Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہماری آنکھیں اور اللہ جل شانہ جس کے یہ اوصاف ہیں یہی تمہارا اللہ ہے ، یہی تمہارا پالنہار ہے ، یہی سب کا خالق ہے تم اسی ایک کی عبادت کرو ، اس کی وحدانیت کا اقرار کرو ۔ اس کے سوا کسی کو عبادت کے لائق نہ سمجھو ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کے ماں باپ نہیں ، اس کی بیوی نہیں ، اس کی برابری کا اس جیسا کوئی نہیں ، وہ ہر چیز کا حافظ نگہبان اور وکیل ہے ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے سب کی روزیاں اسی کے ذمہ ہیں ، ہر ایک کی ہر وقت وہی حفاظت کرتا ہے ۔ سلف کہتے ہیں دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی ۔ ہاں قیامت کے دن مومنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا ، حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ جو کہے کہ حضور نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ کہا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ ابن عباس سے اس کے بر خلاف مروی ہے انہوں نے روایت کو مطلق رکھا ہے اور فرماتے ہیں اپنے دل سے حضور نے دو مرتبہ اللہ کو دیکھا سور نجم میں یہ مسئلہ پوری تفصیل سے بیان ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ ، اسمعیل بن علی فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتا اور حضرات فرماتے ہیں یہ تو عام طور پر بیان ہوا ہے پھر اس میں سے قیامت کے دن مومنوں کا اللہ کو دیکھنا مخصوص کر لیا ہے ہاں معتزلہ کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں کہیں بھی اللہ کا دیدار نہ ہو گا ۔ اس میں انہوں نے اہلسنت کی مخالفت کے علاوہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نادانی برتی ، کتاب اللہ میں موجود ہے آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22؀ۙ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ 23؀ۚ ) 75 ۔ القیامۃ:22-23 ) یعنی اس دن بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہوں گے اور فرمان ہے آیت ( كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ) 83 ۔ المطففین:15 ) یعنی کفار قیامت والے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا حجاب نہیں ہو گا متواتر احادیث سے بھی یہی ثابت ہے ۔ حضرت ابو سعید ابو ہریرہ انس جریج صہیب بلال وغیرہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن اللہ تبارک و تعالیٰ کو قیامت کے میدانوں میں جنت کے باغوں میں دیکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں بھی انہیں میں سے کرے آمین یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں یعنی عقلیں ، لیکن یہ قول بہت دور کا ہے اور ظاہر کے خلاف ہے اور گویا کہ ادراک کو اس نے رؤیت کے معنی میں سمجھا ، واللہ اعلم ، اور حضرات دیدار کے دیکھنے کو ثابت شدہ مانتے ہوئے لیکن ادراک کے انکار کے بھی مخالف نہیں اس لئے کہ ادراک رؤیت سے خاص ہے اور خاص کی نفی عام کی نفی کو لازم نہیں ہوتی ۔ اب جس ادراک کی یہاں نفی کی گئی ہے یہ ادراک کیا ہے اور کس قسم کا ہے اس میں کئی قول ہیں مثلاً معرفت حقیقت پس حقیقت کا عالم بجز اللہ کے اور کوئی نہیں گو مومن دیدار کریں گے لیکن حقیقت اور چیز ہے چاند کو لوگ دیکھتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اس کی ذات اس کی ساخت تک کس کی رسائی ہوتی ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ تو بےمثل ہے ابن علی فرماتے ہیں نہ دیکھنا دنیا کی آنکھوں کے ساتھ مخصوص ہے ، بعض کہتے ہیں ادراک اخص ہے رؤیت سے کیونکہ ادراک کہتے ہیں احاطہ کر لینے کو اور عدم احاطہ سے عدم رؤیت لازم نہیں آتی جیسے علم کا احاطہ نہ ہونے سے مطلق علم کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ احاطہ علم کا نہ ہونا اس آیت سے ثابت ہے کہ آیت ( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا ) 20 ۔ طہ:110 ) صحیح مسلم میں ہے حدیث ( لا احصی ثناء علیک کما اثنیت علی نفسک ) یعنی اے اللہ میں تیری ثنا کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مراد مطلق ثنا کا نہ کرنا نہیں ، ابن عباس کا قول ہے کہ کسی کی نگاہ مالک الملک کو گھیر نہیں سکتی ۔ حضرت عکرمہ سے کہا گیا کہ آیت ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) 6 ۔ الانعام:103 ) تو آپ نے فرمایا کیا تو آسمان کو نہیں دیکھ رہا ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا پھر سب دیکھ چکا ہے ؟ قتادہ فرماتے ہیں اللہ اس سے بہت بڑا ہے کہ اسے آنکھیں ادراک کرلیں ۔ چنانچہ ابن جرید میں آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ ) 75 ۔ القیامۃ:22 ) کی تفسیر میں ہے کہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ان کی نگاہیں اس کی عظمت کے باعث احاطہ نہ کر سکیں گی اور اس کی نگاہ ان سب کو گھیرے ہوئے ہو گی ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث میں ہے اگر انسان جن شیطان فرشتے سب کے سب ایک صف باندھ لیں اور شروع سے لے کر آخر تک کے سب موجودہ ہوں تاہم ناممکن ہے کہ کبھی بھی وہ اللہ کا احاطہ کر سکیں ۔ یہ حدیث غریب ہے اس کی اس کے سوا کوئی سند نہیں نہ صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ واللہ اعلم حضرت عکرمہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھا تو میں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کو آنکھیں نہیں پا سکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو گھیر لیتا ہے ، تو آپ نے مجھے فرمایا یہ اللہ کا نور ہے اور وہ جو اس کا ذاتی نور ہے جب وہ اپنی تجلی کرے تو اس کا ادراک کوئی نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے اس کے بالمقابل کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی ، اسی جواب کے مترادف معنی وہ حدیث ہے جو بخاری مسلم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اٹھاتا ہے اس کی طرف دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے چڑھ جاتے ہیں اس کا حجاب نور ہے یا نار ہے اگر وہ ہٹ جائے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ہر اس چیز کو جلا دیں جو اس کی نگاہوں تلے ہے ۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے اللہ تعالیٰ سے دیدار دیکھنے کی خواہش کی تو جواب ملا کہ اے موسیٰ جو زندہ مجھے دیکھے گا وہ مر جائے گا اور جو خشک مجھے دیکھ لے گا وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا ، خود قرآن میں ہے کہ جب تیرے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے افاقہ کے بعد کہنے لگے اللہ تو پاک ہے میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں ۔ یاد رہے کہ اس خاص ادراک کے انکار سے قیامت کے دن مومنوں کے اپنے رب کے دیکھنے سے انکار نہیں ہو سکتا ۔ اس کی کیفیت کا علم اسی کو ہے ۔ ہاں بیشک اس کی حقیقی عظمت جلالت قدرت بزرگی وغیرہ جیسی ہے وہ بھلا کہاں کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے ؟ حضرت عائشہ فرماتی ہیں آخرت میں دیدار ہو گا اور دنیا میں کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا اور یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس جس ادراک کی نفی کی ہے وہ معنی میں عظمت و جلال کی روایت کے ہے جیسا کہ وہ ہے ۔ یہ تو انسان کیا فرشتوں کے لئے بھی ناممکن ہے ہاں وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے جب وہ خالق ہے تو عالم کیوں نہ ہو گا جیسے فرمان ہے آیت ( اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) 67 ۔ الملک:14 ) کیا وہ نہیں جانے گا جو پیدا کرتا ہے جو لطف و کرم والا اور بڑی خبرداری والا ہے اور ہو سکتا ہے کہ نگاہ سے مراد نگاہ ولا ہو یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سب کو دیکھتا ہے وہ ہر ایک کو نکالنے میں لطیف ہے اور ان کی جگہ سے خبیر ہے واللہ اعلم جیسے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وعظ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹا اگر کوئی بھلائی یا برائی رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو خواہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں اللہ اسے لائے گا اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۚ۔۔ : یعنی صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کرو اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے یقین رکھو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی ہر چیز کا خالق، حفیظ اور رقیب ہے۔ (ترجمان)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۝ ٠ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۝ ٠ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ۝ ١٠٢- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج) - یہ انداز خطاب سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشرکین مکہ اور اہل عرب اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ اللہ کو مانتے تو تھے لیکن اللہ کی صفات ‘ اس کی قدرت ‘ اس کی عظمت کے بارے میں ان کا ذہن کچھ محدود تھا۔ اس لیے یہاں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ دیکھو جس اللہ کو تم مانتے ہو وہی تو تمہارا رب اور پروردگار ہے۔ وہ اللہ بہت بلند شان والا ہے۔ تم نے اس کی اصل حقیقت کو نہیں پہچانا۔ تم نے اس کو کوئی ایسی شخصیت سمجھ لیا ہے جس کے اوپر کوئی دباؤ ڈال کر بھی اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔ تم فرشتوں کو اس کی بیٹیاں سمجھتے ہو۔ تمہارے خیال میں یہ جس کی سفارش کریں گے اس کو بخش دیا جائے گا۔ اس طرح تم نے اللہ کو بھی اپنے اوپر ہی قیاس کرلیا ہے کہ جس طرح تم اپنی بیٹی کی بات ردّ نہیں کرتے ‘ اسی طرح تم سمجھتے ہو کہ اللہ بھی فرشتوں کی بات نہیں ٹالے گا۔ اللہ تعالیٰ کی حقیقی قدرت ‘ اس کی عظمت ‘ اس کا وراء الوراء ہونا ‘ اس کا بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم ہونا ‘ اس کا عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر ہونا ‘ اس کا ہر جگہ پر ہر وقت موجود ہونا ‘ اس کی ایسی صفات ہیں جن کا تصور تم لوگ نہیں کر پا رہے ہو۔ لہٰذا اگر تم سمجھنا چاہو تو سمجھ لو : (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج ) وہ ہے اللہ تمہارا رب جس کی یہ شان اور قدرت بیان ہو رہی ہے۔- (لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَط خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُج وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ ) ۔- اس کے سوا کوئی تمہارے لیے کارساز نہیں۔ خود اس کا حکم ہے : (اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً ) (بنی اسرائیل ) کہ میرے سوا کسی اور کو اپنا کار ساز نہ سمجھا کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani