہو ؟ اس نے اس کا بھی انکار کیا تو فرمایا بس اب تیسری آیت والَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ کی رہ گئی، اگر تم عثمان غنی کی شان میں شک و شبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس درجہ سے بھی نکل جاؤ گے۔- قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام کی محبت ہم پر واجب ہے، حضرت امام مالک نے فرمایا کہ جو شخص کسی صحابی کو برا کہے یا اس کے متعلق برائی کا اعتقاد رکھے اس کا مسلمانوں کے مال فئی میں کوئی حصہ نہیں، پھر اسی آیت سے استدلال فرمایا اور چونکہ مال فئی میں حصہ ہر مسلمان کا ہے تو جس کا اس میں حصہ نہ رہا اس کا اسلام و ایمان ہی مشکوک ہوگیا۔- حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استغفار اور دعا کرنے کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان کے آپس میں جنگ وجدال کے فتنے بھی پیدا ہوں گے ( اس لئے کسی مسلمان کو مشاجرات صحابہ کی وجہ سے ان میں سے کسی سے بدگمان ہونا جائز نہیں) - حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ یہ امت اس وقت تک ہلاک نہیں ہوگی جب تک اس کے پچھلے لوگ اگلوں پر لعنت و ملامت نہ کریں گے۔- حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ کسی صحابی کو برا کہتا ہے تو اس سے کہو کہ جو تم سے زیادہ برا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت، یہ ظاہر ہے کہ زیادہ برے صحابہ تو ہو نہیں سکتے یہی ہوگا جو ان کی برائی کر رہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی کو برا کہنا سبب لعنت ہے اور عوام بن شب نے فرمایا کہ اس نے اس امت کے پہلے لوگوں کو اس بات پر مستقیم اور مضبوط پایا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ صحابہ کرام کے فضائل اور محاسن بیان کیا کرو تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور وہ مشاجرات اور اختلافات جو ان کے درمیان پیش آئے ہیں ان کا ذکر نہ کیا کرو جس سے ان کی جرات بڑھے ( اور وہ بےادب ہوجاویں) (یہ سب روایات تفسیر قرطبی سے لی گئی ہیں ) ۔
وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١٠ ۧ- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - غِلُّ :( خيانت)- العداوة . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] ، وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ الحشر 10] . وغَلَّ يَغِلُّ : إذا صار ذا غِلٍّ أي : ضغن، وأَغَلَّ ، أي : صار ذا إِغْلَالٍ. أي : خيانة، وغَلَّ يَغُلُّ : إذا خان، وأَغْلَلْتُ فلانا : نسبته إلى الغُلُولِ. قال : وَما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَ [ آل عمران 161] ، وقرئ : أَنْ يَغُلَ أي : ينسب إلى الخیانة، من أَغْلَلْتُهُ. قال : وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ آل عمران 161] ، وروي : «لا إِغْلَالَ ولا إسلال» أي : لا خيانة ولا سرقة . وقوله عليه الصلاة والسلام : «ثلاث لا يَغِلُّ عليهنّ قلب المؤمن» أي : لا يضطغن . وروي : «لا يُغِلُّ» أي : لا يصير ذا خيانة، وأَغَلَّ الجازر والسالخ :إذا ترک في الإهاب من اللّحم شيئا، وهو من الْإِغْلَالِ ، أي : الخیانة، فكأنّه خان في اللّحم وترکه في الجلد الذي يحمله . والغُلَّةُ والغَلِيلُ : ما يتدرّعه الإنسان في داخله من العطش، ومن شدّة الوجد والغیظ . يقال : شفا فلان غَلِيلَهُ ، أي : غيظه . والغَلَّةُ : ما يتناوله الإنسان من دخل أرضه، وقد أَغَلَّتْ ضيعته . والْمُغَلْغَلَةُ : الرّسالة التي تَتَغَلْغَلُ بين القوم الذین تَتَغَلْغَلُ نفوسُهُمْ ، كما قال الشاعر : تَغَلْغَلُ حيث لم يبلغ شراب ... ولا حزن ولم يبلغ سرور - اور غل کے معنی ( کینہ وپوشیدہ ) اثمنی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43 اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ وَلا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ الحشر 10] اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دلوں میں کینہ ( وحسد ) نہ پیدا ہونے دے ۔ غل یغل کسی کے متعلق دل کینہ رکھنا اور الغلول کے معنی ہیں خیانت کرنا اور یہ غل یغل سے ہے جس کے معنی ہیں خیانت کرنا اور اغل ( افعال ) کے معنی خیانت کے ساتھ متصف ہونے کے ہیں اور اغللت فلان کے معنی دوسرے کو خیانت کے ساتھ متہم کر نیکے قرآن میں ہے : ۔ وَما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَ [ آل عمران 161] اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر ( خدا ) خیانت کریں ۔ ایک قرات میں ایغل ہے جو کہ اغللتہ سے ہے یعنی اسے خیانت کے ساتھ متہم کیا جائے ۔ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ آل عمران 161] اور خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز ( خدا کے روبرو ) حاضر کرنی ہوگی ۔ ایک روایت میں ہے ( 20 ) لااغلال ولااسلال یعنی خیانت اور چوری نہیں ہے اور حدیث میں ہے ( 26 ) ثلاث لایغل علیھن قلب المومین یعنی باتوں پر مومن کا دل کینہ وری سے کام نہیں لیتا ۔ اور ایک روایت میں لایغل ہے یعنی خیانت نہیں کرتا اغل الجازراولسالخ قصاب کا کھال کے ساتھ کچھ گوشت چھوڑدینا یہ اغلال بمعنی خیانت سے ہے گویا قصاب نے گھال کے ساتھ گوشت چھوڑ کر خیانت کی تاکہ وہ گوشت لے جائے ۔ الغلتہ والغلیل پیاس غصہیا محبت کی سوزش شفا فلان غیلیتہ فلان نے اپنا غصہ نکال لیا الغلتہ زمین کی پیدا دار اسی سے اغلت ضیغتہ ہے جس کے معنی ہیں زمین نے پیدا واددی اور مغلغتہ اس پیغام یا خط کو کہا جاتا ہے جو شہر بشہر پہنچایا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 329 ) تغلغل حیث لم یبلغ شراب ولاحزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں پہنچ گئی ہے جہاں شراب اور غم و سرور کا بھی گزر نہیں ہوسکتا ۔- رأف - الرَّأْفَةُ : الرّحمة، وقد رَؤُفَ فهو رَئِفٌ ورُؤُوفٌ ، نحو يقظ، وحذر، قال تعالی: لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] .- ( ر ء ف )- الرافتہ یہ رؤف ( ک ) سے ہے اور اس کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں صفت کا صیغہ رؤوف اور رئف مثل حزر وبقظ آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] اور اللہ کے حکم ( کی تعمیل ) میں تم کو ان ( کے حال ) پر ( کسی طرح کا ) ترس دامن گیر نہ ہو ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
اور اسی طرح ان لوگوں کا بھی حق ہے جو ان مہاجرین اولین کے بعد آئے اور وہ اس طرح دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ہجرت کرچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں مہاجرین اولین کی طرف سے بغض و حسد نہ ہونے دیجیے۔- کیونکہ ان لوگوں کو اپنے بارے میں اس چیز کا خوف ہوا کہ رسول اکرم نے مہاجرین اولین کو جو کچھ دے دیا تو کہیں اس سے ہمارے دلوں میں ان کے متعلق کینہ نہ ہوجائے اس لیے ان لوگوں نے یہ دعا فرمائی۔
آیت ١٠ وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ” اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے (مالِ فے پر ان کا بھی حق ہے) وہ کہتے ہیں : اے ہمارے ربّ تو بخش دے ہمیں بھی اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے “- وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رُئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ۔ ” اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کدورت نہ پیدا ہونے دے ‘ اے ہمارے رب ‘ بیشک تو نہایت شفیق اور رحم فرمانے والا ہے۔ “- اس آیت میں واضح کردیا گیا ہے کہ مال فے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کے علاوہ بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔ مزید برآں اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے کوئی بغض ‘ کینہ یا کدورت نہیں ہونی چاہیے ‘ اور مسلمانوں کے لیے صحیح طرزعمل یہی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں ‘ نہ یہ کہ انہیں سب و شتم کا نشانہ بنائیں۔- یہاں پر پہلا رکوع اختتام پذیر ہوا ۔ اس رکوع میں بنونضیر کے مدینہ سے انخلاء اور ان کی چھوڑی ہوئی املاک (مالِ فے) سے متعلق احکام کا ذکر تھا۔ اب اگلی آیات میں منافقین کا تذکرہ ہے کہ ان لوگوں نے غزوئہ بنونضیر کے حوالے سے کیا کردار ادا کیا۔
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :20 یہاں تک جو احکام ارشاد ہوئے ہیں ان میں یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ فَے میں اللہ اور رسول اور اقربائے رسول ، اور یتامیٰ اور مساکین اور ابن السبیل ، اور مہاجرین اور انصار ، اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں ۔ قرآن پاک کا یہی وہ اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق ، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی اراضی اور جائدادوں کا اور ان ممالک کی سابق حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کی املاک کا نیا بندوبست کیا ۔ یہ ممالک جب فتح ہوئے تو بعض ممتاز صحابہ کرام نے ، جن میں حضرت زبیر ، حضرت بلال ، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سلمان فارسی ( رضی اللہ عنہم ) جیسے بزرگ شامل تھے ، اصرار کیا کہ ان کو ان افواج میں تقسیم کر دیا جائے جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ اموال فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ ان پر تو مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے ، اس لیے بجز ان شہروں اور علاقوں کے جنہوں نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کی ہے ، باقی تمام مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں اور ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی اراضی اور ان کے باشندوں کا پانچواں حصہ بیت المال کی تحویل میں دے دیا جائے ، اور باقی چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیں ، لیکن یہ رائے اس بنا پر صحیح نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ کر فتح کیے گئے تھے ان میں سے کسی کی اراضی اور باشندوں کو بھی حضور نے غنائم کیطرح خمس نکالنے کے بعد فوج میں تقسیم نہیں فرمایا تھا ۔ آپ کے زمانے کی دو نمایاں ترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر کی ہیں ۔ ان میں سے مکہ معظمہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا ۔ رہا خیبر ، تو اس کے متعلق حضرت بشیر بن یسار کی روایت ہے کہ آپ نے اس کے 36 حصے کیے ، اور ان میں سے 18 حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کر کے باقی 18 حصے فوج میں تقسیم فرما دیے ( ابو داؤد ، بیہقی ، کتاب الاموال لابی عبید ، کتاب الخراج لیحیحیٰ بن آدم ، فتوح البلدان للبلاذری ، فتح القدیر لابن ہمام ) ۔ حضور کے اس عمل سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اراضی مفتوحہ کا حکم ، اگرچہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں ، غنیمت کا نہیں ہے ، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حضور مکہ کو تو بالکل ہی اہل مکہ کے حوالہ فرما دیتے ، اور خیبر میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بجائے اس کا پورا نصف حصہ اجتماعی ضروریات کے لیے بیت المال کی تحویل میں لے لیتے ۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی وہ یہ کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی مناسب ترین ہو کر ے ۔ وہ ان کو تقسیم بھی کر سکتا ہے ۔ اور اگر کوئی غیر معمولی نوعیت کسی علاقے کی ہو ، جیسی مکہ معظمہ کی تھی ، تو اس کے باشندوں کے ساتھ وہ احسان بھی کر سکتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے ساتھ کیا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چونکہ فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی ، اور مختلف اقسام کے مفتوحہ ممالک کا الگ الگ حکم کھل کر لوگوں کے سامنے نہ آیا تھا ، اس لیے حضرت عمر کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزور شمشیر فتح ہونے والے علاقے آیا غنیمت ہیں یا فَے ۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت زبیر نے مطالبہ کیا کہ : اقسمھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر ، اس پورے علاقے کو اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا ( ابوعبید ) ۔ شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں کے متعلق حضرت بلال نے اصرار کیا کہ اقسم الارَضِین بین الذین افتتحوھا کما تقسم غنیمۃ العسکر ۔ تمام اراضی کو فاتح فوجوں کے درمیان اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے ( کتاب الخراج ، ابو یوسف ) دوسری طرف حضرت علی کی رائے یہ تھی کہ دعھم یکونوا مادۃً للمسلمین ۔ ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیجیے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنے رہیں ( ابو یوسف ، ابو عبید ) ۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کی رائے یہ تھی کہ اگر آپ نے تقسیم کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے ۔ اس تقسیم کی بدولت بڑی بڑی جائدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں ۔ پھر یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور ان کی جائدادیں ان کے وارثوں کے پاس رہ جائیں گی ، جن میں بسا اوقات کوئی ایک ہی عورت ہو گی یا کوئی ایک مرد ہو گا ، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا جس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے مصارف بھی پورے کیے جا سکیں ۔ لہٰذا آپ ایسا بندوبست کریں جس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کا یکساں تحفظ ہو ( ابو عبید ص 59 ۔ فتح الباری ، ج 6 ، ص 138 ) ۔ حضرت عمر نے حساب لگا کر دیکھا کہ اگر سواد عراق کو تقسیم کیا جائے تو فی کس کیا حصہ پڑے گا ۔ معلوم ہوا کہ دو تین فلاح فی کس کا اوسط پڑتا ہے ( ابو یوسف ، ابو عبید ) ۔ اس کے بعد انہوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ رائے قائم کر لی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے ۔ چنانچہ انہوں نے تقسیم کا مطالبہ کر نے والے مختلف اصحاب کو جو جوابات دیے وہ یہ تھے : تریدون ان یاتی اٰخر الناس لیس لہم شئٍ ( ابو عبید ) کیا آپ چاہتے ہیں کہ بعد کے لوگ اس حالت میں آئیں کہ ان کے لیے کچھ نہ ہو؟ فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلوجھا قد اقتسمت و ورثت عن الابآء و حیزت؟ ما ھٰذا برائی ( ابو یوسف ) ۔ ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے اور حالت یہ پائیں گے کہ زمین اپنے کسانوں سمیت بٹ چکی ہے اور باپ دادا سے لوگوں نے وراثت میں سنبھال لی ہے؟ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے ۔ فما لمن جاء بعدکم من المسلمین واخاف ان قسمتہ ان تفاسدوا بینکم فی المیاہ ( ابو عبید ) تمہارے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے کیا رہے گا ؟ اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں اسے تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں لڑو گے ۔ لولا اٰخر الناس ما فتحت قریَۃ الا قسمتھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر ( بخاری ، موطّا ، ابو عبید ) ۔ اگر بعد میں آنے والوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی میں فتح کرتا اسے تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا ۔ لا: ھٰذا عین المال ، ولکنی احبسہ فیما یجری علیھم وعلی المسلمین ۔ ( ابو عبید ) ۔ نہیں ، یہ تو عین المال ( ) ہے ۔ میں اسے روک رکھوں گا تاکہ فاتح فوجوں اور عام مسلمانوں ، سب کی ضروریات اس سے پوری ہوتی رہیں ۔ لیکن ان جوابات سے لوگ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں ۔ آخر کار حضرت عمر نے مجلس شوریٰ کا اجتماع منعقد کیا اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا ۔ اس موقع پر جو تقریر آپ نے کی اس کے چند فقرے یہ ہیں : میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کے اٹھانے میں میرے ساتھ شریک ہوں جس کا بار آپ کے معاملات کو چلانے کے لیے میرے اوپر رکھا گیا ہے ۔ میں آپ ہی لوگوں میں سے ایک فرد ہوں ، اور آپ وہ لوگ ہیں جو آج حق کا اقرار کرنے والے ہیں ۔ آپ میں سے جو چاہے میری رائے سے اتفاق کرے اور جو چاہے اختلاف کرے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں ۔ آپ کے پاس کتاب اللہ ہے جو ناطق بالحق ہے ۔ خدا کی قسم میں نے اگر کوئی بات کہی ہے جسے میں کرنا چاہتا ہوں تو اس سے میرا مقصد حق کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ …………… آپ ان لوگوں کی بات سن چکے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کروں ۔ میں بڑا شقی ہوں گا اگر ظلم کر کے کوئی ایسی چیز جو فی الواقع ان کی ہو ، انہیں نہ دوں اور کسی دوسرے کو دے دوں ۔ مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی اور علاقہ فتح ہونے والا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایرانیوں کے مال اور ان کی زمینیں اور ان کے کسان ، سب ہمارے قبضے میں دے دیے ہیں ۔ ہماری فوجوں نے جو غنائم حاصل کیے تھے وہ تو میں خمس نکال کر ان میں بانٹ چکا ہوں ، اور ابھی جو غنائم تقسیم نہیں ہوئے ہیں ، میں ان کو بانٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہوں ۔ البتہ زمینوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انہیں اور ان کے کسانوں کو تقسیم نہ کروں ، بلکہ ان پر خراج اور کسانوں پر جزیہ لگا دوں جسے وہ ( ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور یہ اس وقت کے عام مسلمانوں اور لڑنے والی فوجوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے فَے ہو ۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہماری ان سرحدوں کے لیے لازماً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت کرتے رہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے ملک ، شام ، الجزیرہ ، کوفہ ، بصرہ ، مصر ، ان سب میں فوجیں رہنی چاہیں اور ان کو پابندی سے تنخواہیں ملنی چاہیں؟ اگر میں ان زمینوں کو ان کے کسانوں سمیت تقسیم کر دوں تو یہ مصارف کہاں سے آئیں گے؟ یہ بحث دو تین دن چلتی رہی ۔ حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہم ) وغیرہ حضرات نے حضرت عمر کی رائے سے اتفاق کیا ، لیکن فیصلہ نہ ہوسکا ۔ آخر کار حضرت عمر اٹھے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھے کتاب اللہ سے ایک حجت مل گئی ہے جو اس مسئلے کا فیصلہ کر دینے والی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے سورہ حشر کی یہی آیات مَآ اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ سے لے کر رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ تک پڑھیں ، اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی عطا کردہ ان املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے ، پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے ، ہم ان فاتحین میں تقسیم کر دیں اور بعد والوں کے لیے کچھ نہ چھوڑیں؟ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ ، تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے ۔ لیکن اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا ۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کر دیا اور اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عامہ مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جائے ، جو لوگ ان اراضی پر کام کر رہے ہیں انہیں کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جائے اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جائے ( کتاب الخراج لابی یوسف ، صفحہ 23 تا 27 و 35 احکام القرآن للجصاص ) ۔ اس فیصلے کے مطابق اراضی مفتوحہ کی اصل حیثیت یہ قرار پائی کہ مسلم ملت بحیثیت مجموعی ان کی مالک ہے ، جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر کام کر رہے تھے ان کو ملت نے اپنی طرف سے بطور کاشتکار بر قرار رکھا ہے ، وہ ان اراضی پر اسلامی حکومت کو ایک مقرر لگان ادا کرتے رہیں گے ، نسلاً بعد نسلٍ یہ کاشتکارانہ حقوق ان کی میراث میں منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ ان حقوق کو فروخت بھی کر سکیں گے ، مگر زمین کے اصل مالک وہ نہ ہونگے بلکہ مسلم ملت ان کی مالک ہو گی ۔ امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں اس قانونی پوزیشن کو اس طرح بیان کیا ہے ۔ اقر اھل السواد فی ارضیھم و ضرب علی رؤسھم الجزیۃ و علیٰ اَرَضِیھم الطسق ( ص 57 ) ۔ حضرت عمر نے سواد عراق کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا ، اور ان کے افاد پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر ٹیکس لگا دیا ۔ اذا اقرّ الامام اھل العَنْوۃ فی ارضھم توارثوھا و تبایعوھا ( ص 84 ) ۔ امام ( یعنی اسلامی حکومت کا فرمانروا ) جب مفتوحہ ممالک کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھے تو وہ ان اراضی کو میراث میں بھی منتقل کر سکیں گے اور بیع بھی کر سکیں گے ۔ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں شعبی سے پوچھا گیا کیا سواد عراق کے لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ معاہدہ تو نہیں ہے ، مگر جب ان سے خراج لینا قبول کر لیا گیا تو یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ( ابوعبید ، ص49 ۔ ابویوسف ص 28 ) ۔ حضرت عمر کے زمانہ میں عتبہ بن فَرقَد نے فُرات کے کنارے ایک زمین خریدی ۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے؟ انہوں نے کہا اس کے مالکوں سے ۔ حضرت عمر نے فرمایا اس کے مالک تو یہ لوگ ہیں ( یعنی مہاجرین و انصار ) ۔ رأیٰ عمران اصل الارض للمسلمین ، عمر کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کے اصل مالک مسلمان ہیں ( ابو عبید ، ص 74 ) ۔ اس فیصلے کی رو سے ممالک مفتوحہ کے جو اموال مسلمانوں کی اجتماعیہ ملکیت قرار دیے گئے وہ یہ تھے : وہ زمینیں اور علاقے جو کسی صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں ۔ وہ فدیہ یا خراج یا جزیہ جو کسی علاقے کے لوگوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں سے امان حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا قبول کیا ہو ۔ وہ اراضی اور جائدادیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ وہ جائدادیں جن کے مالک مرے گئے اور کوئی مالک باقی نہ رہا ۔ وہ اراضی جو پہلے سے کسی کے قبضے میں نہ تھیں ۔ وہ اراضی جو پہلے سے لوگوں کے قبضے میں تھیں مگر ان کے سابق مالکوں کو برقرار رکھ کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا گیا ۔ سابق حکمراں خاندانوں کی جاگیریں ۔ سابق حکومتوں کی املاک ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو بدائع الصنائع ، ج7 ، ص 116 ۔ 118 ۔ کتاب الخراج ، یحیٰ بن آدم ، ص 22 ۔ 64 ۔ مغنی المحتاج ، ج 3 ص 93 ۔ حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر ، ج 2 ، ص 190 ۔ غانیۃ المنتبہیٰ ، ج 1 ، ص 467 ۔ 471 ) ۔ یہ چیزیں چونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے فَے قرار دی گئی تھیں ، اس لیے فقہائے اسلام کے درمیان بھی ان کے فَے قرار دیے جانے پر اصولاً اتفاق ہے ۔ البتہ اختلاف چند امور میں ہے جنہیں ہم مختصراً ذیل میں بیان کرتے ہیں : حنفیہ کہتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کے معاملہ میں اسلامی حکومت ( فقہاء کی اصطلاح میں امام ) کو اختیار ہے ، چاہے تو ان میں سے خمس لے کر باقی فاتح فوج میں تقسیم کر دے ، اور چاہے تو ان کو سابق ملکوں کے قبضے میں رہنے دے اور ان کے مالکوں پر جزیہ اور زمینوں پر خراج عائد کر دے ۔ اس صورت میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف للمسلمین قرار پائیں گی ۔ ( بدائع الصنائع ۔ احکام القرآن للجصاص ۔ شرح العنایہ علی الہدایہ ۔ فتح القدیر ) ۔ یہی رائے عبداللہ بن مبارک نے امام سفیان ثوری سے بھی نقل کی ہے ( یحیٰ بن آدم ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) مالکیہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے محض فتح کر لینے ہی سے یہ اراضی خود بخود وقف علی المسلمین ہو جاتی ہیں ۔ ان کو وقف کرنے کے لیے نہ امام کے فیصلے کی ضرورت ہے اور نہ مجاہدین کو راضی کرنے کی ۔ علاوہ بریں مالکیہ کے ہاں مشہور قول یہ ہے کہ صرف اراضی ہی نہیں ، مفتوحہ علاقوں کے مکان اور عمارات بھی حقیقۃً وقف علی المسلمین ہیں البتہ اسلامی حکومت ان پر کرایہ عائد نہیں کرے گی ( حاشیہ الدسوقی ) ۔ حنابلہ اس حد تک حنفیوں سے متفق ہیں کہ اراضی کو فاتحین میں تقسیم کرنا ، یا مسلمانوں پر وقف کر دینا امام کے اختیار میں ہے ۔ اور اس امر میں مالکیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کے مکان بھی اگرچہ وقف میں شامل ہونگے مگر ان پر کرایہ عائد نہ کیا جائے گا ( غایۃ المنتہیٰ ۔ یہ مذہب حنبلی کے مفتیٰ بہ اقوال کا مجموعہ ہے اور دسویں صدی سے اس مذہب میں فتویٰ اسی کتاب کے مطابق دیا جاتا ہے ) ۔ شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کے تمام اموال منقولہ غنیمت ہیں ، اور تمام اموال غیر منقولہ ( اراضی اور مکانات ) کو فَے قرار دیا جائے گا ( مغنی المحتاج ) ۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کی اراضی کو اگر امام وقف علی المسلمین کرنا چاہے تو لازم ہے کہ وہ پہلے فاتح فوجوں کی رضا مندی حاصل کرے ۔ اس کے لیے وہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے سواد عراق کی فتح سے پہلے جریر بن عبداللہ البجلی سے ، جن کے قبیلے کے لوگ جنگ قدسیہ میں شریک ہونے والی فوج کا چوتھائی حصہ تھے ، یہ وعدہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کا چوتھائی حصہ ان کو دیا جائے گا ۔ چنانچہ 2 ۔ 3 ۔ سال تک یہ حصہ انکے پاس رہا ۔ پھر حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ : لو لا انی قاسم مسئول لکنتم علیٰ ما جعل لکم ، واری الناس قد کثروا افادیٰ ان تردہ علیہم ، اگر میں تقسیم کے معاملہ میں ذمہ دار اور جوابدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تمہیں دیا جا چکا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہنے دیا جاتا ۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے ، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ تم اسے عام لوگوں کو واپس کر دو ۔ حضرت جریر نے اس بات کو قبول کر لیا اور حضرت عمر نے ان کو اس پر 80 دینار بطور انعام دیے ( کتاب الخراج لابی یوسف ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فاتحین کو راضی کرنے کے بعد مفتوحہ علاقوں کو وقف علی المسلمین قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ تمام ممالک مفتوحہ کے معاملہ میں تمام فاتحین سے اس طرح کی کوئی رضا مندی نہیں لی گئی تھی ، اور صرف حضرت جریر بن عبداللہ کے ساتھ یہ معاملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ فتح سے پہلے ، قبل اس کے کہ اراضی مفتوحہ کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ ہوتا ، حضرت عمر ان سے ایک وعدہ کر چکے تھے ، اس لیے وعدے کی پابندی سے برأت حاصل کرنے کے لیے آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا ۔ اسے کوئی عام قانون قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ فقہاء کا ایک اور گروہ کہتا ہے کہ وقف قرار دے دینے کے بعد بھی کسی وقت حکومت کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ ان اراضی کو پھر سے فاتحین میں تقسیم کر دے ۔ اس کے لیے وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا لو لا ان یضرب بعضکم وجوہ بعض لقسمت السواد بینکم اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے سے لڑو گے تو میں سواد کا علاقہ تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا ، ( کتاب الخراج لابی یوسف ۔ کتاب الاموال لابی عبید ) ۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس رائے کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جزیہ و خراج عائد کر کے انہیں ان کی زمینوں پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد کبھی یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا ۔ رہی وہ بات جو حضرت علی کی طرف منسوب کی جاتی ہے ، تو اس پر ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :21 اس آیت میں اگرچہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں ، بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے ۔ لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے ، اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں ، نہ یہ کہ وہ ان پر لعنت بھیجیں اور تبرا کریں ۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے وہ دراصل ایمان کا رشتہ ہے ۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیر خواہ ہو گا جو ایمان کے رشتہ سے اس کے بھائی ہیں ۔ ان کے لیے بد خواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں کسی وقت جگہ پا سکتی ہے جبکہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے ۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو ۔ اس معاملہ میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انس سے روایت کی ہے ۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے ، اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے ۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے ۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں ۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیر معمولی چیز انہیں نظر نہ آئی ۔ ناچار انہوں نے خود ان ہی سے پوچھ لیا کہ بھائی ، آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سنی ہے؟ انہوں نے کہا میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں ۔ البتہ ایک بات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو ، اور وہ یہ ہے کہ لا اجد فی نفسی غلًّا لاحد من المسلمین ، ولا احسدہ علی خیرٍ اعطاہ اللہ تعالیٰ ایاہ ۔ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو ، اس سے حسد کرتا ہوں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے ۔ ایمان کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے ، یا اس کی غلط بات کو غلط نہ کہا جائے ۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اسے بیان کر دینا اور چیز ہے ، اور بغض و نفرت ، مَذَمّت و بد گوئی اور سب و شَتُم بالکل ہی ایک دوسری چیز ۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی برائی ہے ، لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی برائی ہے ، کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہو گا جو مرنے والوں کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید برائی یہ ہے کہ کوئی شخص ان لوگوں کے حق میں بد گوئی کرے جنہوں نے انتہائی سخت آزمائشوں کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور اپنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسر ہوئی ہے ۔ ان کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے ان میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسرے فریق کا موقف اس کی رائے میں صحیح نہ ہو تو وہ یہ رائے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کر سکتا ہے ۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بد گوئی کی تراوش ہونے لگے ، ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سر زد نہیں ہو سکتی ۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس فعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھے ۔ لیکن یہ الزام اس گناہ سے بھی بدتر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کی یہی آیات جن کے سلسلہ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے ، ان کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں ۔ ان آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے ۔ اول مہاجرین ، دوسرے انصار ، تیسرے ان کے بعد آنے والے مسلمان ۔ اور ان بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو ۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سورہ حشر کی آیات 11 تا 17 میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے ۔ اس سے یہ بات بالکل ہی کھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنہوں نے غزوہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی ، اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے ۔ اس کے بعد کیا ایک مسلمان ، جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو ، یہ جسارت کر سکتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟ امام مالک اور امام احمد نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ فَے میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابہ کرام کو برا کہتے ہیں ( احکام القرآن لابن العربی ۔ غایۃ المنتہیٰ ) ۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے ، مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں ۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حقدار نہیں ہے ۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے ، خواہ وہ خود تنگ دست ہوں ۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کو کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہشمند ہو ۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعائے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بغض نہ ہو ، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہل ایمان کا رویہ دوسرے اہل ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملہ میں کیا ہونا چاہیے ۔
9: اس سے ایک تو وہ حضرات مراد ہیں جو مذکور صحابہؓ کے بعد پیدا ہوئے، یا مسلمان ہوئے، ان کو بھی اس مالِ فییٔ سے حصہ دیا جائے گا، دوسرے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مالِ فییٔ کا جو حصہ بیت المال میں محفوظ رہے گا، وہ آنے والے مسلمانوں کی ضروریات میں استعمال ہوگا۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ نے اسی آیت کی بنا پر عراق کی زمینوں کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے اُن پر خراج عائد کردیا تھا، تاکہ وہ بیت المال میں جا کر تمام آنے والوں کے کام آئے۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لئے اہلِ علم ’’معاف القرآن‘‘ اور بندے کی کتاب ’’ملکیتِ زمین کی شرعی حیثیت‘‘ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔